دفتر 1 مکتوب 263: ان معارف کے بیان میں جو کعبۂ ربّانی سے تعلق رکھتے ہیں اور نماز کے فضائل اور اس کے مناسب بیان میں

دفتر اول مکتوب 263

جناب معارف آگاہ میاں شیخ تاج؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ ان معارف کے بیان میں جو کعبۂ ربّانی سے تعلق رکھتے ہیں اور نماز کے فضائل اور اس کے مناسب بیان میں۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ سَلامٌ عَلٰی عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفٰى (تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں، اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)

آپ کے قدومِ مسرت لزوم (تشریف آوری) کی خوش خبری سن کر مشتاق دوستوں کو بہت زیادہ خوشی حاصل ہوئی، اس پر اللہ سبحانہٗ کی حمد اور احسان ہے؂

انصاف بدہ اے فلک مینافام

تازین دو کدام خوب تر کرد خرام

خورشید جہانتابِ تو از جانبِ مشرق

یا ماہِ جہاں گردِ من ازجانبِ شام

ترجمہ:

اے فلک انصاف کر بہرِ خدا

کون اِن دونوں میں بہتر ہے بتا

تیرا سورج ہے جو مشرق سے اُٹھے؟

یا وہ چاند آئے جو بے شک شام سے؟

جب آپ نے (حرمین شریفین سے ہندوستان میں) قدم رنجہ فرمایا ہے (تشریف لے آئے ہیں) تو جلد تشریف لائیں، کیونکہ ہم آپ کی آمد کے مشتاق و منتظر ہیں اور بیت اللہ شریف کی خبریں سننے کی آرزو رکھتے ہیں۔

فقیر کے نزدیک جس طرح کعبۂ ربانی کی ظاہری صورت مخلوق کی صورتوں کے لئے خواہ وہ بشر ہوں یا ملک، مسجود الیہا ہے، اسی طرح اس (کعبہ شریف) کی حقیقت بھی تمام مخلوقات کے لئے مسجود الیہا ہے۔ پس لازمی طور پر وہ حقیقت (کعبۂ ربانی) تمام حقائق پر فوقیت رکھتی ہے، اور اس (حقیقتِ کعبہ) کے متعلقہ کمالات تمام حقائق کے متعلقہ کمالات سے فائق تر ہیں۔ گویا حقیقت کعبہ ’’حقائقِ کونی‘‘ اور ’’حقائقِ الٰہی‘‘ جل سلطانہٗ کے درمیان ایک برزخ (متوسط) راہ ہے۔ ’’حقائق الٰہی‘‘ سے مراد عظمت و کبریائی کے پردے ہیں کیونکہ کوئی رنگ و کیف اس (تعالیٰ شانہ) کے ’’دامانِ قدس‘‘ تک نہیں پہنچتا، اور کوئی ظلیت اس تک راہ نہیں پاتی۔ دنیاوی عروجات اور اس کے ظہورات کی نہایت ’’حقائق کونی‘‘ کی انتہا تک ہے۔ ’’حقائقِ الٰہی‘‘ جل شانہٗ سے کوئی حصہ حاصل ہونا آخرت کے ساتھ مخصوص ہے، مگر نماز میں جو کہ مومن کی معراج ہے، اور اس معراج یعنی نماز میں گویا (وقتی طور پر) دنیا سے آخرت کی طرف جانا ہوتا ہے وہ حظ (لذت) جو آخرت میں نصیب ہو گا اس کا کچھ حصہ (نماز میں) میسر ہو جاتا ہے۔ میں خیال کرتا ہوں کہ اس دولت کے حاصل ہونے کا عمدہ ذریعہ نمازی کا نماز میں جہتِ کعبہ کی طرف متوجہ ہونے پر منحصر ہے، کیونکہ جہتِ کعبہ ’’حقائق الٰہی‘‘ تعالیٰ و تقدس کے ظہورات کا مقام ہے، لہٰذا ’’کعبہ‘‘ دنیا میں ایک ’’عجوبۂ روز گار‘‘ ہے جو بظاہر دنیا سے ہے لیکن حقیقت میں آخرت سے متعلق ہے۔ نماز نے بھی اس (کعبۂ معظمہ) کے توسط سے یہ نسبت پیدا کر لی ہے اور صورت و حقیقت میں دنیا اور آخرت کی جامع ہو گئی ہے، اور یہ بات متحقق ہو گئی ہے کہ وہ حالت (کیفیت) جو نماز کی ادائیگی میں میسّر ہوتی ہے وہ ان تمام حالات سے بلند و بالا ہے جو نماز کے علاوہ حاصل ہوتے ہیں کیونکہ وہ (بیرونِ نماز والے) حالات ’’دائرۂ ظل‘‘ سے باہر نہیں نکلتے خواہ وہ کتنے ہی بلند ہوں، اور یہ حالتِ (نماز) اصل سے حصہ رکھتی ہے۔ جس قدر فرق ظل اور اصل کے درمیان ہے اسی قدر فرق بیرونِ نماز والی حالت اور اندرونِ نماز والی حالت کے درمیان جاننا چاہیے۔

