دفتر اول مکتوب 245
سید انبیا1 کی طرف ان کے سوالات کے جواب میں تحریر فرمایا۔
حمد و صلوٰۃ اور تبلیغِ دعوات کے بعد واضح ہو کہ مکتوب شریف جو قاصد کے ہمراہ ارسال کیا تھا موصول ہو کر خوشی کا باعث ہوا۔ آپ نے لکھا تھا کہ ذکرِ نفی و اثبات اکیس عدد تک پہنچایا ہے لیکن اس پر مداومت نہیں رہتی، اور کبھی کبھی غیبت (ناغہ) بھی ہو جاتی ہے۔ اے محبت کے نشان والے! ذکر کرنے میں ظاہرًا شرائط میں سے کوئی نہ کوئی شرط مفقود ہے جس کی وجہ سے اس عدد پر کوئی نتیجہ مرتب نہیں ہوا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ بالمشافہ معلوم کر لیں گے۔
دوسرے آپ نے اس قول کے معنی دریافت کئے تھے اور لکھا تھا کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے کام کو تکمیل کر کے فرمایا: "ذِکْرُ الِّلسَانِ لَقْلَقَۃٌ وَّ ذِکْرُ القَلبِ وَسْوَسَۃٌ وَّ ذِکْرُ الرُّوْحِ شِرْکٌ وَّ ذِکْرُ السِرِّ کُفْرٌ" ترجمہ: ”زبان کا ذکر بکواس ہے اور قلب کا ذکر وسوسہ، روح کا ذکر شرک اور سر کا ذکر کفر ہے“۔
جواب:
آپ سمجھ لیں کہ جب ’’ذکر‘‘ ذاکر و مذکور کی خبر دینے والا ہے، خواہ کوئی ذکر ہو اور اس کا اصل مقصود ذاکر اور ذکر کا مذکور میں فنا ہونا ہے اس لئے نتیجے کے طور پر ذکر کو لقلقہ، وسوسہ، شرک اور کفر فرمایا ہے
بہرچہ از دوست دامانی کفرآں حرف و چہ ایماں
بہرچہ از راہ دور افتی چہ زشت آں حرف و چہ زیبا
ترجمہ:
جُدا جو حق سے کر دے ایسا ایمان کفر بن جائے
تجھے گمراہ جو کر دے وہ خوبی عیب کہلائے
لیکن فنا و بقا کے حاصل ہونے سے پہلے ذکر کے لئے ان ناموں کے عارض ہونے کو جاننا ضروری ہے، کیونکہ بقا کے حاصل ہونے کے بعد ذاکر کا وجود اور ذکر کا ثبوت اس سے مذموم نہیں ہے۔ اگر اس کے معنی سمجھنے میں کچھ اخفا رہ گیا ہو تو بالمشافہ دریافت کرنے پر معلوم ہو جائے گا کیونکہ تحریر کا حوصلہ (گنجائش) کم ہے۔ لہٰذا اس قول کو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف نسبت دینا خصوصًا کام پورا ہونے کے بعد مستحسن نہیں ہے۔
دوسرا سوال یہ تھا کہ آپ نے لکھا تھا کہ شیخ ابو سعید ابو الخیر2 نے بو علی سینا3 سے مقصود (حق جل و علا) پر دلیل طلب کی تھی اور اس نے جواب میں لکھا تھا کہ ’’کفرِ حقیقی میں آ جا اور اسلامِ مجازی سے نکل جا‘‘۔ اور شیخ ابو سعید نے عین القضاۃ4 کو لکھا کہ ’’اگر ایک لاکھ سال تک عبادت کرتا تو مجھے وہ فائدہ حاصل نہ ہوتا جو بو علی سینا کے اس کلمہ سے حاصل ہوا‘‘۔ عین القضاۃ نے جواب میں لکھا کہ ’’اگر آپ سمجھ لیتے تو اس بے چارے کی طرح مطعون اور ملامت زدہ ہو جاتے‘‘۔
جواب:
جاننا چاہیے کہ کفرِ حقیقی سے مراد دوئی کا دور کرنا ہے اور کثرت کا کلی طور پر چُھپ جانا ہے جو کہ فنا کا مقام ہے اور اس کفرِ حقیقی کے اوپر اسلامِ حقیقی کا مقام ہے جو بقا کا محل ہے۔ کفرِ حقیقی کو اسلامِ حقیقی سے نسبت دینا سرا سر نقص و عیب ہے۔ یہ ابنِ سینا کی کوتاہِ نظری ہے کہ اس نے اسلامِ حقیقی کی طرف رہنمائی نہیں کی اور حقیقت میں اس کو کفرِ حقیقی سے بھی کچھ نصیب نہیں ہوا، لہٰذا اس نے صرف علم و تقلید کی وجہ سے کہہ دیا اور لکھ دیا بلکہ اس کو تو اسلامِ مجازی سے بھی پورا حصہ حاصل نہیں ہوا اور وہ فلسفے کی مو شگافیوں میں الجھ کر رہ گیا۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ5 اس کی تکفیر کرتے ہیں اور حق یہ ہے کہ اس کے فلسفی اصول اسلام کے اصول کے مخالف ہیں۔ دوسرے یہ کہ شیخ ابو سعید، عین القضاۃ کے زمانے سے بہت پہلے ہوئے ہیں اور ان کو کیسے لکھتے۔ اگر کوئی شبہ باقی رہ گیا ہو تو بوقتِ ملاقات دریافت فرما لیں۔ و السلام۔
1 آپ کے نام دو مکتوبات ہیں دفتر اول مکتوب 245-288 باقی حالات معلوم نہ ہو سکے البتہ فارسی نسخے کے حاشیے پر بطور نسخہ ملا محمد صالح لکھا ہوا ہے اور اردو تراجم میں ملا محمد صالح درج ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مکتوب دونوں بزرگوں کے نام ہو۔
2 شیخ ابو سعید ابو الخیر کا تذکرہ دفتر اول مکتوب 11 کے حاشیے پر ملاحظہ ہو۔
3 شیخ الرئیس بو علی سینا مسلم مفکرین اور حکما میں سے ہیں۔ سنہ 370ھ بمطابق 980ء میں بخارا کے قریب افشنا کے مقام پر پیدا ہوئے اور سنہ 428ھ بمطابق 1038ء میں ہمدان میں وفات پائی۔ مختلف علوم و فنون کے ماہر تھے۔ تصانیف کی تعداد کافی ہے، ان میں "شفا" فلسفہ کا انسائیکلو پیڈیا اور "قانون" خاص طور پر مشہور ہیں۔
4 آپ کا تذکرہ دفتر اول مکتوب 200 پر گزر چکا ہے۔
5 حجۃ الاسلام امام محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ طوس کے رہنے والے اور جامع شریعت و طریقت تھے۔ تصوف میں شیخ ابوعلی فارمدی سے نسبت حاصل تھی۔ مذہبًا شافعی تھے۔ کثیر التصانیف ہیں، آپ کی تفسیر قرآن "یاقوت التاویل" چالیس جلدوں میں ہے۔ علاوہ ازیں "احیاء العلوم" اور "کیمیائے سعادت" نہایت بلند پایہ تصانیف ہیں۔ ولادت سنہ 450ھ اور وفات 14 جمادی الاخریٰ سنہ 505ھ کو بغداد میں ہوئی۔