دفتر 1 مکتوب 2: ترقیات کے حاصل ہونے اور اللہ تعالیٰ جل شانہ کی عنایات پر فخر کرنے کے بیان میں

مکتوب نمبر: 2

ترقیات کے حاصل ہونے اور اللہ تعالیٰ جل شانہ کی عنایات پر فخر کرنے کے بیان میں اپنے بزرگوار پیر و مرشد قدس سرہ العزیز کی خدمت میں تحریر کیا۔

عریضہ:

آنجناب کا کم ترین غلام و خادم احمد آپ کی بلند بارگاہ میں عرض کرتا ہے کہ مولانا شاہ محمد؂1 نے رمضان شریف کے مبارک مہینے کے قریب آنجناب کی جانب سے استخارے؂2کا حکم پہنچایا۔ اس قدر فرصت نہ ملی کہ ماہِ مبارک رمضان شریف تک آنجناب کی آستانہ بوسی سے مشرف ہو سکتا، نا چار رمضان المبارک کے گزرنے پر (حاضری کے ارادہ سے) اپنے آپ کو تسلی دی۔ حضور کی بلند توجہات کی برکت سے اللہ تعالی جل شانہ کی جو مہربانیاں اور عنایتیں ہر وقت اس خاکسار پر مسلسل اور پے درپے وارد ہو رہی ہیں ان کے متعلق کیا عرض کرے۔ مثنوی؎

من آں خاکم کہ ابرِ نو بہاری کند از لطف بر من قطرہ باری

اگر بر روید از تن صد زبانم چو سبزہ شکر لطفش کے توانم

ترجمہ:

میں وہ مٹی ہوں جس پر ابر کرم گوہر افشاں ہے اپنی بارش کا

مثلِ سبزہ ہوں سو زبانیں بھی کس طرح اس کا شکر ہو گا ادا

اگرچہ اس قسم کے احوال کا ظاہر کرنا جرأت و گستاخی کا وہم پیدا کرتا ہے اور فخر و مباہات کی خبر دیتا ہے؎

ولے چوں شہ مرا برداشت از خاک سزد گر بگذرا نم سرز افلاک

ترجمہ:

اٹھایا شہ نے جب مٹی سے مجھ کو بجا ہے سر کروں اونچا فلک سے

اس خادم کو عالم صحو؂3 و بقا کی ابتدا ماہ ربیع الآخر کے آخری دنوں سے حاصل ہے اور اب تک ہر ایک مدت میں کسی خاص بقا کے ساتھ مشرف فرماتے ہیں۔ ابتدا حضرت شیخ محیی الدین؂4 رحمہ اللہ کی تجلی ذاتی سے ہوئی ہے۔ کبھی صحو میں لاتے ہیں، کبھی پھر سکر؂5 میں لے جاتے ہیں اور اس نزول؂6 و عروج؂7 میں عمدہ اور نئے نئے علوم اور عجیب و غریب معارف کا فیضان و ورود فرماتے ہیں۔ اور ہر مرتبہ میں خاص مشاہدہ و احسان (اخلاص) کے ساتھ مشرف فرماتے ہیں جو کہ اسی مقام کی بقا کے مناسب ہے۔