(یہ فقیر) مشاہدہ کرتا ہے کہ جو حالت اللہ سبحانہٗ کی عنایت سے موت کے وقت ظاہر ہو گی وہ نماز کی حالت سے بھی بلند ہو گی، کیونکہ موت، احوالِ آخرت کے مقدمات میں سے ہے اور جو چیز آخرت سے قریب ہے وہ اتم و اکمل ہے کیونکہ یہاں (دنیا میں) ’’ظہورِ صورت‘‘ ہے (یعنی ظاہری کیفیت ہے) اور وہاں (آخرت میں) ظہورِ حقیقت۔ ان دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔

ایسے ہی وہ حالت جو الٰہی جل سلطانہٗ کے کرم سے ’’برزِخ صغریٰ‘‘ (قبر ) میں میسر ہو گی وہ اس حالت سے بڑھ کر ہو گی جو موت کے وقت ہوتی ہے، اور یہی نسبت’’برزِخ کبریٰ‘‘ کو جو کہ روزِ قیامت ہے ’’برزِخ صغریٰ‘‘ سے ہے کیونکہ وہاں’’ برزِخ کبریٰ‘‘ کا مشہود اتم و اکمل ہے اور جنات النعیم کا مشہود برزِخ کبریٰ کے مشہود کی نسبت زیادہ اتمیت و اکملیت رکھتا ہے اور اس کو ان تمام مقامات پر فوقیت حاصل ہے جن کے متعلق مخبرِ صادق علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات نے خبر دی ہے اور فرمایا ہے: ''إِنَّ لِلّٰہِ جَنَّۃً لَیْسَ فِیْھَا حُوْرٌ وَّ لَا قُصُوٌرُ یَتَجَلٰی فِیْھَا رَبُّنَا ضَاحِکًا''؂2 ترجمہ: ’’بے شک اللہ تعالیٰ کی ایک جنّت ہے جس میں نہ حور ہے نہ قصور (محلاّت) اس میں اللہ تعالیٰ ہنستے ہوئے تجلی فرمائے گا‘‘۔

لہٰذا تمام ظہورات میں سے ادنٰی ظہور دنیا اور اس کا ما فیہا ہے اور ان ظہورات میں سے اعلیٰ مقام جنّت ہے۔ بلکہ دنیا ہرگز ظہور کا مقام نہیں ہے، وہ تو ظلال کے ظہورات اور مثال کی نمائش ہے جو دنیا کے ساتھ مخصوص ہے۔ فقیر کے نزدیک یہ امورِ دنیاوی میں شمار ہیں، اور حقیقت میں وہ ظہورات، خواہ تجلیاتِ صفات ہوں یا تجلیاتِ ذات، سب دائرۂ امکان میں داخل ہیں: تَعَالَى اللّٰهُ عَمَّا يَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا كَبِيْرًا (اللہ تعالیٰ اس بات سے جو لوگ کہتے ہیں، بلند و بالا ہے) فقیر پورے طور پر جب دنیا کو ملاحظہ کرتا ہے تو اس کو محض خالی پاتا ہے، اور اس کے دماغ میں مطلوب کی کچھ بھی خوشبو نہیں پہنچتی۔

