دفتر اول مکتوب 163
سیادت و شرافت کی پناہ والے شیخ فرید1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ اسلام اور کفر ایک دوسرے کی ضد (مخالف) ہیں، ان دو ضدوں کے جمع ہونے کا احتمال محال ہے۔ ایک کو عزت دینے سے دوسرے کی ذلت لازم آتی ہے (آخر مکتوب تک (حضرت مجدد) سلمہ اللہ تعالےٰ نے کفار کی تذلیل میں اور ان سے میل جول نہ رکھنے کے بارے میں اور میل جول کے نقصان میں تحریر فرمایا ہے (جامع) اور اس بیان میں کہ (اسی طرح) دنیا و آخرت بھی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی أَنْعَمَ عَلَیْنَا وَ ھَدَانَا إِلَی الْإِسْلَامِ وَ جَعَلَنَا مِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ التَّحِیَّۃُ وَ السَّلَامُ (تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے ہم پر انعام فرمایا اور ہم کو اسلام کی طرف ہدایت کی اور ہم کو آنحضرت محمد مصطفےٰ علیہ الصلوۃ و التحیۃ و السلام کی امت میں بنایا)
دونوں جہان کی سعادت سید کونین علیہ و علیٰ آلہ الصلوات أفضلہا و من التسلیمات أکملہا کی اتباع سے وابستہ ہے اور بس۔ آنحضرت علیہ الصلوٰۃ و السلام کی متابعت اسلام کے احکام بجا لانے میں اور کفریہ رسومات کے دور کرنے میں ہے، کیونکہ اسلام اور کفر ایک دوسرے کی ضد ہیں، ایک کو اختیار کرنا دوسرے کو رد کرنا ہے۔ ان دو ضدوں کے جمع ہونے کا احتمال محال (نا ممکن) ہے اور ایک کو عزت دینے سے دوسرے کی تذلیل لازم آتی ہے۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ اپنے محبوب علیہ الصلوٰۃ و التحیۃ سے فرماتا ہے: ﴿یَا أَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ﴾ (التحریم: 9) ترجمہ:”اے نبی ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان کے مقابلے میں سخت ہو جاؤ“۔ پس (حق تعالیٰ نے) اپنے پیغمبر علیہ الصلوۃ و السلام کو جن کی صفت خلق عظیم ہے کفار سے جہاد اور سختی کا حکم فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان (کفار) کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنا بھی خلق عظیم میں داخل ہے۔ پس اسلام کی عزت، کفر اور کفار کی ذلت و خواری میں ہے۔ جس نے کفار کو عزیز رکھا اس نے اہل اسلام کو ذلیل کیا۔ ان کو عزت دینے کا مطلب یہی نہیں ہے کہ ان کی (خواہ مخواہ) تعظیم کریں، یا ان کو اونچی جگہ بٹھائیں، بلکہ ان کو اپنی محفلوں میں جگہ دینا یا ان کے ساتھ ہم نشینی رکھنا اور ان سے خلط ملط ہونا بھی ان کو عزت دینے میں داخل ہے۔ ان کو کتوں کی طرح اپنے سے دور رکھنا چاہیے اور دنیاوی ضرورتوں میں سے اگر کوئی غرض ایسی آن پڑے جو ان سے متعلق ہو اور بغیر ان کے حل نہ ہو سکے تو بے اعتنائی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے ضرورت کے مطابق ان سے کام لینا چاہیے۔ اسلام کا کمال تو یہ ہے کہ اس دنیاوی غرض کو بھی بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے۔
حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں اہل کفر کو اپنا اور اپنے پیغمبر کا دشمن2 فرمایا ہے، لہذا خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے دشمنوں کے ساتھ میل جول اور محبت رکھنا بڑے بھاری گناہوں میں سے ہے۔ ان دشمنوں کے ساتھ دوستی اور شیر و شکر ہونے میں کم سے کم ضرر اور نقصان یہ ہے کہ احکام شرعی کے جاری کرنے کی قدرت اور کفریہ رسومات مٹانے کی ہمت مغلوب اور کمزور ہو جاتی ہے اور موانست کا حجاب اس میں حائل ہو جاتا ہے اور یہ بہت بڑا ضرر و نقصان ہے، حق تعالیٰ کے دشمنوں کے ساتھ دوستی رکھنا خدائے عز و جل اور اس کے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ساتھ دشمنی تک پہنچا دیتا ہے۔
ایک شخص گمان کرتا ہے کہ وہ اہل اسلام سے ہے اور اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے کی تصدیق بھی کرتا ہے لیکن نہیں جانتا کہ اس قسم کے برے اعمال اس کے اسلام کی دولت کو بالکلیہ مٹا کر رکھ دیتے ہیں۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَیِّئَاتِ أَعْمَالِنَا (ہم اپنے نفسوں کی شرارتوں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں)
خواجہ پندارد کہ مرد واصل است
حاصل خواجہ بجز پندار نیست
ترجمہ:
تم سمجھتے ہو کہ مرد حق ہو تم
تم مگر اپنے گماں میں ہو گئے گم
ان نا لائقوں کا کام اسلام کے ساتھ تمسخر اور مذاق کے علاوہ کچھ نہیں اور وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ اگر ان کو موقع مل جائے تو اہل اسلام کو ہلاک کر دیں یا سب کو قتل کر دیں یا کفر کی طرف واپس لے جائیں، لہذا اہل اسلام کو بھی شرم آنی چاہیے کہ "اَلْحَیَاءُ مِنَ الْإِیْمَانِ" (حیا ایمان میں سے ہے) اور مسلمانی کے ننگ و عار کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اور ہمیشہ ان کو نیچا دکھانے کی فکر میں رہنا چاہیے۔ ہندوستان میں کافروں سے جزیہ موقوف ہونے کا باعث اہل کفر کی مصاحبت کی بد بختی کا نتیجہ ہے جو انھوں نے اس ملک کے سلاطین کے ساتھ اختیار کی ہے۔ ان سے جزیہ وصول کرنے کا اصلی مقصد ان کی تذلیل ہے اور یہ ذلت اس حد تک ہے کہ جزیہ کے خوف کی وجہ سے وہ اچھا کپڑا نہ پہن سکیں اور شان و شکوت اختیار نہ کر سکیں اور اپنی دولت کے ضبط ہو جانے کے گمان سے ہمیشہ لرزاں و ترساں رہیں۔ بادشاہ کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ جزیہ کی وصولی کو منع کر دے جب کہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے جزیہ کو ان کی ذلت و خواری ہی کے لئے مقرر فرمایا ہے جس سے مقصود ان کی رسوائی اور اہل اسلام کی عزت و غلبہ ہے۔
جہود ہر کہ شود کشتہ سود اسلام است
ترجمہ:
اسلام سر فراز ہے کافر کی موت سے
