دفتر اول مکتوب 120
یہ مکتوب بھی میر محمد نعمان بدخشی کی طرف صادر فرمایا۔ اربابِ جمعیت کی صحبت کی ترغیب اور اس کے مناسب بیان میں۔
شاید کہ جناب میر صاحب نے فراموشی اختیار کرلی ہے کہ سلام و پیام سے بھی یاد نہیں فرماتے، فرصت بہت کم ہے، اس (فرصت) کو اعلیٰ ترین مقاصد میں صرف کرنا ضروری ہے، اور وہ (اعلیٰ مقصد) اربابِ جمعیت کی صحبت ہے، کیونکہ صحبت کے برابر کوئی چیز نہیں ہے۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت ہی کی وجہ سے انبیاء علیہم السلام کے علاوہ تمام غیر صحابہ پر فضیلت حاصل ہے خواہ اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ ہوں یا عمر مروانی رحمۃ اللہ علیہ (یعنی حضرت عمر بن عبد العزیز) ہی کیوں نہ ہوں۔ حالانکہ یہ دونوں حضرات حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت کے علاوہ تمام درجات کی نہایت اور تمام کمالات کی غایت تک پہنچے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خطا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت ہی کی برکت کی وجہ سے ان دونوں کے صواب سے بہتر ہے اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا سہو ان دونوں کے صواب سے افضل ہے کیونکہ ان بزرگواروں کا ایمان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شرف زیارت، فرشتے کی حاضری اور وحی کے مشاہدہ کرنے اور معجزات کے دیکھنے کی وجہ سے شہودی ہو چکا تھا۔
اور ان (صحابہ رضی اللہ عنہم) کے سوا کسی اور کو اس قسم کے کمالات جو تمام کمالات کے اصول ہیں نصیب نہیں ہوئے۔ اگر حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کو معلوم ہوتا کہ صحبت کی فضیلت میں یہ خاصیت ہے تو ان کو صحبت سے کوئی چیز مانع نہ ہوتی اور وہ اس فضیلت پر کسی چیز کو ترجیح نہ دیتے: ﴿وَ اللّٰہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَاءُ وَ اللہُ ذُوْ الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ (البقرة: 105) ترجمہ: ”حالانکہ اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے مخصوص فرما لیتا ہے۔ اور اللہ فضل عظیم کا مالک ہے“۔ بیت
سکندر را نمی بخشند آب
بزور و زر میسر نیست ایں کار
ترجمہ:
نہیں نصیبِ سکندر کبھی بھی آبِ حیات
اُسے دلائے گی کیوں اس کی دولت و قوت؟
بارِ الہا! اگرچہ تو نے ہم کو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کے زمانے میں پیدا نہیں فرمایا مگر ہم کو بطفیلِ سید المرسلین علیہ و علیہم الصلوات و التحیات و التسلیمات قیامت کے دن انہی کے زمرے میں محشور فرمائیو۔ و السلام