دفتر 1 مکتوب 251: خلفائے راشدین کے فضائل اور حضرات شیخین رضی اللہ عنھما کی افضلیت، اور حضرت امیر (علی رضی اللہ عنہ) کے بعض خصائص، اور اصحاب کرام علیہم الرضوان کی تعظیم و توقیر اور ان کے درمیان اور ان کے درمیانی جھگڑوں اور لڑائیوں کے بارے میں صحیح موقف اور اس کے متعلق بیان میں

دفتر اول مکتوب 251

مولانا محمد اشرف؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ خلفائے راشدین کے فضائل اور حضرات شیخین رضی اللہ عنھما کی افضلیت، اور حضرت امیر (علی رضی اللہ عنہ) کے بعض خصائص، اور اصحاب کرام علیہم الرضوان کی تعظیم و توقیر اور ان کے درمیان اور ان کے درمیانی جھگڑوں اور لڑائیوں کے بارے میں صحیح موقف اور اس کے متعلق بیان میں۔

حمد و صلوۃ اور تبلیغِ دعوات کے بعد میرے سعادت مند بھائی خواجہ محمد اشرف کو معلوم ہو کہ بعض علومِ غریبہ، اسرار عجبیہ، مواہب لطیفہ اور معارفِ شریفہ کہ جن میں اکثر حضرات شیخین اور ذی النورین اور حیدر کرار (یعنی خلفائے اربعہ) رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے فضائل و کمالات سے تعلق رکھتے ہیں اپنی ناقص فہم کے مطابق حوالۂ قلم کرتا ہوں، ہوش کے کانوں سے سماعت فرمائیں۔

حضرت صدیق اور حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کمالاتِ محمدی کے حاصل ہونے اور ولایتِ مصطفوی علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کے درجات پر فائز ہونے کے با وجود گزشتہ انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے درمیان ولایت کی جانب حضرت ابراہیم صلوات اللہ تعالیٰ و تسلیماتہ علی نبینا و علیہ کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں اور دعوت کی جانب جو کہ مقامِ نبوت کے مناسب ہے، حضرت موسیٰ صلوات اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ و تسلیماتہٗ علی نبینا و علیہ سے مناسبت رکھتے ہیں، اور حضرت ذی النورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں طرف (ولایت و دعوت) کے لحاظ سے حضرت نوح صلوات اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ و تسلیماتہٗ علی نبینا و علیہ کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں، اور حضرت امیر (علی) رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں طرف (ولایت و دعوت) میں حضرت عیسیٰ صلوات اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ و تسلیماتہٗ علی نبینا و علیہ کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں اس لئے لازمی طور پر نبوت کی بنسبت ولایت کی جانب ان میں غالب ہے اور حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں بھی اسی مناسبت کی وجہ سے ولایت کی جہت غالب ہے۔

چاروں خلفاء کے مبادئ تعینات، جہات کے اختلاف کی وجہ سے اجمالی اور تفصیلی طور پر صفت العلم ہیں، اور وہ صفت اجمال کے اعتبار سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا رب؂2 ہے، اور تفصیل کے اعتبار سے حضرت خلیل علیہ السلام کا رب ہے اور اجمال و تفصیل کی برزخیت کے اعتبار سے حضرت نوح علیہ السلام کا رب ہے، جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا رب صفتِ کلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رب صفتِ قدرت اور حضرت آدم علیہ السلام کا رب صفتِ تکوین ہے۔

اب ہم اصل بات کو بیان کرتے ہیں کہ حضرت صدیق اور حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنھما اپنے اپنے مرتبے کے موافق ’’بارِ نبوتِ محمدی‘‘ کے حامل ہیں اور حضرت امیر (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مناسبت کی وجہ سے ولایت کی جانب غلبے کے باعث ’’حاملِ بارِ ولایتِ محمدی‘‘ ہیں، اور حضرت ذی النورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ برزخیت (درمیانی حیثیت) کے اعتبار سے دونوں نسبتوں (یعنی نبوتِ محمدی و ولایتِ محمدی) کے حامل ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اسی اعتبار سے ان کو ذو النورین کہتے ہیں۔ چونکہ حضرات شیخین کو ’’حاملِ بارِ نبوت‘‘ فرمایا گیا ہے اسی لئے ان کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ مناسبت حاصل ہے کیونکہ مقامِ دعوت جو کہ مرتبہ نبوت سے پیدا ہوا ہے، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ باقی تمام انبیاء کے درمیان ان (حضرت موسیٰ علیہ السلام ) میں بدرجہ اتم و اکمل ہے اور ان کی کتاب (توراۃ) قرآن مجید کے بعد نازل شدہ کتابوں میں بہترین ہے، لہٰذا ان کی امت پہلی امتوں کی نسبت زیادہ بہشت میں جائے گی۔ اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریعت اور ان کی ملت تمام شریعتوں اور ملّتوں سے افضل و اکمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام پیغمبروں میں سے افضل الرسل صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی ملت کی پیروی کا حکم دیا گیا، چنانچہ آیت کریمہ: ﴿ثُمَّ أَوۡحَيۡنَاۤ إِلَيۡكَ أَنِ اتَّبِعۡ مِلَّةَ إِبۡرٰهِيۡمَ حَنِيۡفًا‌﴾ (النحل: 123) ترجمہ: ”پھر (اے پیغمبر) ہم نے تم پر بھی وحی کے ذریعے یہ حکم نازل کیا ہے کہ تم ابراہیم کے دین کی پیروی کرو جس نے اپنا رخ اللہ ہی کی طرف کیا ہوا تھا“۔ اسی مضمون کی شاہد ہے۔ حضرت مہدی موعود کہ ان کا رب بھی صفت العلم ہے، جو حضرت امیر (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی مانند حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مناسبت رکھتے ہیں، گویا حضرت عیسیٰ کا ایک قدم حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر پر ہے اور دوسرا قدم حضرت مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر پر۔

