مکتوب 202
مرزا فتح اللہ حکیم1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس جماعت کے حال کے افسوس میں جنہوں نے اپنے آپ کو ان بزرگوں کی عقیدت و ارادت کے رشتہ میں منسلک کرنے کے بعد بلا وجہ ان سے قطع تعلق کر لیا۔
ثَبَّتَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَ اِیَّاکُمْ عَلٰی الطَّرِیقَۃِ المُسْتَقِیمَۃِ الْمَرْضِیَّۃِ المُصْطَفَوِیَّۃِ عَلٰی صَاحِبِھا الصَّلوٰۃُ و السَّلامُ و التَّحِیَّۃُ (اللہ سبحانہ ہم کو اور آپ کو حضرت محمد مصطفےٰ علی صاحبہا الصلوۃ و السلام و التحیۃ کی مرضی والے سیدھے راستہ پر ثابت قدم رکھے) ایک روز مشائخِ نقشبندیہ قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کی غیرت کے بارے میں گفتگو ہو رہی تھی، اسی اثنا میں اس بات کا بھی ذکر آیا کہ اس جماعت کا کیا حال ہو گا جو اپنے آپ کو ان بزرگوں کی ارادت کے رشتے میں شامل کرتی ہے یا اپنے آپ کو اس ضمن میں لاتی ہے اور ان بزرگوں نے ان کو قبول فرما لیا ہے، پھر بغیر کسی سبب کے ان بزرگوں سے قطع تعلق کر بیٹھے اور اپنے خیال و گمان سے دوسروں کے دامن کو جا پکڑا، اس ضمن میں آپ کا اور قاضی سنام کا بھی ذکر آ گیا تھا۔ اور یہ مذاکرہ معلوم (شاید) ایک لمحہ رہا ہو، اور وہ بھی ایک خاص تقریب پر مبنی تھا۔ بعد ازاں حق جل شانہٗ ایسا موقع نہ دے کہ یہ فقیر کسی مسلمان کی دل آزاری کرے یا تکلیف دے یا دل میں کینہ چھپائے رکھے۔ آپ اپنے دل میں خاطر جمع رہیں۔
آپ کو معلوم ہو گا کہ ہمارا طریق دعوتِ اسماء کا طریقہ نہیں ہے، اس طریقے کے اکابرین نے ان اسماء کے مسمیٰ میں اپنے آپ کو فنا ہونا اختیار کیا ہے اور ابتدا ہی سے ان حضرات کی توجہ احدیتِ صرف کی طرف ہے، وہ اسم و صفت سے سوائے ذات تعالیٰ و تقدس کے اور کچھ نہیں جانتے۔ لازمی طور پر دوسروں کی انتہا ان کی ابتدا میں مندرج ہو گئی ہے۔
قیاس کن ز گلستانِ من بہار مرا
ترجمہ:
مری بہار کا اندازہ میرے باغ سے کر
اب چونکہ اس مذاکرے نے متعدد نقول کی وجہ سے ایک دوسری ہیئت (شکل) اختیار کر لی ہے اور اس کی کیفیت یا شان ایسی ہو گئی ہے کہ اس سے دوسرے قسم کے توہمات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے لہذا ان کو دور کرنے کے لئے یہ چند کلمات تحریر کئے جاتے ہیں۔ آپ کی دوستی سے کچھ اضافہ نہیں ہوتا اور عدم دوستی سے کچھ نقصان واقع نہیں ہو گا۔ صرف آپ ہی کی خیر خواہی ملحوظ و منظور تھی أَمَّا الرَّاضِی بِالضَّرَرِ لَا یَسْتَحِقُّ النَّظَرُ (جو شخص اپنے نقصان پر خود راضی ہو وہ شفقت و مہربانی کی نظر کا مستحق نہیں ہوتا)۔ مثل مشہور ہے۔ یقین جانئے کہ یہ فقیر آپ کا نقصان نہیں چاہتا اور ان شاء اللہ نہ آئندہ چاہے گا۔ وہ صرف ایک بات تھی جو درویشوں کی غیرت کی وجہ سے ایک تقریب میں کہی گئی تھی، اس سے بارِ خاطر (رنجیدہ) نہ ہوں۔ دوسرے یہ کہ جو شخص اپنے آپ کو حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل سمجھے اس کا معاملہ دو حال سے خالی نہیں: یا وہ زندیقِ محض ہے یا جاہل مطلق۔ اس فقیر نے چند سال پیش تر فرقۂ ناجیہ اہل سنت و جماعت کے بیان میں ایک مکتوب آپ کو لکھا تھا، تعجب ہے کہ اس کے مطالعے کے بعد بھی آپ اس قسم کی راہ دیتے ہیں۔ جو شخص حضرت امیر (علی رضی اللہ عنہ) کو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے افضل کہتا ہے وہ اس گروہ اہل سنت و جماعت کے گروہ سے نکل جاتا ہے تو پھر اس شخص کا کیا حال ہو گا جو اپنے آپ کو (حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے) افضل جانے۔ حالانکہ اس گروہ میں یہ بات مقرر ہے کہ اگر کوئی سالک اپنے آپ کو خارش زدہ کتے سے بہتر جانے تو وہ ان بزرگوں کے کمالات سے محروم ہے۔ سلف (صالحین) کا اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کے بعد حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام انسانوں سے افضل ہیں۔ وہ بڑا ہی احمق ہے جو اس اجماع کے خلاف خیال کرے۔ اس فقیر نے اپنی کتابوں اور رسالوں میں لکھا ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قاتل وحشی رضی اللہ عنہ (بن حرب، غلام جبیر بن مطعم صرف) ایک مرتبہ حضرت خیر البشر علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کی صحبت میں پہنچے ہیں اور حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ سے جو خیر التابعین میں سے ہیں، بہتر ہو گئے۔ پس ایسے شخص کے بارے میں اس قسم کی خیال آرائی کرنا عقلِ دور اندیش سے بعید ہے۔ جس عبارت2 سے لوگوں کے دلوں میں اس قسم کا وہم پیدا ہو گیا ہے اس کو غور سے دیکھنا چاہیے اور معاملے کی حقیقت تک پہنچنا چاہیے، صرف حاسد لوگوں کی تقلید مناسب نہیں۔ اس لئے کہ مشائخ نے سکر کے غلبے میں بہت سی غیر مناسبت باتیں کہہ دی ہیں۔ چنانچہ شیخ بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "میرا جھنڈا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے جھنڈے سے بلند ہے"۔ ایسی باتوں سے افضلیت کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے کہ یہ یقینًا زندیقی ہے اور فقیر کی عبارت میں ہرگز اس قسم کی تحریر نہیں ہوئی ہے۔ و السلام۔
1 آپ کے نام تین مکتوبات ہیں اور آپ کا تذکرہ دفتراول مکتوب 80 پر ملاحظہ ہو۔
2 اس عبارت سے مراد دفتر اول مکتوب نمبر 11 ہے۔