اسلام کی دولت حاصل ہونے کی نشانی اہل کفر کے ساتھ بغض و دشمنی ہے۔ حق سبحانہٗ و تعالےٰ نے قرآن مجید میں خود ان کو "نجس"3 فرمایا اور دوسری جگہ "رجس"4 فرمایا ہے۔ لہذا اہلِ اسلام کی نظر میں کفار نجس اور پلید ہی دکھائی دینے چاہیں، اور جب ان کو ایسا دیکھیں گے اور جانیں گے تو لازمی طور پر ان کی صحبت سے پرہیز کریں گے اور ان کی مجلسوں میں جانے سے کراہت کریں گے۔ ان (اہل کفر) سے کوئی بات دریافت کرنا اور پھر ان کے کہنے کے مطابق عمل کرنا ان دشمنوں کو کمال درجہ عزت دینا ہے۔ اگر کوئی شخص ان سے ہمت طلب کرے اور ان کے توسط سے دعا مانگے تو اس کا کیا (حشر) ہو گا۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ خود قرآن مجید میں فرماتا ہے: ﴿وَ مَا دُعَآءُ الْکفِرِیْنَ اِلَّا فِی ضَلَالٍ﴾ (الرعد: 14) ترجمہ: ”اور (بتوں سے) کافروں کے دعا کرنے کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ بھٹکتی ہی پھرتی رہے“۔ لہذا دعا کی قبولیت کا کہاں احتمال ہو سکتا ہے۔ (البتہ) اس قدر فساد و ضرر ضرور ہوتا ہے کہ ان کتوں کی عزت بڑھ جاتی ہے۔ اگر یہ دعا کرتے ہیں تو اپنے بتوں کے وسیلہ سے مانگتے ہیں۔ خیال کرنا چاہیے کہ یہ بات کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے اور مسلمانی کی بو تک باقی نہیں رہتی۔
ایک بزرگ نے فرمایا ہے: "تا یکے از شما دیوانہ نشود بمسلمانی نرسد" (جب تک تم میں سے کوئی دیوانہ نہ ہو جائے مسلمانی (کی حقیقت) تک نہیں پہنچ سکتا)۔ دیوانگی سے مراد کلمہ اسلام کو بلند کرنے کے لئے نفع و نقصان سے در گزر ہو جانا ہے۔ مسلمان رہنے کی صورت میں جو کچھ بھی پیش آئے ٹھیک ہے اور اگر کچھ بھی حاصل نہ ہو تو نہ ہو (یعنی کچھ بھی ہو جائے لیکن اسلام پر قائم رہے) اور جب مسلمانی (دولت اسلام) حاصل ہے تو خدائے عز و جل اور پیغمبر علیہ الصلوٰۃ و السلام و التحیۃ کی رضا مندی بھی حاصل ہے اور رضائے مولا سے بڑھ کر کوئی عظیم ترین دولت نہیں ہے۔ رَضِیْنَا بِاللّٰہِ سُبْحَانَہٗ رَبًّا وَّ بِالْإِسْلَامِ دِیْنًا وَّ بِمُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ نَبِیًّا وَّ رَسُوْلًا (یعنی ہم اللہ تعالیٰ سبحانہٗ کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور حضرت محمد رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے نبی اور رسول ہونے پر راضی ہیں)۔ مصرع:
ہم برینم بداریم یا رب
ترجمہ:
مجھ کو یا رب اسی پہ قائم رکھ
بِطُفَیْلِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ عَلَیْہِ وَ عَلٰی آلِهٖ مِنَ الصَّلَواتِ أَفْضَلُھَا وَ مِنَ التَّسْلِیْمَاتِ أَکْمَلُھَا أَوَّلًا وَّ آخِرًا سلام ہو۔
وقتی عجلت کی وجہ سے جو کچھ ضروری و لازمی سمجھا اجمال کے طور پر لکھ کر بھیج دیا ہے اور اگر بعد میں توفیق رفیق ہوئی تو اس سے زیادہ مفصل لکھ کر اظہار کیا جائے گا۔
جس طرح اسلام کفر کی ضد ہے اسی طرح آخرت بھی دنیا کی ضد ہے5۔ دنیا اور آخرت (دونوں ایک جگہ) جمع نہیں ہو سکتے۔ دنیا کا ترک دو قسم پر ہے، ایک تو یہ ہے کہ بقدر ضرورت سے زائد اس کی تمام جائز چیزیں بھی ترک کر دی جائیں، یہ ترک دنیا کی اعلیٰ قسم ہے۔ دوسری قسم یہ ہے کہ حرام اور شبہ والی چیزوں سے پرہیز کیا جائے اور مباح کاموں سے فائدہ اٹھایا جائے، یہ قسم بھی خصوصًا اس زمانے میں بہت ہی عزیز الوجود اور غنیمت ہے۔
