دفتر 1 مکتوب 220: صوفیوں کی بعض غلطیوں اور ان غلطیوں کے منشا کے بیان میں

مکتوب 220

شیخ حمید بنگالی؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ صوفیوں کی بعض غلطیوں اور ان غلطیوں کے منشا کے بیان میں۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَ عَلٰی اٰلِہٖ وَ أَصْحَابِہٖ وَ عَلَیۡہِمۡ أَجْمَعِیْنَ (تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں اور حضرت سید المرسلین و علی آلہ و اصحابہ علیہم اجمعین پر صلوۃ و سلام ہو) اس علاقے کے فقراء کے حالات و اطوار دن بدن شکر کی زیادتی کا باعث ہو رہے ہیں اور دور کے رہنے والے دوستوں کے متعلق بھی یہی امید ہے۔

اے عزیز! یہ راستہ غیب الغیب (پردہ در پردہ) ہے جس میں سالکوں کے قدم بہت لغزش کھاتے ہیں، لہذا آپ اعتقادات و اعمال میں شریعت کے رشتے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے زندگی بسر کریں۔ حضور و غیبت (سامنے اور پس پردہ) میں (فقیر کی) یہی نصیحت ہے، ایسا نہ ہو کہ غفلت واقع ہو جائے۔ لہذا اس راہ کی بعض غلطیاں تحریر کی جاتی ہیں اور اس کا منشا غلطیوں کی نشان دہی کرنا ہے (امید ہے کہ) حصولِ عبرت کی نظر سے ملاحظہ فرمائیں گے اور مذکورہ جزئیات کے علاوہ ان کے اندازے کے مطابق کام کریں گے۔

جاننا چاہیے کہ صوفیہ کی بعض غلطیاں یہ ہیں کہ کبھی کبھی سالک مقامِ عروج میں اپنے آپ کو دوسروں سے بالا تر پاتا ہے جن کی افضلیت علماء کے اجماع سے ثابت ہو چکی ہے حالانکہ یقینًا اس سالک کا مقام ان بزرگوں کے مقامات سے نیچے ہے۔ بلکہ یہ اشتباہ کبھی کبھی انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی نسبت بھی ہو جاتا ہے جو قطعی طور پر بہترین مخلوق ہیں۔ عَیاَذًا بِاللہِ سُبْحَانَہٗ مِنْ ذَالِکَ۔

اس بارے میں بعض کی غلطیوں کا منشا یہ ہے کہ انبیاء و اولیاء میں سے ہر ایک کا عروج پہلے ان اسماء تک ہے جو ان کے وجودی تعینات کے مبادی ہیں اور اس عروج کی بنا پر ان کی ولایت کی تحقیق ہوتی ہے اور دوسرے ان کا عروج ان اسماء میں، پھر ان اسماء سے جہاں تک اللہ تعالیٰ چاہے حاصل ہو جاتا ہے۔ لیکن اس عروج کے با وجود ان کی منزل اور مقام وہی اسم مبارک ہے جو ان کے وجودی تعیّن کا مبدأ ہے، لہذا مقاماتِ عروج میں اگر کوئی ان کو تلاش کرنا چاہے تو اکثر ان ہی اسما میں پاتا ہے کیونکہ مراتبِ عروج میں بھی ان بزرگوں کا طبعی مقام وہی اسماء ہیں اور ان اسماء سے عروج و نزول کرنا عوارض کے پیش آنے کی وجہ سے واقع ہوتا ہے لہذا جب بلند فطرت سالک سیر میں ان اسماء سے بلند تر ہو گا تو یقینًا ان اسماء سے بھی بلند تر ہو کر آگے نکل جائے گا اور اس کو اس سے یہ گمان پیدا ہو جائے گا۔ اللہ سبحانہٗ اس بات سے بچائے کہ یہ گمان اس پہلے یقین کو زائل کر دے اور انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی افضلیت میں اور اولیاء کے بہتر ہونے میں جس پر (علماء امت کا) اجماع ہے، شبہ پیدا ہو جائے۔ یہ مقام سالکوں کے قدم پھسلنے کا مقام ہے۔ اس وقت سالک نہیں جانتا کہ وہ اکابر جنہوں نے ان اسماء سے بے انتہا عروج حاصل کیا ہے اور بالا سے بالا تر پہنچے ہوئے ہیں نیز وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ اسماء ان کے عروج کے طبعی مکان ہیں اور اس کا بھی اس جگہ طبعی مکان ہے جو ان اسماء سے بہت نیچے اور پست ہے کیونکہ ہر شخص کی افضلیت اس کے اسم کی اقدمیت (بہت آگے بڑھنے) کے اعتبار سے ہے، جو اس کے تعین کا مبدا ہوا ہے۔

