دفتر 1 مکتوب 1: ان احوال کے بیان میں (جو اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنٰی میں) اسم الظاہر؂1 کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔  توحید کی ایک خاص قسم کے ظہور اور ان عروجات کے بیان میں جو محدِّد (عرش) کے اوپر واقع ہوئے ہیں۔ اور بہشت کے درجات اور بعض اہل اللہ (اولیاء اللہ) کے مراتب کے ظاہر ہونے کے بارے میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مکتوب نمبر: 1

ان احوال کے بیان میں (جو اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنٰی میں) اسم الظاہر؂1 کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔ توحید کی ایک خاص قسم کے ظہور اور ان عروجات کے بیان میں جو محدِّد (عرش) کے اوپر واقع ہوئے ہیں۔ اور بہشت کے درجات اور بعض اہل اللہ (اولیاء اللہ) کے مراتب کے ظاہر ہونے کے بارے میں اپنے بزرگ و محترم پیر و مرشد کی خدمت میں تحریر کیا، جو کہ خود کامل اور دوسروں کو کامل کرنے والے ہیں، ولایت کے درجات سے مشرف اور ایسے راستے کی طرف ہدایت کرنے والے ہیں جس کی ابتدا میں انتہا شامل ہے۔ اور وہ پسندیدہ دین کی تائید کرنے والے ہمارے شیخ و امام حضرت شیخ محمد؂2 باقی نقشبندی؂3 احراری ہیں۔ اللہ تعالی ان کے پاکیزہ اسرار کو مزید پاکیزگی عطا فرمائے اور ان کو ان کی تمنا کے انتہائی درجے تک پہنچائے۔

عریضہ:

آنجناب کا ادنی ترین خادم احمد آپ کی بلند بار گاہ میں عرض کرتا ہے اور آنجناب کے ارشاد گرامی کے مطابق اپنے پریشان حالات حضور کی خدمت عالیہ؂4 میں پیش کرنے کی گستاخی کرتا ہے کہ راہ سلوک طے کرنے کے دوران (حق سبحانہ و تعالی اس خادم پر) اسم الظاہر کی تجلی کے ساتھ (مختلف مظاہر میں) جلوہ گر ہوا۔ یہاں تک کہ تمام اشیاء میں خاص تجلی کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ظاہر ہوا۔ خاص طور پر عورتوں کے لباس میں بلکہ ان کے اعضاء میں جدا جدا ظاہر ہوا اور میں اس گروہ (عورتوں) کا اس قدر مطیع و فرماں بردار ہوا کہ کیا عرض کروں۔ اور میں اس طاعت و فرماں برداری میں بے اختیار تھا۔ (اسم الظاہر کی تجلی کا) جو ظہور کہ اس لباس (یعنی طبقہ مستورات) میں ہوا ایسا اور کسی جگہ میں نہیں ہوا۔ جس قدر عمدہ و پاکیزہ خصوصیات اور عجیب و غریب خوبیاں اس لباس میں ظاہر ہوئیں اتنی کسی اور مظہر میں ظاہر نہیں ہوئیں۔ میں ان کے سامنے پگھل کر پانی پانی ہوا جاتا تھا۔ اور اسی طرح اسم الظاہر کی تجلی کا ظہور ہر کھانے پینے اور پہننے کی چیز میں الگ الگ ہوا، جو عمدگی و خوبی لذیذ اور پر تکلف کھانے میں تھی وہ کسی اور کھانے میں نہ تھی۔ اور میٹھے پانی میں بھی دوسرے (یعنی کھارے) پانی کے مقابلے میں یہی فرق تھا، بلکہ ہر لذیذ و شیریں چیز میں خصوصیات کمال میں سے اپنے اپنے درجے کے مطابق الگ الگ ایک خصوصیت تھی۔

یہ خادم اس تجلی کی خصوصیات کو بذریعہ تحریر عرض نہیں کر سکتا، اگر آنجناب کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوتا تو شاید عرض کر سکتا۔ لیکن ان تجلیات کی جلوہ گری کے زمانے میں یہ خادم رفیق اعلیٰ؂5 (یعنی محبوب حقیقی حق تعالیٰ جل شانہ) کی آرزو رکھتا تھا اور حتی الامکان ان ظہورات کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا لیکن چونکہ مغلوب الحال تھا اس لئے (اس تجلی کے اثرات سے متاثر ہوئے بغیر) کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس اثناء میں معلوم ہوا کہ یہ تجلی اس (سابقہ) نسبت تنزیہی کے مخالف نہیں ہے۔

