مکتوب 136
یہ مکتوب بھی ملا محمد صدیق کے نام صادر فرمایا۔ مطلوبِ حقیقی کے حصول میں تسویف و تاخیر منع کرنے کے بیان میں۔
آپ کا مکتوب مرغوب موصول ہوا۔ چونکہ قاصد (رمضان المبارک کے) آخری عشرۂ متبرکہ میں پہنچا تھا۔ اس لئے اس (رمضان) کے گزرنے کے بعد خطوں کے جواب لکھے گئے۔ (عبد الرحیم) خان خاناں اور خواجہ عبد اللہ کے خط کا جواب بھی ارسال کر دیا ہے۔ آپ بھی ان کو ملاحظہ فرما لیں۔ اس مرتبہ آپ کا لشکر میں جانا فقیر کو پسند نہیں آیا۔ دیکھئے اس میں کیا حکمت ہے۔ وَ الْأَمْرُ عِندَ اللّٰہِ سُبْحَانَہٗ (اور سب کام اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں) خیال فرمائیں کہ حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنی کمالِ مہربانی سے آپ کو روز مرہ کے گزارے کے اسباب عطا فرمائے ہوئے ہیں، اس کو غنیمت جان کر اصل کام کی فکر کرنی چاہیے نہ کہ اس کو مزید معیشت حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا جائے کیونکہ (اس طرح) کاموں کا تسلسل1 جاری ہو جاتا ہے (یعنی یہ سلسلہ طلب لا متناہی ہو جاتا ہے) اور درویشی میں طولِ امل (لمبی امید لگانا) کفر ہے۔ اور قرض سے فارغ ہونے کا معاملہ معلوم نہیں ہے (کہ کب ادائیگی ہو) کہ خواجہ صاحب سے کوئی صورت پیدا کر لیں اور اگر آپ کو کوئی شبہ ہے تو خواجہ صاحب کی طرف صاف صاف واضح طور پر لکھنا چاہیے۔ اگر وہ بھی جواب میں صاف طور پر لکھیں اور (جواب سے) پختہ وعدہ مفہوم ہو تو اس نیت سے چلے جائیں، لیکن تسویف (نیک کام میں ٹال مٹول) اور تاخیر کا کیا علاج۔ (آپ کو) جو کچھ کرنا ہے جلد کریں کیونکہ فرصت کے لمحات غنیمت ہیں۔
1 حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن آدم کے پاس اگر دو وادی مال ہو تو تیسری چاہے گا اور آدمی کا پیٹ (قبر کی) مٹی کے علاوہ کسی چیز سے نہیں بھرتا اور اللہ تعالیٰ توبہ کی توفیق جس کو چاہتا ہے دیتا ہے۔ (متفق علیہ)