دفتر 1 مکتوب 221: طریقۂ عالیہ نقشبندیہ کے خصائص و کمالات کے بیان میں یعنی اس طریقے کی افضلیت اور دوسروں کی انتہا اس کی ابتدا میں درج ہونے اور اس طریق کی انتہا کے بیان میں اور سفر در وطن، خلوت در انجمن اور سلوک پر جذبے کے مقدم ہونے اور عالمِ امر سے سیر کی ابتدا ہونے کے بیان میں

دفتر اول مکتوب 221

سید حسین مانک پوری؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ طریقۂ عالیہ نقشبندیہ کے خصائص و کمالات کے بیان میں یعنی اس طریقے کی افضلیت اور دوسروں کی انتہا اس کی ابتدا میں درج ہونے اور اس طریق کی انتہا کے بیان میں اور سفر در وطن، خلوت در انجمن اور سلوک پر جذبے کے مقدم ہونے اور عالمِ امر سے سیر کی ابتدا ہونے کے بیان میں اور یہ کہ یہ طریقہ موصل (وصول الی اللہ) کے طریقوں میں سب سے قریب ترین ہے اور اس طریقے کی ابتدا میں حلاوت و وجدان ہے اور انتہا میں بے مزگی اور فقدان ہے جو نا امیدی کے لوازمات سے ہے اور ایسے ہی اس طریقے کی ابتدا میں قرب و شہود ہے اور انتہا میں بعد و حرمان۔ (نیز) اس طریقۂ عالیہ کے اکابرین نے احوال و مواجید کو احکامِ شرعیہ کے تابع کیا ہے اور اذواق و معارف کو علومِ دینیہ کا خادم قرار دیا ہے اور اس طریقہ میں پیری و مریدی طریقت کی تعلیم و تعلم (سیکھنے سکھانے) سے ہے نہ کہ کلاہ و شجرہ سے اور اس طریق میں نفسِ امارہ کے ساتھ ریاضات اور مجاہدات احکامِ شرعیہ کو بجا لانا اور سنت سنیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ و السلام و التحیۃ کی متابعت کو لازم کرنا ہے اور اس طریق میں نفسِ امارہ کے ساتھ ریاضیات اور مجاہدات احکام شریعہ کو بجا لانا اور سنتِ سنیہ علی صاحبہا الصلوۃ و السلام کی متابعت کرنا لازم ہے اور اس طریق میں طالب کا سلوک شیخ مقتدا کے تصرف پر منحصر ہے اور اس سلسلے کے بزرگ جس طرح نسبت عطا کرنے میں کامل طاقت رکھتے ہیں اسی طرح اس نسبت کو سلب کرنے میں بھی پوری قدرت رکھتے ہیں اور اس طریق میں زیادہ فائدہ اور استفادہ سکوت میں ہے اور سکوت اس طریق کے لوازم میں سے ہے اور اس کے مناسب بیان میں۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَ عَلٰی اٰلِہٖ وَ أَصْحَابِہٖ وَ عَلَیۡہِمۡ أَجْمَعِیْنَ (سب تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے اور صلوۃ و سلام ہو حضرت سید المرسلین اور آپ کی تمام پاک اولاد پر) میرے عزیز بھائی سیادت پناہ میر سید حسین نے دور پڑے ہوؤں کو فراموش نہ کیا ہو گا، اور اس طریقۂ عالیہ کے آداب کی رعایت کو جو مشائخِ کرام کے تمام طریقوں سے بعض وجوہ کی بنا پر ممتاز ہے، ہاتھ سے نہ چھوڑا ہو گا (اور اس پر کار بند ہوں گے) کیونکہ آپ کو ملاقات کی فرصت بہت کم حاصل ہوئی ہے، اس حقیقت کا لحاظ رکھتے ہوئے (یہ فقیر) اس طریقۂ عالیہ کے بعض کمالات و خصوصیات کو علومِ بلند اور معارفِ ارجمند کے ضمن میں تحریر کرتا ہے۔ اگرچہ (یہ درویش) جانتا ہے کہ اس قسم کے علوم و معارف کا سمجھنا بالفعل سننے والوں کے اذہان سے بعید ہے لیکن ایسے معارف کا اظہار دو وجہ سے (ضروری) ہے، ایک یہ کہ سننے والا (یعنی سید حسین مانک پوری) ان علوم کی استعداد رکھتا ہے اگرچہ بالفعل (فوری طور پر) وہ دور از کار معلوم ہوتے ہیں، دوم یہ کہ اگرچہ ظاہری طور پر مخاطب معین (مخصوص) ہے لیکن حقیقت میں ہر وہ شخص مخاطب ہے جو اس معاملے کا راز دار ہے "اَلسَّيْفُ للِضَّارِبِ" (تلوار صاحبِ استعمال کے لئے زیبا ہے) مثل مشہور ہے۔

