مکتوب 138
شیخ بہاؤ الدین1 کی طرف صادر فرمایا۔کمینی دنیا کی مذمت اور دنیا داروں کی صحبت سے پرہیز کرنے کے بیان میں۔
میرے سعادت مند فرزند! اس کمینی اور مبغوضہ دنیا سے خوش نہیں ہونا چاہیے اور حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی پاک بارگاہ کی طرف دائمی توجہ کے سرمائے کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے اور اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ ہم کیا چیز فروخت کر رہے ہیں اور کیا خرید رہے ہیں۔ آخرت کو دنیا کے بدلے بیچنا اور حق تعالیٰ کی طرف سے رو گردانی کر کے مخلوق میں پھنس جانا، حد درجہ بے وقوفی اور کم علمی ہے۔ دنیا و آخرت2 کو جمع کرنا دو ضدوں کے جمع کرنے کے مانند ہے (جیسا کہ کسی نے کہا ہے) مَا اَحْسَنَ الدِّیْنَ وَ الدُّنْیَا لَوِ اجْتَمَعَا (کیا اچھا ہوتا اگر دین و دنیا جمع ہو جاتے) ان دونوں ضدوں میں سے جس کو چاہیں اختیار کر لیں اور جس کے عوض میں چاہیں اپنے آپ کو بیچ ڈالیں۔ (لیکن خوب سمجھ لیں کہ) آخرت کا عذاب ابدی ہے اور دنیا کا سامان (مال و دولت) قلیل ہے۔ دنیا حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی مبغوضہ3 (قابلِ نفرت) ہے اور آخرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی پسندیدہ ہے۔
عِشْ مَا شِئتَ فَإِنَّکَ مَیِّتٌ
وَ الْزَمْ مَا شِئْتَ فَإِنَّکَ مُفَارِقُہٗ
ترجمہ:
جی لے آخر تجھ کو مرنا ہے ضرور
لے لے آخر ترک کرنا ہے ضرور
آخر ایک دن بیوی بچوں کو بھی چھوڑنا پڑے گا، لہذا ان کی تدبیر (نگہداشت) حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے سپرد کر دینا چاہیے اور آج سے اپنے آپ کو مردہ4 تصور کر لینا چاہیے اور تمام کاموں کو اس بزرگ ترین ہستی (یعنی حق تعالیٰ) کے سپرد کر دینا چاہیے۔ (ارشادِ باری تعالیٰ ہے) ﴿إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِکُمْ وَ أَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ فَاحْذَرُوْھُمْ﴾ (التغابن 14) ترجمہ: ”تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے کچھ تمہارے دشمن ہیں، اس لیے ان سے ہوشیار رہو“۔ قطعی فیصلہ ہے جو آپ نے بار ہا سنا ہو گا۔ یہ خوابِ خرگوش کب تک رہے گا آخر آنکھیں کھولنی چاہئیں۔ دنیا داروں کی صحبت اور ان سے میل جول (سالک کے لئے) زہرِ قاتل ہے۔ اس زہر کا مارا ہوا ابدی موت میں گرفتار ہے۔ اَلْعَاقِلُ تَکْفِیْہِ الْإِشَارَۃُ (عقل مندوں کے لئے اشارہ ہی کافی ہے) چہ جائیکہ اس کو مبالغہ کے ساتھ بار بار تاکید کی جائے۔ (چونکہ) بادشاہوں کے دربار کا مرغن لقمہ قلبی امراض میں اضافہ کرتا ہے تو ایسی صورت میں نجات کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔ الحذر، الحذر، الحذر! (بچو، بچو، بچو)
من آنچہ شرطِ بلاغ ست با تو می گویم
تو خواہ از سخنم پند گیر خواہ ملال
ترجمہ:
ہمارا کام ہے حق بات تجھ کو پہنچانا
قبول کر لے کہ رنجیدہ ہو، یہ تیرا کام
ان (دنیا داروں) کی صحبت سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہیں کیونکہ شیر تو صرف دنیوی موت کا سبب بنتا ہے جو آخرت میں فائدہ مند ہے، لیکن بادشاہ و امراء سے میل جول ہلاکتِ ابدی اور دائمی خسارے کا باعث ہے لہذا ان کی صحبت سے بچو، ان کے لقمے کھانے سے بچو، ان کی محبت سے بچو، اور ان کے دیکھنے سے بھی بچو۔ حدیث شریف میں وارد ہے: "مَنَ تَوَاضَعَ غَنِیًّا لِغِنَاہُ ذَھَبَ ثُلُثَا دِیْنِہٖ" ترجمہ: ”جس نے کسی دولت مند کی تواضع اس کی دولت کی وجہ سے کی تو اس کے دین کے دو حصے ضائع ہو گئے“۔
آپ کو غور کرنا چاہیے کہ یہ سب تواضع اور خوشامد ان کی دولت مندی کی وجہ سے ہے یا کسی اور وجہ سے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ سب کچھ ان کی دولت کی وجہ سے ہے اور اس کے نتیجے میں دین کا دو تہائی حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ فَأَیْنَ أَنْتَ مِنَ الْإِسْلَامِ وَ أَیْنَ أَنْتَ مِنَ النَّجَاۃِ (پھر کہاں تمہارا اسلام اور کہاں تمہاری نجات)۔ یہ سب مبالغہ اور تاکید اس وجہ سے ہے کہ میں جانتا ہوں کہ لقمہ چرب اور صحبتِ نا جنس نے اس فرزند کے دل کو وعظ و نصیحت اور عقلی نصائح کے قبول کرنے سے دُور کر دیا ہو گا اور کلام و کلمہ سے اثر پذیر نہیں ہو گا۔ پس بچو بچو، ان کی صحبت سے بچو، ان کے دیکھنے سے بچو۔
حق سبحانہٗ و تعالیٰ بطفیل سید البشر جن کی تعریف میں مَا زَاغَ الْبَصَرُ آیا ہے علیہ وعلیٰ آلہ من الصلوات افضلہا ومن التسلیمات اکملہا ہمیں اور تمہیں ان باتوں سے نجات دے جو حق سبحانہٗ و تعالیٰ کو نا پسند ہیں۔ (آمین)
1 حافظ شیخ بہاؤ الدین سر ہندی کے نام دو مکتوب ہیں، دفتر اول مکتوب 138، 164۔ آپ غالبًا حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بھتیجے ہیں جیسا کہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے غسل میت کے حالات میں آیا ہے۔ (حضرت مجدد الف ثانی، صفحہ نمبر: 235)
2
ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں
ایں خیال است و محال است و جنوں
3 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی کے نزدیک اگر دنیا مچھر کے پر کے برابر بھی (وقیع) ہوتی تو کافر کو اس میں سے ایک گھونٹ بھی نہ پلاتے۔ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا۔ (مشکوٰۃ)
4 حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بدن کو پکڑا اور فرمایا: دنیا کے اندر ایسے رہو جیسے مسافر ہو یا راستے میں چلنے والے کی طرح اور اپنے آپ کو مردوں میں شمار کرو“۔ رواہ البخاری (مشکوٰۃ)