جاننا چاہیے کہ ولایتِ موسوی، ولایتِ محمدی کی داہنی جانب واقع ہوئی ہے اور ولایت عیسوی اس ولایت کے بائیں جانب ہے۔ چونکہ حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولایتِ محمدی کے حامل ہیں اس لئے اکثر سلاسلِ اولیاء انہی سے منتسب ہو گئے ہیں اور حضرت امیر کے کمالات حضراتِ شیخین کے کمالات کی نسبت اکثر گوشہ نشین اولیاء پر جو ولایت کے کمالات سے مخصوص ہیں، زیادہ ظاہر ہوئے ہیں۔ اگر حضرات شیخین کی افضلیت پر اہلِ سنت کا اجماع نہ ہوتا تو اکثر اولیائے گوشہ نشین کا کشف حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت کا حکم کر دیتا۔ چونکہ حضراتِ شیخین کے کمالات، انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کے کمالات کے مشابہ ہیں اور اربابِ ولایت کی ان کمالات تک دسترس نہیں ہے اور اہلِ کشف کا کشف ان کے کمالاتِ نبوت کے درجات کی بلندی کے باعث راستے ہی میں ہے، ولایت کے کمالات ان کے کمالاتِ نبوت کے مقابلے میں کَالۡمَطۡرُوح فِي الطَّرِیۡقِ (راستے میں پھینکے ہوئے کی مانند) ہیں۔ کمالاتِ ولایت، کمالاتِ نبوت کے عروج تک پہنچنے کے لئے زینہ (سیڑھی) ہیں پس مقدمات کو مقاصد کی کیا خبر ہے اور مبادی کو مطالب کا کیا شعور ہے۔ آج یہ بات عہدِ نبوت کے بُعد کی وجہ سے اکثر لوگوں پر گراں اور قبولیت سے دُور معلوم ہوتی ہے، لیکن کیا کیا جائے ؂

در پسِ آئینہ طوطی صفتم ساختہ اند

ہر چہ استادِ ازل گفت ہماں می گویم

ترجمہ:

مثلِ طوطی مجھے آئینہ کے پیچھے ہے رکھا

وہی کہتا ہوں جو اُستادِ ازل سے پڑھا

لیکن اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ میں اس گفتگو میں علمائے اہل سنت شَکَرَ اللہُ تَعَالٰی سَعْیُہُم کے موافق ہوں اور ان کے اجماع سے متفق ہوں۔ (حق تعالیٰ نے) مجھ پر ان کے استدلالی علم کو کشفی اور اجمالی کو تفصیلی کر دیا ہے۔

اس فقیر کو جب تک کہ اپنے پیغمبر کی متابعت کے باعث مقامِ نبوت کے کمالات تک نہیں پہنچا دیا گیا اور اُن کمالات سے پورا پورا حصہ نہیں دے دیا گیا اس وقت تک فضائلِ شیخین کی کشف کے طریقے پر اطلاع نہیں بخشی گئی اور تقلید کے علاوہ اور کوئی راہ نہیں دکھائی گئی ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰنَا لِهٰذَا وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْ لَاۤ أَنْ هَدٰنَا اللّٰهُ‌ ‌ۚ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَـقِّ‌﴾ (الأعراف: 43) ترجمہ: ”تمام تر شکر اللہ کا ہے، جس نے ہمیں اس منزل تک پہنچایا، اگر اللہ ہمیں نہ پہنچاتا تو ہم کبھی منزل تک نہ پہنچتے۔ ہمارے پروردگار کے پیغمبر واقعی ہمارے پاس بالکل سچی بات لے کر آئے تھے“۔

ایک دن کسی شخص نے بیان کیا کہ (راویوں نے) لکھا ہے کہ حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام بہشت کے دروازے پر ثبت کر دیا گیا ہے، اس فقیر کے دل میں گزرا کہ حضراتِ شیخین کے لئے اس مقام پر کیا خصوصیتیں ہوں گی؟ پوری طرح توجہ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس امت کا بہشت میں داخلہ ان دونوں اکابر حضرات کی تجویز اور استصواب پر ہو گا۔ گویا حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہشت کے دروازے پر کھڑے ہیں اور لوگوں کے داخلے کی تجویز فرماتے ہیں اور حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کا ہاتھ پکڑ کر اندر لے جاتے ہیں اور ایسا مشاہدے میں آتا ہے کہ گویا تمام بہشت حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نور سے بھری ہوئی ہے۔