اے بھائی! اس روشن طریقے کے حلقے کے سردار حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں کہ انبیا علیہم الصلوات و التسلیمات کے بعد بالتحقیق تمام بنی آدم سے افضل ہیں اور اسی اعتبار سے یہ طریقہ اکابر کی عبارتوں میں آیا ہے کہ ہماری نسبت دوسری تمام نسبتوں سے بڑھ کر ہے، کیونکہ ان کی نسبت جس سے مراد خاص حضور و آگاہی ہے بعینہٖ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت اور حضور ہے جو تمام آگاہیوں پر بر تری رکھتی ہے اور اس طریق میں (دوسروں کی) نہایت اس کی ابتدا میں مندرج ہے۔ (جیسا کہ) حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہٗ فرماتے ہیں: "ما نہایت را در بدایت درج می کنیم" (ہم انتہا کو ابتدا میں درج کرتے ہیں)

قیاس کن ز گلستانِ من بہار مرا

ترجمہ:

مری بہار کا اندازہ گلستان سے کر

اگر کوئی پوچھے کہ جب دوسروں کی انتہا ان کی ابتدا میں مندرج ہے تو ان کی انتہا کیا ہو گی اور اسی طرح جب دوسروں کی انتہا یقینًا حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا وصول ہے تو پھر ان کو حق سے آگے کہاں کی سیر میسر ہو گی۔ "لَيْسَ وَرَآءَ عُبَّادَانَ قَرْيَةٌ" (جزیرۂ عبادان کے بعد کوئی آبادی نہیں ہے) مثل مشہور ہے۔

ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ اس طریقۂ عالیہ کی نہایت اگر میسر ہو جائے تو وہ وصلِ عریاں (واضح مشاہدہ) ہے کہ اس کے حاصل ہونے کی علامت مطلوب کے حصول کی یاس کا حاصل ہونا ہے۔ ''فَافْھَمْ فَإِنَّ کَلَامَنَا إِشَارَۃٌ لَّا یُدْرِکُھا إِلَّا الاَقَلُّ مِنَ الخَوَاصِّ بَلْ مِنْ أَخَصِّ الخَوَاصِّ'' (لہذا اس سے سمجھ لیں کہ ہمارے کلام میں وہ اشارے ہیں جن کو خواص بلکہ اخص الخواص میں سے بھی بہت کم سمجھنے والے ہیں)

اس دولتِ عظمیٰ کے حاصل ہونے کی علامت کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ اس گروہ میں سے ایک جماعت نے وصلِ عریاں کا دعویٰ کیا ہے اور دوسری جماعت مطلوب کے حصول کی نا امیدی کی قائل ہو گئی ہے لیکن اگر ان دونوں دولتوں کو ان پر پیش کر دیا جائے تو نزدیک ہے کہ اجتماعِ ضدین خیال کریں اور ان کو محالات (نا ممکنات) کی قسم سے جانیں۔ ایک گروہ جو وصل کا دعوے دار ہے اور یاس (نا امیدی) کو حرمان (محرومی) جانتا ہے اور وہ جماعت جو یاس کی مدعی ہے وہ وصل کو عین فصل(جدائی) خیال کرتی ہے، یہ سب کچھ اس بلند منزل تک نا رسائی کی علامت ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس عالی مقام کا ایک پَرتَو ان کے باطن پر چمکا ہے جس کو ایک گروہ نے وصل خیال کر لیا ہے اور دوسرا گروہ اس کو یاس سمجھتا ہے اور یہ فرق ایک دوسرے کی استعداد کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک گروہ کی استعداد کے مناسب وصل ہے اور دوسرے کی استعداد کے موافق یاس ہے۔ اس حقیر کے نزدیک وصل کی استعداد سے یاس کی استعداد زیادہ بہتر ہے۔ اگرچہ اس مقام پر وصل اور یاس ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ اس جواب سے دوسرے اعتراض کا جواب بھی روشن ہو گیا کہ وصلِ مطلق اور چیز ہے اور وصلِ عریاں اور۔ شَتَّانَ ما بَيْنَهُمَا (ان دونوں میں بڑا فرق ہے) وصلِ عریاں سے ہماری مراد یہ ہے کہ تمام حجابات اٹھ جائیں اور تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں اور چونکہ مختلف قسم کی تجلیات اور طرح طرح کے ظہورات بہت بڑے اور قوی حجابات ہیں اس لئے ان سب تجلیات اور ظہورات سے گزر جانا اور آگے بڑھنا ضروری ہے خواہ یہ تجلی و ظہور امکانی آئینوں میں ہوں یا مظاہرِ وجوبیہ میں کیونکہ یہ دونوں نفس حجابات حاصل ہونے میں برابر ہیں، اور اگر کچھ فرق ہے تو صرف شرافت و رتبے کا ہے اور وہ طالب کی نظر سے خارج ہے۔

