دفتر اول مکتوب 225
ملا طاہر لاہوری1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ اس طریقۂ عالیہ کی ابتدا میں وہ احوال میسر ہو جاتے ہیں جو دوسرے (طریقے والوں) کو نہایت (آخر) میں حاصل ہوتے ہیں لیکن ’’اندراجِ نہایت در بدایت‘‘ کے طریق پر جو کہ اس طریقۂ عالیہ کے لوازمات میں سے ہے۔ ابتدا میں ایسے احوال ظاہر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس صاحبِ احوال کو کامل اور مکمل قرار دے دیا جائے اور طریقے سکھانے کی تعلیم کی اجازت دے دی جائے، اور اس کے مناسب بیان میں۔
نَحْمَدُ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی نَبِیِّہٖ وَ نُسَلِّمُ عَلَیْہِ وَ عَلٰی آلِہِ الْکِرَامِ (ہم اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں اور اس کے نبی پر ورود بھیجتے ہیں اور آپ پر اور آپ کی بزرگ اولاد پر سلام سمجھتے ہیں۔ آپ کے پے در پے بھیجے ہوئے گرامی نامے موصول ہوئے اور طالبوں کی گرما گرمی اور ان کا ذوق و شوق اور جمعیت کا حال معلوم ہو کر خوشی پر خوشی حاصل ہوئی۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ چونکہ اس طریقے کی ابتدا ہی میں اس کی انتہا درج ہے لہٰذا اس طریقۂ عالیہ کے مبتدیوں کو شروع میں اس قسم کے احوال ظاہر ہوتے ہیں جن پر منتہی حضرات کے احوال کا شبہ ہوتا ہے۔ اس حیثیت سے دونوں قسم کے احوال کے درمیان سوائے اس عارف کے جس کی نظرِ بصیرت تیز ہو کوئی فرق محسوس نہیں کر سکتا۔ پس محض اعتماد کرتے ہوئے ان احوال پر جو احوال انہوں نے حاصل کر لئے ہیں ان کو طریقہ سکھانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے کیونکہ ایسی صورت میں اس صاحبِ احوال کا نقصان اس کے طالبوں کے نقصان سے زیادہ ہے۔ (اور اس بات کا) احتمال ہے کہ اس کا اپنے خیال کے مطابق کامل ہونا اس کی ترقی کو روک دے گا اور بہت ممکن ہے جاہ و مرتبہ جو ’’مقامِ ارشاد‘‘ کے لوازمات سے ہے، اس کو کسی مصیبت میں گرفتار کر دے کیونکہ اس کا نفسِ امارہ ابھی تک اپنے کفر پر قائم ہے اور اس کا تزکیہ نہیں ہوا ہے۔ خیر جو کچھ ہوا سو ہوا، جس جماعت کو آپ نے اجازت دی ہے اس کو نرمی اور محبت سے سمجھائیں کہ اس طرح کی اجازت کمال پر منحصر نہیں ہے، ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔ اس قسم کے احوال جو شروع میں ظاہر ہوتے ہیں ’’اندراجِ نہایت در بدایت‘‘ (ابتدا میں انتہا درج ہونے) کی قسم سے ہیں۔ نیز اور مناسب نصیحتیں جو ان کے مناسب حال ہوں اختیار کریں اور ان کے نقائص سے ان کو مطلع کرتے رہیں۔ اب چونکہ آپ نے ان کو اجازت دے دی ہے اس لئے طریقے کی تعلیم سے ان کو منع نہ کریں۔ ممکن ہے کہ آپ کی توجہ کی برکت سے ’’مقامِ ارشاد‘‘ کی حقیقت تک پہنچ جائیں۔ دوسرے یہ کہ جب آپ نے اس عظیم القدر کام کو شروع کر دیا ہے تو مبارک ہو۔ اس کام میں بڑی سعی و کوشش کریں اور سر گرم رہیں تاکہ طالبوں کی زیادہ سے زیادہ ترقی کا باعث ہو۔ و السلام
1 آپ کے نام تین مکتوبات ہیں: دفتر اول مکتوب 225، 227، 255۔ آپ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے خلفاء میں سے ہیں۔ حافظ قرآن تھے اور ظاہری علوم میں کمال حاصل تھا۔ آپ نے بعجز و انکسار اور ذلت و افتقار کے ساتھ سالہا سال حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے درِ دولت پر گزارے اور حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے صاحب زادوں کی تعلیم و تدریس میں نہایت کوشش و سعئ بلیغ فرماتے تھے۔ چنانچہ مخدوم زادے فرمایا کرتے تھے: " حضرت شیخ طاہر کے حقوق ہمارے اوپر اس قدر ہیں کہ ہم کسی طرح بھی ان کے شکریہ سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے۔ اللہ تعالی ان کو جزائے خیر عطا فرمائے"۔ اہلِ پنجاب آپ کو "طاہر بندگی" کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ سنہ 984ھ میں ولادت اور چھپن سال کی عمر میں بروز پنج شنبہ بوقت چاشت 20 محرم الحرام سنہ 1040ھ بمطابق 1630ء کو وفات پائی۔ لاہور میں آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