مکتوب 164
حافظ بہاؤ الدین سرہندی1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا فیض خواص و عوام پر (ہر وقت اور) ہمیشہ وارد ہے اور اس کے قبول کرنے یا نہ کرنے کا فرق اپنی استعداد پر ہے۔
حق سبحانہٗ و تعالیٰ اپنے احسان و کرم سے شریعت مطہرہ کے راستے پر استقامت عطا فرمائے۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا فیض تمام خواص و عوام، ہر کریم و لئیم (سخی اور کنجوس) پر خواہ وہ مال کی قسم سے ہو، یا اولاد کی، یا ہدایت و ارشاد کی قسم سے ہو، سب پر بغیر امتیاز وارد ہو رہا ہے لیکن بعض کے فیوض قبول کرنے اور بعض کے قبول نہ کرنے میں فرق اسی (بندے کی طرف) سے پیدا ہوتا ہے: ﴿وَ مَا ظَلَمَھُمُ اللّٰہُ وَ لٰکِنْ کَانُوا أَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ﴾ (النحل: 33) ترجمہ: ”اور اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا، لیکن وہ خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھاتے رہے تھے“۔
موسم گرما میں سورج کپڑے اور دھوبی پر یکساں پڑتا ہے لیکن (سورج کی گرمی سے) دھوبی کا چہرہ سیاہ اور کپڑا سفید ہو جاتا ہے۔ یہ عدم قبول کی کیفیت خدا وند قدوس جل سلطانہٗ سے رو گردانی کی وجہ سے ہے اور رو گردانی کرنے والے کے لئے بد بختی لازم اور نعمت سے محرومی ضروری ہے۔ اس جگہ کوئی شخص یہ اعتراض نہ کرے کہ بہت سے رو گردانی کرنے والے ایسے ہیں جو دنیاوی نعمتوں کی وجہ سے ممتاز ہیں اور ان کی رو گردانی ان کی محرومی کا سبب نہیں بنی؟ جاننا چاہیے کہ یہ وہ بد بختی ہے جو استدراج کے طور پر اس کی خرابی کے لئے نعمت کی صورت میں ظاہر کی گئی ہے تاکہ (ایسا شخص) رو گردانی اور ضلالت میں منہمک رہے۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿أَ یَحْسَبُوْنَ أَنَّمَا نُمِدُّھُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّ بَنِیْنَ 0 نُسَارِعُ لَھُمْ فِی الْخَیْرَاتِ بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ﴾ (المؤمنون: آیت 55-56) ترجمہ: ”کیا یہ لوگ اس خیال میں ہیں کہ ہم ان کو جو دولت اور اولاد دیے جا رہے ہیں۔ تو ان کو بھلائیاں پہنچانے میں جلدی دکھا رہے ہیں؟ نہیں، بلکہ ان کو حقیقت کا شعور نہیں ہے“۔ پس (حق تعالیٰ سے) رو گردانی کے با وجود دنیا اور اس کی نعمتوں کا حاصل ہونا عین خرابی ہے۔ بچو اس سے بچو! و السلام۔
1 آپ کا مختصر تعارف دفتر اول کے مکتوب نمبر 138 کے فٹ نوٹ میں ملاحظہ ہو۔