دفتر اول مکتوب 119
میر محمد نعمان بدخشی1 کی طرف صادر فرمایا۔ شیخ مقتدا کی صحبت کی ترغیب اور اس بیان میں کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کاملین اپنے بعض ناقص مریدوں کو نیک امیدوں کے گمان پر تعلیمِ طریقت کی اجازت دے دیتے ہیں۔
جناب میر صاحب کا مکتوب شریف موصول ہوا۔ یہ راستہ دیوانگی چاہتا ہے (جیسا کہ) حدیث شریف میں وارد ہے: "لَنْ یُّؤْمِنَ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یُقَالَ إِنَّہٗ مَجْنُوْنٌ"2 ترجمہ: ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ لوگ اس کو مجنون (دیوانہ) نہ کہنے لگیں“۔ جب دیوانہ پن آگیا تو بیوی بچوں کی تدبیر سے فارغ ہو گیا اور کذا و کذا (یعنی ایسا ہو گا ویسا ہو گا) کے اندیشہ سے جمعیت میسر ہو گئی (یعنی دل کو اطمینان حاصل ہو گیا)۔ یہ دیوانگی آپ کی طبیعت میں موجود ہے لیکن بے کار عوارض کے باعث آپ نے اس کو خس و خاشاک میں چھپا دیا ہے۔ کیا کیا جائے کہ یہ ظاہری دُوری کی وجہ سے آپ میں بہت کچھ بے مناسبتی مفہوم ہوتی ہے، اس کا جلد تدارک فرمائیں اور اپنی کم ہمتی کو عین ہمت (استطاعت) جان کر اس جسدی (ظاہری) دوری کو رفع کریں۔ اس گروہ (صوفیاء) کی جمعیت (دلی اطمینان) مخلوق کے دلی اطمینان سے بہت بلند ہے، مخلوق کی دل جمعی کے اسباب ان (صوفیاء) کے تفرقے اور اختلافات کا باعث ہیں۔ مخلوق کے اختلافات کے اسباب (فقر و نا مرادی وغیرہ) میں ہاتھ ڈالنا چاہیے (یعنی ان میں غور کرنا چاہیے تاکہ دل کا اطمینان حاصل ہو، اور اگر بالفرض اس گروہ کو مخلوق کی جمعیت کے اسباب عنایت ہو جائیں تو اس جمعیت سے بھی ڈرنا چاہیے اور حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے حضور میں التجا کرنی چاہیے تاکہ یہ جمعیت بلائے جان نہ بن جائے۔ اور فلاں فلاں (صاحبِ تکمیل) حضرات کے حال پر قیاس نہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ تمام مراتب فرقِ مراتب کے اعتبار سے تکمیل ہونے سے پہلے سب نقص کے مراتب ہیں۔ ع
فراقِ دوست اگر اندک است اندک نیست
ترجمہ:
ہجر اس کا نہیں تھوڑا، وہ بہت ہے مجھ کو
مشائخِ طریقت نے اپنے بعض مریدوں کو اُن کے سلوک کی تکمیل سے قبل تعلیمِ طریقت کی اجازت دی ہے۔ حضرت خواجہ نقشبند قدس اللہ تعالیٰ سرہٗ نے حضرت مولانا یعقوب چرخی3 رحمۃ اللہ علیہ کو طریقت و سلوک کی تعلیم اور بعض منازلِ سلوک طے کرانے کے بعد فرمایا: "اے یعقوب! ہر چہ از ما بتو رسیدہ است بخلق برساں" (اے یعقوب! جو کچھ ہم سے تم کو پہنچا ہے وہ مخلوق کو پہنچاؤ)۔ حالانکہ آپ (حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ) نے ان سے یہ بھی فرمایا کہ میرے بعد علاؤ الدین (عطار رحمۃ اللہ علیہ) کی خدمت میں رہنا۔ چنانچہ (مولانا یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ نے) اکثر امور (طریقہ تعلیم) حضرت خواجہ علاؤ الدین کی خدمت میں انجام دیئے۔ حتی کہ مولانا عبد الرحمٰن جامی4 نے (اپنی تصنیف) "نفحات الانس" میں آپ (مولانا یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ) کو پہلے خواجہ علاؤ الدین کے مریدوں میں شمار کیا ہے اور دوسرے نمبر پر حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ سے نسبت دی ہے۔ مختصر یہ ہے کہ اس تفرقہ (دوری) کا علاج اربابِ جمعیت کی صحبت ہے اور یہ بات بار بار تاکیدًا لکھی جا چکی ہے۔
