دفتر 1 مکتوب 181: اللہ تعالیٰ ان کو دوستوں کے سروں پر سلامت اور باقی رکھے۔ ان کے اس سوال کے جواب میں کہ اس کا کیا سبب ہے کہ میں مشائخ کی ایک جماعت کو دیکھتا ہوں کہ قربِ الہی جل شانہٗ کے مراتب میں ادنیٰ درجہ رکھتی ہے لیکن زہد و توکل وغیرہ میں ان کے درجات بہت بلند ہیں اور اسی طرح مشائخ کی دوسری جماعت کو دیکھتا ہوں کہ مراتبِ قرب میں فوقیت رکھتی ہے لیکن مذکورہ مقامات میں تنزل اور اس کے مناسب بیان میں

مکتوب 181

حضرت مخدوم زادہ اعنی میاں خواجہ محمد صادق؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ان کو دوستوں کے سروں پر سلامت اور باقی رکھے۔ ان کے اس سوال کے جواب میں کہ اس کا کیا سبب ہے کہ میں مشائخ کی ایک جماعت کو دیکھتا ہوں کہ قربِ الہی جل شانہٗ کے مراتب میں ادنیٰ درجہ رکھتی ہے لیکن زہد و توکل وغیرہ میں ان کے درجات بہت بلند ہیں اور اسی طرح مشائخ کی دوسری جماعت کو دیکھتا ہوں کہ مراتبِ قرب میں فوقیت رکھتی ہے لیکن مذکورہ مقامات میں تنزل اور اس کے مناسب بیان میں۔

میرے فرزندِ ارشد محمد صادق نے دریافت کیا کہ اس کا کیا سبب ہے کہ میں مشائخ کی ایک جماعت کو دیکھتا ہوں کہ قربِ الہی جل سلطانہٗ کے مراتب میں ادنیٰ درجہ رکھتی ہے حالانکہ مقامات زہد و توکل اور صبر و رضا میں ان کے درجات بہت بلند معلوم ہوتے ہیں اور مشائخ کی دوسری جماعت کو دیکھتا ہوں کہ وہ درجۂ قرب کے مراتب میں بلند درجہ رکھتے ہیں لیکن مقامات زہد و توکل وغیرہ میں ان کے قدم نیچے ہیں۔ اور یہ بات طے شدہ ہے کہ جس قدر یقین اتم ہو گا اسی قدر مقامات اکمل ہوں گے اور یقین کا اتم ہونا جناب قدس خدا وندی جل شانہٗ کی قربت کی وجہ سے ہے لہذا یہ بات چند امور سے خالی نہیں معلوم ہوتی یا تو ہماری کشفی نظر خطا کرتی ہے کہ قریب کو بعید اور بعید کو قریب جانتے ہیں یا ان مقامات کی اکملیت کا سبب یقین سے بالا تر کوئی بات ہے یا یقین کا قرب پر مترتب ہونا منحصر نہیں ہے۔

ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ یقین قرب پر مرتب ہے یعنی جتنا قرب زیادہ ہو گا اتنا ہی یقین بھی زیادہ ہو گا، اور ان مقامات کی اکملیت کا سبب بھی یقین کی اتمیت پر ہے اور کوئی وجہ نہیں۔ نظر کشفی بھی صحیح ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ قرب کا حصول اس (حق تعالیٰ) کی مہربانیوں میں سے الطف لطائف (سب سے بڑی مہربانی) ہے۔ لہذا یقین بھی اسی کے مطابق حاصل ہوتا ہے کیونکہ ان مقامات کی اکملیت کا مرتب ہونا یقین کی اتمیت پر منحصر ہے اس لئے وہ بھی ان ہی بزرگوں کو حاصل ہے۔

