مکتوب 137
حاجی خضر افغان1 کی طرف صادر فرمایا۔ نماز کی ادائیگی کی بلند شان میں جس کا کمال درجہ نہایت النہایت سے وابستہ ہے اور اس کے مناسب بیان میں۔
پسندیدہ مکتوب موصول ہو کر مضامین سے آگاہی ہوئی۔ عبادت میں لذت یابی اور اس کی ادائیگی میں کلفت و گرانی کا نہ ہونا حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ہے، خصوصاً نماز کے ادا کرنے میں جو کہ غیر منتہی کو (جس نے سلو ک کی تکمیل نہ کی ہو) میسر نہیں ہے۔ خاص طور پر فرض نماز کے ادا کرنے میں کیونکہ ابتداءً (مبتدی کو) نفلی نمازوں کے ادا کرنے میں لذت بخشتے ہیں، (بعد ازاں) نہایت النہایت میں پہنچ کر لذت کی یہ کیفیت فرضوں کی ادائیگی سے متعلق ہو جاتی ہے اور بندہ اپنے نوافل کے ادا کرنے میں اپنے آپ کو بے کار جانتا ہے اس کے نزدیک فرضوں کو ادا کرنا بڑا اہم کام ہو جاتا ہے اور بس۔ مصرع:
ایں کار دولت است کنوں تا کرا رسد
ترجمہ:
یہ بڑی دولت ہے دیکھئے اب کسے نصیب ہوتی ہے
جاننا چاہیے کہ وہ لذت جو عین نماز کی حالت میں حاصل ہوتی ہے اس میں نفس کا کچھ بھی فائدہ نہیں ہے بلکہ وہ عین اس لذت کے وقت نالہ و فغاں میں ہوتا ہے، سبحان اللہ! کیا بلند مرتبہ ہے۔ مصرع:
ھَنِیْئًا لِّأَرْبَابِ النَّعِیْمِ نَعِیْمُھَا
ترجمہ:
مبارک نعمتیں جنت کی ہوں اربابِ نعمت کو
ہم جیسے بو الہوس (حریص آدمیوں) کو اس قسم کی باتوں کا کہنا اور سننا بھی بسا غنیمت ہے۔ مصرع
بارے یہ ہیچ خاطر خود شاد می کنم
ترجمہ:
اسی خیال سے میں اپنے دل کو خوش کر لوں
نیز جان لیں کہ دنیا میں نماز کا مرتبہ (آخرت میں) رویت باری تعالیٰ کے مرتبہ کی مانند ہے۔ دنیا میں نہایتِ قرب نماز کے اندر ہے اور آخرت میں نہایت قرب اللہ تعالیٰ کے دیدار کے وقت ہو گا۔ یہ بھی جان لیں کہ باقی تمام عبادات نماز کے لئے وسیلہ ہیں اور اصل مقصد نماز ہی ہے۔ وَ السَّلَامُ وَ الْإِکْرَامُ
1 مکتوبات میں حاجی خضر افغان کے نام صرف یہی ایک مکتوب ہے۔ آپ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے مخصوص خلفاء میں سے تھے، کثیر تعداد میں لوگ آپ سے مستفیض ہوئے۔ شیخ آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ بھی ابتدا میں آپ ہی کے مرید تھے، بعد میں خود آپ نے ان کو حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بھیجا۔ اکثر راتوں کو گریہ و زاری میں مشغول رہتے تھے، بہت خوش الحان تھے، قصبہ بہلول مضافاتِ سر ہند کے رہنے والے تھے۔ سنہ 1035ھ میں وفات پائی۔