حاصلِ کلام یہ ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ اس جگہ مطلوب کو تلاش کرنا اپنے آپ کو پریشان کرنا یا غیر مطلوب کو مطلوب جاننے (کی غلطی کرنا ہے) چنانچہ اکثر لوگ اس میں گرفتار ہیں اور اپنے خواب و خیال میں محوِ آرام ہیں۔ اس مقام میں صرف نماز ہی ہے جو اصل کی خبر دیتی ہے اور مطلوب کی خوشبو سنگھاتی ہے۔ وَ دُوْنَهٗ خَرْطُ الْقَتَادِ (اس کے علاوہِ بے فائدہ رنج اٹھانا ہے)

؂1 آپ کے نام صرف یہی ایک مکتوب ہے۔ شیخ تاج الدین بن زکریا بن سلطان عثمانی نقشبندی حنفی سنبھل ضلع مراد آباد میں پیدا ہوئے، وہیں تحصیل علوم کیا۔ اس کے بعد حضرت خواجہ اللہ بخش رحمۃ اللہ علیہ گڑھ مکٹیسر (ضلع میرٹھ) سے بیعت ہو کر خلاف پائی۔ حضرت شیخ کے وفات کے بعد حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ سے بیعت کی اور چند دن میں سلوک نقشبندیہ کی تکمیل کر کے صاحبِ اجازت ہو گئے اور مستقل طور پر حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں رہے۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کا آپ کو شدید صدمہ ہوا۔ بعد ازاں آپ نے سیاحت اختیار کی اور سنہ 1040ھ میں بصرہ پہنچے تو وہاں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ پھر مکہ مکرمہ میں سکونت اختیار کی، یہاں بہت مخلوق آپ سے فیض یاب ہوئی حتیٰ کہ علماء و مشائخ نے بھی آپ سے طریقہ اخذ کیا۔ آپ نے چند رسائل بھی تصنیف فرمائے۔ 99 سال کی عمر میں عصر و مغرب کے درمیان بروز بدھ 18 جمادی الاخریٰ سنہ 1050ھ کو وفات پائی اور مکہ کے پہاڑ قیعقعان کے دامن میں دفن ہوئے۔ (زبدۃ المقامات، صفحہ نمبر 70 تا 77 و نزھۃ الخواطر، جلد: 5، صفحہ نمبر: 99) آپ کے مفصل حالات میں ایک مستقل کتاب بزبانِ عربی بانکے پور لائبریری (ہندوستان) میں موجود ہے۔ (رود کوثر، صفحہ نمبر: 221) اس مکتوب سے واضح ہوتا ہے کہ حج کی سعادت کے بعد آپ ہندوستان تشریف لائے اور دوبارہ حرمین شریفین تشریف لے گئے۔ (مرتب)

؂2 مولانا نور احمد امرتسری رحمۃ اللہ علیہ حاشیے میں تحریر فرماتے ہیں کہ مجھے اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ملی لیکن کتبِ صوفیہ میں یہ حدیث مشہور ہے اور شیخ شرف الدین یحییٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات میں بھی موجود ہے۔ تشیید المبانی میں یہی ہے۔ اس کے بعد محشی رحمۃ اللہ علیہ نے مشکوٰۃ کے باب "صفۃ الجنۃ و أھلھا" سے حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی دو حدیثیں نقل کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ جنت میں ایک بازار ہے جس میں جنتی ہر جمعہ کو جایا کریں گے، وہاں ایک ہوا چلے گی جس سے ان کے حسن و جمال میں اضافہ ہو گا اور وہاں وہ اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوا کریں گے۔ پھر وہاں سے وہ اپنے اپنے گھروں کو واپس آ جائیں گے جہاں ان کی ازواج ہوں گی۔ ان احادیث سے مذکورہ حدیث کی تائید ہوتی ہے، و اللہ اعلم۔