مکتوب 197
پہلوان محمود1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ سعادت مند وہ شخص ہے جس کا دل دنیا سے سرد پڑ گیا ہو اور حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی محبت کی حرارت سے گرم ہو گیا ہو اور اس کے مناسب بیان میں۔
ثَبَّتَکُمُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ عَلٰی جَادَّۃِ الشَّرِیْعَۃِ (اللہ سبحانہٗ آپ کو شریعت کے سیدھے راستے پر ثابت قدم رکھے) سعادت مند وہ شخص ہے جس کا دل دنیا سے سرد ہو گیا ہو اور حق تعالیٰ کی محبت کی حرارت سے گرما گیا ہو۔ "دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے اور اس کا ترک تمام عبادات کا سر چشمہ ہے"2۔ کیونکہ دنیا حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی مغضوبہ3 (مظہرِ غضب) ہے۔ اور حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے جب سے اس کو پیدا فرمایا ہے، اس کی طرف دیکھا تک نہیں۔ دنیا اور دنیا والے طعن و ملامت کے داغ سے داغ دار ہیں۔ حدیث شریف میں ہے: "اَلدُّنْیَا مَلْعُوْنَۃٌ مَلْعُوْنٌ مَّا فِیْھَا إِلَّا ذِکْرَ اللّٰہِ"4 ترجمہ: ”دنیا ملعون ہے اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ تعالیٰ کے ذکر کے“۔ کیونکہ ذکر کرنے والے بلکہ ان کے وجود کے ذرات کا ہر ذرہ (رُواں رُواں) اللہ سبحانہٗ کے ذکر سے مملو (لبریز) ہے وہ اس وعید سے خارج ہیں (ان پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا)۔ چونکہ دنیا ایک ایسی چیز ہے جو دل کو حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف سے باز رکھتی ہے اور غیر حق میں مشغول کر دیتی ہے خواہ مال و اسباب ہوں یا جاہ و ریاست اور خواہ ننگ و ناموس۔ ﴿فَأَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلّٰی عَنْ ذِکْرِنَا﴾ (النجم: 29) ترجمہ: ”لہذا (اے پیغمبر) تم ایسے آدمی کی فکر نہ کرو جس نے ہماری نصیحت سے منہ موڑ لیا ہے“۔ نص قاطع ہے۔ جو کچھ بھی دنیا میں ہے بلائے جان ہے۔ دنیا دار دنیا میں تو ہمیشہ لڑنے جھگڑنے میں پریشان رہتے ہیں اور آخرت میں حسرت و ندامت کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہو گا۔
ترکِ دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ اس کی رغبت ترک ہو جائے اور اس رغبت کا ترک اس وقت متحقق ہوتا ہے جب کہ اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہو جائے اور اس طرح کا حصول ارباب جمعیت کی صحبت کے بغیر مشکل اور دشوار ہے۔ اگر ان بزرگوں کی صحبت میسر ہو جائے تو اس کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور اپنے آپ کو ان کے سپرد کر دینا چاہیے۔
میاں شیخ مزمل کی صحبت ہر چند آپ کے لئے غنیمت ہے اور اس قسم کے عزیز الوجود بزرگ کبریتِ احمر (سرخ گندھک یعنی اکسیر) سے بھی زیادہ نایاب ہیں لیکن اہلِ کرم کا طریقہ ایثار ہے یعنی اپنی حاجت پر دوسرے کی حاجت و ضرورت کو مقدم رکھنا ہے۔ اگر چند روز کے لئے میاں شیخ مزمل کو رخصت فرما دیں تو بہتر ہو گا، کام سے فارغ ہونے کے بعد ان شاء اللہ دوبارہ واپس چلے جائیں گے اور غائبانہ اخلاص بھی آپ کے لئے حضور کا سا کام دے گا۔ زیادہ کہنا درد سری ہے۔ اللہ سبحانہٗ ہم کو اور آپ کو سید البشر علیہ و علی آلہ من الصلوات اتمہا و من التحیات اکملہا کی متابعت پر استقامت عطا فرمائے۔ (آمین) وَ السَّلَامُ وَ الْإِکْرَامُ۔
1 پہلوان محمود کے نام تین مکتوبات ہیں، دفتر اول مکتوب 87، 88 اور 197۔ مزید حالات معلوم نہ ہو سکے۔
2 آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيْئَةٍ" (رَوَاهُ رَزِیْنٌ وَّ الْبَیْھَقِيُّ فِيْ شُّعَبِ الْإِیْمَانِ)
3 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إِنَّ اللهَ جَلَّ ثَنَاؤُهٗ لَمْ يَخْلُقْ خَلْقًا أَبْغَضَ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا، وَ مَا نَظَرَ إِلَیْھَا مُنْذُ خَلَقَهَا بُغْضًا لَّھَا" رَوَاہُ ابْنُ أَبِی الدُّنْیَا وَ الْبَیْھَقِيُّ وَ الْحَاکِمُ وَ ابْنُ عَسَاکِرَ۔ ھٰذَا خُلَاصَۃُ مَا قَالَ الْمُعَرِّبُ۔
4 رَوَاهُ التِّرْمَذِيُّ وَ ابْنُ مَاجَۃَ