مکتوب 18
تمکین جو تلوین کے بعد حاصل ہوتی ہے اور ولایت کے تین قسم کے مراتب کے بیان میں اور اس بیان میں کہ واجب تعالیٰ کا وجود اس کی ذات پر زائد ہے وغیرہ وغیرہ۔(یعنی مسئلہ قضا و قدر اور مسئلہ خلق کے بیان میں) یہ بھی اپنے پیر و مرشد بزرگوار کی خدمت میں لکھا۔
بندۂ کمترین پُر تقصیر احمد بن عبد الاحد عرض کرتا ہے کہ جب تک (قلبی) حالات و واردات میں سے کچھ ظاہر ہوتے رہے اُن کے عرض کرنے کی گستاخی اور جرأت کرتا رہا لیکن جب حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے حضور کی بلند توجہات کی برکت سے حالات کی غلامی سے آزاد کر دیا اور تلوین1 سے (بدل کر) تمکین2 کے ساتھ مشرف فرما دیا تو کام کا حاصل حیرت و پریشانی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا اور وصل سے جدائی اور قُرب سے بُعد کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا، اور معرفت سے عدم معرفت (نہ پہچاننے) اور علم سے جہل کے سوا کچھ زیادہ نہ ہوا، نا چار عریضے ارسال کرنے میں توقف واقع ہوا اور محض روز مرہ کے حالات عرض کرنے کی جرأت نہیں کی اور اس کے ساتھ ہی دل پر ایسی معنوی سردی غالب آ گئی ہے کہ کسی کام میں جوش و حرارت نہیں رکھتا اور بے کار لوگوں کی مانند کسی کام میں مشغول نہیں ہو سکتا
من3 ہیچم و کم ز ہیچ بسیارے
وز ہیچ و کم از ہیچ نیاید کارے
ترجمہ:
میں ہیچ ہوں، ہیچ سے بھی کم ہوں کیونکر بنے ہیچ و کم سے کچھ کام
اب ہم اصل بات بیان کرتے ہیں۔ تعجب یہ ہے کہ اب اس خادم کو حق الیقین4 کے ساتھ مشرف فرمایا ہے کہ جس مقام میں علم الیقین اور عین الیقین ایک دوسرے کا حجاب نہیں ہیں اور فنا و بقا اس جگہ جمع ہیں، عین حیرت و بے نشانی کی حالت میں علم و شعور کے ساتھ ہے اور نفسِ غَیبت میں حضور حاصل ہے، علم و معرفت کے با وجود جہل و نا شناسی کی زیادتی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ ع
عجب5 اینست کہ من واصل و سرگردانم
ترجمہ:
تعجب ہے کہ میں واصل ہوں اور پھر بھی پریشاں ہوں
اللہ تعالیٰ نے محض اپنی بے انتہا عنایت سے کمالات کے درجوں میں خوب ترقیاں عطا فرما دی ہیں۔ مقامِ ولایت سے اوپر مقامِ شہادت ہے اور ولایت کو شہادت کے ساتھ وہی نسبت ہے جو تجلئ صوری کو تجلئ ذاتی کے ساتھ ہے بلکہ ان دونوں نسبتوں (ولایت و شہادت) کا درمیانی بُعد اُس بُعد سے کئی درجے زیادہ ہے جو کہ ان دونوں تجلیات کے درمیان ہے، اور مقامِ شہادت سے اوپر مقامِ صدیقیت ہے اور ان دونوں مقامات میں جو فرق ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ نہ کسی عبارت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی اشارے سے بیان کیا جا سکتا ہے، اور اس کے اوپر مقامِ نبوت علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کے علاوہ اور کوئی مقام نہیں ہے اور ممکن نہیں کہ مقامِ صدییقت و مقامِ نبوت کے درمیان کوئی اور مقام ہو، بلکہ محال ہے اور اس کے محال ہونے کا یہ حکم واضح اور صحیح کشف سے معلوم ہوا ہے۔ بعض اہل اللہ نے ان دونوں مقاموں کے درمیان جو واسطہ ثابت کیا ہے اور اس کا نام قربت رکھا ہے اس سے بھی (اس خادم کو) مشرف فرمایا گیا اور اس مقام کی حقیقت پر اطلاع بخشی گئی۔