آسماں نسبت بعرش آمد فرود
ورنہ بس عالی ست پیش خاک تود
ترجمہ:
آسماں عرش سے تو نیچا ہے
ہے مگر وہ اس زمیں سے بلند ہے
(پس مردوں کے لئے) ضروری ہے کہ سونا چاندی اور ریشمی لباس6 اور اس قسم کی چیزیں جو شریعت مصطفویہ علی مصدرہا الصلوۃ و التحیہ نے حرام کی ہیں، اجتناب کیا جائے۔ چاندی، سونے کے برتن اگر آرائش و زیبائش کے طور پر رکھے جائیں تو البتہ اس کی گنجائش ہے لیکن اس کو استعمال میں لانا اور ان میں کھانا کھانا، پانی پینا، خوشبو رکھنا، سرمہ دانی بنانا اور اسی قسم کی سب چیزیں حرام ہیں۔
الغرض حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے مباح کا دائرہ بھی بہت وسیع فرمایا ہے اور ان کو نعمت کے طور پر استعمال کرنا اور ان سے نفع حاصل کرنا حرام چیزوں کی نسبت زیادہ عیش و لذت بخش ہے کیونکہ مباحات میں حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی رضا مندی ہے اور محرمات میں حق تعالیٰ کی عدم رضا مندی (یعنی نا راضگی ہے)۔ عقل سلیم ہرگز اس بات کو جائز قرار نہیں دیتی کہ کوئی شخص محض ایسی (چند روزہ) لذت کی خاطر جو بالکل نا پائیدار ہے اور اس میں حق تعالیٰ کی رضا مندی بھی نہیں ہے اس کو اختیار کرے۔ حالانکہ (حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے) اس حرام لذت کے مقابلے میں مباح لذتیں تجویز فرما دی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اور آپ کو حضرت صاحب شریعت نبی اکرم علیہ و علیٰ آلہ الصلوٰۃ و التحیہ کی پیروی پر استقامت عطا فرمائے (آمین)
حلال و حرام کے معاملہ میں ہمیشہ دین دار علماء سے رجوع کرنا چاہیے اور ان سے دریافت کرنا چاہیے اور ان کے فتووں کے مطابق عمل کرنا چاہیے کیونکہ شریعت ہی نجات کا راستہ ہے اور شریعت کے بر خلاف جو کچھ بھی ہے وہ باطل اور بے اعتبار ہے: ﴿فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلَالُ﴾ (یونس: 32) ترجمہ: ”پھر حق واضح ہو جانے کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا باقی رہ گیا ؟“۔ وَ السَّلَامُ أَوَّلًا وَّ آخِراً۔
1 نواب شیخ فرید بخاری سے متعلق مختصر تذکرہ دفتر اول مکتوب 43 کے حاشیے میں ملاحظہ ہو۔
2 حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّيْ وَ عَدُوَّکُمۡ اَوۡلِیَآءَ﴾(الممتحنۃ: 1) ترجمہ: ”اے ایمان والو ! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ“۔
3 ﴿إِنَّمَا الۡمُشۡرِکُوۡنَ نَجَسٌ﴾(التوبہ: 28) ترجمہ: ”مشرک لوگ تو سراپا نا پاکی ہیں“۔
4 ﴿رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ﴾(المائدۃ: 90) ترجمہ: ”یہ سب نا پاک شیطانی کام ہیں، لہذا ان سے بچو“۔
5
ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں
ایں خیال است و محال است و جنوں
6 ریشمی لباس کی حرمت صرف مردوں کے لیے ہے، عورتوں کے لیے ریشمی لباس جائز ہے۔ اسی طرح سونے کے زیورات مردوں کے لئے حرام اور عورتوں کے لئے جائز ہیں، البتہ سونے کے برتن مرد و عورت دونوں کے لیے حرام ہیں۔ (رد المحتار)