ہو سکتا ہے کہ کسی بزرگ نے با وجود قلت قرب کے مقامات الطف لطائف میں رہ کر درجہ حاصل کیا ہو اور لطائف کے کشف کی طرف رجوع نہ کیا ہو، اور مذکورہ مقامات میں زیادہ کامل ہو اس بزرگ سے جو مقام قرب کا زیادہ حامل ہے اور زیادہ کثیف لطیفے کے ساتھ جو کہ لطیفہ قالب ہے، رجوع کیا ہو کیونکہ جب لطیفہ قالب اس قرب سے محروم ہے تو یقین بھی اس کے نصیب میں نہیں ہو گا لہذا ان مقامات کی اکملیت کہاں سے پیدا کرے گا۔ اگر کوئی بزرگ اس لطیفہ کی طرف رجوع ہو گیا تو وہ اس لطیفہ کا حکم پیدا کر لے گا اور دوسرے لطائف کے یقینیات جو پہلے حاصل ہو گئے تھے سب پنہاں ہو گئے ہوں، بخلاف اس بزرگ کے جس کا رجوع قالب کی طرف متوجہ نہیں ہوا، تو اس کا حکم بھی الطف لطائف کے حکم میں ہے۔ اس کے حق میں قرب و یقین استقامت رکھتے ہیں اور وہ اس سے پوشیدہ نہیں ہوئے ہیں۔ پس لازمًا وہ مذکورہ مقامات میں اکمل و اتم ہو گیا۔ لیکن جاننا چاہیے کہ صاحب رجوع جس طرح یقین اور قرب میں اکمل ہے اسی طرح مقامات میں بھی اکمل ہے لیکن اس کے یہ کمالات پوشیدہ رکھے جاتے ہیں اور دعوت خلق کی خاطر عوام کی مناسبت کے حصول کے لئے اس کے ظاہر کو عوام الناس کے ظاہر کی طرح فائدے اور فیض کا باعث بنا دیتے ہیں۔ یہ مقام اصالۃً انبیاء مرسل علیہم الصلوات و التسلیمات کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل الرحمٰن علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام نے اپنے دل کا اطمینان طلب کیا اور یقین حاصل کرنے میں عوام الناس کی طرح ظاہری نگاہ سے دیکھنے کے محتاج ہوئے۔ اور حضرت عزیز علیٰ نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام نے بھی فرمایا: ﴿أَنّٰی یُحْیِيْ ھٰذِہِ اللّٰہُ بَعْدَ مَوْتِھَا﴾ (البقرۃ: 259) ترجمہ: ”اللہ اس بستی کو اس کے مرنے کے بعد کیسے زندہ کرے گا؟“۔ اور جس نے رجوع نہیں کیا اور اپنے یقین سے یہ کہا کہ "اگر (غیب کے) تمام حجابات اٹھا دیئے جائیں تو بھی میرے یقین میں اضافہ نہیں ہو گا"۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ کلام حضرت امیر (علی) کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کا ہے تو یہ اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ آپ کا یہ کلام رجوع إلی الخلق سے پہلے کا ہے کیونکہ رجوع کے بعد صاحبِ رجوع عوام الناس کی طرح یقین کے حصول میں دلائل و براہین کا محتاج ہے۔ اس درویش کو رجوع سے پیشتر علم کلام کے تمام معتقدات ظاہر ہو گئے تھے اور ان معتقدات کے یقین کو محسوسات کے یقین سے زیادہ پاتا تھا لیکن رجوع کے بعد وہ یقین پوشیدہ ہو گیا اور عوام الناس کی طرح دلائل و براہین کا محتاج ہو گیا۔

چناں کہ پرورشم می دہند می رویم

ترجمہ:

جس طرح پالتے ہیں پلتا ہوں میں

والسلام۔

؂1 آپ کے نام پانچ مکتوبات ہیں، دفتر اول مکتوب 181، 208، 234، 236، 260۔ آپ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے صاحب زادے اور اولیاءِ کبار میں سے تھے۔ بچپن ہی سے کشفِ قلوب اور کشفِ قبور میں نہایت عالی نظر تھے۔ اس غلبے کے با وجود علومِ عقلیہ و نقلیہ میں ماہر ہوئے۔ ولادت سنہ 1000ھ میں اور وفات سنہ 1025ھ میں ہوئی۔ (مفصل حالات کے لئے ہماری تالیف "حضرت مجدد الف ثانی" ملاحظہ ہو)