دفتر 1 مکتوب 153: غیر اللہ کی غلامی سے مکمل طور پر خلاصی کے بیان میں جو فنائے مطلق سے وابستہ ہے

مکتوب 153

میاں شیخ مزمل؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ غیر اللہ کی غلامی سے مکمل طور پر خلاصی کے بیان میں جو فنائے مطلق سے وابستہ ہے۔

وہ خط جو آپ نے بھیجا تھا موصول ہوا، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ذِی الْإِنْعَامِ وَ الْمِنَّۃِ (سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو بڑے انعام والا اور احسان والا ہے) کہ اپنے طالبوں کو اپنی طلب میں بے قرار و بے آرام رکھتا ہے اور اس بے آرامی میں اس آرام سے نجات بخشتا ہے جو اس کے غیر کے ساتھ میسر ہو۔ لیکن (سالک کو) غیر اللہ کی غلامی سے مکمل طور پر اس وقت خلاصی حاصل ہوتی ہے جب فنائے مطلق سے مشرف ہو جائے اور ما سویٰ کے نقوش کو دل کے آئینے سے بالکل محو کر دے اور علمی و حُبّی تعلق کسی چیز سے بھی باقی نہ رہے اور حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے علاوہ اس کا کوئی مقصود اور مراد نہ ہو۔ اس کے بغیر ایسا ہے جیسے خار دار درخت میں الجھنا۔ (انسان) ہر چند (ما سویٰ سے) اپنی بے تعلقی کا گمان رکھے لیکن ﴿إِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا﴾ (النجم: 28) ترجمہ: ”اور حقیقت یہ ہے کہ وہم و گمان حق کے معاملے میں بالکل کار آمد نہیں“۔ مصراع:

ایں کارِ دولت است کنوں تا کرا رسد

ترجمہ:

یہ کام ہے عظیم، ملے دیکھئے کسے

جو شخص اپنے احوال و مقامات میں گرفتار (پھنسا ہوا) ہے وہ بھی غیر اللہ کا گرفتار ہے، دوسری چیزوں کی گرفتاری کا تو ذکر ہی کیا۔

بہر چہ از دوست دامانی چہ کفر آں حرف و چہ ایماں

بہر چہ از راه دور افتی چہ زشت آں نقش و چہ زیبا

ترجمہ:

یار سے تجھ کو جُدا کر دے غلط بات ہے وہ

راہ سے تجھ کو ہٹا دے وہ غلط نقشِ قدم

آپ کی مسافرت کا زمانہ طول کے ساتھ انجام پا گیا۔ فرصت کو غنیمت جانیں۔ احباب اگر اس کے اہل ہیں تو ان سے رخصت حاصل کرنے میں کیا چیز مانع ہو سکتی ہے اور اگر وہ نا اہل ہیں تو اُن سے رخصت لینے کی کیا ضرورت ہے؟ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی مرضی کو ملحوظ رکھنا چاہیے، اہلِ دنیا راضی ہوں یا ناراض، ان کی ناراضی کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔

طفیلِ دوست باشد ہرچہ باشد

ترجمہ:

جو کچھ ملے طفیل میں اس یار کے ملے

حق سبحانہٗ وتعالیٰ کو مقصود جاننا چاہیے، اس کے ساتھ اور جو کچھ حاصل ہو جائے تو ہو جائے اور اگر نہ ہو تو نہ ہو۔

رخسارِ من ایں جا و تو در گل نگری

ترجمہ:

رخسار دیکھ پھول کی صورت نہ دیکھ تو

و السلام۔

؂1 آپ کے نام مسلسل چار مکتوب ہیں یعنی 153، 154، 155، 156۔ آپ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے قدیم مریضوں میں سے ہیں سفر و حضر میں اکثر حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ رہتے۔ حسن اخلاق اور مکار میں اوصاف میں یگانا اور انکسار و ایثار میں منفرد تھے۔ سالہا سال فیض صحبت کے بعد خلافت و اجازت سے سر فراز ہوئے۔ دفتر اول مکتوب 87 میں آپ کی صحبت کو غنیمت قرار دیا ہے۔ سنہ 1066ھ میں وفات پائی۔ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کو آپ کی وفات کا بہت صدمہ ہوا اور آپ کی روح کو دعائے مغفرت اور ایصال ثواب سے شاد کام کیا۔ باقی تفصیلات کتاب "حضرت مجدد الف ثانی" میں ملاحظہ فرمائیں۔