دفتر 1 مکتوب 182: اس حدیث نبوی علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کے بیان میں جس میں صحابہ کرام نے اپنے برے خطرات (وساوس) کی شکایت کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب میں فرمایا: "یہ کمال ایمان میں سے ہے" اور اس کے مناسب بیان میں

مکتوب 182

ملا صالح کولابی؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس حدیث نبوی علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کے بیان میں جس میں صحابہ کرام نے اپنے برے خطرات (وساوس) کی شکایت کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب میں فرمایا: "یہ کمال ایمان میں سے ہے" اور اس کے مناسب بیان میں۔

درویشوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی (اتفاق سے) طالبان طریقت کے خطرات و وساوس کے بارے میں گفتگو شروع ہو گئی، اسی ضمن میں ایک حدیث کا ذکر آیا کہ ایک روز حضرت خیر البشر علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کے اصحاب کرام میں سے بعض نے آں سرور عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اپنے برے خطرات (وساوس) کی شکایت کی۔ آں سرور علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا: "ذٰلِکَ مِنْ کَمَالِ الْاِیْمَانِ"؂2 ترجمہ: ”یہ کمال ایمان میں سے ہے“۔ اس وقت اس حدیث کے معنی اس فقیر کے دل میں اس طرح آئے۔ اور حقیقت حال کو اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ہی زیادہ جانتا ہے۔ کہ کمال ایمان سے مراد کمال یقین ہے اور کمال یقین کمال قرب پر مترتب ہے اور قلب اور اس سے اوپر کے لطائف (روح، سر، خفی اور اخفیٰ) کو قربِ الہی جل شانہٗ جس قدر زیادہ حاصل ہو گا اسی قدر ایمان و یقین بھی زیادہ ہو گا اور قالب کے ساتھ اس کی بے تعلقی زیادہ ہو جائے گی اس وقت خطرات قالب میں بہت زیادہ ظاہر ہوں گے اور بہت نا مناسب وسوسے نمایاں ہوں گے پس لازمًا برے خطرات کا سبب کمال ایمان ہو گا۔ لہذا نہایت النہایت کے منتہی کو خطرات جس قدر زیادہ اور نا مناسب ہوں گے ایمان کی اکملیت اسی قدر زیادہ ہو گی کیونکہ کمال ایمان اس امر کا مقتضی ہے کہ تمام لطائف سے الطف لطیفے کو لطیفہ قالب کے ساتھ کامل بے مناسبتی ہو اور یہ بے مناسبتی جس قدر زیادہ ہو گی قالب اسی قدر زیادہ خالی اور ظلمت و کدورت سے زیادہ نزدیک ہو گا اور اس میں خطرات وساوس اسی قدر زیادہ ہوں گے بخلاف مبتدی اور متوسط کے، کہ اس قسم کے خطرات ان کے لئے زہرِ قاتل اور باطنی مرض کو زیادہ کرنے والے ہیں۔ فَلَا تَکُنْ مِّنَ الْقَاصِرِیْنَ (پس تو (ہمارے کلام کے سمجھنے میں) قصور کرنے والوں میں سے نہ ہو)۔

یہ معرفت اس فقیر کے دقیق معارف میں سے ہے۔ سلام ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اور حضرت محمد مصطفی علیہ و علی آلہ الصلاۃ و السلام کی تابع داری اپنے اوپر لازم کی۔

؂1 آپ کے نام دس مکتوبات ہیں اور تذکرہ دفتر اول مکتوب 161 پر ملاحظہ ہو۔

؂2 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ کے بعض اصحاب نے عرض کیا کہ ہم اپنے دلوں میں ایسی بات پاتے ہیں کہ جس کے متعلق بات کرنا بھی ہم کو بھاری معلوم ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا کیا واقعی ایسا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا جی ہاں، آپ نے فرمایا: "یہ صریح ایمان کی علامت ہے"۔ (رواہ مسلم)