دفتر 1 مکتوب 234: اس بیان میں کہ واجب الوجود تعالیٰ کی حقیقت ”وجودِ محض“ ہے، جو ہر خیر و کمال کا منشا ہے اور ممکنات کے حقائق عدمات ہیں جو ہر شر و فساد کے مبادی ہیں، اور "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ" کے معنی اور تجلیٔ ذاتی کے بیان میں جو تمام نسبتوں اور اعتبارات سے بڑھ چڑھ کر ہے

دفتر اول مکتوب 234

حقائق آگاہ معارف دست گاہ، عالمِ ربانی عارف سبحانی مخدوم زادہ کلاں اَعْنِیْ شیخ محمد صادق؂1 سَلَّمَہُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَ أَبْقَاہُ وَ أَوْصَلَہٗ إِلٰی غَایَۃِ مَا یَتَمَنَّاہُ (اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ان کو سلامت رکھے اور ان کی عمر دراز فرمائے اور اس انتہائی درجے تک پہنچائے جس کے وہ خواہش مند ہیں) کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ واجب الوجود تعالیٰ کی حقیقت ”وجودِ محض“ ہے، جو ہر خیر و کمال کا منشا ہے اور ممکنات کے حقائق عدمات ہیں جو ہر شر و فساد کے مبادی ہیں، اور "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ" کے معنی اور تجلیٔ ذاتی کے بیان میں جو تمام نسبتوں اور اعتبارات سے بڑھ چڑھ کر ہے، اور آیت کریمہ: ﴿اَللّٰہُ نُورُ السَّمٰوَاتِ وَ الْأَرْضِ﴾ (النور: 35) کے تاویلی معنوں اور اس کے مناسب بیان میں مع سوالات و جوابات کے جو اس مقام کی توضیح سے متعلق ہیں اور مع تنبیہات کے جو اس کی تلخیص کے لائق ہیں۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

خدائے بے چون (بے مثال) کی حمد اور رہنما پیغمبر پر درود و سلام کے بعد میرے عزیز فرزند کو معلوم ہو کہ حق سبحانہٗ کی حقیقتِ وجود صرف (وجودِ محض) ہے کہ کوئی دوسرا امر اس کے ساتھ انضمام (ملا ہوا) نہیں ہے اور وہ وجود تعالیٰ ہر خیر و کمال کا منشا (پیدا ہونے کی جگہ) اور ہر حسن و جمال کا مبدا (ابتدا ہونے کی جگہ) ہے اور وہ (وجود) جزو حقیقی اور ایسا بسیط ہے کہ اس کی ترکیب (ساخت) کو ذہنی اور خارجی طور پر ہرگز راہ نہیں ہے اور حقیقت کے اعتبار سے اس کا تصور دائرۂِ امکان سے باہر ہے (یعنی تصور میں آنا محال ہے) اور وجود تعالیٰ ذات تعالیٰ پر ازروئے مواطات (یعنی محمول کا حمل موضوع پر بلا واسطہ ہے، دونوں میں اتحادِ محض کی بنا پر) محمول ہے، نہ کہ اشتقاق کے اعتبار سے (کیونکہ تغایر نہیں ہے، اور حمل اشتقاق میں تغایر کا ہونا ضروری ہے) اگرچہ حمل کی نسبت کو بھی حقیقتًا اس مقام میں کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اس جگہ تمام نسبتیں اعتبار سے ساقط ہیں۔

اور وہ وجود جو عام اور مشترک ہے وہ اس وجود خاص تعالیٰ و تقدس کے ظلال میں سے ایک ظل ہے اور یہ ظل ذات تعالیٰ و تقدس پر محمول ہے، اور وہ اشیاء پر تشکیک (واسطے کے طور پر) ازروئے اشتقاق نہ کہ از روئے مواطات، اور اس ظل سے مراد حضرت وجود تعالیٰ کا تنزلات کے مرتبوں میں ظہور ہے۔ اس ظل کے افراد میں سے اولیٰ، اقدم اور اشرف وہ فرد ہے جو ذات تعالیٰ و تقدس پر اشتقاقًا محمول ہو۔ لہذا اصالت کے مرتبہ میں "اَللہُ تَعَالٰی وُجُوْدٌ" (حملِ مواطات کے طور پر) تو کہہ سکتے ہیں "اَللہُ تَعَالٰی مَوْجُوْدٌ" (حمل اشتقاق کے طور پر) نہیں کہہ سکتے اور اس ظل کے مرتبہ میں "اَللہُ تَعَالٰی مَوْجُوْدٌ" کہنا صحیح ہے نہ کہ "اَللہُ تَعَالٰی وُجُوْدٌ" اور چونکہ حکما اور صوفیا کا ایک گروہ وجود کی عینیت کے قائل ہو گئے ہیں اور اس فرق کی حقیقت پر مطلع نہیں ہوئے، اور ظل کو اصل سے جدا نہ کرتے ہوئے انہوں نے حملِ اشتقاق اور حملِ مواطات دونوں کا ایک ہی مرتبہ میں اثبات کیا ہے اور حملِ اشتقاق کے درست کرنے میں بے جا تکلف اور حیلے کے محتاج ہوئے ہیں اور حق وہی ہے جو میں نے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے الہام سے تحقیق کیا ہے۔

اور یہ اصالت و ظلیت تمام صفاتِ حقیقیہ کی اصالت و ظلیت کی مانند ہے کیونکہ مرتبۂ اصالت میں جو اجمال اور غیب الغیب کا مقام ہے، ان صفات کا حمل کرنا جو مواطات کے طریقے پر ہے نہ کہ اشتقاق کے طریقے پر، کہہ سکتے ہیں "اَللہُ تَعَالٰی عِلْمٌ" ہے، اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ "اَللہُ تَعَالٰی عَالِمٌ" ہے، کیونکہ حملِ اشتقاق میں مغائرت کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ اگرچہ وہ مغائرت اعتباری ہو (نہ کہ حقیقی) اور وہ مغائرت اس مرتبہ میں بالکل مفقود ہے کیونکہ مغائرت ظلیت کے مرتبوں میں ہوتی ہے اور اس جگہ کوئی ظلیت نہیں ہے، کیونکہ وہ تعینِ اول سے کئی درجے بالا تر ہے، اس وجہ سے کہ نسبتیں اس تعین میں اجمال کے طریقے پر ملحوظ ہیں، اور اس مقام میں اشیاء میں سے کسی شے کا کسی طرح بھی ملاحظہ نہیں ہے، اور ظل کے مرتبے میں کہ جو اس اجمال کی تفصیل ہے، حملِ اشتقاق صادق ہے نہ کہ حملِ مواطات۔ لیکن ان صفات کی عینیت اس مرتبہ میں وجود (تعالیٰ) کی عینیت کی فرع (شاخ ) ہے جو ہر خیر و کمال کا مبدأ ہے اور ہر حسن و جمال کا منشاء (نشو و نما کی جگہ ) ہے۔

