دفتر 1 مکتوب 222: احوال کی خرابی کے بیان میں اور دیدِ قصور (اپنے قصور کو دیکھنا) اور اپنی حسنات کو متہم سمجھنا، ولایت کے کمالات کے ساتھ اس دیدِ قصور کا جمع ہونا ہے بلکہ یہ مشاہدہ ان کمالات ہی کا اثر ہے اور اس کے مناسب بیان میں

دفتر اول مکتوب 222

خواجہ محمد اشرف کابلی؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ احوال کی خرابی کے بیان میں اور دیدِ قصور (اپنے قصور کو دیکھنا) اور اپنی حسنات کو متہم سمجھنا، ولایت کے کمالات کے ساتھ اس دیدِ قصور کا جمع ہونا ہے بلکہ یہ مشاہدہ ان کمالات ہی کا اثر ہے اور اس کے مناسب بیان میں۔

اَللّٰھُمِّ وَفِّقْنَا لِمَرْضَاتِکَ وَ ثَبَّتَنَا عَلٰی طَاعَتِکَ بِحُرْمَۃِ سَیِّدِ الْأَوَّلِیْنَ وَ الْآخَرِیْنَ عَلَیْہِ وَ عَلٰی آلِہِ الصَّلَوَاتُ و التَّسلِیْمَاتُ (بارِ الٰہا! تو ہم کو اپنی مرضیات کی توفیق عطا فرما اور حضرت سید الاولین و الآخرین علیہ و علٰی آلہ الصلوات و التسلیمات کے طفیل اپنی طاعت پر ثابت قدم رکھ۔ آمین)

ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ مریدِ صادق وہ ہے کہ ”بیس سال کی مدت میں بھی اس کا کاتبِ شمال (بائیں جانب کا نامۂ اعمال لکھنے والا فرشتہ) کچھ نہ لکھنے پائے“۔ لیکن یہ فقیر پُر تقصیر اپنے ذوق و وجدان سے اپنے حق میں یہ بات پاتا ہے کہ کاتبِ یمین(دائیں جانب کا نیک اعمال لکھنے والا فرشتہ) معلوم نہیں ہوتا کہ بیس سال کی مدت میں کوئی نیکی میرے اعمال میں درج کر سکا ہو۔ خداوند جل سلطانہٗ جانتا ہے کہ میں نے یہ بات تصنع و تکلف کے ساتھ نہیں کہی بلکہ ذوق کے طور پر پاتا ہے کہ "کافرِ فرنگ" اس سے کئی درجہ بہتر ہے اور اگر اس کی وجہ دریافت کریں تو بندہ جواب سے عاجز نہیں ہے، اور نیز بطریقِ ذوق اپنے آپ کو خطاؤں سے گھرا ہوا جانتا ہے اور گناہوں سے بھرا ہوا سمجھتا ہے اور وہ نیکیاں جو وجود میں آ جاتی ہیں تو کاتبِ شمال کو ان کے لکھنے کا زیادہ سزا وار دیکھتا ہے اور جانتا ہے کہ اس کا کاتبِ شمال ہمیشہ اپنے کام میں مصروف ہے اور کاتبِ یمین معطل و بے کار ہے۔ (یہ فقیر) دائیں طرف کے اعمال نامے کے اوراق کو خالی اور سفید دیکھتا ہے، اور بائیں طرف کے نامۂ اعمال کے اوراق کو سیاہی سے بھرا ہوا دیکھتا ہے۔ اس کی رحمت کے علاوہ کوئی امید نہیں اور سوائے مغفرت کے اور کوئی وسیلہ نہیں: اَللّٰهُمَّ مَغْفِرَتُكَ أَوْسَعُ مِنْ ذُنُوْبِيْ وَ رَحْمَتُكَ أَرْجٰى عِنْدِيْ مِنْ عَمَليْ (یا اللہ! تیری بخشش میرے گناہوں سے زیادہ وسیع ہے اور مجھے اپنے عمل کی نسبت تیری رحمت سے زیادہ امید ہے) یہ دعا اس عاجز کے حال کے موافق ہے۔

