مکتوب 130
جمال الدین1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ تلوینات (تغیر و تبدل) احوال کا کچھ اعتبار نہیں، بے چونی و بے چگونی کا حصول ہونا چاہیے۔
احوال کی تلوینات کا کچھ اعتبار نہیں ہے ان میں پھنسنا نہیں چاہیے کہ کیا آیا، کیا گیا، کیا کہا اور کیا سُنا۔ مقصود کچھ اور ہی ہے، جو کہنے، سننے، دیکھنے اور مشاہدہ کرنے سے پاک و مبرا ہے۔
طالبانِ سلوک کے مبتدی کو اخروٹ و منقی (معمولی چیزوں) سے تسلّی دیتے ہیں۔ ہمت بلند رکھنی چاہیے، کرنے کا کام دوسرا ہے، باقی سب خواب و خیال ہے۔ اگر کوئی شخص خواب میں اپنے آپ کو بادشاہ دیکھے تو حقیقت میں وہ بادشاہ نہیں ہے لیکن ایسے خواب سے (بلند مرتبے کی) امید ہوتی ہے۔ طریقۂ نقشبندیہ قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کے اکابرین واقعات کا کچھ اعتبار نہیں کرتے، یہ بیت ان کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے۔ بیت:
چو غلام آفتابم ہم از آفتاب گویم
نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیثِ خواب گویم
ترجمہ:
میں غلام شمس کا ہوں بس اسی کی بات ہو گی
نہ میں شب، نہ اُس کا عاشق جو ہو نیند کی کہانی
اگر احوال میں سے کوئی حال وارد ہو جائے اور پھر چلا جائے تو خوشی یا غم کی بات نہیں، بے چونی و بے چگونی (بے کیف و بے مثال) کے قرب کے حصول کا منتظر رہنا چاہیے۔ و السّلام
1 آپ کے نام صرف یہی ایک مکتوب ہے، غالبًا علامہ جمال الدین تلوی لاہوری مراد ہیں۔ درس و تدریس میں آپ کا کوئی ہمسر نہ تھا لاہور میں ریاست کا آپ پر خاتمہ تھا دور دور سے لوگ استفادہ کے لیے آپ کے پاس آتے تھے۔ (نزھۃ الخواطر و تذکرہ علمائے ہند)