باطن اسی طرح اس نسبت تنزیہی میں گرفتار ہے اور ظاہر کی طرف بالکل بھی متوجہ نہیں ہے اور ظاہر کو جو کہ اس نسبت تنزیہی سے خالی اور بے کار تھا (اسم الظاہر کی) اس تجلی سے مشرف فرمایا گیا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ میں نے ایسا ہی پایا ہے کہ باطن ہرگز کجئ نظر میں مبتلا نہیں ہے اور وہ تمام معلومات و ظہورات سے منھ پھیرے ہوئے ہے۔ اور ظاہر جو کہ کثرت اور دوئی کی طرف متوجہ تھا ان تجلیات کے ساتھ سعادت مندی کا طالب ہوا ہے۔

کچھ مدت کے بعد یہ تجلیات پوشیدہ ہو گئیں اور وہی (سابقہ) حیرت و نادانی (جہل) کی نسبت اپنی حالت پر قائم رہ گئی اور یہ سب تجلیات اس طرح پوشیدہ ہو گئیں گویا کہ کبھی تھیں ہی نہیں۔ اور اس کے بعد ایک خاص قسم کی فنا ظاہر ہوئی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ تعین علمی جو کہ تعین (ذاتی) سے واپس لوٹنے کے بعد ظاہر ہوا تھا وہ اس فنا میں گم ہو گیا اور کوئی اثر باقی نہیں رہا کہ جس پر انانیت و نفسانیت کا گمان ہو سکے۔ اس وقت حقیقی اسلام کے آثار رونما ہونے لگے اور شرک خفی (یعنی ریاکاری و نفسانی خواہشات کی پیروی) کے نشانات مٹ جانے کی علامات ظاہر ہونے لگیں اور اسی طرح اپنے اعمال کو ناقص سمجھنا اور اپنی نیتوں و ارادوں کو تہمت زدہ جاننا ظہور میں آنے لگا۔ غرضیکہ عبودیت (بندگی) اور نیستی (فنائیت) کی بعض علامات پھر سے (دوبارہ) ظاہر ہوئی ہیں۔ حق سبحانہ و تعالی آنجناب کی توجہ کی برکت سے بندگی کی حقیقت تک پہنچائے۔

اور محدِّد (عرش) پر بہت دفعہ عروج واقع ہوتے ہیں۔ پہلی مرتبہ جو عروج؂6 واقع ہوا اور مسافت طے کرنے کے بعد جب عرش کے اوپر پہنچا تو دار الخلد (یعنی بہشت) اپنے متعلقات کے ساتھ مشہود ہوا۔ اس وقت دل میں خیال آیا کہ وہاں (بہشت میں) بعض اشخاص کے مقامات کا مشاہدہ کروں۔ جب میں اس امر کی طرف متوجہ ہوا تو ان اشخاص کے مقامات نظر آئے اور ان اشخاص کو بھی ان کے مکان و مرتبہ اور شوق و ذوق کے اعتبار سے اپنے اپنے مرتبہ کے مطابق ان مقامات میں دیکھا۔