اس فقیر نے اپنی کتب و رسائل میں جس وجود کی عینیت کی نفی کی ہے اس سے مراد وجودِ ظلی سمجھنا چاہیے جو حملِ اشتقاق کا درست کرنے والا ہے، اور یہ وجودِ ظلی بھی آثارِ خارجیہ کا مبدأ ہے، پس وہ ماہیتیں جو اس ظل سے متصف ہو گئیں وہ ہر مرتبے میں موجوداتِ خارجیہ کے مراتب میں ہوں گی۔ پس تُو سمجھ لے کیونکہ یہ تجھے بہت سے مواقع پر نفع دے گا۔ پس صفاتِ حقیقیہ بھی موجوداتِ خارجیہ ہوں گی اور ممکنات بھی خارج میں موجود ہوں گی اس کو یاد رکھ۔

اے فرزند! ایک مخفی راز سنو! کہ کمالاتِ ذاتیہ حضرتِ ذات و تعالیٰ و تقدس کے مرتبے میں حضرتِ ذات کا عین ہیں۔ مثلًا صفتِ علم اس مقام میں حضرتِ ذات تعالیٰ کا عین ہے، اور قدرت و ارادت اور باقی صفات کا بھی یہی حال ہے۔ نیز اس مقام میں حضرتِ ذات بتمامہ علم ہے، اور اسی طرح بتمامہ قدرت ہے، نہ یہ کہ حضرتِ ذات کا بعض علم ہے اور بعض قدرت، کیونکہ وہاں بعض ہونا اور جزو بننا محال ہے۔ ان کمالات نے جو گویا حضرت ذاتِ تعالیٰ سے منتزع (علیحدہ) ہیں، حضرتِ علم کے مرتبے میں تفصیل پائی ہے اور تمیز پیدا کر لی ہے اور حضرت ذات تعالیٰ و تقدس اپنی وحدانیت کی اسی اجمالی صرافت پر باقی ہے، اس کے بعد کوئی چیز اس میں باقی نہیں رہی جو اس تفصیل میں داخل نہ ہوئی ہو اور متمیز نہ کی گئی ہو، بلکہ وہ تمام کمالات جو حضرت ذاتِ تعالیٰ کے عین ہیں، مرتبۂ علم میں آ گئے ہیں، اور ان تفصیلی کمالات نے دوسرے مرتبے میں وجودِ ظلی پیدا کر کے صفات کا نام حاصل کر لیا ہے، اور حضرتِ ذات کے ساتھ جو ان تمام کی اصل ہے، قیام پیدا کر لیا ہے۔

اور اعیانِ ثابتہ سے صاحبِ فصوص علیہ الرحمہ کی مراد یہی کمالاتِ مفصلہ ہیں جنہوں نے علم کے خانے میں وجودِ علمی حاصل کیا ہے۔ فقیر کے نزدیک ممکنات کے حقائق عدمات ہیں جو کہ ہر شر و نقص کا مبدأ و محل ہیں، ان کمالات کے ساتھ ان میں منعکس ہو گئے ہیں، یہ بات تفصیل طلب ہے گوشِ ہوش سے سننی چاہیے۔

جان لے! اللہ تعالیٰ تجھ کو ہدایت دے کہ عدم، وجود کے مقابل ہے اور اس کی نقیض (ضد) ہے۔ پس عدم بالذات ہر شر و نقص کے پیدا ہونے کی جگہ ہے، بلکہ وہ ہر شر و فساد کا عین ہے، جس طرح کہ وجود اجمال کے مرتبے میں ہر خیر و کمال کا عین ہے۔ جس طرح حضرتِ وجود اصل الاصل کے مقام میں ذات تعالیٰ پر اشتقاق کے طریق پر محمول نہیں ہے۔ اسی طرح عدم بھی جو اس وجود کے مقابل ہے، ماہیتِ عدمیہ پر اشتقاق کے طریق پر محمول نہیں ہے۔ اس مرتبے میں اس ماہیت کو معدوم نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ عدمِ محض ہے، اور تفصیلِ علمی کے مرتبوں میں کہ جو اس ماہیتِ عدمیہ سے تعلق قائم کئے ہوئے ہیں، اس ماہیت کی جزئیات عدم کے ساتھ متصف ہو گئی ہیں، اور حملِ اشتقاق وہاں درست ہوتا ہے۔ اور عدم کا مفہوم جو کہ گویا اس اجمالِ عدمیہ کی ماہیت سے منتزع (علیحدہ) ہے، اور اس کے ظل کی مانند ہے، اس ماہیتِ عدمیہ کے تمام مفصلہ افراد پر اشتقاق کے طریقے پر جزئیات میں محمول ہوتا ہے، جیسا کہ آگے بیان ہو گا۔

اور چونکہ وہ عدم جو اجمال کے مرتبے میں ہر شر و فساد کا عین تھا، اور اللہ تعالیٰ سبحانہٗ کے علم میں ہر شر دوسرے شر سے جدا ہو گیا تھا، اور ہر فساد دوسرے فساد سے ممتاز ہو گیا، اور جس طرح وجود کی جانب اجمال کے مرتبے میں حضرتِ وجود ہر خیر و کمال کا عین تھا، اور تفصیلِ علمی کے مرتبے میں ہر کمال دوسرے کمال سے ممتاز ہو کر ہر خیر دوسرے خیر سے جدا ہو گیا، اسی طرح کمالاتِ وجودیہ میں سے ہر کمال اور نقائصِ عدمیہ میں سے ہر نقص جو اس کے مقابل ہے، علم کے خانے میں منعکس ہو گیا ہے، اور ایک دوسرے کی علمی صورتیں بن کر مل جل گئی ہیں۔

اور وہ عدمات جن سے مراد شرور و نقائص ہیں، وہ ان کمالاتِ منعکسہ کے ساتھ جنہوں نے حضرتِ علم کے مرتبہ میں تفصیلِ علمی پائی ہے، ممکنات کی ماہیتیں ہیں۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ وہ عدمات ان ماہیتوں کے اصول و مواد کی طرح ہیں، اور وہ کمالات ان میں حلول کی ہوئی صورتوں کی مانند ہیں۔

پس اعیانِ ثابتہ سے اس حقیر کے نزدیک یہی عدمات اور کمالات مراد ہیں جو ایک دوسرے سے باہم مل جل گئے ہیں، اور یہ ان ماہیاتِ عدمیہ مع ان تمام لوازمات اور ظلالِ وجودیہ کے کمالات کے جو حضرتِ علم میں منعکس ہو گئے ہیں اور ممکناتِ ماہیہ کا نام پا لیا ہے، قادرِ مختار جل سلطانہٗ نے جب چاہا ان کو وجودِ ظلی کے رنگ میں رنگین کر کے موجوداتِ خارجیہ بنا دیا، اور آثارِ خارجیہ کا مبدأ کر دیا۔

