دفتر اول مکتوب 165
سرداری و بزرگی کی پناہ والے شیخ فرید1 کی طرف صادر فرمایا۔ صاحبِ شریعت علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کی پیروی کی ترغیب اور آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام کی شریعت کے مخالفین کے ساتھ دشمنی اور بعض رکھنے اور ان پر سختی کرنے کے بیان میں۔
شَرَّفَکُمُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ بِتَشْرِیْفِ الْمِیْرَاثِ الْمَعْنَوِیِّ مِنَ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الْقُرَشِیِّ الْھَاشَمِیِّ عَلَیْہِ وَ عَلَی آلِہٖ مِنَ الصَّلَوَاتِ أَفْضَلُھَا وَ مِنَ التَّسْلِیْمَاتِ أَکْمَلِھَا کَمَا شَرَّفَکُمْ بِتَشْرِیْفِ الْمِیْرَاثِ الصُّوْرِیِّ وَ یَرْحَمُ اللّٰہُ عَبْداً قَالَ آمِیْنًا (اللہ سبحانہٗ آپ کو نبی امی قرشی ہاشمی علیہ و علی آلہ من الصلوات أفضلہا و من التسلیمات أکملہا کی باطنی میراث کی بزرگی سے مشرف فرمائے، جس طرح (حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے) آپ کو ظاہری میراث سے مشرف فرمایا ہے، اور اللہ تعالیٰ اس بندے پر بھی رحم فرمائے جو اس پر آمین کہے)۔
آنسرور علیہ و علی آلہ الصلوات التسلیمات کی ظاہری میراث کا تعلق عالمِ خلق سے ہے اور میراثِ معنوی کا تعلق عالم امر سے ہے کہ وہاں سراسر ایمان و معرفت اور رشد و ہدایت ہے۔ میراثِ صوری (ظاہری) کی نعمت عظمیٰ کا شکر یہ ہے کہ وہ میراثِ معنوی (باطنی) سے آراستہ و مزین ہو جائے اور باطنی میراث سے مزین ہونا نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام و التحیہ کی کمال اتباع کے بغیر میسر نہیں ہو سکتا لہذا آپ پر اوامر و نواہی میں حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی پوری پوری اتباع اور اطاعت لازم و واجب ہے اور کمال متابعت آنسرور علیہ الصلوۃ و السلام کی کمال محبت کی فرع ہے۔ مصرع:
اِنَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ ھَوَاہُ مُطِیْعٌ (مُحِبٌّ)
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کمال درجہ محبت کی علامت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دشمنوں سے کمال درجہ بغض رکھنا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت کے مخالفین کے ساتھ عداوت کا اظہار کرنا ہے۔ محبت میں سستی کی کوئی گنجائش نہیں، محب محبوب کا دیوانہ ہوتا ہے اور وہ مخالفت کی تاب نہیں رکھتا اور محبوب کے مخالفین سے کسی طرح بھی صلح و آتشی نہیں کرتا۔ دو مختلف محبتیں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں، متضاد کا جمع ہونا امر محال سے ہے، ایک سے محبت کے لئے دوسرے کی عداوت لازم ہے۔ خوب اچھی طرح غور کرنا چاہیے، ابھی معاملہ ہاتھ سے نہیں نکلا ہے (یعنی ابھی کچھ نہیں بگڑا) گزشتہ کا تدارک (توبہ و استغفار سے) کیا جا سکتا ہے۔ کل (موت کے بعد) جب کام ہاتھ سے نکل جائے گا (اس وقت) سوائے ندامت و شرمندگی کے کچھ حاصل نہ ہو گا؎
بوقت صبح شود، ہمچو روز معلومت
کہ باکہ باختہ عشق در شب دیجور
ترجمہ:
تجھ کو معلوم ہو گا بوقت صبح
رات کھوئی تھی کیسی علت میں