بہت زیادہ توجہ اور بے شمار عاجزی و زاری کے بعد شروع میں اسی طرح جیسا کہ بعض بزرگوں نے فرمایا ہے ظاہر ہوا، آخر کار حقیقت کا علم کرا دیا۔ ہاں اس مقام کا حاصل ہونا عروج کے وقت میں مقامِ صدیقیت کے حصول کے بعد ہے لیکن واسطہ ہونا غور طلب ہے۔ یہ خادم بالمشافہ ملاقات کے وقت ان شاء اللہ تعالیٰ اس کی حقیقت کو مفصل عرض کرے گا۔ وہ مقام بہت ہی بلند ہے، عروج کی منزلوں میں اس مقام سے اوپر اور کوئی مقام معلوم نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر وجود کا زائد ہونا اسی مقام میں ظاہر ہوتا ہے جیسا کہ علمائے اہلِ حق کے نزدیک ثابت ہے شَکَرَ اللہُ تَعَالٰی سَعْیَھُمْ (اللہ تعالیٰ ان کو ان کی کوششوں کی جزائے خیر عطا فرمائے) اور یہاں وجود بھی راستے ہی میں رہ جاتا ہے اس سے بھی اوپر عروج واقع ہو جاتا ہے۔
ابو المکارم رکن الدین شیخ علاؤ الدولہ اپنی کسی تصنیف میں فرماتے ہیں: "وَ فَوْقَ عَالَمِ الْوُجُوْدِ عَالَمُ مَلِکِ الْوَدُوْدِ" ”یعنی عالم وجود و ہستی کے اوپر اَلْمَلِكُ الْوَدُوْدِ (بہت محبت کرنے والے بادشاہ) کا عالم ہے“ اور مقامِ صدیقیت بقا کے مقامات میں سے ہے جو کہ عالَم کی طرف توجہ (رُخ) رکھتا ہے (مراتبِ نزول و بقا میں) اس مقام سے نیچے نبوت کا مقام ہے جو کہ حقیقت میں اس مقام (صدیقیت) سے بہت بلند ہے اور اس میں کمال درجے کا صحو و بقا ہے۔ مقامِ قربت ان دونوں مقاموں (صدیقیت و نبوت) کے درمیان برزخ (واسطہ) ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا کیونکہ اس کی توجہ خالص تنزیہ کی طرف ہے اور یہ تمام کا تمام عروج ہے، ان دونوں6 کے درمیان بہت بڑا فرق ہے؎
در پسِ آئینہ طوطی صفتم داشتہ اند
ہر چہ استادِ اَزَل گفت بگو می گویم
ترجمہ:
مجھے طوطی کی مانند آئینے کے پیچھے رکھا ہے
وہی کہتا ہوں استادِ ازل جو مجھ سے کہتا ہے
شرعی، نظری، استدلالی (یعنی نظر و استدلال سے ثابت شدہ شرعی) علوم کو ضروری کشفی بنا دیا ہے۔ علمائے شریعت کے اصول سے ایک بال بھر (یعنی ذرا سی) بھی مخالفت نہیں ہے بلکہ انہی اجمالی علوم کو تفصیلی کر دیا ہے اور نظریّت7 سے ضروریّت8 کی طرف لائے ہیں۔ ایک شخص نے حضرت خواجۂ بزرگ (خواجہ بہاؤ الدین نقشبند قدس سرہُ العزیز) سے دریافت کیا کہ سلوک سے مقصود کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تاکہ اجمالی معرفت تفصیلی اور استدلالی معرفت کشفی ہو جائے“۔ اور یہ نہیں فرمایا کہ ان (علومِ شرعیہ) کے علاوہ کوئی اور علوم حاصل ہوتے ہیں، ہاں راستے میں بہت سے علوم و معارف پیش آتے اور ظاہر ہوتے ہیں جن سے گزر جانا چاہیے، اور جب تک سالک نہایت النہایت تک جو کہ مقامِ صدیقیت ہے نہ پہنچے ان علوم سے حصہ حاصل نہیں کر سکتا۔ بعض اہل اللہ جو البتہ اس مقام شریف یعنی مقامِ صدیقیت کے حاصل ہونے کے قائل ہیں لیکن ان کو اس مقام کے علوم و معارف کے ساتھ کچھ بھی مناسبت نہیں ہے کاش میں جانتا کہ اس کی کیا وجہ ہے۔ ﴿وَ فَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ﴾ (یوسف: 76) ”اور جتنے علم والے ہیں، ان سب کے اوپر ایک بڑا علم رکھنے والا موجود ہے“ اور اس خادم کو مسئلہ قضا و قدر9 کے راز پر بھی اطلاع بخشی گئی اور اس کا اس طرح پر علم کرایا گیا کہ کسی طرح بھی روشن شریعت کے ظاہری اصول و قواعد سے مخالفت لازم نہیں آتی اور یہ (مسئلہ تقدیر) ایجاب پر (واجب و لازم قرار دینا) کے نقص اور جبر (مجبور کرنا) کی آمیزش سے پاک و صاف ہے اور چودہویں رات کے چاند کی طرح ظاہر ہے۔
تعجب ہے کہ جب یہ مسئلہ (تقدیر) اصولِ شریعت کے مخالف نہیں ہے تو پھر اس کو پوشیدہ کیوں رکھا ہے، اگر کچھ بھی مخالفت رکھتا تو اُس کا چھپانا اور پوشیدہ رکھنا مناسب تھا (لیکن) ﴿لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ﴾ (انبیاء: 23) ”وہ جو کچھ کرتا ہے اس کا کسی کو جواب دہ نہیں ہے“۔
کرا زہرۂ آں کہ از بیمِ تو
کشاید زباں جز بہ تسلیمِ تو
ترجمہ:
کس کی طاقت ہے کہ تیرے خوف سے
ماسوا تسلیم کچھ بھی کہہ سکے
علوم و معارف ابر بہاری کی طرح اس قدر برس رہے ہیں کہ ادراک کرنے (پانے) والی قوت ان کے برداشت کرنے سے عاجز ہو جاتی ہے، قوتِ مدرکہ کہنا محض تعبیر کے طور پر ہے، وَ إِلَّا لَا یَحْمِلُ عَطَایَا الْمَلِكِ إِلَّا مَطَایَاہُ (ورنہ بادشاہوں کے عطیات کو بادشاہوں کی سواریاں ہی اٹھا سکتی ہیں) شروع میں یہ شوق تھا کہ ان عجیب و غریب علوم کو لکھ لیا جائے لیکن اس کی توفیق نہیں پاتا تھا، اور اسی وجہ سے طبیعت پر بوجھ رہتا تھا، آخر کار تسلی فرما دی گئی کہ ان علوم کے فیضان کرنے کا مقصد مَلَکہ10 حاصل کرنا ہے نہ کہ ان علوم کا یاد کرنا۔ چنانچہ طالبانِ علم، علوم اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ مولویت کا مَلَکہ حاصل کر لیں، اس لیے علوم حاصل نہیں کرتے کہ صرف و نحو وغیرہ کے اصول حفظ کر لیں۔ اب ان علوم میں سے بعض عرضِ خدمت ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿لَیْسَ کَمِثْلِهٖ شَیئٌ وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْر﴾ (الشورٰی: 11) ”کوئی چیز اس کے مثل نہیں ہے، اور وہی ہے جو ہر بات سنتا، سب کچھ دیکھتا ہے“۔ اس آیتِ مبارکہ کا پہلا جز خالص تنزیہ کو ثابت کرتا ہے جیسا کہ ظاہر ہی ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول ﴿وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ﴾ اس تنزیہ کو پورا اور کامل کرنے والا ہے۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ چونکہ عالَم کے لیے سمع و بصر کے ثابت ہونے میں باہم مشابہت کے ثبوت کا وہم ہوتا ہے اگرچہ فرضی طور پر ہی ہو، اس لیے حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اس وہم کو دور کرنے کے لیے مخلوق سے سمع و بصر کی نفی فرما دی، یعنی سمیع و بصیر اللہ جل شانہٗ ہی ہے اور سمع و بصر (کی طاقت) جو مخلوق میں پیدا کی گئی ہے، دیکھنے اور سننے میں ان کا کچھ دخل نہیں ہے۔ جس طرح کہ اللہ تعالیٰ سمع و بصر کو پیدا کرتا ہے اسی طرح ان دونوں صفتوں سمع و بصر کے پیدا کرنے کے بعد جیسا کہ عادۃ اللہ اسی طرح جاری ہے ان صفات کی تاثیر کے بغیر سننے اور دیکھنے کو پیدا کر سکتا ہے۔ اگر ہم ان صفات کی تاثیر کے قائل ہوں تو ان میں تاثیر بھی حق تعالیٰ ہی کی پیدا کی ہوئی ہے۔ پس جیسا کہ ان مخلوقات کے اصل جماد محض ہیں (یعنی ان عناصرِ اربعہ میں قوتِ نشو و نما نہیں ہوتی) اسی طرح ان کی صفات بھی جماد محض ہیں، جس طرح کہ صاحبِ قدرت (اللہ تعالیٰ) محض اپنی قدرت سے پتھر میں صفتِ کلام پیدا فرما دیتا ہے تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ حقیقت میں پتھر کلام کرتا ہے اور کلام کی صفت رکھتا ہے، جس طرح پتھر جماد محض ہے اگر بالفرض اس میں یہ صفتِ کلام بھی موجود ہو تو بھی جماد محض ہے اُس پتھر سے حرف و آواز کے ظاہر ہونے میں صفت کلام کا کوئی دخل نہیں ہے، تمام صفات11 اسی طرح پر ہیں۔
غرض کہ جب یہ دو صفتیں زیادہ ظاہر تھیں تو اللہ تعالیٰ نے نفی کے لیے ان دونوں کو خاص کر لیا اور ان دونوں کی نفی سے باقی صفات کی نفی بطریقِ اولیٰ لازم آئے گی۔
حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اول صفتِ علم کو پیدا کیا، پھر صفت علم کی توجہ معلوم کی طرف پیدا کی پھر معلوم کے ساتھ اس صفت کا تعلق پیدا کیا، اس کے بعد معلوم کو اس پر منکشف کر دیا۔ پس صفت علم کو پیدا کرنے کے بعد محض قانونِ قدرت کے مطابق (یعنی صفتِ علم کے دخل کے بغیر) اس میں انکشاف کو پیدا کیا، پس معلوم ہو گیا کہ صفتِ علم کو انکشاف میں کیا دخل ہو گا (یعنی کچھ دخل نہیں ہے)۔
اسی طرح حق تعالیٰ نے اول صفتِ سمع کو پیدا کیا پھر مسموع کی طرف کان لگانا اور متوجہ ہونا پیدا کیا، اس کے بعد سننا اور پھر مسموع کا ادراک پیدا کیا۔
اسی طرح (حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے) اول بصر کو پیدا کیا پھر آنکھ کی پتلی کو دیکھی جانے والی چیز کی طرف پھرانا (گھمانا) اور توجہ کرنا پیدا کیا، اس کے بعد دیکھنا، پھر اس چیز کا ادراک پیدا کیا۔ علی ہذا القیاس (اسی پر مخلوق کی باقی صفات کو قیاس کر لیجیے) پس سمیع و بصیر وہی ذات ہے جس کے سننے اور دیکھنے کا مبدأ یہ دو صفتیں ہوں اور جب (حق سبحانہٗ و تعالی کے سوا کسی اور میں) ایسا نہیں ہے تو (حق تعالیٰ کے سوا) کوئی سمیع و بصیر بھی نہیں ہے۔ پس ثابت ہو گیا کہ ان کی صفات ان کی ذات (اصل) کی طرح جماد محض ہیں۔ پس آیت مذکورہ کے آخری حصے سے مقصود ان سے کلی طور پر صفات کی نفی کرنا ہے نہ یہ کہ ان کے لیے صفات ثابت ہیں، اور یہ صفات بعینہا حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے لیے بھی ثابت ہیں تاکہ اس تقدیر پر یہ قول تنزیہ میں جو آیت کے اول جز کا مفاد ہے اور تشبیہ میں جو کہ آیت کے آخر جز کا مفاد ہے جمع و موافقت ہو جائے یعنی ایسا نہیں ہے بلکہ پوری آیت کریمہ تنزیہ کے اثبات اور تشبیہ (مثل ہونے) کی کلی طور پر نفی کے لیے ہے۔
علم اول یعنی ان کی صفات کو خاص حق تعالیٰ کے لیے ثابت کرنا اور ان کی ذات (اصل) کو جمادِ محض جاننا اور پرنالے اور کوزے کی مانند معلوم کرنا کہ پانی وہاں سے ظاہر ہے یہ سب مقامِ ولایت کے مناسب علوم12 میں سے ہے (جو کہ ولایت کا پہلا درجہ ہے) اور علمِ ثانی یعنی ان کی صفات کو بھی جماد کی طرح معلوم کرنا اور اس تمام کو مَیّت (مردہ) جاننا کہ ﴿إِنَّكَ مَیِّتٌ وَّ إِنَّھُمْ مَیِّتُوْنَ﴾ (الزمر: 30) ”(اے پیغمبر) موت تمہیں بھی آنی ہے اور موت انہیں بھی آنی ہے“۔ یہ مقامِ شہادت کے مناسب علوم میں سے ہے (جو کہ ولایت کا دوسرا درجہ ہے)
اس بیان سے بھی ولایت کے ان دو مقامات کے درمیان کچھ فرق ظاہر ہو جاتا ہے، "وَ الْقَلِیْلُ یَدُلُّ عَلَی الْکَثِیْرِ وَ الْجُرْعَۃُ تُنْبِئُ عَنِ الْبَحْرِ وَالْغَدِیْرِ" (اور تھوڑی چیز زیادہ پر دلالت کرتی ہے اور قطرہ بڑے سمندر کی خبر دیتا ہے) ع
سالے کہ نکوست از بہارش پیداست
ترجمہ:
سال اچھا ہے وہی جس کی بہار اچھی ہے
اور اسی طرح اس عالی مقام کے لوگ مخلوقات کے افعال کو بھی مردہ اور جماد (بے جان چیز) کی طرح پاتے ہیں نہ یہ کہ ان کے افعال کو حق تعالیٰ کی طرف منسوب کریں اور اللہ تعالیٰ کو ان افعال کا فاعل جانیں، تَعَالَی اللہُ سُبْحَانَہٗ عَنْ ذٰلِكَ عُلُوًّا کَبِیْرًا (اللہ تعالیٰ سبحانہٗ کی ذات اس نسبت سے بہت ہی بلند ہے)۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص پتھر کو ہلاتا اور حرکت دیتا ہے تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ شخص متحرک ہے بلکہ وہ پتھر میں حرکت کا ایجاد کرنے والا ہے اور پتھر متحرک ہے۔ اس کے با وجود جس طرح کہ پتھر جمادِ محض ہے اس کی حرکت بھی جمادِ محض ہے۔ اگر بالفرض اس حرکت سے کوئی شخص ہلاک ہو جائے تو یہ نہیں کہیں گے کہ پتھر نے مارا بلکہ یہی کہیں گے کہ اس شخص نے مارا۔ علمائے شریعت شَکَرَ اللہُ تَعَالٰی سَعْیَھُمْ (اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں پر اجر و ثواب مرحمت فرمائے) اس علم کے موافق ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ مخلوقات سے افعال صادر ہونے کے با وجود، خواہ وہ افعال ان کے ارادے و اختیار سے ہی ہوں، لیکن ان فعلوں کے مفعول اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے اور پیدا کیے ہوئے ہیں، اور ان (یعنی مخلوقات) کے فعل کو ان مفعولات کے بنانے اور پیدا کرنے میں کوئی دخل نہیں ہے۔ ان افعال کی چند حرکتیں ہیں جن کی معمول و مصنوع کے بننے اور پیدا ہونے میں کچھ بھی تاثیر13 نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس تقدیر پر افعال کو ثواب و عذاب کا مدار بنانا خلافِ عقل ہے جیسا کہ پتھر کو کسی امر کا مکلف بنائیں اور اس کے فعل پر اچھائی اور برائی مرتب کریں، تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ پتھر اور مکلفین کے درمیان فرق ہے، اس لیے کہ تکلیفاتِ شرعیہ کا مدار قدرت و ارادے پر ہے اور پتھر میں ارادہ نہیں ہے، لیکن جب ان کا ارادہ بھی حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے بغیر اس کے کہ مراد کے حصول میں اس کی کوئی تاثیر ہو وہ ارادہ مردے کی طرح ہے اُسی طریقہ پر کہ ارادے کے ثابت ہونے کے بعد جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کی عادت جاری ہے مراد (جس چیز کا ارادہ کیا گیا ہو) پیدا کی جاتی ہے۔ اگر بالفرض مخلوق کی قدرت کو کسی ایک لحاظ سے مؤثر (اثر ڈالنے والی) بھی کہا جائے جیسا کہ علمائے ما وراء النہر شَکَرَ اللہُ تَعَالیٰ سَعْیَھُمْ (اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں پر اجر مرحمت فرمائے) نے کہا ہے تو یہ تاثیر بھی ان میں حق تعالیٰ نے ہی پیدا فرمائی ہے، جیسا کہ قدرت کو بھی اسی نے پیدا فرمایا ہے پس اس کی تاثیر میں اس کا بالکل کوئی اختیار نہیں ہے لہٰذا اس کی تاثیر بھی جماد کی مانند ہو گی۔ مثلًا کسی شخص نے ایک پتھر دیکھا جو کہ کسی حرکت دینے والے کی حرکت سے اوپر سے نیچے گرا اور ایک جاندار کو ہلاک کر دیا، وہ شخص جس طرح اس پتھر کو جماد جانتا ہے اس کے فعل کو بھی یعنی حرکت کو بھی جماد جانتا ہے اور اس فعل پر مرتب ہونے والے اثر کو بھی جو کہ ہلاک کرنا ہے جماد جانتا ہے۔ پس مخلوقات کی ذاتیں، صفات اور افعال سب کے سب محض جمادات اور صرف مردہ ہیں، فَھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَ ھُو السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ وَ ھُوَ العَلِیْمُ الْخَبِیرُ وَ ھُوَ الْفَعَّالُ لِمَا یُرِیْدُ (پس وہی ہمیشہ زندہ و قائم ہے اور وہی سننے والا دیکھنے والا ہے اور وہی علیم و خبیر ہے اور وہی جس چیز کا ارادہ کرے اس کو کرنے والا ہے) ﴿قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا﴾ (الکہف: 109) ”(اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ: اگر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے سمندر روشنائی بن جائے، تو میرے رب کی باتیں ختم نہیں ہوں گی کہ اس سے پہلے سمندر خشک ہو چکا ہو گا، چاہے اس سمندر کی کمی پوری کرنے کے لیے ہم ویسا ہی ایک اور سمندر کیوں نہ لے آئیں“۔