جاننا چاہیے کہ صورِ علمیہ جن سے مراد ممکنات کے اعیانِ ثابتہ اور ان کی ماہیت ہیں، ان کو رنگین کرنا اس معنی میں نہیں ہے کہ صورِ علمیہ نے خانۂ علم سے نکل کر وجودِ خارجی پیدا کر لیا ہے کیونکہ یہ محال ہے اور جہل کو مستلزم ہے۔ تَعَالَی اللہُ عَنْ ذٰلِكَ عُلُوًّا کَبِیْرًا (اللہ تعالیٰ اس سے بہت زیادہ بلند ہے) بلکہ اس معنی میں ہے کہ ممکنات نے خارج میں صورِ علمیہ کے مطابق ایک وجود پیدا کر لیا ہے اور وجودِ علمی کے علاوہ اس وجودِ علمی کے موافق وجودِ خارجی حاصل کر لیا ہے، جیسے نجار (بڑھئی) تخت کی صورت کو ذہن میں تصور کر کے خارج میں اس کا اختراع کرتا ہے، اس صورت میں تخت کی وہ ذہنی تصویر جو حقیقت میں اس تخت کی ماہیت ہے، اس نجار کے خانۂ علم سے باہر نہیں نکلی ہے بلکہ خارج میں اس تخت نے اس صورتِ ذہنیہ کے مطابق وجود پیدا کر لیا ہے۔ پس سمجھ لو۔

جاننا چاہیے کہ ہر عدم جو کمالاتِ وجودیہ کے ظلال میں سے ایک ظِل ہے جو اس کے مقابل ہے، اور جس نے منعکس کے ساتھ رنگین ہو کر خارج میں ایک زینت پیدا کر لی ہے بخلاف عدمِ صرف کے کہ وہ ان ظلال سے متاثر نہیں ہوا، اور نہ ان کے رنگ میں رنگا گیا، وہ کس طرح یہ رنگ پکڑ سکتا ہے جب کہ وہ ان ظلال کے مقابلے میں ہے ہی نہیں، اگر وہ مقابلہ (حضوری) رکھتا ہے تو حضرتِ وجودِ صرف تعالیٰ و تقدس کے ساتھ رکھتا ہے۔ پس عارف تام المعرفت (کامل معرفت والا) جب حضرتِ وجود کی حضوری میں ترقی کر کے عدمِ صرف کے مقابل میں نزول کرتا ہے تو اس کے توسل سے یہ عدم بھی اس حضرت (وجودِ صرف) کے ساتھ ایک طرح کا رنگ پیدا کر کے مزین و مستحسن ہو جاتا ہے۔ اس وقت وہ عارف جو فی الحقیقت مراتبِ ذاتیہ کا جامع ہے، اور اس وقت میں تمام اعدام کے مراتب کا جمع کرنے والا بھی، اس نے تفصیلی و اجمالی حسن و خیریت پیدا کر لی ہے، اور اس کو کمال و جمال حاصل ہو گیا ہے۔ اور یہ خیریت جو تمام ذات کے مراتب میں سرایت کئے ہوئے ہے اسی قسم کے عارف کے ساتھ مخصوص ہے۔ اگر غیر عارف میں بھی یہ خیریت سرایت کئے ہوئے ہے یا اس میں قصور ہے تو اس کے اعدامِ ذاتیہ کے بعض تفصیلی مراتب میں یا اس کے تمام تفصیلی مراتب میں درجات کے تفاوت سے جاری ہے۔ یہ آخری قسم بھی نادر الوجود ہے۔ لیکن عدم کے اجمال کے مرتبے میں جو ہر شر و نقص کا عین ہے اس عارف کے علاوہ کسی نے بھی اس کی خیریت کی خوشبو نہیں پائی، اور نہ ہی حُسن کا رنگ پیدا کیا لہذا ایسا عارف جو خیرِ تام سے متصف ہو چکا ہے اس کا شیطان بھی حسنِ اسلام پیدا کر لیتا ہے، اور اس کا نفسِ امارہ بھی مطمئنہ ہو کر اپنے مولا سے راضی ہو جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جب کہ سید المرسلین علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات نے فرمایا: "أَسْلَمَ شَیْطَانِيْ"؂2 ترجمہ: ”میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے“۔ لہذا کوئی غازی جنگ میں اس پر سبقت نہیں کرتا اور شیطان جیسے کو بھی خیر کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔

سبحان اللہ! وہ معارف جو اس فقیر سے بے ارادہ ظہور میں آئے ہیں، اگر اکثر لوگ جمع ہو کر اُن جیسے پیش کرنے کی کوشش کریں تو معلوم نہیں کہ میسر ہو سکے، بتحقیق کہ ان معارف کا بہت سا حصہ حضرت مہدی موعود علیہ الرضوان کو حاصل ہو گا۔

اگر بادشاہ بر درِ پیر زن

بیاید تو اے خواجہ سَبلَت مکن

ترجمہ:

اگر بادشاہ آئے بڑھیا کے گھر

تو اے خواجہ ہرگز تعجب نہ کر

فَتَبَارَكَ اللّٰهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِيْنَ وَا لْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ (پس کیا ہی با برکت ہے وہ اللہ تعالیٰ جو بہتر پیدا کرنے والا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی حمد ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے) لہذا ممکنات کی ذوات عدمات ہیں کہ جن میں وجودی کمالات کے ظلال نے منعکس ہو کر ان کو مزین کر دیا ہے، پس لازمی طور پر ممکنات بالذات ہر شر و فساد کے محل ہیں، اور ہر برائی و نقص کی جائے پناہ، اور ہر خیر و کمال جو ان میں تعبیر اور پوشیدہ ہے۔ وہ حضرتِ وجود سے عاریت (مستعار) ہے کہ وہ خیرِ محض ہے جو حضرتِ وجود کی وجہ سے فائض ہوا ہے۔ آیۂ کریمہ: ﴿مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ وَ مَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ﴾ (النساء: 79) ترجمہ: ”تمہیں جو کوئی اچھائی پہنچتی ہے تو وہ محض اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور جو کوئی برائی پہنچتی ہے، تو وہ تمہارے اپنے سبب سے ہوتی ہے“۔ اس مضمون کی خبر دیتی ہے۔