دوسری مرتبہ پھر عروج واقع ہوا، بڑے بڑے مشائخ، ائمہ اہل بیت و خلفائے راشدین کے مقامات اور حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص مقام اور اسی طرح باقی تمام انبیاء و رسل (علیہم السلام) کے مقامات، ان کے مرتبوں کے فرق کے مطابق اور فرشتوں کی بلند ترین جماعت کے مقامات عرش کے اوپر مشاہدہ میں آئے۔ اور اس قدر عروج واقع ہوا کہ مرکز زمین سے عرش تک یا اس سے کچھ کم، اور حضرت خواجہ نقشبند؂7 قدس اللہ تعالی سرہ الاقدس (اللہ تعالی ان کے پاکیزہ ترین اسرار کو اور بھی پاکیزہ بنائے) تک پہنچ کر ختم ہوا۔ اور اس مقام کے اوپر بلکہ معمولی سی بلندی کے ساتھ اسی مقام میں چند مشائخ مثلا شیخ معروف؂8 کرخی اور شیخ ابو سعید؂9 خزاز (رحمہما اللہ) تھے۔ اور باقی مشائخ میں سے بعض حضرات اس مقام سے نیچے اپنے مقامات رکھتے تھے اور بعض مشائخ اسی مقام میں تھے لیکن ذرا نیچے تھے مثلًا شیخ علاؤ الدولہ؂10 و شیخ نجم الدین؂11کبریٰ (رحمہما اللہ)۔ اور اس مقام سے اوپر آئمۂ اہل بیت کے مقامات تھے اور ان کے اوپر خلفائے راشدین کے مقامات تھے، رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین (اللہ تعالی ان سب سے راضی ہو)۔ اور باقی تمام انبیائے کرام علی نبینا و علیہم الصلوۃ و السلام کے مقامات آں سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام سے ایک طرف علیحدہ تھے، اور اسی طرح ملائکہ مقربین صلوات اللہ و سلامہ علی نبینا و علیہم اجمعین کے مقامات اس مقام کے دوسری طرف علیحدہ تھے، لیکن آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام تمام مقامات سے بلند و برتر تھا۔ اللہ تعالی ہی تمام امور کے حقائق کو پوری طرح جانتا ہے۔

اور جس وقت میں چاہتا ہوں اللہ سبحانہ وتعالی کی عنایت سے عروج واقع ہوتا ہے اور بعض اوقات بلا ارادہ بھی عروج واقع ہو جاتا ہے اور کوئی دوسری چیز بھی مشاہدہ میں آ جاتی ہے۔ اور بعض عروجوں کے نتائج و احکام بھی ظاہر ہو جاتے ہیں اور اکثر چیزیں بھول جاتی ہیں۔ اور میں بہت چاہتا ہوں کہ بعض حالات کو لکھ لوں (نوٹ کر لوں) تاکہ آنجناب کی خدمت میں عریضہ لکھتے وقت یاد آ جائیں لیکن یہ بات حاصل نہیں ہوتی کیونکہ یہ امور حقیر اور ہیچ نظر آتے ہیں کہ ان سے توبہ و استغفار کرنا ہی مناسب ہے چہ جائیکہ ان کو لکھا جائے۔ اس عریضے کے لکھتے وقت بھی بعض چیزیں یاد تھیں لیکن عریضہ ختم کرنے تک یاد نہیں رہیں ورنہ لکھی جاتیں اس لئے زیادہ گستاخی نہیں کی۔

ملا قاسم علی؂12 کی حالت بہتر ہے، اس پر استہلاک اور استغراق (فنا و محویت) کا غلبہ ہے اور اس نے جذبہ (سیر انفسی) کے تمام مقامات سے اوپر قدم رکھا ہے۔ پہلے وہ صفات کو اصل (اپنی ذات) سے دیکھتا تھا اب اس کے با وجود صفات کو اپنے سے جدا دیکھتا ہے اور اپنے آپ کو بالکل خالی پاتا ہے، بلکہ اس نور کو بھی جس کے ساتھ صفات قائم ہیں، اپنے آپ سے جدا دیکھتا ہے اور خود کو اس نور سے ایک طرف (الگ) پاتا ہے۔ اور دوسرے دوستوں کے حالات بھی روز بروز بہتری و ترقی پر ہیں۔ ان شاء اللہ العزیز دوسرے عریضہ میں یہ خادم مفصل عرض کرے گا۔

؂1 اللہ کے 99 اسمائے حسنیٰ کا ذکر حدیث شریف میں آیا ہے ان میں سے ایک اسم الظاہر ہے۔ یہاں معارفِ اسم الظاہر سے مراد وہ معارف و تجلیات ہیں جو سالک کے ادراک و تعمیر میں آ سکتی ہیں جیسا کہ تجلیات اسماء و صفات تعالیٰ و تقدس۔ اور اسم باطن کے معارف سے مراد وہ تجلیات و معارف ہیں جو بے چونی و بے کیفی کے باعث سالک کے ادراک سے بلند ہیں۔ اور یہ جو بعض عارفوں نے کہا ہے: "مَنْ عَرَفَ اللهَ طَالَ لِسَانُهٗ" (جس نے اللہ تعالی کو پہچانا اس کی زبان دراز ہو گئی) یہ معرفت اسم الظاہر کے معارف سے وابستہ ہے۔ اور یہ جو بعض عارفوں نے فرمایا: "مَنْ عَرَفَ اللهَ کَلَّ لِسَانُهٗ" (جس نے اللہ تعالی کو پہچانا اس کی زبان گونگی ہو گئی) یہ معرفت اسم باطن کے معارف سے وابستہ ہے۔

