مکتوب 152
سیادت و بزرگی کی پناہ والے شیخ فرید1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم عین حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی اطاعت ہے اور اس کے مناسب بیان میں۔
حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ﴾ (النساء: 80) ترجمہ: ”جو رسول کی اطاعت کرے، اس نے اللہ کی اطاعت کی“۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو عین اپنی اطاعت قرار دیا ہے لہذا حق تعالیٰ عز و جل کی وہ اطاعت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت (و اتباع) کی شکل میں نہ ہو، وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں ہے۔ اس حقیقت کی تاکید و تحقیق کے لئے کلمہ قد تاکیدیہ لایا گیا ہے تاکہ کوئی بو الہوس ان دونوں اطاعتوں کے درمیان فرق پیدا نہ کرے اور ایک دوسرے پر ترجیح نہ دے۔ چنانچہ دوسری جگہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ ایک جماعت کے حال میں جو ان دونوں اطاعتوں (یعنی اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت) کے درمیان فرق پیدا کرتی ہے بطور شکایت فرماتا ہے: ﴿إِنَّ الَّذينَ يَكْفُرُونَ بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ يُريدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ يَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَّ يُريدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبيلاً 0 أُوْلٰٓئِکَ هُمُ الْکافِرُونَ حَقًّا﴾ (النساء: 150-151) ترجمہ: ”جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کرنا چاہتے اور کہتے ہیں کہ کچھ (رسولوں) پر تو ہم ایمان لاتے ہیں اور کچھ کا انکار کرتے ہیں، اور (اس طرح) وہ چاہتے ہیں کہ (کفر اور ایمان کے درمیان) ایک بیچ کی راہ نکال لیں، ایسے لوگ صحیح معنی میں کافر ہیں“۔
ہاں بعض مشائخ کبار قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم نے سُکر اور غلبۂ حال کی وجہ سے ایسی باتیں کہی ہیں جو ان دو اطاعتوں کے درمیان تفرقہ ظاہر کرتی ہیں اور ایک کی محبت کو دوسرے کی محبت پر ترجیح دینے کی خبر دیتی ہیں۔ (جیسا کہ) منقول ہے کہ سلطان محمود غزنوی2 اپنی بادشاہت کے دوران "خرقان" کے نزدیک ٹھہرا ہوا تھا، وہاں سے اس نے اپنے وکیلوں کو حضرت شیخ ابو الحسن خرقانی3 علیہ الرحمۃ کی خدمت میں بھیجا اور خواہش ظاہر کی کہ حضرت شیخ اس (سلطان) کی ملاقات کو آئیں، اور اپنے وکیلوں سے کہہ دیا کہ اگر شیخ سے اس معاملے میں توقف محسوس ہو تو یہ آیت: ﴿أَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ أَطِیْعُوا الرَّسُول وَ أُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ﴾ (النساء: 59) ترجمہ: ”اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو اور تم میں سے جو لوگ صاحب اختیار ہوں ان کی بھی“۔ ان کے سامنے پڑھیں۔ (چنانچہ) جب وکیلوں نے شیخ کی طرف سے توقف محسوس کیا تو آیت کریمہ ان کے سامنے پڑھی۔ شیخ نے جواب میں فرمایا کہ میں "أَطِیْعُوا اللّٰهَ" میں اس قدر گرفتار ہوں کہ "أَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ" کی اطاعت سے شرمندہ ہوں اور اطاعت "اُوْلِی الْاَمْرِ" کے متعلق کیا بیان کروں۔ حضرت شیخ نے اطاعتِ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ سمجھا۔ یہ بات (سکر کی بنا پر ہے اور) استقامت سے بعید ہے، مستقیم الاحوال مشائخ نے اس قسم کی باتوں سے پرہیز کیا ہے اور شریعت و طریقت اور حقیقت کے تمام مراتب میں حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی اطاعت کو رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت میں جانتے ہیں اور حق تعالیٰ کی وہ اطاعت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی صورت میں نہ ہو اسے عین ضلالت و گمراہی خیال کرتے ہیں۔
اسی طرح یہ حکایت بھی منقول ہے کہ شیخ مہنہ شیخ ابو سعید ابو الخیر کے ہاں مجلس منعقد تھی اور سادات خراساں کے ایک سید بزرگ بھی اس مجلس میں بیٹھے تھے۔ اتفاقًا ایک مجذوب مغلوب الحال اس مجلس میں آیا اور حضرت شیخ نے سید بزرگ پر اس مجذوب کو (بطورِ تعظیم) فوقیت دی۔ سید صاحب کو یہ بات نا گوار گزری تو حضرت شیخ نے سید صاحب سے فرمایا کہ آپ کی تعظیم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کی وجہ سے ہے اور اس مجذوب کی تعظیم حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی محبت کی بنا پر ہے۔ اس قسم کے اختلاف کو مستقیم الاحوال اکابر جائز نہیں رکھتے اور حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی محبت کے غلبے کو اس کے رسول علیہ الصلوٰۃ و السلام کی محبت پر غلبے کو سکرِ حال پر محمول کرتے ہیں اور بے کار بات سمجھتے ہیں۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ مقامِ کمال میں جو کہ مرتبہ ولایت سے ہے، حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی محبت غالب ہوتی ہے اور مقامِ تکمیل میں جو کہ نبوت کے مقام کا ایک حصہ ہے، محبتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم غالب ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اطاعتِ رسول پر ثابت قدم رکھے کیونکہ ان کی اطاعت ہی عین اطاعتِ حق ہے۔
1 شیخ فرید سے متعلق دفتر اول مکتوب 43 کا فٹ ملاحظہ ہو۔
2 سلطان محمود غزنوی سلطان سبکتگین کا لڑکا تھا، سنہ 361ھ بمطابق سنہ 971ء میں پیدا ہوا، قرآن کریم حفظ کرنے کے بعد اسلامی قانون، فقہ اور حدیث کے علوم بھی حاصل کئے۔ شمشیر زنی اور نشانہ بازی میں طاق تھا، اپنے والد کی زندگی میں خراسان کا گورنر رہا۔ سنہ 389ھ بمطابق سنہ 998ء سے سنہ 421ھ بمطابق سنہ 1020ء تک اپنی بادشاہی کے دوران ہندوستان پر سترہ فاتحانہ حملے کئے۔ آخری حملہ سنہ 417ھ بمطابق 1026ء میں سومنات پر کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ "محمود بلا شبہ خدا ترس، صوفی منش اور دنیا کے عظیم ترین فاتح فرماں رواؤں میں سے تھا“۔
3 شیخ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کا اسم گرامی علی بن جعفر ہے، آپ یگانۂ روز گار، غوثِ وقت اور مرجع خلائق تھے اور حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کی روحانیت سے فیض یافتہ تھے۔ منقول ہے کہ حضرت با یزید رحمۃ اللہ علیہ خرقان کی طرف رخ کر کے فرماتے تھے کہ اس طرف سے دوست کی خوشبو آتی ہے۔ سلطان محمود غزنوی کو آپ سے بڑی عقیدت تھی۔ منگل کی شبِ عاشورہ سنہ 425ھ کو خرقان میں انتقال ہوا۔