اور جب اللہ جل سلطانہٗ کے فضل سے یہ "دیدِ عاریت" (مشاہدۂ مستعار) غلبہ پا لیتی ہے، اور وہ اپنے کمالات کو بتمام و کمال اس (حق تعالیٰ) کی طرف سے دیکھتا ہے تو خود کو "شرِ محض" پاتا ہے، اور "نقصِ خالص" جانتا ہے، اور کوئی کمال اپنے اندر مشاہدہ نہیں کرتا اگرچہ وہ انعکاس کے طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ (وہ خود کو) اس شخص کی مانند (دیکھتا ہے) جو ننگا ہو لیکن اس نے عاریت کا (مانگا ہوا) لباس پہنا ہوا ہو، اور یہ "دیدِ عاریت" اس پر اس طرح غلبہ حاصل کر لے کہ وہ اپنے خیال میں اپنا سارا لباس اس مالک کا سمجھے تو یقینًا وہ شخص اپنے آپ کو پورے ذوق کے ساتھ ننگا سمجھے گا، اگرچہ اس نے "جامۂ عاریت" پہنا ہوا ہے۔ اس مشاہدے والا شخص "مقامِ عبدیت" سے مشرف ہو جاتا ہے جو کہ ولایت کے تمام کمالات سے بڑھ کر ہے۔

تنبیہہ:

یہ تمام شر و خیر اور نقص و کمال جو حقیقت میں وجود و عدم کا اجتماع ہے "جمع نقیضین" کی قسم سے نہیں ہے کہ تم اس کو محال سمجھو کیونکہ" وجودِ صرف" کی نقیض "عدمِ صرف" ہے اور یہ "مراتبِ ظلیہ" نے جس طرح کہ وجود کی جانب اصل کی بلندی سے تنزلات کی گہرائیوں میں نزول فرمایا ہے، اسی طرح عدم کی جانب بھی "صرافتِ عدم" کی گہرائیوں سے مراتبِ ظلّیہ میں ظاہر ہو کر عروج کیا ہے، اور ان کا اجتماع “عناصرِ متضادہ” کے اجتماع کے رنگ میں سے ہر ایک کے ضدیہ غلبہ اور تیزی کو توڑ کر ان کو جمع کر دیا ہے "فَسُبْحَانَ مَنْ جَمَعَ بَیْنَ الظُّلْمَۃِ وَ النُّورِ" ”پس پاک ہے وہ ذات جس نے اندھیرے اور روشنی کو جمع کر دیا“۔

اگر یہ کہا جائے کہ تو نے (یعنی حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے) مندرجہ بالا عبارت میں "عدمِ صرف" کو بھی "وجودِ صرف" کے ساتھ رنگ دے کر جو اس کی ضد ہے، "اجتماعِ نقیضین" کا رنگ پیدا کر دیا ہے، تو میں جواب میں کہتا ہوں کہ اجتماعِ نقیضین ایک مقام پر محال ہے لیکن ایک نقیض کا دوسری نقیض کے ساتھ قیام کرنا اور ایک "اتصاف" (وصف) کا دوسرے وصف کے ساتھ (جمع) ہونا محال نہیں ہے، جیسا کہ اربابِ معقول (فلاسفہ) نے کہا ہے کہ وجود معدوم ہے اور وجود کا عدم کے ساتھ متصف ہونا محال نہیں ہے لہذا اگر عدم موجود ہو کر وجود میں رنگین ہو جائے تو اس میں کیا قباحت ہے۔۔۔۔!

اور اگر کہا جائے کہ عدم معقولاتِ ثانویہ سے ہے جو وجودِ خارجی کا منافی ہے تو وہ وجود خارجی سے کس طرح متصف ہو گا تو میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ عدم کے مفہوم کو معقولاتِ ثانویہ میں سے بیان کیا گیا ہے، لیکن اگر عدم کے افراد میں سے کوئی فرد وجود سے متصف ہو جائے تو اس میں کیا پریشانی ہے جس طرح اربابِ معقول نے وجود کے بارے میں اشکال کے طریقے پر کہا ہے کہ وجود کو چاہیے کہ واجب الوجود تعالیٰ و تقدس کی ذات کا عین نہ ہو، کیونکہ وجود معقولاتِ ثانیہ سے ہے جو خارجی وجود نہیں رکھتا، اور ذات واجب الوجود تعالیٰ و تقدس خارج میں موجود ہے لہذا وہ عین نہیں ہے، اور انہوں نے اس اشکال کے جواب میں کہا ہے کہ وجود کا مفہوم معقولاتِ ثانویہ سے ہے نہ کہ اس کی جزئیات سے۔ لہذا اس کی جزئیات میں سے کوئی جزئی وجودِ خارجی کے منافی نہیں ہے، اور ہو سکتا ہے کہ خارج میں موجود ہو۔

سوال:

سابقہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ حقیقی صفات کا وجود ظلال کے مرتبے میں ہے اور اصل کے مرتبے ميں ان کا کوئی وجود حاصل نہیں ہے، یہ بات اہلِ حق شَکَرَ اللّٰہُ تَعَالیٰ سَعْیَھُمْ کی رائے کے خلاف ہے۔ کیونکہ وہ صفات کو کسی وقت بھی ذاتِ تعالیٰ و تقدس سے جدا نہیں سمجھتے اور ممتنع الانفکاک (یعنی ان کا ذات تعالیٰ سے جدا ہونا محال) تصور کرتے ہیں۔

جواب:

یہ ہے کہ اس بیان سے انفکاک کا جواز لازم نہیں آتا کیونکہ یہ ظل اس اصل کے لئے لازم ہے، پس انفکاک نہ رہا۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ وہ عارف جس کی توجہ کا قبلہ احدیتِ ذات تعالیٰ و تقدس ہے اور اس کے سامنے اسماء و صفات میں سے کچھ بھی نہیں ہے وہ اس مقام میں ذاتِ تعالیٰ ہی کو پاتا ہے، اور صفات میں سے اس کو کچھ بھی ملحوظ نہیں رہتا (یہ بات نہیں ہے) کہ اس وقت صفات موجود نہیں (بلکہ اس کے ملاحظہ میں نہیں ہوتیں) لہذا صفات کا حضرتِ ذات تعالیٰ و تقدس سے منقطع ہونا اس عارف کے مشاہدے کے اعتبار سے ثابت ہوا نہ کہ حقیقت الامر کے اعتبار سے تاکہ اہلِ سنت کے مخالف ہو، پس سمجھ لو۔

