دفتر اول مکتوب 162
خواجہ محمد صدیق بدخشی1 کی جانب صادر فرمایا۔ رمضان المبارک کی فضیلت اور اس مبارک مہینے کی قرآن مجید کے ساتھ مناسبت کے بیان میں جس کی بنا پر اس کا نزول اس ماہ مبارک میں ہوا اور کھجور کی جامعیت کے بیان میں کہ اس سے (روزہ) افطار کرنا مستحب ہے اور اس کے متعلقات کے بیان میں۔
باسمہ سبحانہٗ (اس پاک ذات کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں) (حق تعالیٰ کے) کلام کی شان جو کہ شیونات ذاتیہ میں سے ہے۔ وہ تمام کمالات ذاتیہ و شیونات صفاتیہ کا جامع ہے جیسا کہ سابقہ علوم میں (دفتر اول کے چودھویں مکتوب میں) ذکر ہو چکا ہے اور ماہ رمضان المبارک تمام خیرات و برکات کا جامع ہے اور ہر خیر و برکت جو بھی ہے وہ حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کی طرف سے فیض پہنچا رہی ہے اور اس ذات کے شیونات کا نتیجہ ہے کیونکہ جو شر و نقص بھی وجود میں آتا ہے اس کی ذات و صفات محدثہ کے منشا سے ہے: ﴿مَا أَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَ مَا أَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَفْسِکَ﴾ (النسا: 79) ترجمہ: ”تمہیں جو کوئی اچھائی پہنچتی ہے تو وہ محض اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور جو کوئی برائی پہنچتی ہے، تو وہ تمہارے اپنے سبب سے ہوتی ہے“ نص قاطع ہے۔ پس اس ماہ مبارک کی تمام خیرات و برکات ان کمالات ذاتیہ کا نتیجہ ہیں جس کی جامع شان کلام ربانی ہے اور قرآن مجید اس شان جامع کی تمام حقیقت کا حاصل ہے۔ لہذا اس ماہ مبارک (رمضان) کو قرآن مجید کے ساتھ مناسبت کلی حاصل ہے کیونکہ قرآن مجید تمام کمالات کا جامع ہے اور یہ مہینہ "جامع جمیع خیرات" یعنی ان تمام نیکیوں کا جامع ہے جو کہ ان کمالات کے نتائج و ثمرات ہیں اور یہی مناسبت اس ماہ مبارک میں قرآن مجید کے نزول کا باعث ہوئی: ﴿شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ﴾ (البقرۃ: 185) ترجمہ: ”رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا“۔ اور شب قدر جو اسی ماہ کا خلاصہ اور لب لباب ہے (وہ رات گویا) اس کا مغز ہے اور یہ مہینہ اس کے پوست کی مانند ہے۔ پس جو شخص اس مہینے کو جامعیت (یعنی تمام فرائض کو حسن و خوبی) کے ساتھ گزارے گا وہ اس کی تمام خیر و برکت سے مالا مال ہو گا اور (ان شاء اللہ) تمام سال جمعیت (و اطمینان) سے گزرے گا اور خیر و برکت کے ساتھ بہرہ ور ہوتا رہے گا۔ وَفَّقَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ لِلْخَیْرَاتِ وَ الْبَرَکَاتِ فِيْ ھٰذَا الشَّھْرِ الْمُبَارَکِ وَ رَزَقَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ النَّصِیْبَ الْأَعْظَمَ (اللہ تعالیٰ ہم کو اس مبارک مہینے کی خیرات و برکات حاصل کرنے کی توفیق عطا کرے اور اس کا بڑا حصہ نصیب فرمائے۔ آمین)
حضرت رسالت خاتمیت علیہ الصلوٰۃ و السلام و التحیۃ نے فرمایا ہے: "إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُکُمْ فَلْیُفْطِرْ عَلٰی تَمَرٍ فَاِنَّهٗ بَرَکَةٌ"2 ترجمہ: ”جب تم میں سے کوئی شخص روزہ افطار کرے تو اس کو کھجور سے افطار کرنا چاہیے کیونکہ اس میں برکت ہے“۔ آنسرور علیہ الصلوۃ و السلام کھجور سے روزہ افطار کرتے تھے، اور کھجور میں برکت کی وجہ یہ ہے کہ اس کا درخت نخلہ کہلاتا ہے جو اپنی جامعیت اور صفت اعدلیت کے لحاظ سے انسان کی طرح مخلوق ہے، یہی وجہ ہے کہ حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم نے نخلہ کو بنی آدم کی عمہ (پھوپھی) فرمایا ہے کیونکہ وہ طینت آدم (آدم کی بقیہ مٹی) سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آنحضرت علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا ہے: "أَکْرِمُوا عَمَّتَکُمُ النَّخْلَۃَ فَإِنَّھَا خُلِقَتْ مِنْ بَقِیَّۃِ طِینَۃِ آدَمَ"3 یعنی اپنی پھوپھی یعنی درخت خرما کی تعظیم کرو کیونکہ آدم علیہ الصلوۃ و السلام کی بقیہ مٹی سے پیدا کی گئی ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ اس کا نام "برکت" اسی جامعیت کے اعتبار کی وجہ سے رکھا گیا ہو۔ لہذا اس کے پھل یعنی کھجور سے افطار کرنا صاحب افطار کا جزو بن جاتا ہے اور درخت کی حقیقت جامعہ اس جزئیت کے اعتبار سے اس کے کھانے والے کی حقیقت کا جزو بن جاتی ہے اور اس کا کھانے والا اس اعتبار سے ان بے شمار کمالات کا جامع ہو جاتا ہے جو اس کھجور کی حقیقت جامعہ میں مندرج ہیں۔
یہ مطلب اگرچہ اس کے مطلق کھانے میں بھی حاصل ہو جاتا ہے لیکن افطار کے وقت جو روزہ دار کے شہوات مانعہ اور لذات فانیہ سے خالی ہونے کا وقت ہے، اس کا کھانا زیادہ تاثیر رکھتا ہے اور یہ مطلب کامل اور پورے طور پر ظاہر ہو جاتا ہے اور یہ آنسرور عالم علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا: "نِعْمَ سُحُوْرِ الْمُؤْمِنِ التَّمَرُ"4 ترجمہ: ”مومن کی بہترین سحری تمر (کھجور) ہے“۔ اس اعتبار سے ہو سکتا ہے کہ اس کی غذا میں جو صاحب غذا کا جزو بن جاتی ہے اس غذا کی حقیقت کے ذریعے سے اس صاحب غذا کی حقیقت کی تکمیل ہے نہ کہ اس کی غذا کی حقیقت اور جب یہ مطلب روزے میں مفقود ہے تو اس کی تلافی کے لئے تمر (کھجور) کی سحور پر بھی ترغیب فرمائی کہ گویا اس کا کھانا تمام ماکولات کے کھانے کا فائدہ رکھتا ہے اور اس کی برکت جامعیت کے اعتبار سے افطار کے وقت تک رہتی ہے۔ غذا کا یہ فائدہ جو مذکور ہو چکا ہے اس تقدیر پر مرتب ہوتا ہے کہ وہ غذا تجویز شرعی کے مطابق واقع ہو اور شرعی حدود سے سرِ مو تجاوز نہ ہو۔ نیز اس فائدے کی حقیقت اس وقت میسر ہوتی ہے جب کہ اس کا کھانے والا صورت سے گزر کر حقیقت تک جا پہنچا ہو اور ظاہر سے باطن تک پہنچ گیا ہو تاکہ غذا کا ظاہر اس کے ظاہر کو مدد دے اور غذا کا باطن اس کے باطن کو مکمل کر دے ورنہ صرف ظاہری امداد ناقص ہے بلکہ اس کا کھانے والا عین کمی میں ہے۔
سعی کن تا لقمہ را سازی گہر
بعد ازاں چنداں کہ می خواہی بخور
ترجمہ:
بنا لقمے کو کوشش سے تو گوہر
پھر اس کو کھا برابر سیر ہو کر
جلدی افطار کرنے اور سحری دیر سے کھانے میں حکمت یہی ہے کہ صاحب غذا کی غذا سے تکمیل ہو جائے۔ و السلام۔
1 خواجہ محمد صدیق بدخشی ملقب بہ "ہدایت" کا مختصر تذکرہ دفتر اول مکتوب 132 کے فٹ نوٹ میں ملاحظہ ہو۔
2 رَوَاہُ التِّرْمَذِيُّ (مشکوٰۃ)
3 رَوَاہُ أَبُوْ یَعْلٰی فِيْ مُسْنَدِہٖ وَ الْعَقِیْلِيُّ فِي الضُّعَفَاءِ وَ ابْنُ عَدِيٍّ وَ ابْنُ أَبِيْ حَاتِمٍ وَ ابْنُ السُّنِّيِّ وَ أَبُوْ نُعَیْمٍ فِيْ الطِّبِّ وَ ابْنُ مَرْدَوَیْہْ فِي التَّفْسِیْرِ عَنْ عَلِيٍّ بِلَفْظِ: "أَکْرِمُوا عَمَّتَکُمُ النَّخْلَۃَ فَإِنَّھَا خُلِقَتْ مِنْ فَضْلَۃِ طِینَۃِ أَبِیْکُمْ آدَمَ" قَالَ الْعَزِیْزِيُّ: أَسَانِیْدُھَا ضَعِیْفَۃٌ وَّلٰکِنْ بِاجْتِمَاعِھَا تَتَقَوّٰی۔ قَالَ الْمُعَرِّبُ
4 رَوَاهُ أَبُو دَاوٗدَ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْهُ۔ (از مشکوٰۃ)