مکتوب 157
حکیم عبد الوہاب1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ جب کوئی شخص درویشوں کی خدمت میں جائے تو اس کو چاہیے کہ اپنے (دل و دماغ) کو خالی کر کے جائے تاکہ بھرا ہوا واپس آئے، اور اس بیان میں کہ سب سے پہلے اپنے عقائد کو درست کرنا چاہیے۔
آپ ہمارے ہاں دو مرتبہ تشریف لائے اور جلدی ہی واپس چلے گئے۔ اتنی فرصت نہ ملی کہ صحبت کے حقوق ادا کئے جاتے۔ ملاقات کا مقصود فائدہ پہنچانا یا فائدہ حاصل کرنا ہے اور چونکہ ملاقات ان دونوں (حالتوں) سے خالی رہی اس لئے یہ (ملاقات) کسی شمار میں نہیں ہے۔ اس گروہ (اہل اللہ) کے پاس (دل و دماغ کو) خالی کر کے آنا چاہیے تاکہ بھرا ہوا واپس جائے اور اپنی غربت (بے عملی) کا اظہار کرنا چاہیے تاکہ وہ اس پر شفقت (و ہمدردی) کریں اور فیض رسانی کا راستہ کھل جائے۔ سیراب آنا اور سیراب جانا (جیسا آیا ویسا گیا) مزے کی بات نہیں۔ پر شکمی مرض کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور لا پروائی سوائے سر کشی کی وجہ کے اور کچھ نہیں ہے۔ حضرت خواجہ نقشبند قدس اللہ تعالیٰ سرہٗ نے فرمایا ہے "پہلے نیاز مندی اور خستہ دلی در کار ہے اس کے بعد دلِ شکستہ کی توجہ"۔ پس توجہ حاصل کرنے کے لئے (طالب کی) نیاز مندی و عاجزی شرط ہے، اسی طرح ہونا چاہیے۔
اس وقت ایک طالب علم آیا اور آپ کی خدمت میں سفارش کی طلب کا اظہار کیا تو دل میں یہ بات آئی کہ آپ کی تشریف آوری کا بھی ایک حق ہے لہذا اپنی طرف سے بھی ممکن درجہ حق ادا کرنا چاہیے۔ اس لئے ضروری ہوا کہ زبانِ قلم سے گزری ہوئی بات کا تدارک و تلافی کرتے ہوئے چند کلمات وقت و حال کی مناسبت سے آپ کی طرف تحریر کر دیئے جائیں۔ وَ اللّٰہُ سُبْحَانَہُ الْمُلْھِمُ لِلصَّوَابِ وَ الْمُوَفِّقُ لِلسَّدَادِ (اللہ سبحانہٗ بہتری کی طرف الہام کرنے والا اور راستی کی توفیق دینے والا ہے)
اے سعادت مند! ہم پر اور آپ پر لازم ہے کہ کتاب و سنت کے مطابق اپنے عقائد کی تصحیح کریں (جس طریقہ پر کہ) علماء اہل حق شَکَرَ اللہُ تَعَالٰی سَعْیَہُمْ نے کتاب و سنت کو سمجھا ہے اور اس سے اخذ کیا ہے کیونکہ ہمارا اور آپ کا سمجھنا ان بزرگواروں کی فہم اور رائے کے موافق نہیں ہے تو وہ حدود و اعتبار سے ساقط ہے کیونکہ ہر بدعتی اور گمراہ اپنے باطل احکام کو کتاب و سنت کے مطابق سمجھتا ہے اور ان کو وہیں سے اخذ کر تا ہے۔ وَ الْحَالُ اَنَّہٗ لَا یُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا (حالانکہ ان سے حق کے متعلق کسی قسم کا بھی فائدہ نہیں ہوتا) دوسرے احکام شرعیہ حلال و حرام، فرض و واجب کا علم حاصل کرنا۔ تیسرے علم کے مطابق عمل کرنا۔ چوتھے تصفیہ و تزکیہ جو کہ خاص صوفیائے کرام قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کے ساتھ مخصوص ہے۔ لہذا جب تک اپنے عقائد کو درست نہ کریں احکامِ شرعیہ کا علم کچھ فائدہ نہیں دیتا اور جب تک یہ ہر دو متحقق نہ ہو جائیں عمل نفع نہیں دیتا۔ اور جب تک یہ تینوں میسر نہ ہو جائیں تصفیہ و تزکیہ کا حاصل ہونا محال ہے۔ یہ چاروں رکن اور ان کے متممات و مکملات اس طرح (ایک دوسرے سے وابستہ) ہیں جس طرح سنت فرض کو کامل کرتی ہے. اس کے بعد جو کچھ ہے وہ فضول اور بے کار باتوں میں داخل ہے۔ "وَ مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ وَ اشْتِغَالُہٗ بِمَا یَعْنِیْہِ"2 (انسان کے حسنِ اسلام کی علامت یہ ہے کہ لا یعنی بے کار باتوں کو چھوڑ کر با مقصد اور مفید باتوں میں مشغول ہو جائے)۔ اور سلامتی ہو اس پر جس نے آنحضرت محمد مصطفٰے علیہ و علیٰ آلہ الصلوات و التحیات کی ہدایت کی پیروی کی اور ان کی متابعت کو اپنے اوپر لازم جانا۔
1 آپ کے نام صرف یہی ایک مکتوب ہے، باقی حالات معلوم نہ ہو سکے
2 اس حدیث کو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ سے روایت کیا اور ابن ماجہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور ترمذی نے سنن میں و بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا۔ (مشکوٰۃ)