؂2 آپ کا اسم گرامی رضی الدین محمد باقی معروف بہ خواجہ باقی باللہ اور خواجہ بیرنگ بھی کہتے ہیں۔ آپ کے والد قاضی عبد السلام خلجی سمر قندی کابل کے مشہور عالم با عمل اور صاحب وجد و حال تھے۔

خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ کی ولادت با سعادت 971ھ میں شہر کابل میں ہوئی۔ بچپن ہی سے بزرگی و تقدس کے آثار آپ کی پیشانی نور افشانی سے ظاہر تھے۔ پانچ سال کی عمر ہوئی تو آپ کو خواجہ سعد کے مدرسہ میں بٹھا دیا گیا اور آٹھ سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ فرما لیا اور نماز، روزے کے ضروری مسائل بھی یاد کر لئے۔ اس کے بعد آپ نے کابل کے مشہور عالم مولانا صادق حلوائی رحمۃ اللہ علیہ سے تلمذ اختیار کیا اور انہیں کے ہمراہ ما وراء النہر تشریف لے گئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں آپ نے مولانا حلوائی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں میں ممتاز درجہ حاصل کر لیا۔

بعد ازاں "مرد کامل" کی تلاش آپ کو مختلف ممالک میں لے گئی آخر حضرت خواجہ امکنگی قدس سرہٗ کی بیعت و اجازت سے مشرف ہو کر ہندوستان تشریف لے آئے۔ دہلی پہنچنے کے بعد روحانی حلقوں میں بہت جلد آپ کی شہرت ہو گئی اور بہت سے امرائے شاہی بھی آپ کے معتقد ہو گئے۔ 1008ھ میں حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ آپ سے بیعت ہو کر خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے۔ آپ نے بروز ہفتہ 25 جمادی الاخریٰ 1012ھ میں اس دار فانی سے عالمِ جاودانی کی طرف رحلت فرمائی۔

آپ کا مزار دہلی ہندوستان میں مرجع عوام و خواص ہے، ”بحر معرفت“ سے تاریخ وفات نکلتی ہے۔ پسماندگان میں دو صاحب زادے خواجہ عبید اللہ عرف خواجہ کلاں رحمۃ اللہ علیہ اور خواجہ عبد اللہ عرف خواجہ خورد رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ خلفائے کرام میں حضرت مجدد الف ثانی، شیخ تاج سمبھلی اور خواجہ حسام الدین مشہور ہیں۔ قدس اللہ اسرارہم۔

مکتوبات شریفہ کے جامع نے حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ کی خدمت میں ارسال کردہ جملہ عریضے جن کی تعداد بیس ہے، ادبًا و احترامًا مکتوب کے شروع میں مسلسل درج کئے ہیں جو پیش نظر ہیں۔

؂3 نقشبندی، منسوب بہ خواجہ خواجگان حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبند بخاری قدس سرہٗ العزیز جو کہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ قدس اللہ اسرارہم کے مقتدا و پیشوا ہیں۔ احراری منسوب بخواجہ عبید اللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو کہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے ایک جلیل المرتبہ مرتبہ بزرگ گزرے ہیں۔

؂4 جاننا چاہیے کہ سالکین کو راہ سلوک طے کرنے کے زمانے میں مختلف قسم کے حالات و واردات اپنے اپنے مزاج اور طبیعت کے مطابق پیش آتے ہیں، مرید کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان حالات و واردات کو اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں عرض کر دیا کرے۔