اس بیان سے "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ"؂3 ترجمہ: ”جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا“۔ کے معنی واضح ہو گئے کیونکہ جس شخص نے اپنی حقیقت کو شرارت و نقص کے ساتھ پہچان لیا، اور سمجھ لیا کہ ہر خیر و کمال جو اس میں پوشیدہ کیا گیا ہے، وہ حضرت واجب الوجود تعالیٰ و تقدس کی طرف سے مستعار ہے، لہذا لازمًا حق سبحانہٗ و تعالیٰ کو خیر و کمال اور حسن و جمال کے ذریعے پہچان لے گا اس تحقیق سے آیۂ کریمہ: ﴿اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ﴾(النور: 35) ترجمہ: ”اللہ تمام آسمانوں اور زمین کا نور ہے“۔ کے تاویلی معنی بھی واضح ہو گئے۔ کیونکہ جب ظاہر ہو گیا کہ ممکنات سب کے سب عدمات ہیں جو سرا سر ظلمت و شرارت ہیں، اور ان میں خیر و کمال اور حسن و جمال حضرتِ وجود کی طرف سے ہے جو نفس ذات تعالیٰ و تقدس ہے اور ہر خیر و کمال اور حسن و جمال کا عین ہے لہذا لازمی طور پر آسمانوں اور زمین کا نور حضرتِ وجود ہی ہے جو واجب تعالیٰ و تقدس کی حقیقت ہے، اور چونکہ یہ نور آسمانوں اور زمین میں ظلال کے توسط سے ہے، اس لئے ان وہم کرنے والوں کے وہم کو دُور کرنے کے لئے جو بے توسط سمجھتے ہیں، اس نور کے لئے ایک مثال بیان کی گئی جیسا کہ حق تعالیٰ نے فرمایا: ﴿مَثَلُ نُورِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَةٍ…إِلٰی آخِرِ الاٰیَۃِ الْکَرِیْمَۃِ﴾ (النور: 35) ترجمہ: ”اس کے نور کی مثال کچھ یوں ہے جیسے ایک طاق ہو جس میں چراغ رکھا ہو“ تاکہ واسطوں کا ثبوت فراہم ہو جائے۔ اس آیۂ کریمہ کے تاویلی معنی تفصیل کے ساتھ ان شاء اللہ کسی دوسری جگہ تحریر کئے جائیں گے کیونکہ اس میں بات کی بہت گنجائش ہے۔ اور اس مکتوب میں اس کی تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔

اور یہ جو ہم نے کہا ہے کہ آیۂ کریمہ کے تاویلی معنی ہیں، کیونکہ تفسیری معنی نقل و سماع کے ساتھ مشروط ہیں: "مَنْ فَسَّرَ القُرْآنَ بِرَأْيِهٖ فَقَدْ كَفَرَ"؂4 ترجمہ: ”جس شخص نے اپنی رائے سے قرآن کریم کی تفسیر کی تحقیق وہ کافر ہو گیا“ آپ نے سنا ہو گا، اور تاویل میں صرف احتمال کافی ہے بشرطیکہ وہ کتاب و سنت کے مخالف نہ ہو۔ لہذا ثابت ہو گیا کہ ممکنات کی ذوات و اصول، عدمات ہیں اور ان کے نقائص و رذائل کی صفات ان عدمات کی مقتضیات ہیں جو قادرِ مختار جل سلطانہ کی صنعت و ایجاد سے وجود میں آئے ہیں، اور ان میں صفاتِ کاملہ حضرت وجود تعالیٰ و تقدس کے کمالات کے ظلال سے مستعار ہیں جو انعکاس کے طریق پر ظہور پا کر قادرِ مختار جل سلطانہٗ کی ایجاد سے موجود ہوئے ہیں۔

اور اشیاء کے حسن و قبح کا مصداق یہ ہے کہ وہ چیز جو آخرت سے تعلق رکھتی ہے، اور آخرت کے لئے ذریعہ و وسیلہ ہے وہ حسن (اچھی) ہے اگرچہ بظاہر اچھی معلوم نہ ہو اور جو چیز دنیا سے تعلق رکھتی ہے اور دنیا کے حصول کا ذریعہ و وسیلہ ہے وہ قبیح (بری) ہے اگرچہ بظاہر اچھی معلوم ہو اور حلاوت و طراوت کے ساتھ ظاہر ہو جیسا کہ دنیوی مزخرفات (جھوٹی زیب و زینت) کا یہی حال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعتِ مصطفویہ علی صاحبہا الصلوٰۃ و السلام و التحیۃ میں بے ریش لڑکوں اور اجنبی عورتوں کے حُسن اور کمینی دنیا کی زیب و زینت کی طرف رغبت و خواہش سے نظر کرنا منع فرما دیا گیا ہے، کیونکہ یہ حسن و طراوت عدم کے مقتضیات سے ہے جو ہر شر و فساد کی جگہ ہے۔ اگر اس حسن و جمال کا منشا کمالاتِ وجودیہ ہوتے تو اس سے منع نہ فرماتے۔ اس لئے کہ اصل کے موجود ہوتے ہوئے ظل کی طرف توجہ کرنا برا اور مکروہ ہے۔ یہ منع کرنا استحسان کے طور پر ہے نہ کہ واجب، بر خلاف پہلے منع کرنے کے (جو کہ وجوبی ہے) لہذا وہ حسن جو دنیاوی مظاہرِ جمیلہ میں ظاہر ہوتا ہے وہ اس ذات تعالیٰ و تقدس کے حُسن کے ظلال سے نہیں ہے بلکہ عدم کے لوازمات میں سے ہے جس نے حَسَن کی مجاورت (معیت) کی وجہ سے ظاہر میں حُسن پیدا کر لیا ہے، اور حقیقت میں قبیح و ناقص ہے جیسے کہ زہر کو شکر کے غلاف میں ڈھانپ دیا جائے یا نجاست پر سونے کا غلاف چڑھا دیں۔ یہ جو خوب صورت عورتوں اور لونڈیوں سے نکاح کرنے کا حکم فرمایا گیا وہ اولاد حاصل کرنے اور بقائے نسل کے لئے ہے جو نظامِ عالم کو باقی رکھنے کے لئے ضروری ہے۔

لہذا بعض صوفیا جو مظاہرِ جمیلہ اور دلکش نغمات میں اس خیال سے گرفتار ہیں کہ یہ حسن و جمال حضرت واجب الوجود تعالیٰ و تقدس کے کمالات سے مستعار ہے وہ ان مظاہر میں ظاہر ہوا ہے، اور اس گرفتاری کو نیک اور مستحسن خیال کرتے ہیں بلکہ وصول الی اللہ کا ذریعہ تصور کرتے ہیں، اس فقیر کے نزدیک اس کے خلاف ثابت ہوا ہے۔ چنانچہ اس قسم کا تھوڑا سا مضمون اوپر بیان ہو چکا ہے۔