اس خادم نے بہت گستاخی کی اور بے حد جرأت واقع ہوئی، کیا کر سکتا تھا، بات کی عمدگی نے جو کہ جمیلِ مطلق (حق سبحانہٗ و تعالیٰ) کی طرف سے ہے اس بات پر مجبور کر دیا کہ جس قدر بات کو لمبا کیا جائے اچھا ہے اور جو کچھ اس کی طرف سے بیان کیا جائے عمدہ معلوم ہوتا ہے حالانکہ اپنے اندر کوئی مناسبت نہیں پاتا کہ اس بارگاہ کی نسبت کلام کرے یا اس کا پاک نام زبان پر لائے۔
ہزار بار بشستم دہن بمشک و گلاب
ہنوز نامِ تو گفتن کمال بے ادبی ست
ترجمہ:
گلاب و مشک سے دھو لوں دہن کو پھر بھی مگر
ہے نام آپ کا لینا کمال بے ادبی
ع:
بندہ باید کہ حدِ خود دانَد
ترجمہ:
چاہیے بندہ اپنی حد میں رہے
حضور کی توجہ و عنایت کا امید وار ہے، اپنی خرابی کے متعلق کیا عرض کرے اور جو کچھ اپنے اندر پاتا ہے آپ کی بلند توجہ منبع عنایات سے ہے ورنہ
من ہماں احمدِ پارینہ کہ ہستم ہستم
ترجمہ:
میں وہی احمد ہوں خادم ہوں پرانا آپ کا
میاں شاہ حسین توحیدِ وجودی کا طریقہ رکھتا ہے اور اس میں محفوظ ہے، دل میں آتا ہے کہ اس مقام سے اس کو نکالا جائے تاکہ مقامِ حیرت میں پہنچ جائے جو کہ مقصود ہے۔
محمد صادق14 بچپن ہی سے اپنے آپ کو ضبط نہیں کر سکتا، اگر کسی سفر میں ساتھ ہو جاتا ہے تو بہت ترقی کرتا ہے، دامنِ کوہ کی سیر میں ساتھ تھا بڑی ترقی کی اور مقامِ حیرت میں مستغرق ہے اور مقامِ حیرت میں اس فقیر کے ساتھ پوری پوری مناسبت رکھتا ہے، اور شیخ نور15 بھی اسی مقام میں ہے اس نے بھی بہت ترقی کرلی ہے۔ اس فقیر کے عزیزوں میں سے ایک جوان ہے اس کا حال بہت بلند ہے تجلیاتِ برقیہ کے قریب پہنچ چکا ہے اور چست و محنتی ہے۔
1 تلوین، طرح طرح کا ہونا، اور اہل تصوف کی اصطلاح میں فقر کے ایک مقام کا نام ہے۔ جاننا چاہیے کہ مشائخِ طریقت کے نزدیک تلوین سے مراد سالک کے دل کا ان احوال میں پھرنا جو اس پر گزرتے ہیں، اور بعض نے کہا کے دل کا بوجہ غَیبت صفات نفس اور اس کے ظہور کے کشف و احتجاب کے درمیان پھرنا۔ حضرت شیخ قدس سرہٗ اپنی اصطلاحات میں فرماتے ہیں کہ اکثر مشائخ کے نزدیک تلوین ایک ناقص مقام ہے لیکن ہمارے نزدیک سب مقامات سے افضل اکمل ہے اور بندے کا حال اس میں وہی ہے جیسا کہ حق سبحانہ و تعالی خود فرماتا ہے: ﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِيْ شَأْنٍ﴾ (الرحمن: 29) اور تمکین ہمارے نزدیک تمکین در تلوین ہے۔(رشحات) نیز جاننا چاہیے کہ تلوین اربابِ احوال کی صفت ہے اور تمکین اربابِ حقائق کی صفت ہے۔
2 تمکین، جگہ پکڑنا، قرار پکڑنا، قدر و مرتبہ، سالکوں کے ایک مقام کا نام ہے اور اہلِ تصوف کی اصطلاح میں اس سے مراد قربِ الہی میں دل کے اطمینان کے ساتھ کشفِ حقیقت کا دائمی ہونا ہے۔
3 اس شعر کا عربی شعر میں ترجمہ یہ ہے:
وَ إِنِّيْ لَا شَيْءٌ وَ مِنْ ذَاکَ أَنْقَصُ
وَ مَنْ ھُوَ لَا شَیْءٌ یَّکُوْنُ مُعَطَّلًا
4 حق الیقین، عین الیقین، علم الیقین؛ ان تینوں کے معنی جلد اول، مکتوب 277 میں مذکور ہیں وہاں ملاحظہ فرمائیں۔
5 اس مصرع کی تعریب یہ ہے:
أَلَا فَأَعْجِبُوْا مِنْ وَّاصِلٍ مُّتَحَیِّرٍ
6 یعنی مقامِ قربت بتمام و کمال عروج ہے اور مقام صدیقیت و نبوت کلی طور پر نزول و صحو و بقا ہے۔
7 یعنی جو فکر و نظر پر موقوف ہو۔
8 یعنی جو بدیہی و ظاہر ہو اور فکر و نظر پر موقوف نہ ہو۔
9 جاننا چاہیے کہ قضا اور قدر کے ایک ہی معنی ہیں یعنی خدائے تعالیٰ کا بندہ جانچا ہوا (اندازہ کیا ہوا) حکم۔ کبھی ان دونوں میں فرق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قضا ازلی ہے اور قدر لا یزال میں اس کا وقوع ہے پس قضا، قدر سے پہلے ہو گی اور اس کے بر عکس بھی۔ کہتے ہیں کہ قدر بمعنی تقدیرِ ازلی و قضا اس کے موافق بمعنی پیدا کرنا۔ فی الجملہ بندوں کے اعمال اور خیر و شر وغیرہ سے جو کچھ عالم میں واقع ہوتا ہے وہ سب تقدیرِ الہی سے ہے، کوئی ذرہ بھی اس کی تقدیر (اندازے) سے باہر نہیں ہے۔ اس کے با وجود حق تعالیٰ نے بندوں کو ایک طرح کا اختیار و قدرت و ارادہ عطا فرمایا ہے اور جمادات کی مانند مجبور محض نہیں بنایا جیسا کہ جبریہ کہتے ہیں اور اس مسئلہ کی تفصیل کتب عقائد میں دیکھنی چاہیے۔
10 ملکہ بمعنی استعداد و لیاقت، مہارت، صفتِ راسخہ اور طبیعت میں ایک قوت کا نام ہے جس کے ذریعہ اشیاء کا حصول کر سکتے ہیں۔
11 تمام صفات یعنی حیات، علم، کلام، قدرت اور ارادہ۔ یعنی وہی حق تعالیٰ شانہٗ جو در حقیقت حي، علیم، كلیم اور قدیر ہے۔ مخلوقات میں بھی یہ صفات پیدا کی گئی ہیں لیکن ان صفات کے آثار و نتائج میں مخلوقات کو کوئی دخل نہیں حق تعالیٰ ہی ان صفات کو پیدا کرتا ہے اور تاثیر بھی وہی عطا کرتا ہے کیونکہ عادۃ اللہ یہی ہے۔
12 جاننا چاہیے کہ مقاماتِ ولایت و شہادت و صدیقیت میں سے ہر ایک مقام کے اپنے جدا علوم و معارف ہیں جو اس مقام کے مناسب ہیں۔ چنانچہ مقامِ ولایت میں سُکر غالب ہے اور صحو مغلوب اور مقامِ شہادت میں اس کے بر عکس یعنی صحو غالب ہے اور سُکر مغلوب اور مقامِ صدیقیت میں سکر بالکل نہیں ہے۔(معارف لدنیہ، معرفت نمبر: 36)
13 جاننا چاہیے کہ حضراتِ اشاعرہ رحمہم اللہ تعالیٰ اس بات کے قائل ہیں کہ بندوں کے افعال میں صرف حق تعالیٰ کی قدرت مؤثر ہے، بخلاف جمہور معتزلہ کے کہ محض بندے کی قدرت کو افعال میں مؤثر جانتے ہیں۔ اس مسئلہ کی تفصیل کتب عقائد میں موجود ہے۔
14 حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ کے سب سے بڑے صاحب زادے۔
15 غالبًا شیخ نور محمد پٹنی مراد ہیں، اس لیے کہ آپ کے تذکرے میں ہے کہ حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو ذکرِ قلبی کی تعلیم سے مشرف فرمایا اور آپ کی تربیت حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے فرما دی۔ بعد ازاں حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو خلافت و اجازت عطا فرماکر پٹنہ روانہ کیا۔ مزید تفصیل کے لئے خاکسار کی تالیف ”حضرت مجدد الف ثانی“ صفحہ نمبر: 795 ملاحظہ فرمائیں۔