؂5 اللہ تعالیٰ کے لئے رفیق کا لفظ حدیث میں وارد ہے: "إِنَّ اللهَ رَفِيْقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ" (الصحیح لمسلم، کتاب: البر و الصلۃ والآداب، باب: فضل الرفق، رقم الحدیث: 2593) (یعنی اللہ تعالی نرم خو ہے اور معاملات میں نرمی ہی کو پسند فرماتا ہے) نزع کے وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک پر یہ کلمات تھے: "اَللّٰھُمَّ الرَّفِيْقَ الأَعْلٰى" (الصحیح لمسلم، کتاب: فضائل الصحابۃ رضی اللہ عنہم، باب: فضل عائشۃ رضی اللہ عنہا، رقم الحدیث: 2444) (اے اللہ مجھے رفیقِ اعلیٰ [محبوبِ حقیقی] سے ملا دے)

؂6 عروج سے مراد سالک کا حق تعالیٰ کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے۔

؂7 حضرت خواجہ خواجگان سید بہاؤ الدین نقشبند بخاری قدس سرہٗ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے امام و پیشوا ہیں۔ کمخواب بافی کے پیشے یا اللہ تعالیٰ کا نقش دلوں پر بٹھانے کی وجہ سے آپ نقشبند مشہور ہوئے اور اسی وجہ سے اس طریقہ کو نقشبندیہ کہتے ہیں۔ بظاہر حضرت امیر کلال علیہ الرحمۃ سے فیض یافتہ تھے، صحابہ کرام علیہم الرضوان کے طریقے کے مطابق یہ طریقہ آپ پر فائض ہوا۔ بخارا سے تین میل کے قریب قصبہ قصر ہندوان میں آپ کی ولادت محرم 718ھ میں ہوئی اور وہیں شب دو شنبہ 3 ربیع الاوّل 791ھ میں وفات پائی۔ "قصر عرفان" کے اعداد سے سال وصال بر آمد ہوتا ہے۔

؂8 حضرت شیخ معروف کرخی قدس سرہٗ اولیائے کرام و قدمائے مشائخ میں سے ہیں، کنیت ابو محفوظ والد ماجد کا نام فیروز یا فیروزاں ہے۔ حضرت داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ سے مصاحبت رکھتے تھے۔ 200ھ بغداد میں اس دار فانی سے رحلت فرمائی۔

؂9 شیخ ابو سعید خزاز قدس سرہٗ اولیائے کرام میں سے ہیں، آپ کا اسم گرامی احمد بن عیسی اور لقب خزاز ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک روز موزہ سیتے اور پھر ادھیڑتے تھے، لوگوں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ فرمایا: "اس سے قبل کہ نفس مجھے مشغول کرے، میں نفس کو مشغول کرتا ہوں"۔ اصلًا بغدادی تھے صوفیائے کرام کی صحبت میں مصر چلے گئے پھر مکہ مکرمہ میں مجاور ہو گئے۔ بڑے جلیل المرتبہ بزرگ ہوئے ہیں۔ آپ کے مقولات میں سے ہے: "رِيَاءُ الْعَارِفِيْنَ خَيْرٌ مِّنْ إِخْلَاصِ الْمُرِيْدِيْنَ" (عارفوں کی ریا [دکھاوا] مریدوں کے اخلاص سے بہتر ہے)۔ 286ھ میں وفات پائی۔

؂10 شیخ رکن الدین علاء الدولہ احمد بن محمد البیانکی قدس سرہٗ سمنان کے بادشاہوں میں سے تھے۔ 659ھ میں ولادت ہوئی، شیخ نور الدین عبد الرحمن سے صاحبِ اجازت ہوئے۔ کہتے ہیں کہ آپ نے اپنی عمر میں 200 سے زیادہ چلے کئے۔ شب جمعہ 22 رجب 736ھ میں وفات پائی۔

؂11 شیخ نجم الدین کبریٰ کی کنیت ابو الحسنات، اسم گرامی احمد بن عمرو اور لقب کبریٰ ہے۔ کہتے ہیں کہ وجد کی حالت میں آپ کی نظر جس پر پڑ جاتی تھی وہ ولایت کے درجے تک پہنچ جاتا تھا۔ چنگیزی لشکر سے لڑتے ہوئے 618ھ میں شہادت پائی۔

؂12 ملا قاسم علی کے نام صرف ایک مکتوب نمبر 118 دفتر اول میں ہے۔ نیز آپ کا تذکرہ دفتر اول مکتوبات نمبر 11 و 14 میں بھی ہے۔