دفتر اول مکتوب 224
میر محمد نعمان بدخشی1 کی طرف صادر فرمایا۔ آداب کی رعایت کے بیان میں اور آزار کے گمان کو دُور کرنے میں کہ جس کا وہم ظاہر کیا تھا اور احتیاط کا امر کرنے میں اور تعلیمِ طریقت کی تاکید کے بارے میں، اور فقر و تنگ دستی کی سختی و نا مرادی کو برداشت کرنے میں اور بعض نصائح و تنبیہات کے بیان میں جو ملا یار محمد قدیم کے مکتوب کی پشت پر لکھی تھیں۔
میرے سعادت مند بھائی، سیادت پناہ میر محمد نعمان کا مکتوب شریف موصول ہوا۔ اُن مقدمات کا مضمون جو آپ نے ترتیب دیا تھا اور ان شکوک کا مطلب جو آپ نے لکھا تھا واضح ہوا۔ بعض لوگ آپ کو ’’اعقلِ زماں‘‘ (زمانے کا عقل مند) کہتے ہیں۔ اس قسم کی باتوں کو درمیان میں لانا، اس شخص کے ساتھ جس سے مفر نہ ہو، کیا مناسب ہے، جب کہ اس سے قطع تعلق نہیں کر سکتے اور نہ جدائی اختیار کر سکتے ہیں۔ با وجود اس کے آپ یہ خیال نہ کریں کہ اس قسم کی باتوں سے فقیر کے دل میں کسی قسم کا غبار آیا ہو جس کا نتیجہ آزار ہو سکے چہ جائے کہ نا راضگی کی نوبت پہنچے۔ آپ کی خوبیاں (ہماری) نظر میں ہیں اور آپ کی لغزشیں اعتبار سے ساقط ہیں۔ کسی طرح بھی اپنے دل کو پریشان نہ کریں اور کسی وجہ سے بھی ہماری طرف سے نا راضگی کا تصور نہ کریں کیونکہ کسی وجہ سے بھی آزار واقع نہیں ہے (یعنی ہم قطعًا ناراض نہیں ہیں) اور نا راضگی کیوں تصور کی جائے جب کہ نا راضگی کی وجہ ہی نہیں ہے۔ وہ امور جو بشریت کے تقاضے کی بنا پر سہو و نسیان کی وجہ سے واقع ہو جائیں وہ قابلِ مواخذہ نہیں ہیں۔ آزار (نا راضگی) کا وہم دل سے دُور کر کے طریقے کی تعلیم اور طلبا کے افادے میں سر گرم رہیں اور استخارے کا حکم اس امر کی تاکید کے لئے ہے نہ کہ اس امر کی نفی کے لئے کیونکہ جب شیطانِ لعین اور نفسِ بد ترین اس مسکین کی گھات میں لگے ہوئے ہیں تو احتیاط اور تاکید کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، کہیں مکر و حیلہ سے سیدھی راہ سے ہٹا دیں اور اپنی فریب کاریوں اور ڈھکوسلوں سے بری باتوں کو حسنات کی صورت میں ظاہر کریں۔
اور بزرگوں نے فرمایا ہے کہ دشمنِ لعین (شیطان) جب طاعت و نصیحت کے راستے سے (انسان میں) داخل ہوتا ہے تو اس کا دفع کرنا بہت دشوار ہو جاتا ہے، لہٰذا ہمیشہ التجا و زاری کرتے رہنا چاہیے، اور حق سبحانہٗ و تعالیٰ سے شکستگی کے ساتھ طلب کرنی چاہیے تاکہ اس راہ (طاعت و نصیحت) سے اس کو خرابی نہ پہنچے اور اس کا استدراج مطلوب نہ ہو۔ استقامت کا راستہ یہی ہے جو سعادتِ ابدی کی طرف رہنمائی کرے۔