اس حقیر کی نظر میں حضرات شیخین، تمام صحابہ کے درمیان ایک علیحدہ شان اور یگانہ درجہ رکھتے ہیں گویا کہ کوئی بھی اس میں ان کا شریک نہیں ہے۔ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت پیغمبر علیہ و علیہم الصلوۃ و السلام کے ساتھ گویا ’’ہم خانہ‘‘ ہیں، اگر فرق ہے تو صرف بلندی اور پستی کا ہے (یعنی سرورِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم بالائی منزل میں ہیں اور حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی محل کے نیچے کی منزل میں ہیں) اور حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طفیل اس دولت سے مشرف ہیں اور باقی تمام صحابہ کرام آں سرور علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کے ساتھ ہم سرائے یا ہم شہری ہونے کی نسبت رکھتے ہیں، پھر امت کے اولیاء کی وہاں کیا رسائی ہو سکتی ہے۔

ایں بس کہ رسد ز دور بانگ جرسم

ترجمہ:

دور ہی سے جو سُنوں بانگِ جرس، کافی ہے

پس یہ لوگ (اولیائے امت) شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے کمالات سے کیا حاصل کر سکتے ہیں (کیونکہ) یہ دونوں بزرگوار اپنی بزرگی اور برتری کی وجہ سے انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام میں معدود (شمار کئے ہوئے) ہیں اور انبیاء کے فضائل کے ساتھ موصوف ہیں۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا: "لَوْ کَانَ بَعْدِيْ نَبِيٌّ لَّکَانَ عُمَرُ"؂3 ترجمہ: ”اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو البتہ عمر ہوتا“۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماتم پرسی کے ایام میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی مجلس میں کہا: "مَاتَ تِسْعَۃُ أَعْشَارِ الْعِلْمِ" ترجمہ: ”آج نو حصہ علم فوت ہو گیا“۔ جب بعض حضرات نے اس کے معنی سمجھنے میں توقف ظاہر کیا تو فرمایا کہ میری مراد علم سے علم باللہ ہے (یعنی معرفتِ حق جل و علا) نہ کہ حیض و نفاس کا علم (یعنی علمِ احکامِ شرعیہ)

اور حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق یہ فقیر کیا بیان کرے کہ حضرت عمر کی تمام نیکیاں ان کی ایک نیکی کے برابر ہیں جیسا کہ مخبرِ صادق صلی اللہ علیہ و سلم نے خبر دی ہے۔؂4 ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو انحطاط اور کمی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے وہ اس انحطاط و کمی سے زیادہ ہے جو حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت پیغمبر علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات سے ہے۔ لہٰذا قیاس کرنا چاہیے کہ حضرت صدیقؓ سے دوسروں کا انحطاط و کمی کس درجے کی ہو گی۔ حضرات شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنھما وفات کے بعد بھی حضرت پیغمبر سے جدا نہیں ہوئے اور ان کا حشر بھی اُنہی (پیغمبر) کے درمیان (دائیں بائیں) ہو گا جیسا کہ (آنحضرت نے) فرمایا۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 3669) پس ان کی افضلیت (آنحضرت سے) اقربیت کی وجہ سے ہو گی۔

یہ (حقیر) قلیل البضاعت (بے سر و سامان) ان حضرات کے کمالات کے بارے میں کیا بیان کرے اور ان کے فضائل میں کیا ظاہر کرے۔ ایک ذرے کی کیا طاقت کہ آفتاب کی باتیں کرے اور قطرے کی کیا مجال کہ بحرِ عمان (دریائے محیط) کی بات زبان پر لائے۔

وہ اولیائے کرام جو دعوتِ خلق کی طرف لوٹا دیئے گئے ہیں اور ولایت و دعوت دونوں طرف سے کامل حصہ رکھتے ہیں اور تابعین و تبع تابعین میں سے علمائے مجتہدین نے اپنے کشفِ صحیح کے نور سے اور فراستِ صادقہ اور متواتر خبروں کی بنیاد پر شیخین کے کمالات کو تھوڑا سا دریافت کیا ہے اور ان کے فضائل میں سے تھوڑی سی معرفت حاصل کر کے نا چار اُن کی افضلیتِ شان کا حکم دیا ہے اور اس پر اجماع کیا ہے اور اس کشف کو جو اس اجماع کے خلاف ظاہر ہو اس کو عدم صحت پر محمول کر کے قابلِ اعتبار نہیں سمجھا ہے۔ اس کے علاوہ اور کسی کشف کا کس طرح اعتبار کیا جا سکتا ہے جب کہ صدرِ اول (عہدِ نبوی) میں ان کی افضلیت کی صحت مسلّم ہو چکی ہے، جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی ہے: "قَالَ کُنَّا فِيْ زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَ آلِہٖ وَ سَلَّمَ لَا نَعْدِلُ بِأَبِيْ بَکْرٍ أَحَدًا ثُمَّ عُمَرَ ثُمَّ عُثْمَانَ ثُمَّ نَتْرُکُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلیْہِ وَ سَلَّمَ لَا نُفَاضِلُ بَیْنَھُمْ" (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 3697) ترجمہ: ”حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں حضرت ابو بکر پھر حضرت عمر پھر حضرت عثمان کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے تھے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جملہ اصحاب کو چھوڑ دیتے تھے اور ان کے درمیان کسی کو فضلیت نہ دیتے تھے“۔ اور ابو داوٗد کی ایک روایت میں ہے کہ "كُنَّا نَقُولُ وَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ حَيٌّ: أَفْضَلُ أُمَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ بَعْدَهٗ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ" (سنن ابو داوٗد، حدیث نمبر: 4628) ترجمہ: ”حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کی حیاتِ مبارکہ میں کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد تمام امت میں حضرت ابو بکر افضل ہیں پھر حضرت عمر پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم“۔