عجب معاملہ ہے کہ بعض صوفیا اپنی مطلب براری کے لئے اس قول کو سند کے طور پر پیش کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے: "إِیَّاکُمْ وَ الْمُرْدَ فَإِنَّ فِیْھِمْ لَوْنًا کَلَوْنِ اللّٰہِ" ترجمہ: ”تم ان بے ریشوں سے بچو کیونکہ ان میں اللہ تعالیٰ کے رنگ کی طرح کا رنگ ہے“۔ کلمہ "کَلَوْنِ اللہِ" (اللہ تعالیٰ کے رنگ کی مانند) ان کو شبہ میں ڈال دیتا ہے، اور نہیں جانتے کہ یہ قول ان کے مطلب کے منافی ہے، اور اس درویش کی معرفت کی تائید میں ہے کیونکہ "کلمۂ تحذیر" (بچنے کی تاکید) لا کر اُن کی طرف توجہ کرنے سے منع کیا گیا ہے، اور ان کی غلط منشاء کو بیان کیا گیا ہے کہ اُن کا حُسن حق تعالیٰ سبحانہٗ کے حسن و جمال کی مانند ہے نہ کہ بعینہٖ اس کا حُسن، تاکہ غلطی میں نہ پڑ جائیں۔

آنحضرت علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا: "مَا الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃُ إِلَّا ضَرَّتَانِ إِنْ رَضِیَتْ إِحْدٰھُمَا سَخِطَتِ الْأُخْرٰی"؂5 (یعنی دنیا اور آخرت دو سوکنوں کی طرح ہیں، اگر ایک راضی ہو گی تو دوسری نا راض ہو جائے گی) اس حدیث میں بھی اس بات کی تصریح ہے کہ دنیاوی حُسن و جمال اور اُخروی حسن و جمال دونوں ایک دوسرے کے نقیض اور ضد ہیں اور مقرر ہے (یعنی آیات و حدیث سے ثابت ہے) کہ حُسنِ دنیاوی نا پسند ہے اور حُسنِ اُخروی اللہ تعالیٰ کی(مرضیات سے ہے۔ لہذا "شر" حُسنِ دنیوی کے لئے لازم ہو گا، اور "خیر" حُسنِ اُخروی کے لئے لازم۔ پس لازمًا اول کا منشا عدم ہو گا اور دوسرے کا منشا وجود۔ ہاں بعض چیزیں ایسی ہیں کہ ایک وجہ کی بنا پر دنیا سے تعلق رکھتی ہیں اور دوسری وجہ سے آخرت سے متعلق ہیں، یہ اشیاء (چیزیں) پہلی وجہ کے لحاظ سے قبیح (بری) ہیں اور دوسری وجہ کے اعتبار سے حَسن (اچھی) ہیں، اور ان دونوں کے درمیان اور ان میں سے حسن و قبح کے درمیان تمیز کرنا علمِ شریعت پر موقوف ہے۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ مَا آتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَ مَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا﴾ (الحشر: 7) ترجمہ: ”اور رسول تمہیں جو کچھ دیں، وہ لے لو، اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاؤ“۔

حدیث شریف میں وارد ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے دنیا کو پیدا کیا ہے اس کی طرف نظر نہیں کی اور حق تعالیٰ کی مبغوضہ ہے۔؂6 یہ سب کچھ اس کی برائی، شرارت اور فساد کی وجہ سے ہے جو عدم کے تقاضوں میں سے ہے جو کہ ہر شر و فساد کا محل ہے، اور دنیاوی حسن و جمال اور اس کی شیرینی اور تازگی راستے کے کوڑے کرکٹ کی مانند ہیں جو منظورِ نظر نہیں ہیں، وہ تو آخرت کا جمال ہی ہے جو شایانِ نظر اور حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی مرضی کا مقام ہے۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ دنیا داروں کا حال بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ﴿تُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَ اللّٰہُ يُرِيْدُ الْآخِرَةَ﴾(الانفال: 67) ترجمہ: ”تم دنیا کا ساز و سامان چاہتے ہو اور اللہ (تمہارے لیے) آخرت ( کی بھلائی) چاہتا ہے“۔

اَلَّلھُمَّ صَغِّرِ الدُّنْیَا بِأعْیُنِنَا وَ کَبِّرِ الْاٰخِرَۃَ فِیْ قُلُوْبِنَا بِحُرْمَۃِ مَنِ افْتَخَرَ بِالْفَقْرِ وَ تَجَنَّبَ عَنِ الْغِنَا عَلَیْہِ وَ عَلٰی اٰلِہِ الصَّلَوَاتُ وَ التَّسْلِیْمَاتُ أَتَمُّھَا وَ أَکْمَلُھَا (یا اللہ تو دنیا کو ہماری آنکھوں میں حقیر کر دے اور آخرت کی بزرگی اور بڑائی ہمارے دلوں ميں ڈال دے بحرمۃ رسولِ اکرم علیہ و علیٰ آلہ الصلوات و التسلیمات اتمہا و اکملہا جنہوں نے فقر پر فخر کیا اور دولت مندی سے اجتناب کیا)

اور چونکہ شیخِ اجل شیخ محیی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر ان کے فساد اور نقص و شرارت کی حقیقت پر نہیں پڑی اس لئے انہوں نے حقائقِ ممکنات کو حق جل و علا کی صورتِ علمیہ سمجھ لیا ہے کیونکہ ان صورتوں نے حضرتِ ذات تعالیٰ و تقدس کے آئینے میں جو خارج میں اس کے جُز کے سوا کچھ بھی موجود نہیں ہیں (انہوں نے) انعکاس پیدا کر کے خارج میں ظہور پیدا کر لیا ہے، اور وہ ان صورِ علمیہ کو صورِ شیون اور صفاتِ واجبیہ جل سلطانہٗ کے علاوہ نہیں جانتے ہیں لہذا لازمی طور پر انہوں نے وحدت الوجود کا حکم کیا ہے اور ممکنات کے وجود کو واجب تعالیٰ و تقدس کا عین کہا ہے اور شر و نقص کو اضافی و نسبتی قرار دے کر شرارتِ مطلق اور نقصِ محض کی نفی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی چیز کو بالذات بری نہیں جانتے، یہاں تک کہ کفر و ضلالت کو ایمان و ہدایت کی نسبت برا جانتے ہیں، ان کی اپنی ذاتی نسبت کو برا نہیں جانتے کیونکہ وہ ان کو عین خیر و صلاح سمجھتے ہیں اور ان تمام چیزوں کے لئے اپنے ارباب کو ان کی نسبت استقامت کا حکم کرتے ہیں اور آیۂ کریمہ: ﴿مَا مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا إِنَّ رَبِّيْ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾ (ہود: 56) ترجمہ: ”زمین پر چلنے والا کوئی جان دار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کے قبضے میں نہ ہو، یقینا میرا پرور دگار سیدھے راستے پر ہے“۔ کو اس معنی پر شاہد لاتے ہیں۔ ہاں جو کوئی وحدت الوجود کا حکم کرتا ہے وہ اس قسم کی باتوں سے کس طرح کنارہ کر سکتا ہے۔ جو کچھ اس حقیر کے اوپر منکشف کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ "ماہیات" ممکنات کے عدمات جو کمالاتِ وجودیہ کے ساتھ ان میں منعکس ہو گئے ہیں اور مل جل گئے ہیں۔ جیسا کہ مفصل گذر چکا ہے۔ وَ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ یُحِقَّ الْحَقَّ وَ ھُوَ یَھْدِی السَّبِیْلَ (اللہ سبحانہ ہی حق بات کو ثابت کرتا ہے اور وہی سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے)