رمضان المبارک کی چھٹی تاریخ کو ایسی بقا سے مشرف فرمایا اور ایسا احسان و اخلاص میسر ہوا کہ یہ خادم کیا عرض کرے۔ جانتا ہے کہ استعداد کی انتہا وہیں تک ہے اور وہ وصل بھی جو کہ اس خادم کے حال کے مناسب تھا، اس مقام میں حاصل ہو گیا ہے اور مقام جذبہ کی جہت اب پوری ہو گئی ہے اور سیر؂8 فی اللہ میں جو کہ مقام جذبہ؂9 کے مناسب ہے، اس خادم کی سیر شروع ہو گئی ہے۔ فنا جتنی زیادہ کامل ہو گی اس پر قائم ہونے والی بقا بھی اسی قدر زیادہ کامل تر ہو گی اور بقا جس قدر زیادہ کامل ہو گی صحو بھی اسی قدر زیادہ کامل ہو گا اور جس قدر زیادہ صحو حاصل ہو گا علوم باطنی کا فیضان و ورود بھی شریعت حقہ کے موافق زیادہ ہو گا کیونکہ کمال درجہ کا صحو انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو حاصل تھا اور جو معارف و علوم انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام سے ظاہر ہوئے ہیں وہ شریعت کے احکام اور وہ عقائد ہیں جو کہ اللہ تعالی کی ذات و صفات کے بارے میں انہوں نے بیان فرمائے ہیں۔ اور ان احکام و عقائد کے ظاہر کی مخالفت بقیہ سکر کی وجہ سے ہے۔ اس وقت جو معارف و علوم اس خاکسار پر جاری ہوئے وہ زیادہ تر معارف و علوم شرعیہ کی تفصیل اور ان کا بیان ہے اور استدلالی؂10 علم کشفی و ضروری علم بنتا جاتا ہے اور مجمل علم مفصل ہوتا جاتا ہے۔ع

گر بگویم شرح ایں بیحد شود

ترجمہ:

گر کروں شرح حد سے باہر ہے

ڈرتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ گستاخی تک نوبت پہنچ جائے۔ ع

بندہ باید کہ حد خود داند

ترجمہ:

چاہیے کہ بندہ اپنی حد میں رہے

؂1 مکتوبات شریفہ میں مولانا شاہ محمد کے نام صرف ایک مکتوب دفتر دوم مکتوب نمبر 54 ہے، لیکن اس میں مولانا کی بجائے سید کا لفظ درج ہے۔

؂2 حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم استخارے کا پورا اہتمام فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ابن آدم کی سعادت اس بات میں ہے کہ وہ اللہ تعالی سے استخارہ (طلبِ خیر) کرتا رہے اور یہ اس کی بد بختی ہے کہ وہ استخارہ ترک کر دے۔ (رواہ الترمذی و الحاکم فی المستدرک)

؂3 صَحو بالفتح، ہوشیار ہونا

؂4 مراد شیخ محیی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔

؂5 سُکر بالضم، مست ہونا

؂6 نزول سے مراد اپنی تکمیل کے بعد دوسروں کی تکمیل و ارشاد کے لیے مخلوق کی طرف متوجہ ہونا۔ اصطلاح میں اس کو سير عن الله بالله کہتے ہیں۔ مراتبِ نزول کی انتہا مقام قلب تک ہے اور ارشاد و تکمیل اس مقام تک واپس آنے سے تعلق رکھتی ہے۔

؂7 عُرُوج بضمتین، اوپر کے مقام میں ترقی کرنا اور ذات و صفات عالیہ کے مشاہدے میں مستغرق ہو کر مخلوقات سے منقطع ہو جانا جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔

؂8 سیر فی اللہ سے مراد اسماء و صفات و شیون و اعتبارات و تقدیسات اور تنزیہات کے مراتبِ وجوب میں حرکتِ علمیہ ہے اور اس سیر کو بقا باللہ بھی کہتے ہیں۔

؂9 مقام جذبہ سے مراد سیر انفسی ہے اور اسی کو سیر فی اللہ بھی کہتے ہیں۔

؂10 علم استدلالی وہ علم ہے جو دلیل کے ذریعے سے حاصل ہوتا ہے۔ اور کشفی وہ علم ہے جو کشف کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ ضروری منسوب بضرورت ہے بمعنی بداہت، یعنی وہ علم جو بداہت کے طور پر حاصل ہو اور دلیل و فکر کا محتاج نہ ہو۔ مجمل سے مفصل ہونا یعنی وہ علم جو پہلے اختصار کے طور پر حاصل ہو پھر تفصیل کے ساتھ حاصل ہو جائے۔