اگر پوچھیں کہ اس بیان سے یہ بات لازم آتی ہے کہ تجلیات کی نہایت ہے، حالانکہ مشائخِ طریقت نے تصریح کی ہے کہ تجلیات کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تجلیات کا بے نہایت ہونا اس لحاظ سے ہے کہ اسماء و صفات میں تفصیل سے سیر واقع ہو (لیکن) اس تقدیر پر حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کا وصول میسر نہیں ہے اور نہ ہی وصلِ عریاں حاصل ہے بلکہ حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کا وصول اجمال کے طریقے پر اسماء و صفات کے طے کرنے پر منحصر ہے، اس وجہ سے تجلیات کی نہایت ہو گی۔ اگر کہا جائے کہ تجلیاتِ ذات کو بھی بے نہایت کہا گیا ہے جیسا کہ حضرت مولوی جامی قدس سرہٗ نے شرح لمعات میں اس کی تصریح کی ہے تو تجلیات کو محدود کرنا کس وجہ سے درست ہے؟ تو جواب میں ہم کہتے ہیں کہ وہ تجلیاتِ ذاتیہ بھی شیون و اعتبارات کے ملاحظے کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔ اور ہم جو کچھ بیان کررہے ہیں وہ ایک ایسا امر ہے جو تجلیات صفاتی سے ما وراء ہے، خواہ وہ تجلیات ذاتی ہوں یا صفاتی۔ کیونکہ اس مقام میں تجلی کا اطلاق جائز نہیں ہو گا خواہ کوئی تجلی ہو اس لئے کہ تجلی سے شے کا ظہور مراد ہے جو دوسرے یا تیسرے یا چوتھے مرتبے میں ہو، جہاں تک اللہ تعالیٰ چاہے (مشاہدہ کرائے) اور یہاں پر تمام مراتب ساقط ہو گئے اور تمام مسافت طے ہو چکی۔

اگر یہ پوچھا جائے کہ ان تجلیات کو تجلیاتِ ذاتی کس اعتبار سے کہا جاتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اگر وہ تجلیات (اصولِ ذات میں) معانی زائدہ (تجلیات ذاتی کے علاوہ) کے ملاحظے سے ہیں تو وہ تجلیاتِ صفات ہیں اور اگر غیر زائدہ معانی کے ملاحظے سے ہیں تو وہ تجلیاتِ ذات ہیں لہذا وحدت کا ظہور جو تعینِ اول ہے اور حق تعالیٰ کی ذات پر زائد نہیں ہے اس لئے بزرگوں نے اس کو تجلیٔ ذات کہا ہے اور ہمارا مطلب حضرت ذات تعالیٰ و تقدس ہے جہاں معانی کے ملاحظے کی ہرگز گنجائش نہیں ہے خواہ وہ معانی زائد ہوں یا غیر زائد۔ کیونکہ تمام معانی بطریقِ اجمال طے ہو کر حضرت ذات تعالیٰ و تقدس تک وصول میسر ہوا ہے۔

اور جاننا چاہیے کہ وصل اس مقام پر مطلب کے زنگ میں بے چون و بے چگونہ ہے، اور وہ اتصال جس کو عقل و فہم سمجھ سکے، بحث سے خارج ہے اور اس جنابِ قدس کے شایاں نہیں ہے کیونکہ چون کو بے چون کی طرف کوئی راہ نہیں ہے۔ لَا تَحْمِلُ عَطَایَا الْمَلِکُ اِلَّا مَطَایَاہُ (بادشاہ کے عطیات کو اس کی سواریاں ہی اٹھا سکتی ہیں)

اتصالِ بے تکیف بے قیاس

ہست رب الناس رابا جانِ ناس

ترجمہ:

رب انساں سے اتصالِ بشر

کیفیت اس کی کیا ہے؟ کس کو خبر؟

اس طریقۂ عالیہ کے مشائخ میں سے کسی نے بھی اپنے طریقے کی انتہا کی خبر نہیں دی بلکہ اپنے طریقے کی ابتدا کی نسبت کہا ہے کہ نہایت کا بھی اسی میں اندراج ہے۔ جب ان کی ابتدا میں دوسروں کی انتہا ملی ہوئی ہے تو ان کی انتہا کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس کی ابتدا کے مناسب ہو۔ اور یہ وہی چیز ہے جس کا اظہار کر کے اس فقیر نے (حق تعالیٰ کی عنایت سے) امتیاز حاصل کیا ہے۔