اور سنا گیا ہے کہ مولانا محمد صدیق نے ملازمت اختیار کر لی ہے اور فقراء کی وضع کو چھوڑ دیا ہے، افسوس ہزار افسوس! کہ کسی کو مقامِ اعلیٰ علیین سے اسفل السافلین میں پہنچا دیں۔ اب ان کا حال دو باتوں سے خالی نہیں ہے یا تو ان کو نوکری میں جمعیت مل گئی یا جمعیت نہیں ملی۔ اگر ان کو اس (نوکری) سے جمعیت حاصل ہو گئی تو بُرا ہے اور اگر نہ حاصل ہوئی اور بھی بد تر۔ یا اللہ! تو ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر، اور اپنے پاس سے ہمارے حال پر رحمت فرما بے شک تو ہی بے حساب عطا فرمانے والا ہے۔ و السلام
1 مکتوبات میں آپ کے نام غالب سب سے زیادہ 33 مکتوبات ہیں یعنی دفتر اول مکتوب 119، 120، 121، 173، 204، 209، 224، 228، 231، 238، 246، 257، 261، 281، 313۔ دفتر دوم مکتوب 4، 92، 99۔ دفتر سوم مکتوب 1، 4، 5، 9، 10، 12، 15، 18، 19، 21، 26، 30، 36، 49، 102۔ خواجہ میر محمد نعمان بن سید شمس الدین یحییٰ بدخشانی معروف بمیر بزرگ کی ولادت سنہ 977ھ میں سمر قند میں ہوئی۔ تاریخ ولادت "شیخ جنید" سے نکلتی ہے۔ علوم ظاہری کی تکمیل سے فارغ ہو کر حضرت امیر عبد اللہ عشقی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بلخ حاضر ہوئے اور انہی کے اشارے پر ہندوستان آئے اور حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ سے شرف بیعت حاصل کیا۔ پھر حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد پر حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک عرصہ گزارا۔ سنہ 1018ھ میں حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو اجازت نامہ عطا فرما کر برہان پور روانہ کر دیا۔ 18 صفر سنہ 1058ھ اکبر آباد میں وفات پائی۔
2 یہ حدیث مکتوب 65 میں گزر چکی ہے حوالہ وہاں ملاحظہ ہو۔
3 حضرت مولانا یعقوب چرخی علیہ الرحمۃ طریقہ نقشبندیہ میں بلند مرتبہ رکھتے ہیں، آپ سے طریقے کی اشاعت بہت ہوئی۔ آپ کو بیعت و اجازت حضرت خواجہ نقشبند سے ہے مگر تکمیل خواجہ عطار رحمۃ اللہ علیہ سے ہوئی۔ علم تفسیر اور دوسرے علوم دینیہ میں بھی آپ کی تصانیف ہیں۔ 5 صفر سنہ 851ھ کو وفات پائی۔ چرخ کے رہنے والے ہیں جو ولایت غزنی میں ہے۔ مزار ہلغون مضافات حصار از ما وراء النہر میں ہے۔
4 مولانا نور الدین عبد الرحمن جامی علیہ الرحمۃ 23 شعبان سنہ 817ھ میں قصبۂ جام میں پیدا ہوئے۔ آپ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد سے ہیں۔ مدرسہ نظامیہ ہرات میں تعلیم حاصل کی، میر سید شریف جرجانی کے شاگرد خواجہ علی سمرقندی اور دیگر علماء سے استفادہ کیا۔ پھر حضرت خواجہ عبید اللہ احرار قدس سرہٗ سے سلسلہ نقشبندیہ میں طریقے کی تکمیل کی۔ آپ کی تصانیف کی تعداد 54 ہے، بروز جمعہ علی الصبح 18 محرم سنہ 898ھ کو وفات پائی۔