مکتوب 151
میر مومن بلخی1 کی طرف صادر فرمایا۔ خواجگانِ نقشبندیہ قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کے طریقے کی فضیلت و بزرگی اور یاد داشت کے معنی کے بیان میں جو ان بزرگوں کے ساتھ مخصوص ہے۔
از ہر چہ می رود سخن دوست خوش تر است
ترجمہ:
دوست کی بات کہیں سے ہو بہت اچھی ہے
حضرات خواجگان قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کے طریقے میں یاد داشت سے مراد حضورِ بے غیبت ہے۔ یعنی شیونی و اعتباراتی حجابات درمیان میں حائل ہوئے بغیر حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کا دائمی حضور حاصل ہو (اس کو یاد داشت کہتے ہیں) اور اگر کبھی حضور ہو کبھی غیبت، یعنی کبھی تو سب کے سب پردے اٹھ جائیں اور کبھی درمیان میں حائل ہو جائیں جیسا کہ تجلئ ذاتی برقی میں ہوتا ہے کہ برق کی طرح تمام پردے حضرت حق تعالیٰ کے سامنے سے مرتفع (اٹھ) ہو جاتے ہیں اور پھر جلدی ہی شیون و اعتبارات کے پردے چھا جاتے ہیں۔ پس ایسا حضور ان بزرگوں کے نزدیک مقامِ اعتبار سے ساقط ہے، لہذا حضورِ بے غیبت کا حاصل یہ ہوا کہ تجلئ ذاتی برقی جو شیون و اعتبارات کے وسیلے کے بغیر حضرتِ ذات جل شانہٗ کے ظہور سے مراد ہے اور جو اس راہ کی انتہا میں میسر ہوتی ہے، اور فنائے اکمل کو اسی مقام میں ثابت کرتے ہیں وہ بھی دائمی ہو جائے اور حجابات ہرگز رجوع نہ ہوں، اور اگر (حجابات) رجوع کریں تو حضور، غیبت سے بدل جائے گا اور اس کو یاد داشت نہ کہیں گے لہذا ثابت ہوا کہ ان اکابر کا شہود اتم و اکمل طریقے پر ہے اور فنا کا اکمل و بقا کا اتم ہونا شہود کے اتم و اکمل ہونے کے اندازے کے مطابق ہے۔
قیاس کن ز گلستانِ من بہارِ مرا
ترجمہ:
چمن کو دیکھ کے اس کی بہار کو سمجھو
1 میر مومن بلخی کے نام دو مکتوب ہیں: ایک یہی مکتوب نمبر 151، دوسرا دفتر سوم کا مکتوب 99۔ باقی حالات معلوم نہ ہو سکے۔