مکتوب 135
یہ مکتوب بھی مخلص دوست محمد صدیق کی طرف صادر ہوا۔ ولایت کے بیان میں، ولایت خواہ عامہ ہو یا خاصہ، اور ولایت خاصہ کی بعض خصوصیات کے بیان میں۔
جاننا چاہیے کہ ولایت فنا اور بقا سے عبارت ہے اور وہ (ولایت) دو قسم کی ہے، عام یا خاص۔ عامہ سے ہماری مراد مطلق ولایت ہے اور ولایتِ خاصہ سے ولایتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوۃ و التحیۃ مراد ہے۔ ولایتِ خاصہ میں فنائے تام اور بقائے اکمل حاصل ہو جاتی ہے۔ جو شخص بھی اس نعمتِ عظمیٰ سے مشرف ہو گیا تو اس کا بدن حق سبحانہ و تعالیٰ کی اطاعت میں مطیع ہو گیا۔ اور اس کا سینہ اسلامِ (حقیقی) کے لئے کھل گیا اور اس کا نفسِ امارگی (شرارت) اور لوامگی (شرمندگی) سے آزادی حاصل کر کے مطمئنہ ہو گیا پس وہ اپنے آقا حق جل وعلا سے راضی ہو گیا اور اس کا مولیٰ اس سے راضی، اور اس کا (لطیفۂ) قلب حق تعالیٰ کے ذات کے لئے خالص ہو گیا اور اس کا (لطیفۂ) روح مکمل طور پر حضرتِ صفاتِ لاہوت (عالمِ ذاتِ الٰہی) کے مکاشفے سے واصل ہو گیا اور اس کا (لطیفۂ) سر شیون و اعتبارات کے ملاحظے کے ساتھ مقامِ تجلیاتِ ذاتیہ برقیہ سے مشرف ہو گیا اور اس کا (لطیفۂ) خفی کمال درجہ تنزہ و تقدس اور عظمت و کبریائی کے سامنے دریائے حیرت میں ڈوب گیا، اور اس کا (لطیفۂ) اخفیٰ (اس ذات کے ساتھ) بے کیف و بے مثال طریقے پر اتصال پذیر ہو گیا۔
ھَنِیْئًا لِّأَرْبَابِ النَّعِیْمِ نَعِیْمُھَا
ترجمہ:
مبارک نعمتیں جنت کی ہوں اربابِ نعمت کو
اور جس بات کا جاننا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ولایت خاصہ محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ و السلام و التحیہ عروج و نزول کی دونوں طرفوں میں ولایت کے تمام مرتبوں سے ممتاز اور علیحدہ ہے لیکن عروج کی طرف اس وجہ سے کہ اخفیٰ کی فنا اور اس کی بقا دونوں اس ولایت خاصہ کے ساتھ مختص ہیں اور باقی تمام ولایتوں کا عروج تفاوتِ درجات کے اعتبار سے (لطیفۂ) خفی تک محدود ہے۔ یعنی بعض اربابِ ولایت کا عروج (لطیفۂ) روح کے مقام تک ہے اور بعض کا عروج (لطیفۂ) سر تک اور بعض دوسروں کا عروج (لطیفۂ) خفی تک ہے اور یہ ولایت عامہ کا اعلیٰ درجہ ہے۔
اور نزول کی طرف میں اولیائے امتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوۃ و التحیہ کے اجسام کے لئے بھی اسی ولایت کے درجوں کے کمالات میں سے کچھ حصہ ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو شبِ معراج میں اپنے جسدِ1 (عنصری کے ساتھ) جہاں تک حق تعالیٰ نے چاہا سیر کرائی گئی اور آپ کے سامنے جنت و دوزخ پیش کی گئی (سامنے لائی گئی) اور آپ کی جانب وحی آئی جو کچھ کہ آئی اور وہاں آپ (حق تعالیٰ کی) رویتِ بصری سے مشرف کئے گئے اور اس طرح کی معراج آنحضرت علیہ الصلوۃ و السلام ہی کے ساتھ مخصوص ہے اور وہ اولیائے کرام جو آنسرور علیہ الصلوة و السلام کے تابع ہیں ان کو بھی کمالِ متابعت اور زیر قدم چلنے کی وجہ سے اس مخصوص مرتبے میں کچھ حصہ ہے۔
وَ لِلأَرْضِ مِنْ کَأسِ الْکِرَامِ نَصِیْبٗ
ترجمہ:
زمیں کو بھی ملے حصہ بزرگوں کے پیالے سے
حاصل کلام یہ ہے کہ اس رویت بصری کا دنیا میں واقع ہونا آنسرور علیہ الصلوۃ و السلام ہی کے لئے مخصوص ہے، اور وہ حالت جو آنحضرت علیہ الصلوۃ و السلام کے زیرِ قدم اولیائے کرام کو حاصل ہوتی ہے وہ رویت نہیں ہے، اور رویت اور حالت کے درمیان وہی فرق ہے جو کہ اصل اور فرع (جڑ اور شاخ) میں، یا شخص اور اس کے سائے میں فرق ہوتا ہے، اور ان دونوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کا عین نہیں ہے۔
1 حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ صحیح مذہب یہی ہے کہ وجود اسریٰ و معراج سب کچھ بحالت بیداری و جسم کے ساتھ تھا۔ صحابہ، تابعین اور اتباع کے مشاہیر علماء اور ان کے بعد محدثین جمہور فقہاء و متکلمین و صوفیاء کا مذہب اسی پر ہے۔ اسی پر احادیث صحیحہ اور اخبار صریحہ متواتر ہیں۔ (مدارج النبوۃ اردو، جلد: 1، صفحہ نمبر: 287)