اسی قسم سے یہ بات ہے جو بعض مشائخ نے فرمائی ہے کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عارف عروج کے مقامات میں برزخیتِ کبریٰ کو حائل نہیں پاتا اور اس کے توسط کے بغیر ترقی کرتا ہے۔ ہمارے حضرت خواجہ (باقی باللہ) قدس سرہٗ فرمایا کرتے تھے کہ رابعہ (بصریہ) رحمۃ اللہ علیہا بھی اسی جماعت میں سے ہیں۔ یہ جماعت عروج کے وقت میں اس سے جو برزخیتِ کبریٰ کے تعین کا مبدا ہے بالا تر گزر گئے ہیں اور انہوں نے خیال کیا ہے کہ برزخیتِ کبریٰ ان کے درمیان حائل نہیں رہی، اور برزخیت کبریٰ سے ان کی مراد حضرت رسالت خاتمیت علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کی حقیقت ہے۔ معاملے کی حقیقت وہی ہے جو اوپر بیان ہوئی۔

اور دوسری جماعت کی اس غلطی کا منشا یہ ہے کہ جب سالک کی سیر اس اسم میں واقع ہوتی ہے جو اس کے تعین کا مبدا ہے اور وہ اسم بر سبیلِ اجمال (مجمل طور پر) تمام اسماء کا جامع ہے کیونکہ انسان کی جامعیت اسی اسم کی جامعیت کی وجہ سے ہے لہذا لازمًا اس ضمن میں وہ اسماء بھی ہیں جو دوسرے مشائخ کے تعینات کے مبادی ہیں اجمالی طریقے پر وہ بھی اس سیر کو طے کرے گا اور ہر ایک سے گزر کر اس اسم کی انتہا تک پہنچ جائے گا اور اپنی فوقیت کا وہم پیدا کر لے گا۔ وہ نہیں جانتا کہ جو کچھ اس نے دیکھا ہے وہ مشائخ کے مقامات سے ہے اور جن سے گزر ہوا ہے وہ ان کے مقامات کا ایک نمونہ ہے نہ کہ ان مقامات کی حقیقت۔ جب وہ اس مقام میں اپنے آپ کو جامع پاتا ہے اور دوسروں کو اپنے اجزا خیال کرتا ہے تو لازمًا اپنے زیادہ ولی ہونے کا وہم پیدا کر لیتا ہے۔ اسی مقام میں شیخ بسطامی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: "لِوَائِيْ أَرْفَعُ مِنْ لِوَاءِ مُحَمَّدٍ" (حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے جھنڈے سے میرا جھنڈا بلند ہے) سکر کے غلبہ کی وجہ سے وہ یہ نہیں جانتا کہ حضرت محمد مصطفےٰ علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کے جھنڈے سے ان کا جھنڈا بلند نہیں ہے بلکہ ان کے جھنڈے کے نمونے سے ہے جو ان کے اسم کی حقیقت کے ضمن میں مشہود (ظاہر) ہوا ہے۔ اسی قسم سے یہ بات بھی ہے جو انہوں نے بیان کی کہ میرے قلب کی وسعت اس قدر ہے کہ اگر عرش اور جو کچھ اس میں ہے اس قلب کے گوشہلے میں رکھ دیا جائے تو کچھ بھی احساس نہ ہو۔ اس مقام پر بھی نمونے کا حقیقت سے اشتباہ ہے ورنہ عرش کے مقابلے میں جس کو حق سبحانہٗ و تعالیٰ "عظیم"؂2 فرماتا ہے، عارف کے قلب کی جو اس کے پہلو میں ہے کیا حیثیت اور کیا مقدار ہے۔ وہ ظہور جو عرش میں ہے اس کا عشر عشیر (سواں حصہ) بھی اس قلب میں نہیں ہے اگرچہ وہ قلب عارف کا قلب ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ آخرت میں (حق تعالیٰ کا) دیدار عرش کے ظہور کے وقت میں ہو گا۔ یہ بات اگرچہ آج بعض صوفیوں پر نہایت گراں گزرے گی لیکن آخر کار وہ معقول ہو جائیں گے (یعنی ان کو سمجھ میں آجائے گی)

