مکتوب 113
جمال الدین حسین کولابی1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ مبتدی اور منتہی کے جذبے کے درمیان کیا فرق ہے؟ اور یہ کہ مجذوبوں کو جذب کا اظہار ابتداءً روح سے ہوتا ہے جو قلب کے اوپر ہے اور وہ روح کے اس شہود کو حق تعالیٰ جل شانہٗ کا شہود خیال کر لیتے ہیں۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ سَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) جذب و کشش صرف مقام فوق تک ہوتی ہے فوقِ فوق تک نہیں ہوتی (یعنی مقامِ فوق سے اوپر نہیں ہوتی) اور یہی حالِ شہود اور اس کے طریقے وغیرہ میں ہے، پس جن مجذوبوں نے سلوک طے نہیں کیا وہ مقامِ قلب میں ہیں، ان میں جذب و کشش صرف مقامِ روح تک ہے جو مقامِ قلب کے اوپر ہے، اور منتہی حضرات کا جذبہ و کشش انجذابِ الہیٰ ہے جس کے اوپر کوئی اور مقام نہیں، اور ابتدائی جذبے میں روحِ منفوخ (انسان کے اندر پھونکی ہوئی روح) کے سوا کچھ مشہود نہیں ہوتا کیونکہ روح خود اپنی اصلی صورت پر موجود ہے۔ (حدیث میں ہے) "إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ"2 ترجمہ: ”بے شک اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا“۔ (یہ حضرات) روح کے شہود کو حق تعالیٰ کا شہود سمجھ لیتے ہیں، اور جب کہ روح کو عالمِ اجساد کے ساتھ ایک درجہ مناسبت حاصل ہے تو کبھی اس شہود کی کثرت کو شہودِ احدیت کہتے ہیں اور کبھی اس کی معیت کے قائل ہوتے ہیں حالانکہ حق تعالیٰ جل و علا کا شہود حصولِ فنائے مطلق کے بغیر جو کہ سلوک کی انتہا پر متحقق ہے، متصور نہیں ہے۔ شعر:
ہیچ کس را تا نگردد او فنا
نیست رہ در بارگاہِ کبریا
ترجمہ:
جس کو حاصل ہی نہیں راہِ فنا
کس طرح پائے وہ راہ کبریا
اور اس شہود کا عالمِ (دنیا) سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان دونوں شہودوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ جو شہود عالمِ (دنیا کے ساتھ کسی نہ کسی وجہ سے مناسبت رکھتا ہے تو وہ حق تعالیٰ و تقدس کا شہود نہیں ہے اور اگر بے مناسبت ہے (یعنی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے) تو حق جل و علا کے شہود کی علامت ہے۔ شہود کا اطلاق عبارت کی تنگی کی وجہ سے ہے ورنہ یہ نسبت بھی منتسب الیہ (حق تعالیٰ و تقدس کی ذات) کی طرح بے کیف و بے مثل ہے۔
چوں را بہ بے چوں راہ نیست
ترجمہ:
مثل کیوں بے مثل تک پائے گا راہ
(مثل کو بے مثل (یعنی ذاتِ الہیٰ) کی طرف کوئی راستہ نہیں ہے (یعنی ذاتِ الہیٰ میں غور نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کی صفات میں غور کریں)۔ لَا یَحْمِلُ عَطَایَا الْمَلِکِ إِلَّا مَطَایَاہُ (بادشاہ کی عطا کردہ چیزوں کو اس کی سواریاں ہی اٹھا سکتی ہیں)۔
1 مکتوبات میں اس نام کے دو مکتوب ہیں دفتر اول مکتوب 113 اور 223، غالب گمان یہ ہے کہ آپ حضرت خواجہ حسام الدین کے صاحب زادے ہیں۔
2 اس حدیث کی شرح مکتوب نمبر 95 میں گزر چکی ہے۔