اگر بادشہ بر درِ پیر زن

تو اے خواجہ سبلت مکن

ترجمہ:

اگر بادشہ آئے بڑھیا کے گھر

تو اے خواجہ ہرگز تعجب نہ کر

لِلّٰہِ سُبْحَانَہُ الحَمْدُ وَ الْمِنَّۃُ عَلٰی ذٰلِکَ (اس بات پر اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے)

اے بھائی! اس نہایت (انتہا)کے واصل حضرات اس طریقے میں اور دوسرے طریقو ں میں بہت ہی کم ہیں۔ اگر ایسے حضرات کی تعداد کو شمار کیا جائے تو ممکن ہے کہ جو نزدیک ہیں وہ دوری اختیار کر لیں اور جو دور ہیں ان کے انکار سے تو کوئی تعجب ہی نہیں۔ یہ سب کچھ اس کے حبیب علیہ و علیٰ آلہ الصلوات و التسلیمات اتمہا و اکملہا کے صدقے میں نہایت النہایت تک کمال کے وصول کی وجہ سے ہے۔ اس طریقۂ عالیہ کی خصوصیتوں میں سے ایک خصوصیت "سفر در وطن" ہے کہ جس سے مراد سیرِ انفسی ہے۔ اگرچہ سیرِ انفسی تمام مشائخ کے طریقوں سے ثابت ہے، لیکن وہ سیر، سیرِ آفاقی کے طے کرنے کے بعد (مقامِ) نہایت میں حاصل ہوتی ہے اور اس طریق (نقشبندیہ) میں ابتدا ہی اس سیر سے ہوتی ہے اور سیرِ آفاقی اس سیر کے ضمن میں خود بخود طے ہو جاتی ہے، لہذا اس سیر کا مقصد جو ابتدا میں حاصل ہوتا ہے وہ "اندراج النہایت فی البدایت" ہے یعنی ابتدا میں انتہا کا مندرج ہونا ہے، اور دوسری خصوصیت "خلوت در انجمن" ہے جو "سفر در وطن" پر متفرع و مترتب ہے۔ جب "سفر در وطن" میسر ہو جائے تو "خلوت در انجمن" بھی اس کے ضمن میں میسر ہو جائے گی۔ لہذا سالک انجمن کے تفرقے میں رہتے ہوئے بھی وطن (دل) کے خلوت خانے میں سفر کرتا ہے اور آفاق کا تفرقہ نفس کے حجرے میں راہ نہیں پاتا۔ یہ خلوت اگرچہ دوسرے طریقوں کے منتہیوں کو بھی حاصل ہے لیکن اس طریقے میں چونکہ ابتدا ہی میں یہ بات میسر ہو جاتی ہے اس لئے یہ اس طریقے کی خصوصیت ہو گئی۔

جاننا چاہیے کہ "خلوت در انجمن "ایسے اندازے پر ہے کہ وطن کے خلوت خانے کے دروازوں کو بند کر دیا گیا ہو اور اس کے سوراخوں کو بھی مسدود کر دیا ہو یعنی انجمن کے تفرقے میں کسی ایک چیز کی طرف بھی التفات نہ کرے اور (باطن میں) متکلم و مخاطب نہ ہو، نہ آنکھوں کو ڈھانپے اور نہ حواس کو جان بوجھ کر معطل کرے، کیونکہ یہ (باتیں) اس طریقے کے خلاف ہیں۔

اے بھائی! یہ سب حیلہ و تکلف ابتدا اور وسط کے درجوں میں ہے اور انتہا میں اس قسم کے حیلوں کا کچھ کام نہیں (لہٰذا منتہی) عین تفرقہ میں بھی دل کی جمعیت سے ہے اور نفس غفلت (کی انجمن ) میں بھی حاضر ہے۔ اس جگہ کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ مطلقًا منتہی کے حق میں تفرقہ اور عدم تفرقہ بہمہ وجوہ مساوی ہے۔ ایسا نہیں ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ تفرقہ و عدم تفرقہ اس کے باطن کے نفسِ جمعیت میں برابر ہیں۔ اسی طرح اگر ظاہر کو باطن کے ساتھ جمع کر لیں اور ظاہر سے بھی تفرقہ کو دفع کر دیں تو بہت ہی بہتر اور مناسب ہے۔ حق سبحانہ و تعالیٰ اپنے حبیب علیہ آلہ الصلوۃ والسلام سے فرماتا ہے: ﴿وَ اذۡكُرِ اسۡمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلۡ إِلَيْهِ تَبۡتِيۡلًا﴾ (المزمل: 8) ترجمہ: ”اور اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرو، اور سب سے الگ ہو کر پورے کے پورے اسی کے ہو رہو“