اس بات کو ہم ایک مثال سے واضح کرتے ہیں کہ انسان چونکہ عناصر و افلاک کا جامع ہے، جب اس کی نظر اپنی جامعیت پر پڑتی ہے تو وہ عناصر و افلاک کو اپنے اجزاء سمجھتا ہے اور جب یہ مشاہدہ غالب ہو جاتا ہے تو عجب نہیں کہ وہ یہ بات کہہ دے کہ میں تمام کرۂ زمین سے بڑا اور آسمانوں سے بھی عظیم ہوں۔ ایسے وقت میں عقل مند لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کی عظمت و بڑائی اس کے اپنے اجزاء سے ہے ورنہ در حقیقت کرۂ زمین و آسمان اس کے اجزاء نہیں ہیں بلکہ ان کے نمونوں کو اس نے اپنے اجزاء بنا لیا ہے اور اس کی بڑائی ان نمونوں کی وجہ سے ہے جو اس کے اجزاء ہیں نہ کہ کرۂ ارضی و سماوی کی حقیقت سے۔

اور اسی وجہ سے کہ کسی شے کا نمونہ اس کی حقیقت کے مشابہ ہوتا ہے۔ صاحب فتوحات مکیہ (ابن عربی) کہتے ہیں کہ "جمعِ محمدیؐ جمعِ الہی سے اَجْمَعْ (جامع تر) ہے۔ کیونکہ جمعِ محمدی کونی و الہی حقائق پر مشتمل ہے، لہذا وہ اَجْمَعْ (جامع تر) ہو گی"۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ اشتمال (مشتمل ہونا) مرتبۂ الوہیت کے ظلال میں سے ایک ظل میں ہے اور اس کے نمونوں میں سے ایک نمونہ پر ہے، نہ کہ وہ اشتمال اس مرتبہ مقدسہ کی حقیقت پر۔ بلکہ اس مقدس مرتبے کی حقیقت پر جو اس کی عظمت و کبریائی؂3 کے لوازم میں سے ہے (اس کے سامنے) جمع محمدیؐ کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ مَا لِلتُّرَابِ وَ رَبِّ اَلأَرْبَابِ (چہ نسبت خاک را با عالم پاک) (کہاں خاک اور کہاں عالم پاک)۔

اور نیز اسی مقام میں جب کہ سالک کی سیر اس اسم میں واقع ہوتی ہے جو اس کا رب ہے تو بسا اوقات وہ خیال کرتا ہے کہ بعض اکابر جو یقینًا اس سے افضل ہیں، اس کے توسط سے بلند درجوں میں پہنچ گئے ہیں اور اسی کے توسل سے ترقی کی ہے۔ یہ مقام بھی سالکوں کے اقدام کی لغزش گاہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سبحانہٗ ہم کو اس بات سے اپنی پناہ میں رکھے کہ اس گمان کی بنیاد پر کوئی اپنے آپ کو افضل سمجھ کر ابدی خسارے میں پڑ جائے۔ اگر کوئی عظیم الشان بادشاہ کسی زمین دار کی مدد سے جو اس کی مملکت میں داخل ہے، اس کے بعض مقامات پر پہنچے اور اس کے توسل سے بعض علاقے فتح کر لے تو اس میں کون سی تعجب کی بات ہے اور کیا فضیلت ہے۔

حاصلِ کلام یہ ہے کہ یہاں جزئی برتری کا احتمال ہے جو کہ خارج از بحث ہے کیونکہ ہر ایک حجام اور جولاہا جو بعض مخصوص وجوہ کی بنا پر تمام عالم ذو فنون (دانش وروں) اور حکیم بو قلموں (گونا گوں فلسفیوں) پر فضیلت رکھتا ہے لیکن یہ فضیلت اعتبار سے خارج ہے، اور جو معتبر ہے وہ فضیلت کلی ہے جو کہ عالم اور حکیم کے لئے ثابت ہے۔ اس درویش کو بھی اس قسم کے اشتباہات بہت پیش آئے اور اس قسم کے خیالات بہت آتے رہے اور مدتوں تک یہی حالت رہی۔ چونکہ حق تعالیٰ جل شانہٗ کی حفاظت شامل حال رہی اس لئے یقینِ سابق میں بال برابر تذبذب نہیں ہوا اور متفق علیہ اعتقادات میں کوئی فتور واقع نہیں ہوا۔ لِلّٰہِ سُبْحَانَہُ الْحَمْدُ وَ الْمِنَّۃُ عَلٰی ذٰلِکَ وَ عَلٰی جَمِیعِ نِعَمَائِہٖ (اس نعمت پر اور تمام نعمتوں پر اللہ سبحانہ کی حمد اور اس کا احسان ہے) اور جو کچھ مجمع علیہ (متفق علیہ اعتقادات) کے خلاف ظاہر ہوتا تھا اس کا کچھ اعتبار نہ کرتا تھا اور اس کو اچھے معنی پر محمول کرتا تھا اور مجمل طور پر اتنا جانتا تھا کہ اس کشف کی صحت کا اندازہ بھی جزئی فضیلت کی طرف راجع ہے۔ ہر چند وسوسہ بھی عارض ہوتا تھا کہ فضیلت کا مدار قربِ الہی جل سلطانہٗ پر ہے اور یہ زیادتی اسی قرب میں ہے پھر جزئی فضیلت کیوں ہو گی؟ لیکن یقینِ صادق کے مقابلے میں یہ وسوسہ بھی ہبآءً منثوراً (پراگندہ غبار کی طرح) اڑ جاتا تھا اور اس کا کوئی اعتبار نہ کرتا تھا بلکہ توبہ استغفار اور انابت کے ساتھ التجا کرتا تھا اور نہایت عاجزی و زاری کے ساتھ دعا کرتا تھا کہ اس قسم کے کشف ظاہر نہ ہوں اور اہل سنت و جماعت کے اعتقادات کے خلاف بال برابر بھی منکشف نہ ہو۔