اے فرزند! یہ علوم و معارف (کہ جن کی نسبت) اہل اللہ میں سے کسی نے بھی صراحت کے ساتھ گفتگو نہیں کی اور نہ ہی اشارہ کیا، یہ "اشرفِ معارف" (نہایت اعلیٰ درجے کے) معارف ہیں اور "اکملِ علوم" میں سے ہیں جو ہزار سال کے بعد "منصۂ شہود" پر آئے ہیں اور واجب تعالیٰ و تقدس کی حقیقت اور ممکنات کے حقائق کو جس قدر ممکن اور اس کے لائق ہے بیان کیا گیا ہے۔ یہ معارف کتاب و سنت کی مخالفت نہیں کرتے اور نہ ہی اہلِ حق کے اقوال کے مخالف ہیں۔

معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت علیہ و علیٰ الصلوٰۃ و السلام کی اس دعا سے یہی مراد ہے جو آپ نے امت کو تعلیم فرمائی ہے: "اَللّھُمَّ أَرِناَ حَقَائِقَ الْأَشْیَاءِ کَمَا ھِیَ" ترجمہ: ”یا اللہ تو ہم کو اشیاء کی حقیقت دکھا جیسی کہ وہ ہیں“۔ یہ وہ حقائق ہیں جو ان علوم کے ضمن میں بیان ہو گئے ہیں اور جو عبودیت کے مقام کے مناسب ہیں اور جو نقص و ذلت اور انکسار پر کہ بندگی کے حال کے مناسب ہے، دلالت کرتے ہیں۔ وہ بندہ عاجز جو اپنے آپ کو مولائے قادر کا عین جانے کمال درجہ بے ادبی ہے اور اس میں کوئی خیر نہیں۔

اے فرزند! یہ وہ وقت ہے جب کہ سابقہ امتوں میں ایسے ظلمت و تاریک بھرے وقت میں اولو العزم پیغمبر مبعوث ہوتے تھے اور احیاءِ شریعت کرتے تھے اور اس امت میں جو کہ "خَیْرُ الْاُمَمْ" ہے اور اس کے پیغمبر خاتم الرسل علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات ہیں (آپ نے اس امت کے) علماء کو انبیاءِ؂7 بنی اسرائیل کا مرتبہ دیا ہے اور علماء کے وجود کو انبیاء کے وجود سے کفایت فرمایا ہے، اسی لئے ہر صدی کے سرے پر (ختم یا شروع میں) اس امت کے علما میں سے ایک مجدد کا تعین کرتے ہیں تاکہ احیائے شریعت فرمائے بالخصوص ایک ہزار سال گزر جانے کے بعد جو کہ امم سابقہ میں اولو العزم پیغمبر کی بعثت کا وقت قرار دیا گیا ہے، ایسے وقت میں ہر پیغمبر کو کافی نہیں سمجھا گیا (بلکہ اولو العزم پیغمبر مبعوث کیا گیا) اب بھی اسی طرح کے وقت میں ایک تام المعرفت عالم و عارف کی ضرورت ہے جو اممِ سابقہ کی طرح اولو العزم (پیغمبر کے قائم مقام) ہو۔ شعر:

فیضِ روح القدس ار باز مدد فرماید

دیگراں ہم بکنند آنچہ مسیحا می کرد

ترجمہ:

وحی کا فیض اگر پھر سے میسر ہو جائے

دوسرے بھی وہ کریں جو کہ مسیحا نے کیا

اے فرزند! "وجود صرف" عدم صرف کے مقابل ہے اور جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے کہ وجودِ صرف واجب الوجود تعالیٰ و تقدس کی حقیقت ہے جو ہر خیر و کمال کا عین ہے، اگرچہ اس عینیت کا ملاحظہ بھی نہایت اختصار سے ہوتا ہے کیونکہ اس مقام پر گنجائش نہیں ہے کہ وہاں ظلیت کی یہ آمیزش رکھتی ہے، اور عدمِ صرف جو اس وجود کے مقابل ہے وہ عدم ہے جس کی طرف کسی نسبت و اضافت نے راہ نہیں پائی اور وہ ہر شر و نقص کا عین ہے، اگرچہ یہ عینیت بھی وہاں (عدم) گنجائش نہیں رکھتی کیونکہ وہ اضافت کی بو رکھتی ہے، اور یہ بات معلوم ہے کہ کسی چیز کا ظہور پورے طور پر اس چیز کے حقیقی مقابلے میں صورت اختیار کر لیتا ہے اور بِضِدِّھَا تَتَبَیَّنُ الْأَشْیَاءُ (اشیاء اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں) لہذا لازمی طور پر "وجود صرف" کا ظہور پورے طور پر عدمِ صرف کے آئینے میں حاصل ہوتا ہے، اور یہ بات طے شدہ ہے کہ نزول عروج کے اندازے کے مطابق ہوتا ہے لہذا اگر کسی کا عروج اللہ سبحانہٗ کی عنایت سے وجودِ صرف کے سامنے تحقیق ہو جائے تو لازمی طور پر اس کا نزول بھی عدم صرف میں ہو گا جو اس کے مقابل ہے۔ لیکن عروج کے وقت وہاں عارف کا استہلاک ہے جس میں جہل لازم ہے، اور نزول کے وقت صحو متحقق ہے جو مقامِ علم و معرفت ہے اس مقامِ صحو میں اس کو تجلئ ذاتی سے جو ظلیت کی آمیزش سے مبرا اور شیون و اعتباراتِ ذاتیہ کے ملاحظہ سے منزہ ہے مشرف کر دیتے ہیں اور اس کو آگاہ کر دیتے ہیں کہ اس سے پہلے جو تجلی حاصل ہوئی تھی وہ اسماء و صفات اور شیون و اعتبارات کے ظلال میں سے کسی ظل کے پردے میں تھی اگرچہ عارف اس تجلی کو اسماء و صفات اور شیون کے ملاحظے کے بغیر جانتا ہے اور اس کو حضرت "وجودِ صرف" کی تجلی خیال کرتا ہے۔