جاننا چاہیے کہ بعض اوقات ظاہری تفرقے سے چارہ نہیں ہوتا، تاکہ مخلوق کے حقوق ادا ہو سکیں لہذا یہ ظاہری تفرقہ بھی بعض اوقات قابلِ ستائش اور مستحسن ہے لیکن باطن کا تفرقہ اوقات میں سے کسی وقت بھی جائز نہیں کہ وہ خالص حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے لئے ہے۔ لہذا بندوں کے (اوقات میں) تین حصے حق تعالیٰ کے لیے مقرر ہوئے یعنی باطن سب کا سب اور ظاہر کا ایک نصف بھی اور ظاہر کا بقیہ نصف مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کے لیے باقی رہا۔ چونکہ ان حقوق کے ادا کرنے میں ہر وقت حق سبحانہٗ کے اوامر کی بجا آوری ہے اس لیے وہ نصف بھی حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف راجع ہو گیا۔ ﴿وَ إِلَيْهِ يُرۡجَعُ الۡأَمۡرُ كُلُّهٗ فَاعۡبُدۡهُ وَ تَوَكَّلۡ عَلَيۡهِ‌ؕ وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ﴾ (ہود: 123) ترجمہ: ”اور اسی کی طرف سارے معاملات لوٹائے جائیں گے۔ لہذا ( اے پیغمبر) اس کی عبادت کرو، اور اس پر بھروسہ رکھو۔ اور تم لوگ جو کچھ کرتے ہو، تمہارا پرور دگار اس سے بے خبر نہیں ہے“۔

اور اس طریقے میں جذبہ، سلوک پر مقدم ہے اور سیر کی ابتدا عالمِ امر سے ہے نہ کہ عالمِ خلق سے، بر خلاف اکثر دوسرے طریقوں کے (کہ ان کے سیر کی ابتدا عالمِ خلق سے ہے) اور اس طریقہ میں سلوک کی منازل جذبے کے مراتب طے ہونے کے ضمن میں قطع ہو جاتی ہیں اور عالمِ خلق کی سیر عالمِ امر کی سیر کے تحت میسر ہو جاتی ہے، لہذا اگر اس اعتبار سے بھی کہیں کہ اس طریق میں انتہا ابتدا میں درج ہے تو کہنے کی گنجائش رکھتا ہے لہذا معلوم ہوا کہ اس طریقہ کی ابتدا ہی میں انتہا کی سیر درج ہے نہ یہ کہ انتہا سے ابتدا کی سیر کے لیے نیچے آ جائیں اور نہایت کی سیر تمام کرنے کے بعد بدایت کی سیر اختیار کریں۔ اس (مضمون) سے اس شخص کا زعم باطل ہو گیا جو کہتا ہے کہ ”اس (نقشبندیہ) طریقے کی انتہا دوسرے تمام مشائخ کے طریقوں کی ابتدا ہے“۔

اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اس طریقے کے بعض مشائخ کی عبارتوں میں واقع ہے کہ ان کو اسماء و صفات کی سیر ان کی نسبت کے تمام ہونے کے بعد واقع ہوئی ہے تو یہ درست ہے کہ ان کی نہایت دوسرے طریقوں کے مشائخ کی بدایت ہو گئی کیونکہ اسماء و صفات کی سیر تجلیاتِ ذاتیہ کی سیر کی نسبت ابتدا میں ہے تو ہم جواب میں کہتے ہیں کہ ان (مشائخ نقشبندیہ) کی سیر اسماء و صفات میں تجلیاتِ ذاتیہ کی سیر کے بعد نہیں ہے بلکہ اسی سیر کے کے ضمن میں وہ سیر بھی واقع ہو جاتی ہے۔

