دفتر 1 مکتوب 114: حضرت سید المرسلین علیہ و علیہم و آلہ الصلوات و التسلیمات کی متابعت کی ترغیب کے بیان میں

دفتر اول مکتوب 114

صوفی قربان؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ حضرت سید المرسلین علیہ و علیہم و آلہ الصلوات و التسلیمات کی متابعت کی ترغیب کے بیان میں۔

حق سبحانہٗ و تعالیٰ ہم بے سر و سامان مفلسوں کو حضرت سید المرسلین اولین و آخرین علیہ الصلوۃ و السلام کی متابعت کی دولت سے مشرف فرمائے اور اس پر استقامت نصیب کرے۔ آنحضرت علیہ من الصلوات أفضلها و من التسلیمات أکملہا (ایسی عظیم المرتبت ہستی ہیں کہ ان) کی دوستی کے طفیل حق تعالیٰ اپنے اسمائی و صفاتی کمالات کو ظہور میں لایا اور آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو بہترین جمیع بنا کر پیدا کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پسندیدہ متابعت کا ایک ذرہ تمام دنیاوی لذات اور اخروی تنعمات سے مرتبے میں کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔ تمام فضیلت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی روشن سنت کی تابع داری پر وابستہ ہے اور تمام بزرگی احکامِ شریعت کی بجا آوری پر منحصر ہے۔ مثلًا دوپہر کا سونا (قیلولہ) اگر اتباعِ سنّت کی نیت سے ہو تو کروڑوں شب بیداریوں سے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی متابعت میں نہ ہوں، اولیٰ و افضل ہے۔ اسی طرح عید الفطر کے دن میں کھانا (یعنی روزہ نہ رکھنا) جس کا کہ شریعتِ مصطفوی میں حکم ہے، خلافِ شریعت تمام عمر روزے رکھنے سے افضل ہے اور شارع علیہ السلام کے حکم کے مطابق ایک چیتل (دام، پیسہ) دینا اپنی خواہش سے سونے کے پہاڑ خرچ کرنے سے بہتر و افضل ہے۔ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک روز صبح کی نماز با جماعت ادا کرنے کے بعد صحابہ کی طرف دیکھا تو ان میں ایک شخص کو حاضر نہ پایا، دریافت کرنے پر حاضرین نے عرض کیا کہ وہ شخص تمام رات عبادت کرتا ہے شاید اس وقت آنکھ لگ گئی ہو۔ امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر وہ شخص تمام رات سوتا رہتا اور صبح کی نماز با جماعت ادا کر لیتا تو (اس کے لئے تمام رات عبادت کرنے سے) بہتر تھا۔

گمراہ لوگوں (اہل ہنود وغیرہ) نے اگرچہ ریاضتیں اور مجاہدے بہت کئے ہیں لیکن چونکہ وہ شریعتِ حقہ کے موافق نہیں ہیں اس لئے بے اعتبار اور بے حیثیت ہیں۔ اگر ان (گمراہ لوگوں کے) اعمالِ شاقہ پر کچھ اجر ثابت بھی ہو وہ صرف بعض دنیوی منافع پر منحصر ہے، جب پوری دنیا ہی کچھ حیثیت نہیں رکھتی تو اس کے کسی منافع کا کوئی کیا اعتبار کرے۔ ان کی مثال ایسے خاکروب کی طرح ہے جس کی محنت سب سے زیادہ اور مزدوری بہت کم ہے اور شریعت کے تابع داروں کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو قیمتی جواہرات اور عمدہ عمدہ ہیروں کے ساتھ کام کرتے ہیں کہ ان کا کام بہت تھوڑا اور مزدوری بہت زیادہ ہے۔ (سنّت کے موافق) ایک ساعت کا عمل ہو سکتا ہے کہ اجر میں ایک لاکھ برس کے نیک عمل کے برابر ہو۔ اس میں راز یہ ہے کہ جو عمل شریعت کے موافق ہوتا ہے وہ حق تعالیٰ کا پسندیدہ ہوتا ہے اور جو خلافِ شریعت ہوتا ہے وہ حق تعالیٰ کا نا پسندیدہ۔ پس نا پسندیدہ اعمال کی صورت میں ثواب کی کہاں گنجائش ہے بلکہ عذاب متوقع ہے۔ اس حقیقت کی عالمِ مجاز میں نظیر موجود ہے جو تھوڑی سی توجہ سے واضح طور پر سجمھ میں آ جاتی ہے۔ بیت

ہر چہ گیرد علّتی علّت شود

کفر گیرد کاملے ملت شود

ترجمہ:

"مریض جو چیز بھی کھائے وہ بیماری (کا سبب) ہی بنتی ہے، اور کامل اگر (ظاہراً) کفر بھی اختیار کرے تو وہ (حقیقت میں) ایمان ہوتا ہے"

پس تمام سعادتوں کا سرمایہ سنّت کی پیروی میں ہے اور تمام فسادات کی جڑ شریعت کی مخالفت کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو سید المرسلین علیہ و علیہم و علیٰ آلہ الصلوات و التسلیمات کی متابعت پر ثابت قدم رکھے۔ والسلام

؂1 صوفی قربان کے نام دو مکتوب ہیں دفتر اول مکتوب 114 اور 283۔ آپ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء میں سے تھے صاحبِ حال و ذوق اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے بڑے پابند تھے۔ (روضۃ القیومیۃ، رکن اول، صفحہ نمبر: 339)