اور یہ جو کہا گیا ہے کہ ’’ولایت نبوت سے افضل ہے‘‘ یہ اربابِ سکر (کی خبر) سے ہے جو اولیاءِ غیر مرجوع میں سے ہیں اور جن کو مقامِ نبوت کے کمالات سے زیادہ حصہ حاصل نہیں ہے۔ آپ کی نظر سے گزرا ہو گا کہ فقیر نے اپنے بعض رسائل میں تحقیق کی ہے کہ ’’نبوت ولایت سے افضل ہے‘‘۔ اگرچہ اسی نبی کی ولایت ہو، اور حق (سچی بات) بھی یہی ہے۔ جس کسی نے اس کے خلاف کہا ہے وہ مقامِ نبوت کے کمالات کی نا دانی کی وجہ سے کہا ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔

آپ کو معلوم ہے کہ اولیاء کے تمام سلسلوں کے درمیان صرف سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی نسبت حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے لہٰذا نسبتِ صحو بھی ان (مشائخ نقشبندیہ) کے درمیان غالب ہے اور ان کی دعوتِ (اسلام) کامل تر ہے، اور حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے کمالات ان پر زیادہ ظاہر ہوتے ہیں تو لازمی طور پر ان کی نسبت تمام سلسلوں کی نسبت سے بڑھ کر ہو گی۔ لہٰذا دوسرے ان کے کمالات کو کیا پا سکتے ہیں اور ان کی حقیقتِ معاملہ کو کیا سمجھ سکتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تمام مشائخ نقشبندیہ اس معاملے میں برابر ہیں۔ ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ اگر ہزاروں میں سے ایک بھی اس صفت میں کامل ہو جائے تو غنیمت ہے۔ میرا خیال ہے کہ حضرت مہدی موعود جو ولایت کی اکملیت کے لئے مقرر ہیں ان کو یہ نسبت حاصل ہو گی، اور وہ اس سلسلۂ عالیہ کی تتمیم و تکمیل فرمائیں گے، کیونکہ دوسری تمام ولایتوں کی نسبت اس نسبتِ عالیہ سے کم تر ہے۔ باقی تمام ولایتوں کو مرتبۂ نبوت کے کمالات سے بہت کم حصہ حاصل ہے، اور یہ ولایت حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے ان کمالاتِ (نبوت) سے حظِ وافر رکھتی ہے جیسا کہ ابھی بیان ہوا۔

ببیں تفاوتِ راہ از کجاست تا بکجا

ترجمہ:

یہ راہ دیکھو کہاں اور وہ راہ دیکھو کہاں

اے بھائی! چونکہ حضرت امیر (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بارِ ولایتِ محمدی علی صاحبہا الصلوۃ و السلام و التحیہ کے حامل ہیں اس لئے اقطاب، ابدال اور اوتاد کے مقام کی تربیت جو اولیائے عزلت میں سے ہیں اور کمالاتِ ولایت کی جانب ان میں غالب ہے ان کی تربیت حضرت امیر رضی اللہ عنہ کی اعانت و امداد کے سپرد ہے۔ قطب الاقطاب یعنی قطبِ مدار کا سر حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زیرِ قدم ہے۔ قطبِ مدار انہی کی حمایت اور رعایت سے اپنی مہم سر انجام دیتا ہے اور مداریت سے عہدہ برآ ہوتا ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور امامین (حضرات حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما) بھی اسی مقام میں حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شریک ہیں۔

جاننا چاہیے کہ پیغمبر علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کے اصحاب سب بزرگ ہیں لہٰذا تمام (صحابہ) کو بزرگی سے یاد کرنا چاہیے۔ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: "إِنَّ اللّٰہَ اخْتَارَنِيْ وَ اخْتَارَ لِيْ أَصْحَابًا وَ اخْتَارَ لِيْ مِنْھُمْ أَصْھَارًا وَّ أَنْصَارًا فَمَنْ حَفِظَنِيْ فِیْھِمْ حَفِظَہُ اللّٰہُ وَ مَنْ اٰذَانِيْ فِیْھِمْ اٰذَاہُ اللّٰہُ" ترجمہ: ”تحقیق اللہ تعالیٰ نے مجھے پسند فرمایا اور میرے لئے اصحاب کو پسند کیا اور ان میں سے بعض کو میرے لئے قرابت دار اور مدد گار پسند کیا۔ پس جس شخص نے ان کے حق میں مجھے محفوظ رکھا اس کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا اور جس نے ان کے حق میں مجھے ایذا دی اس کو اللہ تعالیٰ نے ایذا دی“۔ اور طبرانی نے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا: "مَنْ سَبَّ أَصْحَابِيْ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَ المَلٰئِکَۃِ وَ النَّاسِ أَجْمَعِیْنَ" ترجمہ: ”جس نے میرے اصحاب کو گالی دی اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام آدمیوں کی طرف سے لعنت ہے“۔ ابن عدی نے حضرت عائشہ رضی للہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا: "إِنَّ أَشْرَارَ اُمَّتِيْ أَجْرَأُھُمْ عَلٰی أَصْحَابِيْ" ترجمہ: ”میری امت کے بد ترین وہ لوگ ہیں جو میرے اصحاب پر دلیر ہیں“۔