عجب معاملہ ہے کہ فیوض وارداتِ الہٰی جل سلطانہٗ جو متواتر کمال و تکمیل کے درجات میں وارد ہیں وہ بھی اس دیدِ قصور (اپنے حسنات کو قصور وار دیکھنے) کی تائید کرتے ہیں اور اس عیب بینی کو تقویت دیتے ہیں اور بجائے عجب (خود بینی) کے منقصت (نقص و کمی) کو زیادہ کرتے ہیں اور رفعت و تکبّر کی بجائے تواضع و فروتنی کی راہ کھولتے ہیں اور آنِ واحد میں کمالاتِ ولایت سے بھی مشرف اور دیدِ قصور سے بھی متصف ہے۔ یہ فقیر جس قدر بلند جاتا ہے اسی قدر زیادہ نیچے اپنے آپ کو دیکھتا ہے بلکہ بلندی پر جانا (عروج حاصل کرنا) اپنے آپ کو کم تر دیکھنے کا سبب ہوا ہے۔ عقل مند لوگ اس بات کو یقین کریں یا نہ کریں، اگر اس بات کا راز معلوم کر لیں تو شاید یقین آ جائے۔

سوال:

ان دونوں متنافی(متضاد) چیزوں کے جمع ہونے کا کیا راز ہے؟ اور ایک متنافی کا وجود دوسرے متنافی کے وجود کا کیسے سبب ہو سکتا ہے؟

جواب:

دونوں متنافیوں کا جمع ہونا اس شرط پر محال ہے جب کہ دونوں کا محل ایک ہو اور جس بارے میں ہم گفتگو کر رہے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ اس کے محل متعدد ہیں۔ انسانِ کامل سے اوپر جانے والے اس کے عالمِ امر کے لطائف ہیں اور نیچے آنے والے عالمِ خلق کے لطائف۔ عالمِ امر کے لطائف جس قدر بلند و بالا جاتے ہیں اسی قدر عالمِ خلق سے مناسبت ختم ہو جاتی ہے اور یہی بے مناسبتی عالمِ خلق کے نیچے ہونے کا سبب ہے اور عالمِ خلق جس قدر زیادہ نیچے آتا ہے اسی قدر سالک کو بے حلاوت (بے مزہ) کر دیتا ہے اور اس کے عیوب و نقائص کی دید زیادہ معلوم ہونے لگتی ہے- یہی وجہ ہے کہ منتہی مرجوع اس لذت و حلاوت کی آرزو کرتے ہیں جو کہ ان کو ابتدا میں میسر ہوئی تھی اور انتہا میں ہاتھ سے جاتی رہی اور اس جگہ بے مزگی پیدا ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ عارف اپنے آپ سے کافر فرنگ کو بہتر جانتا ہے، کیونکہ کافر میں اس کے عالمِ امر اور عالمِ خلق کے اختلاط کی وجہ سے ایک نورانیت ہے اور عارف میں یہ امتزاجی کیفیت ختم ہو گئی ہے۔ عالمِ خلق تنہا جس کے باعث عارف سے "انا" سر زد ہوتی ہے، وہ جدا ہو گئی ہے جو سرا سر ظلمت و کدورت سے بھری ہوئی ہے اور عالمِ امر کے لطائف خواہ کتنے ہی نیچے آ جائیں عالمِ خلق سے کوئی اختلاط نہیں رکھتے اور کچھ بھی امتزاج حاصل نہیں کرتے جیسا کہ ابتدا میں رکھتے تھے۔

وہ مکتوب جو برادرمِ خواجہ محمد طاہر کے بدست آپ نے ارسال کیا تھا، موصول ہوا۔ رابطے (تصورِ شیخ) کا حاصل ہونا جو پوری مناسبت پر مبنی ہے، غیبت (غیر حاضری) کے زمانے میں عظیم نعمتوں میں سے خیال کریں اور جب تک موانعات دور نہ ہو جائیں دلوں کے قرب پر اکتفا کریں اور اس قرب کے با وجود "قربِ ابدان" (جسمانی قرب) کی خواہش کو ہاتھ سے نہ دیں کیونکہ تمام نعمت اسی قرب سے وابستہ ہے۔

حضرت اویس قرنی با وجود قربِ قلبی کے جسمانی قرب نہیں رکھتے تھے لہذا اس گروہ کے کم ترین قرب والوں کے درجے کو نہ پہنچے، چنانچہ سونے کا پہاڑ خرچ کرنا ان کے ایک سیر جو کے برابر نہیں ہو سکتا۔ پس صحبت کے برابر کوئی چیز نہیں ہے۔

والسلام

؂1 مکتوبات شریفہ میں آپ کے نام دس مکتوبات ہیں اور آپ کا تذکرہ دفتر اول مکتوب 131 کے فٹ نوٹ میں ملاحظہ ہو۔