مکتوب 156
یہ مکتوب بھی میاں مزمل کی طرف صادر فرمایا۔ اہل اللہ کی صحبت کی ترغیب میں۔
جو خط آپ نے جالندھر کے قاضی زادہ کے بدست بھیجا تھا دہلی میں موصول ہو گیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ الْمِنَّۃُ کہ آپ فقراء کی محبت کا نقد سرمایہ رکھتے ہیں اور اس حکم کے مطابق "اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ"1 ترجمہ: ”آدمی اس کے ساتھ ہے جس سے محبت رکھتا ہے“۔ آپ بھی ان ہی میں سے ہیں۔ ماہِ رجب (جس میں آپ نے آنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے) اگرچہ حساب اور زمانے کے لحاظ سے بہت نزدیک ہے لیکن پھر بھی بہت دور ہے۔
فراق دوست اگر اندک است اندک نیست
درون دیدہ اگر نیم مو است بسیار است
ترجمہ:
فراق یار ہو تھوڑا تو وہ نہیں تھوڑا
اگر ہو آنکھ میں کچھ بال وہ بنے شہتیر
چونکہ اربابِ حقوق کی رعایت کی بنا پر آپ نے اس مطلب (وہاں کے قیام) کو اختیار کیا ہے تو ایسا ہی کریں۔ یہ فقیر بھی شاید ماہِ رجب تک یہاں قیام کرے۔ وَ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ وَ اِلَیْہِ الْمَرْجَعُ وَ الْمَآبُ (اللہ تعالی سبحانہٗ ہی صحیح بات جانتا ہے اور اسی کی طرف سب کو رجوع ہونا ہے)
بہر حال چند روزہ زندگی، فقراء کے ساتھ گزارنی چاہیے: ﴿وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَ الْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهٗ﴾ (الکہف: 27) ترجمہ: ”اور اپنے آپ کو استقامت سے ان لوگوں کے ساتھ رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو اس لیے پکارتے ہیں کہ وہ اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں“۔ خود نصِ قاطع ہے کہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنے حبیب علیہ من الصلوات أتمہا من التحیات أیمنہا کو اس کا حکم فرمایا۔
ایک عزیز فرماتے ہیں کہ الہی یہ کیا ماجرا ہے، جو تُو نے اپنے دوستوں کے ساتھ کیا ہے کہ جو شخص ان (فقراء) کو پہچان لے وہ تجھ کو پا لیتا ہے اور جب تک تجھ کو نہیں پا لیتا ان کو نہیں پہنچانتا۔
رَزَقَنَا اللّٰہُ تَعَالٰی وَ إِیَّاکُمْ مَحَبَّۃَ ھٰذِہِ الطَّائِفَۃِ الْعَلِیَّۃِ الشَّرِیْفَۃِ (اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو اس بلند مرتبہ اور شریف گروہ کی محبت عطا فرمائے)۔ (آمین)
1 ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو کسی قوم سے محبت کرتا ہے حالانکہ وہ ان میں سے نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: "اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ" ترجمہ: ”انسان اسی کے ساتھ ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے“۔ متفق علیہ (مشکوٰۃ)