دفتر 1 مکتوب 115: اس بیان میں کہ جس راہ کو ہم طے کرنے کے در پے ہیں وہ صرف سات قدم ہے

مکتوب 115

ملا عبدالحق دہلوی؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ جس راہ کو ہم طے کرنے کے در پے ہیں وہ صرف سات قدم ہے۔

از ہر چہ می رود سخنِ دوست خوش تر است

ترجمہ:

دوست کی طرف سے جو بات بھی پہنچے وہ اچھی ہے

یہ راستہ جس کو طے کرنے کے ہم در پے ہیں وہ صرف سات قدم ہے، دو قدم عالمِ خلق میں ہے اور پانچ قدم عالم امر میں۔ عالمِ امر میں پہلا قدم رکھنے پر تجلیٔ افعال کا ظہور ہوتا ہے، دوسرے قدم پر تجلئ صفات اور تیسرے قدم پر تجلیاتِ ذاتیہ (کا سلسلہ) شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اربابِ کمال کے درجات کے تفاوت کے مطابق (تجلیاتِ ذاتیہ میں) ترقی ہوتی رہتی ہے، جیسا کہ ارباب کمال سے پوشیدہ نہیں ہے، اور یہ سب کچھ حضرت سید الاولین و الآخرین علیہ من الصلوات أکملہا و من التسلیمات أفضلها کی متابعت پر وابستہ ہے۔ یہ جو بعض نے کہا ہے کہ یہ راستہ دو قدم ہے، اس سے انھوں نے (بطورِ اجمال) عالمِ خلق اور عالمِ امر مراد لئے ہیں (اور یہ بات اس لئے کہی ہے) تاکہ طالبوں کی نظر میں راستہ مختصر اور آسان معلوم ہو۔ اور حقیقت میں بات وہی ہے جو حق تعالیٰ کی توفیق سے میں نے بیان کی۔

؂1 آپ کے نام صرف دو مکتوب ہیں دفتر اول مکتوب نمبر 115 اور دفتر دوم مکتوب نمبر 29۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں، محرم 958ھ بعہد سلیم شاہ سوری دہلی میں ولادت ہوئی، اپنے والد ماجد حضرت سیف الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ سے تعلیم و تربیت پائی اور قرآن مجید حفظ کیا۔ آپ کو بچپن ہی سے حصولِ علم کا اس قدر ذوق تھا کہ والد کے منع کرنے کے با وجود شب کو کافی رات تک مطالعہ کتب میں مشغول رہتے تھے۔ سنہ 995ھ میں حج کے لیے تشریف لے گئے، وہاں شیخ عبد الوہاب متقی سے اکتساب فیض کیا پھر دہلی واپس آکر حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ سے شرف بیعت حاصل کیا۔ صاحبِ تصانیفِ کثیرہ ہیں، 21 ربیع الاول سنہ 1052ھ میں وفات پائی، مہرولی میں مزار پر انوار ہے۔ تاریخ ولادت "شیخ اولیا" اور تاریخِ وفات "فخر العلماء" سے نکلتی ہے۔