دفتر 1 مکتوب 239: بعض سوالات کے جواب میں

دفتر اول مکتوب 239

ملا احمد برکی؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ ان کے خط کے جواب میں جس میں انہوں نے بعض سوالات کئے تھے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَ عَلٰی اٰلِہٖ وَ أَصْحَابِہٖ وَ عَلَیۡہِمۡ أَجْمَعِیْنَ (تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں اور حضرت سید المرسلین اور آپ کی تمام پاک و مطہر آل و اصحاب پر صلوۃ و سلام ہو)

گرامی نامہ جو محبت و شفقت کی بنا پر آپ نے بھیجا تھا اس کے مضامین کے مطالعے سے بڑی مسرت ہوئی۔

1. آپ نے لکھا تھا کہ ’’احوال کا عرض کرنا حالات کے اندازے پر منحصر ہے… الخ‘‘

میرے مخدوم! احوال کے حاصل ہونے سے مقصود یہ ہے کہ محوّلِ احوال (احوال کا پھیرنے والا یعنی حق تعالیٰ) کے ساتھ گرفتاری اور تعلق حاصل ہو جائے اور جب یہ گرفتاری (تعلق مع اللہ) حاصل ہو جائے تو پھر احوال حاصل ہوں یا نہ ہوں کچھ پرواہ نہیں۔

2. آپ نے لکھا تھا کہ ’’آپ نے بالمشافہ ایسا فرمایا تھا کہ ہم نے تمہارے حق میں بہت زیادہ تخم ریزی کی ہے… الخ‘‘

میرے مخدوم! فی الواقعہ اسی طرح ہے، لیکن اس کے ثمرات کا حاصل ہونا زندگی میں یا موت کے بعد (جیسا اللہ تعالیٰ کو منظور ہو) بے شمار زمانوں کے گزرنے پر موقوف ہے۔ أَبْشِرْ وَ لَا تَعْجَلْ بِهٖ (خوش ہو جاؤ اور جلدی نہ کرو)

3. آپ نے مولانا محمد صالح کے مقولے کے بارے میں تحریر کیا تھا۔

چونکہ مولانا مذکور موجود نہیں ہیں کہ ان کے مقولے کا مفہوم دریافت کیا جائے۔(لیکن) ان کے مقولے پر اعتراض نہ کرنا چاہیے، اسی میں خیر ہے اور دل میں اس کا کچھ خیال نہ کریں۔

4. اور سوء ادب کی بابت جو آپ نے تحریر کیا تھا۔

لہذا مخلص دوستوں کی لغزشیں سب معاف ہیں اس کا بھی کچھ خیال نہ کریں۔

5. آپ نے اپنے حال کے متعلق استفسار کیا تھا۔

(جوابًا یہ ہے) کہ اللہ سبحانہٗ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ آپ مقبولین میں سے ہیں۔ قُبِلَ مَنْ قُبِلَ بِلَا عِلَّۃٍ (جو قبول کیا گیا وہ بلا کسی وجہ کے قبول کیا گیا)

6. آپ نے لکھا تھا کہ ”دو شیخ زادے آئے تھے کہ ذکر کی تلقین حاصل کریں… الخ‘‘

میرے مخدوم! استخارہ ہر امر میں مسنون و مبارک ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ استخارہ کے بعد خواب یا واقعہ یا بے داری میں ایسی بات ظاہر ہو جو اس کام کے کرنے یا نہ کرنے پر دلالت کرتی ہو، بلکہ استخارے کے بعد قلب کی طرف رجوع ہونا چاہیے۔ اگر دل میں اس کام کے کرنے کی رغبت یا میلان پہلے سے زیادہ ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کام کرنا چاہیے اور اگر قلبی رغبت اسی قدر ہے جیسی کہ استخارہ سے پہلے تھی اور اس میں کوئی کمی نہیں ہوئی تب بھی منع نہیں ہے ایسی صورت میں استخاروں کا تکرار کرنا چاہیے تاکہ رغبت و میلان کی زیادتی معلوم ہو جائے۔ استخاروں کے تکرار کی انتہا سات مرتبہ ہے، اگر پہلی مرتبہ میں استخارہ ادا کرنے کے بعد توجہ میں کمی معلوم ہو تو یہ بات منع پر دلالت کرتی ہے، ایسی صورت میں بھی استخاروں کو چند بار کریں تو گنجائش ہے بلکہ ہر صورت میں استخارہ مکرر کرنا اولیٰ و انسب ہے۔ اس کام کے کرنے یا نہ کرنے میں احتیاط ضروری ہے۔

7. رسالہ’’مبدأ و معاد‘‘؂2 کی اس عبارت کے معنی جو اس جسد کے بیان میں لکھی گئی ہے جو روح کا مکتسب ہے (یعنی روح جس جسد سے افعالِ جسمانی کا اکتساب کرتی ہے) آپ نے دریافت کئے ہیں۔

میرے مخدوم! روح کا ایسے افعال اختیار کرنا جو اجسام کے افعال کے مناسب ہیں وہ اسی جسدِ مکتسب کی قسم سے ہیں اور اکابر قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کی روحانی امداد بھی اسی قسم کے جسمانی افعال کی مناسبت سے ہے کہ مختلف وجوہات کی بِنا پر مختلف طریقوں سے انہوں نے دشمنوں کو ہلاک کیا اور دوستوں کی امداد فرمائی وغیرہ۔

8. آپ نے ظالموں کے فتنے سے محفوظ رہنے کے لئے (دعا کی) درخواست کی تھی۔

(دعا کی گئی) امید ہے کہ حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کے اہل خاندان کو بلکہ آپ کے علاقے کو ظالموں کے شر سے محفوظ کر دیا ہے لہٰذا آپ خاطر جمع ہو کر حق تعالیٰ و تقدس کی بارگاہ میں پوری طرح متوجہ اور مشغول رہیں۔ امید ہے کہ اس حفاظت کو کسی خاص وقت تک کے لئے معین نہیں کریں گے (بلکہ دائمی ہو گی)﴿إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ﴾ (النجم: 32) ترجمہ: ”یقین رکھو تمہارا پروردگار بہت وسیع مغفرت والا ہے“۔ لیکن اس جگہ کے رہنے والوں کو نصیحت فرما دیں کہ مسلمانوں کی بھلائی اور ان کی خیر خواہی کی وضع میں تبدیلی نہ کریں کیونکہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿إِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّـرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی يُغَيِّـرُوْا مَا بِأَنْفُسِهِـمْ﴾ (الرعد: 11) ترجمہ: ”یقین جانو کہ اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے حالات میں تبدیلی نہ لے آئے “۔ و السّلام۔

؂1 آپ کے نام پانچ مکتوبات ہیں: دفتر اول مکتوب 239، 250، 254، 275 اور دفتر دوم میں مکتوب نمبر 14۔ برک کابل اور قندھار کے درمیان ایک شہر ہے، آپ وہاں کے جید علماء میں سے تھے۔ ایک دوست کے ذریعے آپ کو حضرت مجدد کا تعارف ہوا لہذا آپ بصد اشتیاق برک سے سرہند آ کر مرید ہو گئے اور ایک ہی ہفتے میں کمال کو پہنچ کر خلافت سے سر فراز ہو گئے۔ سنہ 1026ء میں وفات پائی۔

؂2 حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالے "مبدأ و معاد" منہا نمبر 13 میں اس بحث کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