دفتر 1 مکتوب 203: اس عالی جماعت کی محبت کی ترغیب میں اور اس بیان میں کہ ان کا ہم نشین شقاوت (بد بختی) سے محفوظ ہے اور اس کے مناسب بیان میں

مکتوب 203

ملا حسینی؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس عالی جماعت کی محبت کی ترغیب میں اور اس بیان میں کہ ان کا ہم نشین شقاوت (بد بختی) سے محفوظ ہے اور اس کے مناسب بیان میں۔

أَحْسَنَ اللّٰہُ تَعَالٰی أَحْوَالَکُم وَ أَصْلَحَ سُبْحَانَہٗ أَعْمَالَکُمْ وَ آمَالَکُمْ (اللہ تعالیٰ آپ کے احوال کو بہتر بنائے اور تمھارے اعمال و آرزؤوں کو نیک کرے)۔ آپ کا گرامی نامہ چونکہ فقراء کی محبت پر مبنی تھا اس لئے بہت زیادہ فرحت و خوشی کا باعث ہوا، حق سبحانہٗ و تعالیٰ اس عالی جماعت کی محبت میں روز بروز اضافہ فرمائے اور ان کی نسبت کی نیاز مندی کو آپ کی زندگی کا سرمایہ بنائے۔ حدیث: "المَرْء مَعْ مَنْ أَحَبَّ"؂2 ترجمہ: ”آدمی اسی کے ساتھ ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے“ کے مطابق ان (فقراء) سے محبت کرنے والے ان کے ساتھ ہیں اور وہ فقراء ایسے ہیں جن کا جلیس و ہم نشین شقاوت و بد بختی سے محفوظ ہے۔ چنانچہ حدیثِ؂3 نبوی علیہ من الصلوات اتمہا و من التحیات اکملہا میں ہے کہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے کچھ فرشتے کاتبینِ اعمال کے علاوہ ایسے بھی ہیں جو راستوں اور گزر گاہوں پر اہلِ ذکر کی تلاش میں گھومتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ کسی جماعت کو ذکر کرتے ہوئے پا لیتے ہیں تو ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں کہ جلد اپنے مقصد کی طرف آؤ۔ پس وہ سب کے سب اپنے بازؤوں سے اس جماعت پر چھا جاتے اور احاطہ کر لیتے ہیں اور اپنی کثرت کی وجہ سے آسمان تک یہ سلسلہ پہنچ جاتا ہے۔ پس خدا وندِ کریم جو اپنے بندوں کے حال سے خوب با خبر ہے، ملائکہ سے دریافت فرماتا ہے کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں پایا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: بارِ الہا! وہ تیری حمد و ثنا بیان کر رہے تھے اور تجھ کو بڑائی و تعظیم کے ساتھ یاد کر رہے تھے اور تمام عیوب و نقصانات سے تجھ کو منزہ و مبرا قرار دیتے تھے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ فرشتے کہتے ہیں، نہیں۔ پھر حق تعالیٰ فرماتا ہے اگر وہ مجھے دیکھ لیں تو ان کا کیا حال ہو؟ ملائکہ عرض کرتے ہیں: پھر اور زیادہ تحمید (حمد) تمجید (بزرگی) اور تکبیر (بڑائی) بیان کریں۔ پھر حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ مجھ سے کیا طلب کر رہے تھے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ وہ بہشت کی طلب کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا انہوں نے بہشت کو دیکھا ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں، نہیں دیکھا۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے اگر وہ اس کو دیکھ لیں تو ان کا کیا حال ہو؟ ملائکہ عرض کرتے ہیں: اگر وہ دیکھ لیں تو ان کو (بہشت کی) اور زیادہ طلب و حرص ہو جائے۔ پھر حق تعالیٰ فرماتا ہے: کہ وہ کس چیز سے ڈرتے ہیں؟ ملائکہ عرض کرتے ہیں: اے رب! وہ دوزخ سے ڈرتے تھے اور تیری پناہ کی جستجو میں لگے ہوئے تھے، حق تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: کیا انہوں نے دوزخ کو دیکھا ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں نہیں دیکھا۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے: اگر دیکھ لیں تو ان کا کیا حال ہو؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: اگر وہ دیکھ لیں تو اور زیادہ پناہ چاہیں اور دوزخ سے بچنے کے لئے زیادہ سے زیادہ راہِ فرار اختیار کریں۔ (ان سوال و جواب کے بعد) حق تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے: میں تم کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے ان سب کو بخش دیا۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے رب! ان ذکر کرنے والوں کی مجلس میں فلاں شخص ذکر کے لئے نہیں آیا تھا بلکہ دنیاوی حاجت لے کر آیا تھا۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ "أَنَا جَلِیسُ مَنْ ذَکَرَنِیْ"؂4 (میں اس کا ہم نشین ہوں جس نے میرا ذکر کیا) کے بموجب میرے ایسے ہم نشین ہیں کہ ان کا ہم نشین بد بخت نہیں ہوتا۔

