دفتر اول مکتوب 238
میر محمد نعمان1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ (دینی) بھائیوں کے اضافہ ہونے میں بہت سی امیدیں وابستہ ہیں اور اس امر کی تنبیہ میں کہ ایسا نہ ہو مریدوں کے احوال و معارف پیروں کے توقف اور عُجب کا باعث بن جائیں، اور اس بیان میں کہ مریدوں کے احوال کو (پیروں کے لئے) شرم کا باعث ہونا چاہئیں تاکہ وہ (مریدوں کو) ترقیات پر ترغیب دیں۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَ عَلٰی اٰلِہٖ وَ أَصْحَابِہٖ وَ عَلَیۡہِمۡ أَجْمَعِیْن (تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں اور حضرت سید المرسلین اور آپ کی پاک و مطہر اولاد و اصحاب سب پر صلوٰۃ و سلام ہو) جو مکتوب شریف آپ نے خواجہ رحمی کے ذریعہ ارسال کیا تھا موصول ہو کر بہت زیادہ خوشی کا باعث ہوا۔ چونکہ اس میں آپ سے ہدایت حاصل کرنے والوں اور آپ کے مریدوں کے احوال تفصیل کے ساتھ درج تھے اس لئے مزید خوشی حاصل ہوئی۔ کیونکہ (دینی) بھائیوں کی کثرت بموجب: "أَکْثِرُوْا إِخْوَانُکُمْ فِی الدِّینِ" (دینی بھائیوں کی تعداد میں (تبلیغ کے ذریعے) کثرت کرو) کے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں اور آیتِ کریمہ: ﴿سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِيكَ﴾ (القصص: 35) ترجمہ: ”ہم تمہارے بھائی کے ذریعے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے دیتے ہیں“ اس بات کی تائید میں ہے۔ لیکن چاہیے کہ اپنے احوال و اعمال پر نظر رہے اور اپنی حرکت و سکون ملاحظے میں رہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مریدوں کی ترقیاں پیروں کے توقف کا باعث بن جائیں اور مسترشدان (ہدایت پانے والوں) کی گرم جوشی مرشدوں کے کار خانے میں سردی و سستی پیدا کردے، اس معنی سے بہت زیادہ ڈرتے رہنا چاہیے۔
اپنے مریدوں کے احوال و مقامات کو شیرِ ببر کی طرح سمجھنا چاہیے نہ یہ کہ ان پر فخر و مباہات کرنے لگیں۔ ایسا نہ ہو کہ اس راہ سے عُجب و غرور کا دروازہ کھُل جائے، بلکہ چاہیے کہ بحکم: "اَلحَیَاءُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الإِیْمَانِ" (بخاری شریف، حدیث نمبر: 9) ترجمہ: ”حیا (شرم) ایمان کا ایک جزو (حصہ)“۔ مریدوں کی ترقیاں شرمندگی اور خجالت کا باعث ہوں، اور طالبوں کی طلب کی گرم جوشی غیرت و عبرت کا موجب ہو ۔
(نیز) چاہیے کہ اپنے اعمال کو قاصر و کوتاہ اور اپنی نیتوں کو تہمت زدہ سمجھیں (تاکہ عُجب دُور ہو) اور حال و قال کی زبان کو کلمہ: ﴿ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ﴾ (ق: 30) ترجمہ: ”کیا کچھ اور بھی ہے؟“ سے تر و تازہ رکھیں۔ اگرچہ آپ کے پسندیدہ احوال و اطوار سے یہی امید ہے کہ آپ اسی طرح معاملہ کرتے ہوں گے، لیکن دشمنانِ دین نفسِ امارہ و شیطانِ لعین کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تاکید میں مبالغہ کیا گیا ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے طالبوں کی توجہ کی سر گرمی میں سردی و سستی واقع ہو جائے کیونکہ مقصود ان دونوں حالتوں کا جمع کرنا ہے، صرف ایک ہی کی فکر میں لگے رہنا قصور و کوتاہی میں داخل ہے۔
خواجہ رحمی اور سید احمد کو چاہیے کو وہ آپ کی خدمت میں حاضر رہیں اور آپ ان کے حال پر پوری توجہ فرماتے رہیں۔ میر عبد اللطیف کو بھی اگر توبہ کی توفیق ہو گئی ہو تو اس کی بھی مدد کریں تاکہ استقامت حاصل ہو۔
آپ نے لکھا تھا کہ بعض طالب طریقۂ قادریہ کی فرمائش کرتے ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ طریقۂ نقشبندیہ کے علاوہ کوئی دوسرا طریقۂ تعلیم کسی کو بھی نہ سکھائیں تاکہ وہ طریقے خلط ملط نہ ہو جائیں۔ لیکن اگر کلاہ و شجرہ طلب کریں اور استخارہ بھی اجازت دے تو مرید کر لیں اور نصیحت فرمائیں ۔
وَ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ عَلٰی سَائِرِ أَصْحَابِکُمْ وَ أَحْبَابِکُمْ وَ عَلٰی سَائِرِ مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی وَ الْتَزَمَ مُتَابَعَۃَ الْمُصْطَفٰی وَ عَلَیْہِ وَ عَلٰی اٰلِہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ أَتْمُّھَا وَ أَکْمَلُھَا (سلام ہو تم پر اور تمہارے اصحاب و احباب پر اور ان سب پر جنہوں نے ہدایت کی پیروی کی اور حضرت محمد مصطفےٰ علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام اتمہا و اکملہا کی پیروی کو لازم جانا۔
1 آپ کے نام تینتیس مکتوبات ہیں اور آپ کا تذکرہ دفتر اول مکتوب 119 پر گزر چکا ہے۔