دفتر اول مکتوب 166
ملا محمد امین1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ بے ثبات چند روزہ زندگی پر اعماد نہیں کرنا چاہیے اور اس تھوڑی سی فرصت کے زمانے میں ذکرِ کثیر کے ذریعے اپنی قلبی بیماری کے ازالے کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ یہ نہایت ضروری اور اہم کام ہے۔
میرے مخدوم! کب تک مادرِ مہربان کی طرح آپ اپنے نفس کو پالتے رہیں گے اور کب تک اپنے اوپر غم و غصہ میں پیچ و تاب کھاتے رہیں گے۔ خود اپنے آپ کو اور سب دوسروں کو مردہ خیال کرنا اور جماد چند (چند بے حس و حرکت) سمجھنا چاہیے: ﴿إِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ إِنَّهُمْ مَیِّتُوْنَ﴾ (الزمر: 3) ترجمہ: ”(اے پیغمبر) موت تمہیں بھی آنی ہے اور موت انہیں بھی آنی ہے“ نصِ قاطع ہے۔ اس مختصر فرصت میں اپنے قلبی امراض کی ذکر کثیر کے ذریعے ازالے کی فکر کرنا سب کاموں سے زیادہ اہم کام ہے اور اس قلیل مہلت میں رب جلیل کی یاد سے علت معنوی (باطنی امراض) کا علاج کرنا بڑے اعظم مقاصد میں سے ہے۔ لیکن جو دل دنیا میں گرفتار ہے اس سے خیر کی کیا توقع ہو سکتی ہے، اور وہ روح جو دنیائے فانی کی طرف مائل ہے اس سے تو نفس امارہ بہتر ہے کیونکہ وہاں (یعنی حق تعالیٰ کے ہاں) کامل سلامتی قلب طلب کرتے ہیں اور خلاصی روح چاہتے ہیں لیکن ہم کوتاہ اندیش روح اور قلب کی گرفتاری کے اسباب حاصل کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ افسوس در افسوس! کیا کیا جائے۔ ﴿وَ مَا ظَلَمَھُمُ اللّٰہُ وَ لَکِنْ کَانُوا أَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ﴾ (النحل: 33) ترجمہ: ”اور اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا، لیکن وہ خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھاتے رہے تھے“۔
دوسری بات یہ ہے کہ ظاہری ضعف و کمزوری کی طرف سے کوئی اندیشہ نہ کریں، ان شاء اللہ (یہ ضعف) صحت و عافیت سے تبدیل ہو جائے گا (راقم کا) دل اس طرف سے بالکل مطمئن ہے۔ فقیر کا جامہ جو آپ نے طلب کیا تھا لہذا پیراہن (کرتہ) بھیج دیا گیا ہے، اس کو پہنیں اور اس کے ثمرات و نتائج کے منتظر رہیں کہ یہ پیراہن بہت برکت والا ہے؎
ہر کس افسانہ بخواند افسانہ است
و آنکہ دیدش نقد خود مردانہ است
ترجمہ:
اس کو افسانہ تو ظاہر بیں کہے
ہے حقیقت مرد حق بیں کے لئے
اور سلام ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اور حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی متابعت کو اپنے اوپر لازم جانا۔
1 آپ کے نام صرف دو مکتوب ہیں، دفتر اول مکتوب 166 اور 199۔ غالبًا مولانا محمد امین بن خواجہ حسینی الہروی ثم لاہوری مراد ہیں۔ آپ ہرات میں پیدا ہوئے پھر قندھار آ کر شیخ زین الدین خوانی سے تحصیل علوم کیا۔ عہدِ اکبری میں ہندوستان آ کر ملک پر مضافات لاہور میں قیام پذیر ہو گئے۔ 86 سال کی عمر میں وفات پائی۔ (نزھۃ الخواطر، جلد: 5، صفحہ نمبر: 361)