ان لڑائی جھگڑوں کو جو اُن کے درمیان واقع ہوئے ہیں نیک نیتی پر محمول کرنا چاہیے اور ہویٰ و تعصب سے دور سمجھنا چاہیے کیونکہ ان کی مخالفتیں اجتہاد و تاویل پر مبنی تھیں نہ کہ ہویٰ و ہوس پر، جیسا کہ جمہور اہلِ سنت کا موقف ہے۔ لیکن جاننا چاہیے کہ حضرت امیر کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کے خلاف لڑنے والے خطا پر تھے اور ’’حق‘‘ حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جانب تھا لیکن چونکہ یہ خطا خطائے اجتہادی ہے اس لئے ملامت سے دور اور مواخذے سے بری ہے، جیسا کہ شارح؂5 مواقف؂6، آمدی؂7 سے نقل کرتے ہیں کہ جمل و صفین کے واقعات اجتہاد کی رُو سے ہوئے ہیں۔ شیخ ابو شکور سلمی نے تمہید؂8 میں تصریح کی ہے کہ اہلِ سنت و جماعت اس بات پر متفق ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مع ان کے تمام اصحاب کے جو ان کے ہمراہ تھے، سب خطا پر تھے لیکن ان کی خطا خطائے اجتہادی تھی۔ شیخ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے صواعق؂9 میں کہا ہے کہ امیر معاویہ اور حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے درمیان جھگڑے اجتہاد کی بنا پر ہوئے ہیں، اور اس قول کو اہلِ سنت کے معتقدات سے فرمایا ہے۔

اور شارح مواقف نے جو یہ بات کہی ہے کہ ہمارے بہت سے اصحاب اس پر متفق ہیں کہ ”وہ جھگڑا اجتہاد کی بنا پر نہیں تھا“ معلوم نہیں کہ اصحاب سے ان کی مراد کون سا گروہ ہے۔ جب کہ اہلِ سنت اس کے خلاف حکم دیتے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا۔ قوم کی کتابیں ”خطائے اجتہادی“ (کے حکم) سے بھری ہوئی ہیں، جیسا کہ امام غزالی، قاضی ابو بکر رحمۃ اللہ علیہما وغیرہ نے صراحت کی ہے۔ لہٰذا حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جنگ کرنے والوں کو فاسق اور گمراہ کہنا جائز نہیں ہوا۔

قاضی (عیاض) نے شفا میں لکھا ہے کہ ’’حضرت امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ جس شخص نے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب میں سے کسی کو یعنی ابو بکر، عمر، عثمان، معاویہ اور عمرو بن العاص (وغیرہم) رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو گالی دی اور کہا کہ وہ کفر اور گمراہی پر تھے تو وہ واجب القتل ہے، اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور سب و شتم کا لفظ استعمال کیا جس طرح لوگ ایک دوسرے کو کہتے ہیں تو اس کو سخت سزا دی جائے، کیونکہ حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف جنگ کرنے والے کفر پر نہ تھے جیسا کہ بعض غالی رافضیوں کا خیال ہے اور نہ ہی فسق پر تھے جیسا کہ بعض نے خیال کیا ہے اور شارح مواقف نے اس قول کو بہت سے اصحاب کی طرف منسوب کیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا جب کہ حضرت صدیقہ اور طلحہ و زبیر اور بہت سے اصحاب کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم انہی میں سے تھے۔ طلحہ و زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما جمل کی لڑائی میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خروج سے پیش تر تیرہ ہزار مقتولین کے ساتھ شہید و قتل ہوئے لہٰذا ان کو ضلالت اور فسق کی طرف منسوب کرنے پر سوائے اس شخص کے جس کے دل میں مرض اور باطن میں خبث (گندگی) ہو کوئی مسلمان جرأت نہیں کر سکتا‘‘۔

اور یہ جو بعض فقہا نے اپنی عبارات میں امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں لفظِ ”جور“ استعمال کیا ہے اور کہا ہے: "کَانَ مَعَاوِیَۃُ إِمَامًا جَائِرًا" ترجمہ: ”معاویہ جور کرنے والے امام تھے“۔ تو اس جور سے مراد یہ ہے کہ حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے زمانے میں امیر معاویہ خلافت کے حق دار نہیں تھے نہ کہ وہ جور جس کا انجام فسق و ضلالت ہے۔ (یہ توجیہ اس لئے ہے) تاکہ اہلِ سنت کے اقوال کے موافق ہو جائے۔ اس کے با وجود استقامت والے حضرات ایسے الفاظ سے اجتناب کرتے ہیں جن سے مقصود کے خلاف وہم پیدا ہوتا ہو اور ”خطا“ سے زیادہ کہنا پسند نہیں کرتے۔ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جَور کرنے والے کیسے ہو سکتے ہیں جب کہ صحیح طور پر تحقیق ہو چکا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق اور مسلمانوں کے حقوق میں امام عادل تھے جیسا کہ صواعق میں ہے۔ حضرت مولانا عبد الرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ نے جو خطائے منکر کہا ہے کہ انہوں نے زیادتی کی ہے اور لفظِ ’’خطا‘‘ سے زیادہ جو کچھ بھی کہا جائے خطا ہے۔ اس کے بعد جو انہوں نے کہا ہے کہ اگر وہ مستحق لعنت ہیں الخ۔ یہ بھی نا مناسب کہا ہے، اس کی تردید کیا حاجت ہے اور اس میں شک و شبہ کا کیا موقع ہے۔ اگر یہ بات یزید کے بارے میں کہی جائے تو گنجائش رکھتی ہے، لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ایسا کہنا بہت بُرا ہے۔