دوسری (نصیحت) یہ ہے کہ اس گروہ کا جمال فقر و نا مرادی میں ہے اور اس میں حضرت سید کونین علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کی پیروی ہے۔ حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ اپنے کمالِ کرم سے اپنے بندوں کے رزق کا خود کفیل (ذمہ دار) ہے اور ہم کو اور آپ کو اس فکر و تردد سے فارغ کر دیا ہے۔ جس قدر اشخاص زیادہ ہوں گے اسی قدر رزق بھی زیادہ ہو گا۔ آپ اپنی ہمت کو جمع کر کے حق تعالیٰ و تقدس کی مرضیات حاصل کرنے میں متوجہ رہیں اور اپنے متعلقین کے غم کو حق سبحانہٗ کے کرم کے حوالے کر دیں۔ وَ البَاقِیْ عِنْدَ التَّلَاقِیْ (باقی بوقتِ ملاقات)
بعض دوست جو اُس طرف سے آئے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ ’’میر صاحب کے دل میں ابھی تک آزار کا وہم بیٹھا ہوا ہے‘‘ اس وجہ سے تاکید اور مبالغے کے ساتھ تحریر کیا جاتا ہے کہ ’’آزار کا وہم دُور کر دیں‘‘۔
دوسری بات یہ کہ جو مکتوب ملا یار محمد قدیم کو تحریر کیا گیا تھا اور اس میں نصائح و مواعظ درج تھے، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس مکتوب کے مضمون کو اُن کی طبیعت نے قبول نہیں کیا کیونکہ انہوں نے اس کا جواب نہیں دیا، اور دعا سلام سے بھی اپنے آپ کو معاف رکھا۔ ان کی طبیعت نے اس کو قبول نہیں کیا، نہ کرے۔ وہ لوگ جو اس حقیر کے ساتھ نسبت رکھتے ہیں اگر ان کے غلط گمان اور خطاؤں کے مواد کو ان پر ظاہر نہ کروں اور حق کو باطل سے جدا نہ کروں تو اپنے فرائضِ منصبی سے کس طرح عہدہ برآ ہو سکتا ہوں اور آخرت میں کیا منہ دکھاؤں گا۔ آپ اُس سے یہ بات کہہ دیں
من آنچہ شرطِ بلاغ است با تو می گویم
تو خواہ از سخنم پند گیر و خواہ ملال
ترجمہ:
جو حق کہنے کا ہے کہتا ہوں تم سے نصیحت اس سے پکڑو یا نہ پکڑو
(ملا یار محمد کو) جاننا چاہیے کہ شیخ بننے اور حق جل و علا کی طرف مخلوق کو دعوت دینے کا مقام بہت ہی عالی ہے: "اَلشَیْخُ فِیْ قَوْمِہٖ کَالنَّبِیِّ فِیْ أُمَّتِہٖ"2 (شیخ ( کی حیثیت) اپنی قوم میں ایسی ہے جیسی نبی کی اپنی امت میں) آپ نے سنا ہو گا۔ ہر بے سر و سامان کو اس عالی مقام سے کیا نسبت ہو سکتی ہے
ہر گدائے مردِ میداں کَے شود
پشۂ آخر سلیماں کَے شود
ترجمہ:
ہر گدا کب مردِ میداں بن سکے؟
کب کوئی مچھر سلیماں بن سکے
احوال و مقامات کا مفصل علم حاصل ہونا اور مشاہدات و تجلیات کی حقیقت کی معرفت او کشف و الہامات کا حاصل ہونا اور واقعات کی تعبیرات کا ظاہر ہونا اس عالی مقام کے لوازمات میں سے ہے وَ بِدُونُھا خَرْطُ الْقَتَادِ (اس کے علاوہ کانٹوں میں ہاتھ ڈالنا ہے)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اکابرِ طریقت قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم اپنے بعض مریدوں کو مقامِ شیخی تک پہنچے سے پہلے کسی مصلحت کے پیشِ نظر ایک طرح کی اجازت دے دیتے ہیں اور ایک لحاظ سے تجویز فرماتے ہیں کہ وہ طالبوں کو طریقت کی تعلیم دیں اور ان کے احوال و واقعات سے مطلع رہیں۔ اس طرح کی تجویز میں شیخِ مقتدا پر لازم ہے کہ ان ’’مریدان مجاز‘‘ (اجازت یافتہ مریدوں) کو اس کام میں بڑی احتیاط سے کام کرنے کا حکم کریں اور تاکید کے ساتھ غلط مقامات کی نشان دہی کریں اور بار بار ان کے نقص کی اطلاع دیتے رہیں اور مبالغے کے ساتھ ان کے ناقص ہونے کو ظاہر کریں۔ اس صورت میں اگر شیخ اظہارِ حق میں سستی کرے گا تو یہ خیانت ہو گی اور اگر مرید کو یہ بات پسند نہ آئے تو وہ بد نصیب ہے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ حق جل و علا کی رضا مندی شیخ کی رضا مندی سے وابستہ ہے اور حق تعالیٰ کا غضب شیخ کے غضب پر موقوف ہے۔ اس پر کیا مصیبت ہے کہ وہ نہیں سمجھتا کہ ہم سے قطع تعلق کرنا اس کو کہاں تک پہنچا دے گا، اگر ہم سے قطع کرے گا تو اس کو کون ملا دے گا۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی پناہ! اگر اس قسم کے خیالات اس کے دل میں آئیں تو فورًا تو بہ کرے اور استغفار کرے اور حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی درگاہ میں التجا و زاری کرے کہ وہ اس بڑی مصیبت (شیخ سے اعراض) میں اس کو مبتلا نہ کرے اور اس خطرناک بلا و آزمائش میں اس کو گرفتار نہ کرے۔
اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ دوستوں کی اس لا پرواہی اور اضطراب سے کسی قسم کا غبار اور آزار اس (فقیر) کے دل میں داخل نہیں ہوا، اس وجہ سے امید وار ہے کہ تمام کاموں کا انجام بخیر ہو گا۔ باقی احوال و اوضاع سعادت مند بھائی مولانا محمد صالح تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے اور بعض شبہات کے مقامات کو اُن سے دریافت کر لیں۔
اور سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت کا راستہ اختیار کیا اور حضرت محمد مصطفےٰ علیہ و علیٰ آلہ الصلوات و التسلیمات اتمہا و اکملہا کی متابعت کو لازم جانا۔
1 میر محمد نعمان کے نام 33 مکتوبات ہیں اور آپ کا تذکرہ دفتر اول مکتوب 119 پر درج ہے۔
2 امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے "الدرر المنتثرۃ" میں فرمایا کہ اس کو دیلمی نے ابو رافع کی حدیث سے سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ (امام سیوطی) نے اس کو اپنی "الجامع الصغیر" میں "اَلشَیْخُ فِیْ أَھْلِہٖ کَالنَّبِیِّ فِیْ أُمَّتِہٖ" کے الفاظ سے ذکر کیا ہے اور اس کی نسبت خلیل کی طرف کی ہے۔ ابن نجار نے ابو رافع سے "اَلشَیْخُ فِیْ بَیْتِہٖ کَالنَّبِیِّ فِیْ قَوْمِہٖ" کے الفاظ سے بیان کیا ہے اور اس کو ابن حبان کی طرف "الضعفاء" میں منسوب کیا ہے۔ سیوطی نے بھی اس کو ضعیف کہہ کر رد کر دیا ہے لیکن اس کے معنی کی حدیث: "اَلْعُلَمَاءُ وَرَثَۃُ الْأَنْبِیَاءِ" اور "عُلَمَاءُ أُمَّتِيْ کَأَنْبِیَاءِ بَنِيْ إِسْرَائِیْلَ" تائید کرتی ہے۔