ایک دن یہ خوف غالب ہوا کہ کہیں یہ کشف مواخذے کا باعث نہ بن جائیں اور یہ وہم سوال کا باعث نہ ہو جائے۔ اس خوف کے غلبہ نے بے قرار و بے چین کر دیا تو جناب قدس خدا وندی جل سلطانہٗ میں التجا و تضرع زیادہ بڑھ گئی اور یہ حالت کافی عرصہ تک رہی۔ اتفاقًا اسی عرصے میں ایک بزرگ کے مزار پر گزر ہوا اور اس معاملے میں ان بزرگ کی معاونت چاہی۔ اسی اثنا میں اللہ جل شانہٗ کی عنایت شامل حال ہوئی اور حقیقتِ معاملہ جیسا کہ اس کا حق ہے ظاہر ہوئی اور حضرت رسالت خاتمیت علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کی روحانیت جو تمام عالموں کے لئے رحمت ہے، اس وقت ظہور پذیر ہوئی اور دلِ غمگین کی تسلی فرمائی اور معلوم ہوا کہ بے شک قربِ الہی ہی فضلِ کلّی کا موجب ہے لیکن یہ قرب جو تجھ کو حاصل ہوا ہے الوہیت کے مراتب کے ظلالوں میں سے ایک ظل کا قرب ہے جو اس اسم کے ساتھ مخصوص ہے جو تیرا رب ہے اس لئے کلی فضیلت کا موجب نہ ہو گا۔ اس مقام کی مثالی صورت کو اس طریقے پر منکشف کیا گیا کہ کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہ رہی اور اس شبہ کا گمان بالکل ختم ہو گیا۔ اور بعض وہ علوم جو اشتباہ کا محل رکھتے ہیں اور ان میں تاویل و توجیہ کی گنجائش ہے اور یہ درویش اپنی کتابوں اور رسالوں میں لکھ چکا تھا زیادہ منکشف ہوئی۔

(اس فقیر نے چاہا) کہ ان علوم کے اغلاط کا منشا جو محض فضل خداوندی جل شانہٗ سے حاصل ہوا ہے لکھے اور شائع کرے کیونکہ مشتہر گناہ کے ازالے کے لئے توبہ کا اشتہار ضروری ہے تاکہ لوگ ان علوم سے خلافِ شریعت نہ سمجھ لیں اور تقلید کی بنا پر گمراہی میں نہ پڑ جائیں یا تعصب اور تکلف سے گمراہی اور جہالت اختیار نہ کر لیں کہ اس راہِ غیب الغیب میں اس قسم کے پھول بہت کھلتے ہیں کہ ایک گروہ کو ہدایت کی طرف لے جاتے ہیں اور دوسرے کو گمراہی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ (اس فقیر نے) اپنے والد بزرگوار قدس سرہٗ سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ بہتر فرقوں میں سے اکثر فرقے گمراہی کی راہ اختیار کئے ہوئے ہیں اور راہِ راست سے بھٹک گئے ہیں اور ان کا باعث صوفیوں کے طریقے میں داخل ہونا ہے کیونکہ انہوں نے کام کو انجام تک نہیں پہنچایا بلکہ غلط راستہ اختیار کر کے گمراہ ہو گئے۔ و السلام۔

؂1 آپ کے نام پانچ مکتوبات ہیں اور آپ کا تعارف دفتر اول مکتوب نمبر 158 پر ملاحظہ ہو۔

؂2 ﴿فَإِنْ تَوَلَّوۡا فَقُلۡ حَسۡبِیَ اللّٰہُ لَاۤ إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ ؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ وَ ہُوَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ﴾ (التوبہ: 129)

؂3 جیسا کہ حدیثِ قدسی میں وارد ہے: "الْكِبْرِيَاءُ رِدَائِيْ، وَ الْعَظَمَةُ إِزَارِيْ" (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 4174) ترجمہ: ”کبریائی میری چادر اور عظمت میرا ازار ہے“۔