احادیث نبوی میں معتبر اور ثقات کی اسناد سے مروی ہے کہ حضرت پیغمبر علیہ الصلوۃ و السلام نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دعا فرمائی اور فرمایا: "اَللّٰھُمَّ عَلِّمْہُ الْکِتَابَ وَ الْحِسَابَ وَ قِہِ الْعَذَابَ"؂10 ترجمہ: ”یا اللہ! تو اس کو کتاب اور حساب کا علم دے اور اس کو عذاب سے بچا“۔ اور دوسری جگہ دعا میں فرمایا: "اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ ھَادِیًا وَّ مَھْدِیًّا" ترجمہ: ”یا اللہ! تو اس کو ہادی اور مہدی بنا “ اور آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کی یہ دعا مقبول ہے۔

بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات مولانا جامی سے سہو و نسیان کی بنیاد پر سر زد ہوئی ہو گی اور نیز مولانا نے انہی ابیات میں نام کی تصریح کے بغیر کہا ہے کہ ’’آں صحابی دیگر‘‘ (وہ صحابی دوسرے ہیں) اور یہ عبارت بھی نا خوشی کی خبر دیتی ہے۔ ﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ إِنۡ نَّسِيۡنَاۤ أَوْ أَخۡطَاۡنَا﴾ (البقرہ: 286) ترجمہ: ”(مسلمانو اللہ سے یہ دعا کیا کرو کہ) اے ہمارے پروردگار اگر ہم سے کوئی بھول چوک ہو جائے تو ہماری گرفت نہ فرمایئے“۔

اور یہ جو (بعض نے) امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی مذمت میں نقل کیا ہے اور ان کی برائی کو فسق سے بھی بد تر قرار دیا ہے وہ پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتا۔ (اور اگر اس بات کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو) امام اعظم (ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ) جو ان کے شاگردوں میں سے ہیں، اس نقل کو بیان کرنے کے زیادہ مستحق تھے اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ جو تابعین میں سے ہیں اور ان (امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ) کے ہم عصر اور علمائے مدینہ میں سب سے زیادہ عالم ہیں امیر معاویہ اور عمرو بن العاص رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما کے گالی دینے والے کو قتل کا حکم کرتے ہیں جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ اگر وہ سبّ و شتم کے مستحق ہوتے تو ان کے گالی دینے والے کو قتل کا حکم کیوں کرتے؟ پس معلوم ہوا کہ ان کو گالی دینا گناہ کبیرہ سمجھ کر ان کے گالی دینے والے کو قتل کا حکم کیا ہے، اور اسی طرح ان کو گالی دینا حضرت ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو گالی دینے کی طرح خیال کیا ہے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔ لہٰذا حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نکوہش (سر زنش و برائی) کے مستحق نہیں ہیں۔

اے برادر! اس معاملے میں امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تنہا نہیں ہیں بلکہ صحابہ کرام کی کم و بیش نصف جماعت اس معاملے میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شریک ہیں۔ پس محاربانِ امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگر کفر یا فسق پر ہوں تو نصف دین سے اعتماد ختم ہو جاتا ہے جو کہ ان کی تبلیغ کے ذریعے سے ہم تک پہنچا ہے، اور اس طرح کی بات کو سوائے اس زندیق کے اور کوئی تجویز نہیں کرتا جس کا مقصود دین کی بربادی اور اس کو جھٹلانا ہے۔

اے بھائی! اس فتنے کے برپا ہونے کا منشا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہے اور ان کے قاتلوں سے ان کا قصاص طلب کرنا ہے۔ حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما جو اوّل مدینہ منورہ سے باہر نکلے تھے، اس کی وجہ بھی تاخیرِ قصاص تھی اور حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی اس معاملے میں ان کی موافقت کی اور جنگِ جمل جس میں تیرہ ہزار آدمی قتل ہوئے اور حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، وہ بھی شہید ہوئے۔ وہ بھی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قصاص کی تاخیر کی وجہ سے شہید ہوئے۔ اس کے بعد امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام سے آ کر ان کے ساتھ شریک ہو کر جنگِ صفین لڑی۔

حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے تصریح کی ہے کہ وہ جھگڑا خلافت پر نہیں ہوا بلکہ حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کی ابتدا ہی میں قصاص کے پورا کرنے کے لئے ہوا۔ شیخ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس بات کو اہل سنت و جماعت کے معتقدات میں سے بیان کیا ہے۔ شیخ ابو شکور سلمی جو کہ حنفی علماء کے اکابرین میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حضرت امیر (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے جھگڑا خلافت کے بارے میں تھا کیونکہ پیغمبر علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا کہ: "إِذَا مَلَکْتَ النَّاسَ فَارْفِقْ بِھِمْ"؂11 ترجمہ: ”جب تو لوگوں کا حاکم بن جائے تو ان کے ساتھ نرمی کرنا“۔ اسی وجہ سے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلافت کی آرزو پیدا ہو گئی تھی۔ لیکن وہ اس جہاد میں خطا پر تھے اور حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حق پر۔ کیونکہ ان کی خلافت کا زمانہ حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے زمانے کے بعد ہے۔ ان دونوں اقوال کے درمیان موافقت اس طرح ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس جھگڑے کی وجہ قصاص کی تاخیر ہو۔ اس کے بعد امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلافت کی آرزو پیدا ہو گئی ہو۔ بہر تقدیر اجتہاد اپنے محل میں واقع ہو گیا۔ اگر خطا پر ہے تو ایک درجہ اور اگر حق پر ہے تو دو درجے بلکہ دس درجے (ثواب ہے)۔

اے بھائی! اس معاملے میں سب سے بہتر اور سلامتی کا طریقہ یہی ہے کہ حضرت پیغمبر علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کے اصحاب کے جھگڑوں کے ذکر سے خاموشی اختیار کی جائے اور ان کے جھگڑوں کے تذکروں سے منہ پھیر لیا جائے، کیونکہ حضرت پیغمبر علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا ہے: "إِیَّاکُمْ وَ مَا شَجَرَ بَیْنَ أَصْحَابِيْ"؂12 ترجمہ: ”میرے اصحاب کے درمیان جو جھگڑے ہوں ان سے اپنے آپ کو بچاؤ“۔ نیز آنحضرت پیغمبر علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا: "إِذَا ذُکِرَ أَصْحَابِيْ فَأَمْسِکُوْا"؂13 ترجمہ: ”جب میرے صحابہ (کے اختلاف) کا ذکر ہو تو خاموش ہو جاؤ“۔ نیز آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا: "اَللّٰہَ اَللّٰہَ فِيْ أَصْحَابِيْ لَا تَتْخِذُوْھُم غَرَضًا"؂14 (میرے صحابہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور ان کو اپنے تیر کا نشانہ نہ بناؤ“۔

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اور اسی طرح حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سے بھی منقول ہے: "تِلْکَ دِمَاءٌ طَھَّرَ اللّٰہُ عَنْھَا أَیْدَیَنَا فَلْنُطَھِّرْ عَنْھَا أَلْسِنَتَنَا" ترجمہ: ”یہ وہ خون ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں کو بچایا ہے لہٰذا ہم کو چاہیے کہ اپنی زبانوں کو ان سے پاک رکھیں“۔ اس عبارت سے بھی مفہوم ہوتا ہے کہ ان کی خطاؤں کو زبان پر نہیں لانا چاہیے اور ان کے ذکرِ خیر کے علاوہ اور کچھ بیان نہ کرنا چاہیے۔ بد نصیب یزید فاسقوں کے زمرے میں سے ہے، اس کی لعنت میں توقف کرنا اہلِ سنت و جماعت کے مقررہ اصول میں سے ہے کیونکہ شخصِ معین کو اگرچہ وہ کافر ہو لعنت تجویز نہیں کی گئی، مگر جب یقینًا معلوم ہو جائے کہ اس کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے جیسا کہ ابی لہب جہنمی اور اس کی بیوی۔ نہ یہ کہ وہ لعنت کے لائق نہیں (یعنی وہ لعنت کے لائق ہیں)۔ (جیسا کہ قرآن کریم میں ہے)﴿إِنَّ الَّذِيۡنَ يُؤۡذُوۡنَ اللّٰهَ وَ رَسُوۡلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِي الدُّنۡيَا وَ الۡاٰخِرَةِ﴾‏ (الأحزاب: 57) ترجمہ: ”جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچاتے ہیں اللہ نے دنیا اور آخرت میں ان پر لعنت کی ہے“۔

جاننا چاہیے کہ اس زمانے میں چونکہ اکثر لوگ امامت کے معاملے میں بحث کرتے رہتے ہیں، اور اصحابِ کرام علیہم الرضوان کی خلافت و مخالفت کی نسبت گفتگو کرنا اپنا نصب العین بنا لیا ہے اور جاہل تاریخ داں اور سر کش بدعتیوں کی تقلید کرتے ہوئے اکثر اصحاب کرام کو نیکی و بھلائی سے یاد نہیں کرتے اور نا مناسب باتیں ان حضرات کی طرف منسوب کرتے رہتے ہیں لہٰذا ضروری سمجھتے ہوئے جو کچھ معلوم تھا اس میں سے تھوڑا سا تحریر میں لا کر دوستوں تک پہنچا دیا گیا۔ آنحضرت علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا: "إِذَا ظَھَرَتِ الْفِتَنُ أَوْ قَالَ: الْبِدَعُ وَ سُبَّتْ أَصْحَابِيْ فَلْیُظْھِرِ الْعَالِمُ عِلْمَہٗ فَمَنْ لَّمْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَ الْمَلٰئِکَةِ وَ النَّاسِ أَجْمَعِیْنَ لَایَقْبَلُ اللّٰہُ لَہٗ صَرْفًا وَّ لَا عَدْلًا"؂15 ترجمہ: ”جب فتنے یا یہ فرمایا: بدعتیں ظاہر ہو جائیں اور میرے اصحاب کو گالیاں دی جائیں تو عالم کو چاہیے کہ اپنے علم کو ظاہر کرے پس جس نے ایسا نہ کیا اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اللہ تعالیٰ اس کے نہ فرض قبول فرمائے گا نہ نفل“۔

لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر اور احسان ہے کہ سلطانِ وقت (جہاں گیر بادشاہ) اپنے آپ کو حنفی مذہب (کا پیرو) قرار دیتا ہے اور اہلِ سنت و جماعت سے جانتا ہے ورنہ مسلمانوں کو بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس نعمتِ عظمیٰ کا شکر بجا لانا چاہیے۔ پس چاہیے کہ اہلِ سنت و جماعت کے معتقدات کے مطابق اپنے اعتقاد کا مدار رکھیں اور زید و عمرو کی باتوں پر توجہ نہیں دیں۔ جھوٹے افسانوں پر اپنے کام کی بنیاد رکھنا خود کو ضائع کرنا ہے۔ فرقۂ ناجیہ (اہلِ سنت) کی تقلید ضروری ہے تاکہ نجات کی امید پیدا ہو۔ وَ بِدُوْنِہٖ خَرْطُ الْقَتَادِ (ورنہ بے فائدہ تکلیف اٹھانا ہے) وَ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ عَلٰی سَائِرِ مَنِ اتَّبَعَ الْہُدٰی وَ الْتَزَمَ مُتَابَعَۃَ الْمُصْطَفٰی عَلَیْہِ وَ عَلٰی اٰلِہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ (اور سلام ہو تم پر اور ان سب پر جنہوں نے ہدایت کی پیروی کی اور حضرت محمد مصطفےٰ علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کی متابعت کو اپنے اوپر لازم کیا)

؂1 آپ کے نام دس مکتوبات ہیں اور آپ کا تذکرہ دفتر اول مکتوب 131 پر گزر چکا ہے۔

؂2 ”رب“ کے معنی پرور دگار، پالنے والا، پرورش کرنے والا۔ یعنی ان حضرات کو حق تعالیٰ کی عام تربیت کے علاوہ خاص طور پر صفتِ کلام، صفتِ علم، صفتِ قدرت وغیرہ صفات سے تربیت و پرورش حاصل ہوئی ہے۔

؂3 رَوَاہُ التِّرْمَذِيُّ، قَالَ الْمُعَرِّبُ: وَ رَوَاہُ أَبُوْ یَعْلٰی وَ الطَّبَرَانِيُّ وَ الْحَاکِمُ وَ أَبُوْ نُعَیْمٍ۔

؂4 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شب جس میں آسمان پر بادل نہیں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سر مبارک میری گود میں تھا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا کسی کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کے برابر ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ہاں، عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی۔ میں نے کہا پھر ابو بکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی حسانات کہاں ہیں؟ فرمایا: عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی تمام نیکیاں ابو بکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی نیکیوں میں سے ایک نیکی کے برابر ہیں۔ رَوَاہُ رَزِیْنٌ‌ (مشکوٰۃ)

؂5 شارحِ مواقف سید علی بن محمد جرجانی متوفی سنہ 816ھ۔

؂6 علم کلام کی بلند مرتبہ کتاب، مصنف علامہ عضد الدین عبد الرحمن بن احمد قاضی۔

؂7 آپ کا لقب سیف الدین، کنیت ابو الحسن، نام علی بن ابی علی محمد بن سالم تغلبی، فقیہ اصولی ہیں۔ وفات 3 صفر سنہ 631ھ (وفیات الأعیان)

؂8 اصولِ معرفتِ توحید میں ایک مختصر رسالہ مصنفہ ابو شکور محمد بن سید بن شعیب کشمی حنفی۔

؂9 شیخ شہاب الدین احمد ابن حجر الہیثمی کی مشہور کتاب "صواعقِ محرقہ"۔

؂10 أَخْرَجَہٗ أَحْمَدُ فِيْ مُسْنَدِہٖ عَنِ الْعِرْبَاضِ بنِ سَارِیَۃَ۔ (تاریخ الخلفاء)

؂11 قَالَ الْمُعَرِّبُ: رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَّ ابْنُ أَبِيْ شَيْبَةَ فِيْ الْمُصَنَّفِ وَ الطَّبَرَانِيِّ فِي الْكَبِيْرِ بِهٰذَا اللَّفْظِ۔

؂12 ذَكَرَهُ ابْنُ الْأَثِيْرِ الْجَزَرَيُّ فِيْ نِهَايَةِ الْغَرِيْبِ۔

؂13 طبرانی نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور ابن عدی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی۔

؂14 اس کو ترمذی نے روایت کیا اور کہا هٰذَا حَدِيْثٌ غَرِیْبٌ (مشکوٰۃ)

؂15 معرب نے کہا کہ اس حدیث کو ابن حجر مکی نے صواعق میں جامع خطیب بغدادی کے حوالے سے نقل کیا ہے۔