سبحان اللہ! یہ"عدم" جو ہر شر و نقص کی جگہ ہے جس نے حضرت وجود تعالیٰ کے ظہورِ تام کے واسطے سے حسن کے معنی پیدا کر لئے ہیں اور وہ کچھ پایا ہے جو کسی نے نہیں پایا (نیز) جو فی نفسہٖ اپنی ذات میں قبیح تھا وہ حسنِ عارضی کے واسطے سے مستحسن ہو گیا۔ اور انسان کا نفسِ امارہ جو بالذات شرارت کی طرف مائل ہے اس عدم کے ساتھ سب سے زیادہ کامل مناسبت رکھتا ہے، تجلی خاص میں سب سے فائق ہو گیا اور سب پر ترقی کر گیا:

کہ مستحقِ کرامت گنهگار انند

ترجمہ:

کرم کے مستحق بس عاصیاں ہیں

جاننا چاہیے کہ "عارف تام المعرفت" عروج کے مقامات اور نزول کے مراتب کو تفصیل کے ساتھ طے کرنے کے بعد جب عدمِ صرف میں نزول کرتا ہے اور حضرتِ وجود کی آئینہ داری کرتا ہے تو اس وقت اس میں تمام اسمائی و صفاتی کمالات ظہور کرتے ہیں اور تفصیل کے ساتھ وہ تمام لطائف کو ظاہر پاتا ہے کہ جن کا متضمن مقامِ اجمال ہے، اور یہ دولت اس کے علاوہ دوسرے کو میسر نہیں ہے اور یہ آئینہ داری ایک قابلِ فخر عمدہ لباس ہے جو اس قد پر سلا ہوا ہے۔ اگرچہ اس تفصیل نے حضرتِ علم کے خزینہ میں صورت حاصل کر لی ہے لیکن وہ آئینہ داری مرتبہ علم میں ہے اور اس عارف کی آئینہ داری مرتبہ خارج میں ہے جس نے خارج میں تمام کمالات کو ظاہر کیا ہے۔

سوال:

"مرآتیتِ عدم" کے کیا معنی ہیں اور عدم جو کہ محض لا شے ہے اس کو کس اعتبار سے وجود کا آئینہ کہا ہے؟

جواب:

عدم خارج کے اعتبار سے محض لا شے ہے لیکن اس نے علم میں ایک امتیاز پیدا کر لیا ہے بلکہ وجودِ ذہنی ثابت کرنے والوں کے نزدیک اس کو وجودِ علمی بھی حاصل ہو گیا ہے۔ اس کو وجود کا آئینہ اس اعتبار سے کہا ہے کہ عدم کے مرتبہ میں جو کچھ نقص و شرارت ثابت ہو گا وہ وجود سے جو اس کی نقیض ہے لازمی طور پر مسلوب ہو گا اور ہر کمال جو عدم کے مرتبہ میں مسلوب ہو گا وہ حضرتِ وجود میں مثبت ہو گا۔ لہذا لازمی طور پر عدم کمالاتِ وجودی کے ظاہر کرنے کا سبب بن گیا۔ اور آئینہ ہونے کے یہی معنی ہیں اس کے علاوہ اور کوئی معنی نہیں۔ فَافْھَمْ فَاِنَّہٗ یَنْفَعُکَ وَ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ المُلْھِمُ (پس سمجھ لو کیونکہ یہ تمھارے لئے نفع بخش ہے اور اللہ سبحانہٗ الہام کرنے والا ہے)

اے فرزند! یہ معارف جو تحریر میں آئے ہیں امید ہے کہ الہاماتِ رحمانی سے ہوں گے جن میں ہرگز وساوس شیطانی کا شائبہ تک نہیں ہوا، اور اس معنی کی دلیل یہ ہے کہ جب یہ علوم تحریر کئے جارہے تھے تو یہ فقیر خداوند جل سلطانہٗ کے حضور میں ملتجی ہوا اور دیکھا کہ گویا ملائکہ کرام علی نبینا و علیہم الصلوٰۃ و السلام اس مقام کے اطراف سے شیطان کو دفع کرتے ہیں اور اس مکان کے گرد نہیں آنے دیتے۔ وَ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ أَعْلَمُ بِحَقِیقَۃِ الحَالِ (اور اللہ سبحانہٗ ہی حقیقیتِ حال کو خوب جانتا ہے)

اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی بزرگ ترین نعمتوں کے ظاہر کرنے میں بڑی اعلیٰ درجے کی شکر گزاری ہے اس لئے اس نعمتِ عظمیٰ کے اظہار کی جرأت کی ہے۔ امید ہے کہ یہ بات عجب کے گمان سے پاک ہو گی۔ اس میں عجب کی گنجائش کس طرح ہو سکتی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ سبحانہٗ کی عنایت سے اپنا ذاتی نقص اور شرارت ہمہ وقت اپنی آنکھوں کے سامنے ہے اور سب کمالات اللہ تعالیٰ ہی کی طرف منسوب ہیں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ أَوَّلًا وَّ آخِرًا وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ دَائِمًا وَّ سَرْمَدًا وَّ عَلٰی اٰلِہِ الْکِرَامِ وَ أَصْحَابِہِ الْعِظَامِ وَ السَّلَامُ عَلٰی سَائِرِ مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی وَ الْتَزَمَ مُتَابَعَۃَ الْمُصْطَفٰی عَلَیْہِ وَ عَلٰی اٰلِہِ الصَّلَوَاتُ وَ التَّسْلِیْمَاتُ أَتَمُّھَا وَ أَکْمَلُھَا (اول و آخر تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں اور اس کے رسول اور ان کی بزرگ اولاد اور اصحابِ عظام پر ہمیشہ صلوٰۃ و سلام ہو، اور ان سب پر بھی جو ہدایت کے راستے پر چلے اور حضرت محمد مصطفےٰ علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کی متابعت کو لازم پکڑے)

؂1 آپ کے نام پانچ مکتوبات ہیں اور آپ کا تذکرہ دفتر اول مکتوب 181 پر گزر چکا ہے۔

؂2 اس کو مسلم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔ (مشکوٰۃ)

؂3 بعض نے مقولہ کہا ہے اور بعض حدیث۔

؂4 معرب نے کہا کہ بعینہ ان الفاظ سے میں نے روایت نہیں دیکھی۔

؂5 اس حدیث کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ و بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

؂6 اس حدیث کی تخریج سے متعلق مکتوب 197 کا حاشیہ ملاحظہ ہو۔

؂7 بخاری میں "اَلْعُلَمَاءُ وَرَثَۃُ الْأَنْبِیَاءِ" حدیث آئی ہے جس کو ابو داوٗد، ترمذی، ابن حبان اور حاکم نے اپنی صحیحین میں روایت کیا ہے۔