حاصلِ کلام یہ ہے کہ جب اسماء و صفات کی سیر بعض عوارض کے سبب سے ظہور میں آتی ہے اور تجلیاتِ ذاتیہ کی سیر پوشیدہ ہو جاتی ہے تو یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ سیر (تجلیاتِ ذاتیہ) کو تمام کر کے تجلیاتِ اسمائی و صفاتی میں داخل ہو گیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ہاں ولایت کے تمام مدارج میں سیر کی تکمیل کے بعد مخلوق کو حق جل و علا کی طرف دعوت دینے کے لیے عالم کی طرف رجوع واقع ہوتا ہے، اگر اس رجوع کو ان کی انتہا سمجھ کر اس کو اپنی ابتدا تصور کی ہو تو کچھ بعید نہیں لیکن (فقیر) کیا کہے جب کہ اس کے مشائخ ہی اسی نہایت میں رجوع رکھتے ہیں۔ اسی طرح نہایت و بدایت سے مراد ولایت کی بدایت و نہایت ہے اور رجوع کی یہ سیر ولایت سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ دعوت و تبلیغ کے مرتبے کا ایک حصہ ہے۔ یہ طریقہ (نقشبندیہ) سب طریقوں سے قریب ترین ہے اور بے شک موصل (مقصود تک پہنچانے والا) ہے۔ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہٗ فرماتے ہیں: ”طریقِ ما اقربِ طرق است“ (ہمارا طریقہ (وصول الی اللہ میں) تمام طریقوں سے قریب ترین ہے) اور یہ بھی فرمایا کہ ”میں نے حق سبحانہٗ و تعالیٰ سے ایسے طریقے کے لیے دعا کی جو یقینًا موصل ہو“ اور آپ کی یہ دعا قبول ہو گئی۔ چنانچہ رشحات میں حضرت خواجہ احرار قدس سرہٗ سے منقول ہے کہ یہ طریقہ مقبول اور موصل کیوں نہ ہو جب کہ انتہا اس کی ابتدا میں مندرج ہے۔ بہت ہی بد قسمت ہے وہ شخص جو اس طریقے میں داخل ہو اور استقامت اختیار نہ کرے اور بے نصیب رہے۔ مصرع

خورشید نہ مجرم ار کسے بینا نیست

ترجمہ:

اندھا نہ دیکھ پائے سورج کا کیا قصور

ہاں اگر کوئی طالب کسی ناقص (شیخ) کے ہاتھ پڑ جائے تو اس میں طریقے کا کیا قصور ہے اور طالب کا بھی کہاں قصور۔ کیونکہ فی الحقیقت اس طریق کا رہبر موصل ہے نہ کہ نفسِ طریق۔ اور اس طریق کی ابتدا میں حلاوت و وجدان ہے اور انتہا میں بے مزگی اور فقدان (گم ہونا) جو کہ مطلوب کے حصول کی نا امیدی کے لوازمات میں سے ہے، بخلاف دوسرے طریقوں کے کہ جن کی ابتدا میں بے مزگی اور فقدان ہے اور انتہا میں حلاوت و وجدان ہے، اور اسی طرح اس طریقے کی ابتدا میں قرب و شہود ہے اور انتہا میں بعد و حرمان۔ بخلاف دوسرے تمام طریقوں والے مشائخ کرام کے، اس (مضمون) سے طریقوں کے فرق کو قیاس کرنا چاہیے اور اس طریقۂ عالیہ کی بزرگی اور بر تری دریافت کرنی چاہیے، کیونکہ قرب و شہود، حلاوت و جدان، دوری و مہجوری کی خبر دیتے ہیں اور بُعد و حرمان بے حلاوتی اور فقدان نہایتِ قرب کی خبر دیتے ہیں، لہذا سمجھنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اس راز کی وضاحت یا شرح میں اتنا بیان کیا جاتا ہے کہ کسی شخص کے لئے اپنے نفس سے زیادہ قریب ترین کوئی چیز نہیں ہے اور نسبتِ قرب، شہود و حلاوت اور وجدان اس کے اپنے حق کے نفس میں مفقود ہے اور اپنے سے غیر کی نسبت جس سے بے گانگی رکھتا ہے، اس میں یہ تمام نسبتیں موجود ہیں: فَالْعَاقِلُ تَكْفِيْهِ الْإِشَارَةُ (پس عقلمند کے لئے ایک ہی اشارہ کافی ہے)

اور اس طریقۂ عالیہ کے اکابر نے احوال و مواجید کو احکامِ شرعیہ کے تابع کر کے اذواق و معارف کو علومِ دینیہ کا خادم بنایا ہے اور احکامِ شرعیہ کے قیمتی جواہرات کو بچوں کی طرح وجد و حال کے اخروٹ و منقٰی کے عوض نہیں پسند کرتے، اور صوفیہ کے کلماتِ سُکریہ پر مغرور و مفتون نہیں ہوتے، وہ احوال جو شرعی ممنوعات اور روشن سنتوں کے خلاف اختیار کرنے سے حاصل ہوتے ہیں قبول نہیں کرتے اور نہ ہی ان کو پسند کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سماع و رقص کو جائز نہیں رکھتے اور ذکرِ جہر کو بھی قبول نہیں کرتے۔ ان کا حال دوام پر ہے اور ان کا وقت استمراری ہے۔ وہ تجلئ ذاتی جو دوسروں کے لئے برق کی مانند ہے، ان کے لئے دائمی ہے اور وہ حضوری جس کے پیچھے غیبت ہو ان بزرگوں کے نزدیک اعتبار سے ساقط ہے بلکہ ان کا معاملہ حضور و تجلی سے بھی بلند تر ہی ہے جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے۔

