دفتر 1 مکتوب 232: کمینی دنیا کی حقیقت اور اس کی ردّی زیبائش کی برائی میں اور اس کمینی دنیا کی محبت کے دُور کرنے کے علاج میں اور اس کے مناسب بیان میں

دفتر اول مکتوب 232

(عبد الرحیم) خان خاناں؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ کمینی دنیا کی حقیقت اور اس کی ردّی زیبائش کی برائی میں اور اس کمینی دنیا کی محبت کے دُور کرنے کے علاج میں اور اس کے مناسب بیان میں۔

حضرتِ حق سبحانہٗ و تعالیٰ حضرت سید المرسلین علیہ و علیہم و علیٰ آلہ من الصلوات افضلہا و من التسلیمات اکملہا کے طفیل نا پسندیدہ، کمینی دنیا کی حقیقت اور اس کی گھٹیا زیب و زینت اور آرائش کی برائی کو آپ کی نظرِ بصیرت میں آ شکار اور منکشف کر کے آخرت کے حُسن و کمال کو جنّت کے باغات اور نہروں کی تر و تازگی اور ان میں پرور دگار جل سلطانہٗ کے دیدار کی زیادتی جلوہ گر فرمائے تاکہ اس جلد زوال پذیر کمینی دنیا سے بے رغبتی حاصل ہو کر عالمِ بقا کی طرف جو مولائے جل سلطانہٗ کی رضا کا مقام ہے، توجہ میسر آئے۔ جب تک اس کمینی دنیا کی بُرائی واضح نہ ہو گی اس کی گرفتاری سے خلاصی پانا محال ہے، جب تک اس (دنیا کی) گرفتاری سے خلاصی میسر نہ ہو جائے فلاح و نجاتِ اخروی کا حاصل ہونا دشوار ہے: "حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ کُلِّ خَطِیْئَۃٍ"؂2 ترجمہ: ”دنیا کی محبت تمام خطاؤں کی جڑ ہے“ طے شدہ فیصلہ ہے۔ چونکہ علاج بالضد ہوتا ہے اس لئے کمینی دنیا کی محبت دُور کرنے کا علاج آخرت کی نعمتوں کی رغبت دلانے پر اور روشن شریعت کے احکام کے موافق اعمال صالحہ بجا لانے پر وابستہ ہے۔ حضرتِ حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے دنیا کی زندگی کو پانچ، بلکہ چار چیزوں پر منحصر فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد ہے: ﴿أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِينَةٌ وَّ تَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَ الْأَوْلَادِ﴾ (الحدید: 20) ترجمہ: ”اس دنیا والی زندگی کی حقیقت بس یہ ہے کہ وہ نام ہے کھیل کود کا، ظاہری سجاوٹ کا، تمہارے ایک دوسرے پر فخر جتانے کا، اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنے کا“۔ لہٰذا لازمی طور پر جب اعمالِ صالحہ میں مشغول ہوں گے تو اس کا جزوِ اعظم جو لہو و لعب (کھیل اور تماشا) ہے کم ہوتا جائے گا اور ریشمی لباس اور سونے چاندی کے استعمال سے جن پر عمدہ اور اعلیٰ درجے کی زینت کا مدار ہے، پرہیز کرنے لگتا ہے اور اس کا دوسرا جزو جو زینت ہے زوال پذیر ہو جاتا ہے، اور جب یقین ہو جائے کہ خدائے عز و جل کے نزدیک فضیلت و کرامت پرہیز گاری اور تقویٰ پر موقوف ہے نہ کہ حسب و نسب پر، تو وہ فخر سے باز رہتا ہے، اور جب وہ جانتا ہے کہ اموال و اولاد (کی بے جا محبت) حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے ذکر سے مانع ہے اور اس کی پاک و بلند بارگاہ سے روکنے والی ہے تو مجبورًا ان کے حصول کی زیادتی میں کمی کر دیتا ہے بلکہ ان کی زیادتی کو معیوب شمار کرتا ہے، غرض: ﴿مَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَ مَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوْا﴾ (الحشر: 7) ترجمہ: ”اور رسول تمہیں جو کچھ دیں، وہ لے لو، اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاؤ“۔ "کَيْ لَا یَضُرُّکُمْ شَيْءٌ" ترجمہ: ”تاکہ کوئی چیز تم کو ضرر نہ پہنچائے“۔ بیت:

دادیم ترا ز گنجِ مقصود نشاں

گر ما نہ رسیدیم تو شاید برسی

باقی مقصود یہ ہے کہ میاں شیخ عبد المومن بزرگ زادے ہیں، تحصیلِ علوم کی تکمیل کے بعد صوفیہ کے سلوک میں مشغول ہیں اور راہِ سلوک میں عجیب احوال کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ بشری ضرورت جو اہل و عیال کی وجہ سے پیدا ہو گئی ہے ان کو بے اختیار و مضطرب کر رہی ہے۔ یہ فقیر اس بے چینی اور پریشانی کو دُور کرنے کے لئے آپ کی جانب میں اُن کی رہنمائی کرتا ہے۔ "مَنْ دَقَّ بَابَ الکَرِیْمِ یَفْتَحُ" (جس نے کریم کا دورازہ کھٹکھٹایا وہ دروازہ کھول دیتا ہے) و السَّلام

؂1 آپ کے نام 13 مکتوبات ہیں اور آپ کا تذکرہ دفتر اول مکتوب 23 پر گزر چکا ہے۔

؂2 رزین اور بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا۔ (مشکوٰۃ)