دفتر 1 مکتوب 175: احوال کی تلوینات (گونا گونی) اور تمکین (دل جمعی) کے حصول میں اور حدیث "لِيْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتٌ" کے معنی کے بیان میں

دفتر اول مکتوب 175

حافظ محمود؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ احوال کی تلوینات (گونا گونی) اور تمکین (دل جمعی) کے حصول میں اور حدیث "لِيْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتٌ" کے معنی کے بیان میں۔

برادر گرامی کا مکتوب شریف موصول ہوا۔ (جس میں) آپ نے اپنے احوال کی تلوینات (تبدیلیوں) کا جو مختصر تذکرہ کیا تھا (اس کے متعلق) جاننا چاہیے کہ سالکوں کو خواہ وہ ابتدا میں ہوں یا انتہا میں، احوال کی تلوینات کے بغیر چارہ نہیں کیونکہ ﴿كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَأنٍ﴾ (الرحمن: 29) ترجمہ: ”وہ ہر روز کسی شان میں ہے“۔ کا مقتضا یہی ہے۔ اس بارے میں حاصل کلام یہ ہے کہ اگر وہ تلوین (احوال کی تبدیلی) قلب پر ہے تو وہ سالک ارباب قلوب (اہل دل) سے ہے اور ابن الوقت (زمانہ ساز) کے نام سے موسوم ہے اور اگر قلب تلوین سے نکل گیا اور احوال کی غلامی سے آزاد ہو کر مقام تمکین و اطمینان میں پہنچ گیا تو اس وقت احوال متلونہ کی کیفیات نفس پر وارد ہوں گی جو کہ قلب کے مقام پر اس کی خلافت کے طور پر بیٹھا ہوا ہے۔ یہ تلوین تمکین کے حاصل ہونے کے بعد ہے اور اس تلوین والے کو اگر ابو الوقت کہیں تو جائز ہے اور اگر محض اللہ جل شانہٗ کے فضل و کرم سے نفس بھی ان تلوینات سے گزر جائے اور تمکین و اطمینان کے مقام پر پہنچ جائے تو اس وقت تلوینات قلب (جسم) پر وارد ہوتی ہیں جو امور مختلفہ (عناصر اربعہ) سے مرکب ہے، یہ تلوین دائمی ہے کیونکہ تمکین قالب کے حق میں متصور نہیں ہے اگرچہ وہ لطائف میں سے الطف لطیفہ (خفی و اخفیٰ) کے رنگ میں رنگا ہوا ہو کیونکہ وہ تمکین جو اس رنگین ہونے کے راستے سے قالب پر آتی ہے وہ بطریق تبعیت (اتباع کے طور پر) ہے اور احوال متلونہ کا وارد ہونا بطریق اصالت ہے، اور اعتبار اصل کا ہوتا ہے نہ کہ فرع اور تابع کا۔ اس مقام و اخص الخواص میں سے ہے اور حقیقت میں ابو الوقت بھی یہی شخص ہو سکتا ہے۔

اور آں سرور علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کی حدیث شریف "لِی مَعَ اللّٰہِ وَقْتٌ…الخ"؂2 یعنی میرے لئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک ایسا وقت بھی ہوتا ہے جس میں کوئی مقرب فرشتہ اور کوئی مرسل میرے ساتھ شریک نہیں ہو سکتا۔ جو آپ نے نقل کی ہے اس کا مطلب ایک جماعت نے اس "وقت" سے دائمی وقت مراد لیا ہے اور دوسری جماعت نے ایک خاص وقت مراد لیا ہے کیونکہ بعض لطائف کی نسبت (یعنی روح، سر، خفی اور اخفیٰ سے) بطریق استمرار (دائمی) ہے اور بعض (لطائف یعنی قلب و نفس) کی نسبت ندرت (قلت و کمی) لہذا دونوں میں کوئی تعارض اور مخالف نہیں ہے۔

غرض یہ ہے کہ اپنے ظاہر کو شریعت مطہرہ سے آراستہ کر کے باطنی سبق کے تکرار پر مداومت اختیار کریں۔

اندریں بحر بے کرانہ چو غوک

دست و پائے بزن چہ دانی بوک

ترجمہ:

ہے بڑا یہ بحر ناپیدا کنار

مثل مینڈک تو ہاتھ پاؤں کو مار

اخوی اعزی مولانا محمد صدیق آگرہ میں (مقیم) ہیں، ان کی ملاقات کو غنیمت سمجھیں۔

؂1 آپ کے نام تین مکتوبات ہیں، دفتر اول مکتوب 144، 175، 280۔ لہذا آپ کا مختصر تعارف مکتوب 144 کے فٹ نوٹ میں ملاحظہ فرمائیں۔

؂2 اس حدیث کی تخریج وغیرہ دفتر اول مکتوب 99 صفحہ 275 پر ملاحظہ ہو۔