حضرت خواجہ احرار قدس سرہٗ نے فرمایا ہے کہ اس سلسلۂ نقشبندیہ کے خواجگان قدس اللہ تعالیٰ اسرارھم ہر زرّاق و رقّاص (مکر کرنے والے اور ناچنے والے) ساتھ نسبت نہیں رکھتے، ان کا کام اس سے بہت بلند ہے۔ اور اس طریق میں پیری و مریدی طریقے کی تعلیم و تعلم پر موقوف ہے کلاہ و شجرہ پر موقوف نہیں ہے، جو کہ اکثر مشائخ کے سلسلوں میں رسم بن گئی ہے، یہاں تک کہ ان کے متاخرین نے پیری مریدی کو صرف کلاہ و شجرہ پر منحصر کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیر کہلوانا پسند نہیں کرتے اور طریقت کے معلم کو مرشد کہتے ہیں، پیر نہیں جانتے اور پیری کے آداب کی رعایت اس کے حق میں بجا نہیں لاتے، یہ بات ان کی کمال جہالت و نا دانی کی وجہ سے ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ ان کے مشائخ نے پیرِ تعلیم و پیرِ صحبت کو بھی پیر ہی کہا ہے، اور پیر کہلوانا جائز قرار دیا ہے، بلکہ پیر اول کی حینِ حیات ہی میں اگر طالب اپنی ہدایت کسی دوسری جگہ دیکھے تو اس کے لئے جائز ہے کہ پیرِ اول کے انکار کے بغیر دوسرا پیر اختیار کر لے۔ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہٗ نے اس بات کے جائز ہونے کے بارے میں علمائے بخارا کے فتوے کو درست قرار دیا ہے۔ ہاں اگر کسی پیر سے خرقۂ ارادت حاصل ہو گیا ہے تو دوسرے پیر سے خرقۂ ارادت نہ لے، اور اگر لے تو اس کو خرقۂ تبرک تصور کرے، اس سے یہ بات لازم نہیں ہے آتی کہ دوسرا پیر ہرگز اختیار نہ کرے بلکہ روا ہے کہ خرقۂ ارادت ایک سے حاصل کرے اور طریقت کی تعلیم دوسرے سے اور صحبت تیسرے سے رکھے، اور اگر یہ تینوں نعمتیں کسی ایک ہی (پیر) سے حاصل ہو جائیں تو زہے قسمت، اور جائز ہے کہ متعدد مشائخ کی تعلیم اور صحبت سے استفادہ کرے۔

جاننا چاہیے کہ پیر وہ ہے جو مرید کو حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرے اور یہ معنیٰ تعلیمِ طریقت میں زیادہ ملحوظ اور واضح ہیں، کیونکہ پیرِ تعلیم شریعت کا بھی استاد ہے اور طریقت کا بھی رہنما ہے، بخلاف پیرِ خرقہ کے۔ لہذا پیرِ تعلیم کے آداب کی رعایت کو بہت زیادہ ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے اور پیر بننے اور کہلانے کا زیادہ مستحق یہی ہے۔ اس طریق میں نفسِ امارہ کے ساتھ ریاضات و مجاہدات کرنا احکامِ شرعیہ کی بجا آوری اور سنت سنیہ علی صاحبہا الصلوۃ و السلام و التحییۃ کی پیروی کا التزام کرنے میں ہے، کیونکہ رسولوں کے بھیجنے اور کتابوں کے نازل کرنے سے مقصود نفسِ امارہ کی خواہشات کو ختم کرنا ہے جو اپنے مولا جل سلطانہٗ کی دشمنی پر قائم ہے۔ لہذا نفسانی خواہشوں کا دور کرنا احکامِ شرعیہ کی بجا آوری پر وابستہ ہوا۔ جو شخص جس قدر شریعت میں راسخ اور ثابت قدم ہو گا اسی قدر خواہشاتِ نفسانی سے دور ہو گا، لہذا نفس امارہ پر شریعت کے اوامر و نواہی کی بجا آوری سے زیادہ گراں کوئی چیز نہیں اور صاحبِ شریعت کی تقلید کے علاوہ کسی چیز میں اس نفسِ امارہ کی خرابی متصور نہیں ہے۔

