مکتوب 122
ملا طاہر بدخشی1 کے نام صادر فرمایا۔ بلند ہمتی کی ترغیب میں اور جو کچھ ہاتھ آ جائے اس سے بے التفاتی کرنے کے بیان میں۔
مولانا محمد طاہر (خط کا جواب دینے میں) ہم کو معذور جانیں، مولانا یار محمد (ہماری معذوری) نقل و حرکت کی وجہ بتا دیں گے۔ جب آپ نے ہندوستان کی جانب سفر کا مصمّم و پختہ ارادہ کر لیا ہے تو چلے جائیں اور اہل و عیال کی خبر گیری کریں۔ اَلْبَاقِی عِنَدَ التَّلَاقِی (باقی بوقت ملاقات) مثل مشہور ہے۔ (حق تعالیٰ کی) دائمی حضوری اور اغیار کے میل جول سے پرہیز کرنا ضروری ہے، اور ہمت کو بلند رکھیں، جو کچھ ہاتھ آئے اس میں مشغول نہ ہو جائیں (بلکہ آگے بڑھنے کی کوشش کریں) بیت:
ما از پے نورے کہ بود مشرقِ انوار
از مغربی و کوکب و مشکوۃ گزشتیم
ترجمہ:
ہیں پیشِ نظر اب تو فقط طیبہ کے انوار
منقول بھی معقول بھی سب دیکھ چکا ہوں
اس زمانے کے اکثر فقراء سیراب ہو جانے اور کفایت کے مقام پر ٹھہر گئے ہیں (آگے ترقی نہیں کر رہے) اُن کی صحبت زہرِ قاتل ہے، فِرَّ مِنْھُمْ کَمَا تَفِرُّ مِنَ الْأَسَدِ (ان سے اس طرح بھاگو جیسا کہ شیر سے بھاگتے ہیں) اپنے طریقے پر کار بند رہیں اور جو کچھ واقعات پیش آئیں ان کا اعتبار نہ کریں کیونکہ تاویل کی گنجائش کا میدان بہت فراخ و وسیع ہے، ہرگز خواب و خیال کے مکر میں نہ پھنسیں۔ شعر
کَیْفَ الْوُصُوْلُ إِلٰی سُعَادَ وَ دُوْنَھَا
قُلَلُ الْجِبَالِ وَ دُوْنَھُنَّ خُیُوْفٌ
ترجمہ:
کیسے پہنچوں سعاد تک اے کعبؓ
کس قدر خوفناک راہیں ہیں!
1 ملا طاہر بدخشی کے نام گیارہ مکتوبات ہیں: یعنی دفتر اول مکتوب: 122، 123، 124، 171، 217۔ دفتر دوم مکتوب 20، 27، 86۔ دفتر سوم مکتوب 37، 91، 124۔ آپ کے اجداد بدخشاں کے رہنے والے ترک خاندان سے تھے۔ آپ نہایت سادہ لوح، نیک طینت دراز قامت اور قوی ہیکل انسان تھے۔ ابتداءًا فوج میں افسر تھے، ایک شب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت سے مشرف ہوئے تو حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ "تم فوج سے علیحدہ ہو جاؤ اور فقر و تجرید اختیار کرو"۔ چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا پھر شیخ کی تلاش میں نکلے اور حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ تکمیل کے بعد حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے اجازت تعلیم دے کر جون پور روانہ کر دیا۔ آپ نے کافی طویل عمر پائی اور جون پور میں سنہ 1047ھ میں وفات پائی۔ (از"حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ")