دفتر 1 مکتوب 129: اس بیان میں کہ انسان کی جامعیت اس کے تفرقے کے باعث ہے اور یہی جامعیت اس کی حمیت کا سبب ہے جس طرح نیل کا پانی دوستوں کے لئے پانی اور دشمنوں کے لئے بلا و مصیبت ہے

مکتوب 129

سید نظام؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ انسان کی جامعیت اس کے تفرقے کے باعث ہے اور یہی جامعیت اس کی حمیت کا سبب ہے جس طرح نیل کا پانی دوستوں کے لئے پانی اور دشمنوں کے لئے بلا و مصیبت ہے۔

مکتوب شریف موصول ہوا، چونکہ آدمی تمام مخلوقات میں جامع ترین ہستی ہے اور اس کے اجزا میں سے ہر جزو کے واسطے سے بکثرت موجودات کے ساتھ اس کا تعلق اور گرفتاری ظاہر ہوتی ہے لہذا حقیقت میں اس کی جامعیت ہی حق تعالیٰ سبحانہٗ کی جناب سے تمام مخلوقات سے زیادہ دُوری کا باعث بنی، اور تعلقات کی کثرت اس کی محرومی کا سب سے زیادہ سبب ہے۔

اور اگر حق تعالیٰ عز شانہٗ کی توفیق ہے (انسان) اپنے منتشر تعلقات سے جمعیت حاصل کر لے اور باز گشت کر کے حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جائے تو ﴿فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا﴾ ترجمہ: (الأحزاب: 71) ترجمہ :”اس نے وہ کامیابی حاصل کر لی جو زبردست کامیابی ہے)“ ورنہ ﴿فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِیْدًا﴾ (النساء: 116) ترجمہ: ”وہ راہ راست سے بھٹک کر بہت دور جا گرتا ہے“۔ انسان چونکہ جامعیت ہی کی وجہ سے موجودات میں بہترین ہے اور اسی جامعیت کی وجہ سے وہ بد ترین مخلوق بھی ہے اور جامعیت ہی کی وجہ سے اس کا آئینہ اکمل و اتم ہے۔

اگر انسان دنیا کی طرف اپنی توجہ رکھے تو لوگ کہتے ہیں کہ وہ دنیا میں سب سے بُرا ہے اور اگر اس کا رخ حق سبحانہ و تعالیٰ کی طرف ہو تو پھر وہ مصفّٰی و مزکّٰی ہے اور سب سے زیادہ بیش نما (خوش نصیب) ہے۔

ان تعلقات کی گندگی سے مکمل آزادی حاصل کرنا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا خاصہ ہے اور آپ کے بعد دوسرے انبیائے کرام و اولیائےعظام اپنے اپنے مراتب و درجات کے مطابق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر اور ان کے تابع داروں پر قیامت تک صلوٰۃ و سلام ہو۔ رَزَقَنَا اللہُ سُبْحَانَہٗ وَ إِیَّاکُمْ نَجَاتًا عَنْ ھذِہِ التَّعَلُّقَاتِ بِحُرْمَۃِ النَّبِیِّ الْمُصْطَفٰی الْمَمْدُوْحِ بِقَوْلِہٖ سُبْحَانَہ، وَ تَعَالیٰ: ﴿مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰی﴾ عَلَیْہِ وَ عَلٰی آلِہٖ مِنَ الصَّلَوَاتِ أَتَمُّھَا وَمِنَ التَّسْلِیْمَاتِ أَکْمَلُھَا (حق تعالیٰ ہم کو اور آپ کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے طفیل جن کی حق تعالیٰ نے ﴿مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰی﴾(النجم: 17) ترجمہ: ”(پیغمبر کی) آنکھ نہ تو چکرائی اور نہ حد سے آگے بڑھی۔“ کے مقدس جملے سے تعریف فرمائی ہے۔ ان تعلقات سے نجات عطا فرمائے (آمین) اس سے زیادہ لکھنا ملال کا باعث ہے۔ وَ السَّلَامُ وَ الْإِکْرَامُ۔

؂1 سید نظام کے نام صرف یہی ایک مکتوب ہے، غالبًا سید نظام مرتضی خاں مراد ہیں جو میران صدر جہاں حسینی نبھانی کے چھوٹے فرزند تھے، تحصیل تعلیم کے بادشاہ ہیں ملازمت میں بڑے منصب پر پہنچے دولت آباد کی مہم میں کارِ نمایاں انجام دیے۔ مہابت خاں آپ کو دولت آباد کا قلعہ دار بنانا چاہا لیکن آپ نے عہدہ قبول نہیں کیا۔ (ذخیرۃ الخوانین، جلد: 2، صفحہ نمبر: 242)