جو لوگ وہ ریاضات و مجاہدات جو سنت کی تقلید کے علاوہ ہیں، اختیار کریں وہ قابلِ اعتبار نہیں ہیں، جیسا کہ ہندوستان کے جوگی اور برہمن اور یونان کے فلسفی اس معاملے میں شریک ہیں۔ وہ تمام ریاضتیں ان کے حق میں گمراہی کے اضافے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں اور سوائے خسارے کے کچھ رہنمائی نہیں کرتیں۔

اس طریق میں طالب کا سلوک اپنے شیخِ پیشوا کے تصرف پر منحصر ہے، اس کے تصرف کے بغیر کچھ کام نہیں چلتا، کیونکہ ابتدا میں نہایت کا درج ہونا اسی کی شریف کی توجہ کا اثر ہے اور بے چونی و بے چگونی کا حصول اسی کے کمالِ تصرف کا نتیجہ ہے، اور بے خودی کی وہ کیفیت جس کو انہوں نے مخفی (پوشیدہ) راہ سے تعبیر کیا ہے، اس کا حاصل ہونا مبتدی کے اختیار میں نہیں ہے اور وہ توجہ جو شش جہت سے مُعرا(خالی) ہے اس کا وجود طالب کے حوصلے کے لائق نہیں ہے۔

نقشبندیہ عجب قافلہ سالار انند

کہ برندازِ رہ پنہاں بحرم قافلہ را

ترجمہ:

نقشبندی عجیب رہبر ہیں

لے کے جائیں حرم وہ پوشیدہ

یہ بزرگوار جس طرح نسبت کے عطا کرنے میں کامل قدرت رکھتے ہیں کہ طالبِ صادق کو بہت کم وقت میں حضور و آگاہی عطا فرما دیتے ہیں، اسی طرح اس کی نسبت کے سلب کرنے میں بھی پوری طرح قدرت رکھتے ہیں، اور ذرا سی بے توجہی سے صاحبِ نسبت کو محروم کر دیتے ہیں۔ ہاں سچ ہے، جو دیتے ہیں وہ لے بھی لیتے ہیں: أَعَاذَنَا اللہُ سُبْحَانَہٗ مِنْ غَضَبِہٖ وَ غَضَبِ أَوْلِیَآئِہِ الْکِرَامِ (اللہ سبحانہٗ اپنے غضب سے اور اپنے اولیاء کرام کے غصے سے بچائیں)

اس طریقۂ عالیہ میں افادہ اور استفادہ اکثر خاموشی میں ہے، اور یہ (بزرگوار) فرماتے ہیں کہ ”جس کو ہمارے سکوت(خاموشی) سے نفع حاصل نہیں ہوا وہ ہمارے کلام سے کیا فائدہ اٹھائے گا“ اور اس سکوت کو انہوں نے تکلف کے طور پر اختیار نہیں کیا ہے بلکہ ان کے طریق (سلسلہ) کے لوازمات میں سے ہے، کیونکہ شروع ہی سے ان بزرگوں کی توجہ احدیتِ مجردہ کی طرف ہے، اسم اور صفت سے سوائے ذات کے اور کچھ نہیں چاہتے، اور جانتے ہیں کہ اس توجہ کے مناسب اور اس مقام کے شایان سکوت اور گونگا پن ہے: "مَنْ عَرَفَ اللہَ کَلَّ لِسَانُہٗ"؂2 ترجمہ: ”جس نے اللہ تعالیٰ کو پہچان لیا اس کی زبان گنگ ہو گئی“ اس بات کی مصداق ہے۔

وَ أَخْتِمُ ھٰذِہِ الْمَقَالَۃَ بِحَمْدِ اللہِ سُبْحَانَہٗ وَ بِصَلٰوۃِ حَبِیْبِہٖ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَ آلِہِ الطَّاھِرِیْنَ وَ عَلَیْھِم أَجْمَعِیْنَ (اب ہم اس مقالہ کو اللہ سبحانہ کی حمد اور اس کے حبیب کی صلوٰۃ پر ختم کرتے ہیں، تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ رب العالمین کے لیے ہیں اور سید المرسلین اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پاک اولاد پر صلوۃ و سلام ہو) و السلام۔

؂1 آپ کے نام صرف یہی ایک مکتوب ہے اور مزید حالات معلوم نہ ہو سکے۔

؂2 یہ مقولہ سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی قدس سرہٗ کا ہے۔