دنیا کا سامان محض فریب ہی فریب ہے، اور معاملۂ اخروی پر ابدی جزا مرتب ہو گی اگر چند روزہ زندگانی سید الاولین و الآخرین علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کی پیروی میں بسر کر لی جائے تو نجات ابدی کی امید ہے ورنہ محض بے کار ہی بے کار ہے خواہ کیسا ہی اچھا عمل کیوں نہ ہو؎
محمدؐ عربی کآبروئے ہر دو سرا است
کسے کہ خاک درش نیست خاک بر سر او
ترجمہ:
محمدؐ دو جہاں کی آبرو ہیں
جو خاک در نہیں برباد ہو گا
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی متابعت کی دولت عظمیٰ کا حاصل کرنا دنیا کو کلی طور پر ترک کرنے پر ہی موقوف نہیں ہے جو بہت مشکل معلوم ہوتا ہے بلکہ اگر فرض زکوٰۃ ادا کر دی جائے تو وہ ترک کل کا حکم رکھتی ہے، کیونکہ (زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد) مال پاک ہو کر ضرر و نقصان سے خالی ہو جاتا ہے، لہذا مال سے ضرر دور کرنے کا علاج اس مال کی زکوٰۃ ادا کرنا ہے۔ اگرچہ کلیۃً ترک (دنیا) اولیٰ و افضل ہے لیکن زکوٰۃ کی ادائیگی بھی (اس ترک کلی کا) کام کرتی ہے؎
آسماں نسبت بعرش آمد فرود
ورنہ بس عالی است پیش خاک تود
ترجمہ:
آسماں عرش سے تو نیچا ہے
ہے مگر اس زمیں سے وہ بلند
پس لازم ہے کہ ہمیشہ اپنی ہمت کو احکام شرعیہ کی بجا آوری سے صرف کیا جائے اور اہل شریعت علماء و صلحا کی تعظیم و توقیر کرنی چاہیے اور شریعت کو رواج دینے میں کوشاں رہنا چاہیے اور گمراہ و اہل بدعت کو ذلیل و خوار رکھنا چاہیے۔ "مَنْ وَقَّرَ صَاحِبَ بِدْعَۃٍ فَقَدْ أَعَانَ عَلٰی ھَدَمِ الْإِسْلَامِ"2 ترجمہ: ”جس نے کسی بدعتی کی تعظیم کی اس نے اسلام کو منہدم کرنے میں اس کی مدد کی“۔
اور کفار جو خدائے عز و جل اور اس کے رسول علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کے دشمن ہیں، ہم کو بھی ان کے ساتھ دشمنی رکھنی چاہیے اور ان کو ذلیل و خوار کرنے میں کوشش کرنی چاہیے اور کسی وجہ سے بھی ان کو عزت نہیں دینی چاہیے اور ان کے ساتھ شدت و سختی رکھنی چاہیے اور حتی المقدور کسی کام میں ان سے رجوع نہیں کرنا چاہیے۔ اگر بالفرض کوئی ضرورت پیش آجائے تو قضائے حاجت انسانی (کراہت و اضطرار) کے ساتھ اپنی ضرورت کو ان سے نکالنا چاہیے۔ یہ وہ راستہ ہے جو آپ کے جد بزرگوار علیہ الصلوات و التسلیمات کی بارگاہ تک پہنچا دیتا ہے۔ اگر یہ راہ نہ اختیار کی جائے تو اس جناب قدس تک رسائی دشوار ہے۔ افسوس ہی افسوس ہے۔
کَیْفَ الْوُصُوْلُ إِلٰی سُعَادَ وَ دُوْنَھَا
قُلَلُ الْجِبَالِ وَ دُوْنَھُنَّ خُیُوْفٌ
ترجمہ:
کیسے پہنچوں سعاد تک اے کعب!
کس قدر خوفناک راہیں ہیں
اس سے زیادہ کیا عرض کروں؎
اند کے پیش تو گفتم غم دل ترسیدم
کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است
ترجمہ:
ڈرتے ڈرتے کچھ سنایا دل کا غم
تم نہ آزردہ ہو، قصہ ہے طویل
1 آپ کا مختصر تذکرہ دفتر اول مکتوب نمبر 43 کے فٹ نوٹ میں ملاحظہ ہو۔
2 رَوَاهُ الْبَیْھَقِيُّ فِيْ شُعَبِ الْإِیْمَانِ مُرْسَلًا عَنْ إِبْرَاهِيْمَ بْنِ مَیْسَرَۃَ وَ ھُوَ تَابِعِيٌّ ثِقَۃٌ صَحِيْحُ الْحَدِیْثِ لَا مَثِیْلَ لَہٗ فِيْ زَمَانِہٖ۔ حَدِیْثُہٗ فِيْ أَھْلِ مَکَّۃَ۔ قَالَ الشَّیْخُ عَبْدُ الْحَقِّ الدِّھْلَوِيُّ وَ عَلِيٍّ الْقَارِیْ۔