اس حدیث اور اس سے پیش تر والی حدیث: "اَلمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ" سے لازم آتا ہے کہ اس جماعت سے محبت کرنے والے ان کے ساتھ ہیں اور جو بھی ان کے ساتھ ہو وہ محروم و بد بخت نہیں ہے۔ ثَبَّتَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَ إِیَّاکُمْ عَلیٰ مَحَبَّۃِ ھٰؤُلَاءِ الکِرَامِ بِحُرْمَۃِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الھَاشِمِیُّ عَلَیْہِ و علٰی اٰلِہِ الصَّلَوَاتُ و التَّسْلِیمَاتُ و التَّحِیَّاتُ کُلَّما ذَکَرَہُ الذَّاِکُرونَ وَ کُلَّما غَفَلَ عَنْ ذِکْرِہِ الغَافِلُونَ (اللہ تعالیٰ ہم کو اور آپ کو نبی الامی الہاشمی علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات و التحیات کے طفیل ان بزرگوں کی محبت پر ثابت قدم رکھے، جب تک ذکر کرنے والے اس کا ذکر کریں اور غافل اس کے ذکر سے غفلت میں رہیں)

اور جو کچھ آپ نے میاں اللہ داد کے خط میں اپنے احوال کی نسبت لکھا تھا اس قسم کی فنا اور گم ہونا بہت سے طالبوں پر ظاہر ہوتا ہے، اپنی ہمت بلند رکھیں اور جو کچھ حاصل ہو اس پر قناعت نہ کریں۔

بس بے رنگ است یار دل خواہ اے دل

قانع نشوی برنگ نا گاہ اے دل

ترجمہ:

بہت بے رنگ ہے وہ یار دل خواہ

قناعت رنگ پر مت کر تو نا گاہ

اس جماعت کی صحبت جملہ ضروریات میں سے ہے۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ ہمیں ان کی صحبت نصیب فرمائے۔

گردِ مستان گردا گر مَے کم رسد بوئے رسد

گرچہ بوئے ہم نباشد رویت ایشاں بس است

ترجمہ:

بو ہی کافی ہے اگر مے کش نہیں دیتے شراب

بو بھی گر حاصل نہیں، دیدار سے ہو فیض یاب

اسی طریقے پر جو حضرت قبلہ گاہی یعنی خواجہ عبد الباقی قدس سرہٗ سے اخذ کیا ہے وہ یہ طریقہ ہے کہ اسم مبارک "اللہ" کو بے چونی و بے چگونی (بے مثل و بے کیفی) کے معنی کے ساتھ دل کی پوری توجہ سے قلب میں گزاریں اور حاضر و ناظر کے معنوں پر اکتفا نہ کریں بلکہ کسی صفت کو بھی ملحوظ نہ رکھیں۔ اسی اسم کو مذکورہ توجہ کے بعد ہمیشہ دل میں حاضر رکھیں۔ بعض ضروری امور جو صحبت اور رو برو ہونے پر موقوف ہیں، اگر ملاقات میسر ہوئی تو بیان کئے جائیں گے۔ ملاقات کے وقت تک نئے احوال کہتے رہیں کیونکہ ان کا مطالعہ غائبانہ توجہ کا باعث ہوتا ہے۔ و السلام۔

؂1 آپ کے نام صرف یہی ایک مکتوب ہے، غالبًا مولانا حسین نان بائی مراد ہیں، آپ کشمیر میں پیدا ہوئے اور شیخ محمد قادری رحمۃ اللہ علیہ سے تعلیمِ طریقت حاصل کی پھر دہلی آئے اور عبد الرشید احراری رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں رہے، پھر ایک عرصہ حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں رہے۔ بعد ازاں باقی عمر کشمیر میں عبادت گزار رہے۔ سنہ 1050ھ میں انتقال ہوا۔ (نزھۃ الخواطر، جلد: 5)

؂2 مسلم و بخاری شریف

؂3 مسلم و بخاری شریف بروایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ

؂4 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرے اور اس کے ہونٹ میرے نام کے ساتھ حرکت کریں"۔ (رواہ البخاری)