دفتر اول مکتوب 107
یہ مکتوب بھی محمد صادق کشمیری کے نام صادر فرمایا۔ ان چند سوالات کے جواب میں جن سے طعن و تعصب کی بُو آتی ہے اور یہ مکتوب ان ضروری فوائد پر مشتمل ہے جو اولیائے کرام کے بلند مرتبہ پر یقین رکھنے میں فائدہ مند ہیں۔
حق سبحانہٗ و تعالیٰ اس عالی گروہ (اولیائے کرام) کے بلند مرتبے پر ایمان و یقین کی سعادت نصیب فرمائے۔ آپ کا گرامی نامہ جو چند سوالات پر مشتمل تھا موصول ہوا۔ اگرچہ اس قسم کے سوالات جن میں بد گوئی اور تعصب کی آمیزش ہو، جواب کے قابل نہیں ہوتے لیکن فقیر اس سے قطع نظر کر کے جواب دینے میں پیش قدمی کرتا ہے تاکہ اگر ایک کو نفع نہ ہو تو شاید کسی دوسرے ہی کو فائدہ پہنچے۔
پہلا سوال:
یہ تھا کہ اس کا کیا سبب ہے کہ اولیائے متقدمین سے کرامات اور خوارق بہت ظاہر ہوتے تھے اور موجودہ زمانے کے بزرگوں سے بہت کم ظاہر ہوتے ہیں؟
جواب:
اگر اس سوال سے آپ کا مقصد خوارق کے کم ہونے کی وجہ سے موجودہ دور کے بزرگوں کی نفی کرنا ہے جیسا کہ عبارت سے واضح ہوتا ہے تو حق سبحانہٗ و تعالیٰ ان شیطانی (پُر فریب) آرائشوں سے اپنی پناہ میں رکھے۔ خوارق کا ظاہر ہونا نہ ولایت کے ارکان میں سے ہے اور نہ (ولایت کی) شرائط میں سے، بخلاف معجزۂ نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام کے، کہ وہ مقامِ نبوت کی شرائط میں سے ہے۔ لیکن (شرطِ ولایت نہ ہونے کے با وجود) اولیاء اللہ سے خوارق کا ظہور بہت کچھ شائع و ظاہر ہے اور اس کے خلاف کم ہی ہوا ہے (یعنی اولیاء سے ظہورِ خوارق نہ ہوا ہو) لیکن خوارق1 کا کثرت سے ظاہر ہونا ولایت کی افضلیت پر دلالت نہیں کرتا البتہ وہاں فضیلت کے لئے قرب الہیٰ کے درجات کا اعتبار ہے۔ ممکن ہے کسی ولئِ اقرب سے (جو حق تعالیٰ سے قُرب کا درجہ زیادہ رکھتا ہے) بہت کم خوارق ظاہر ہوئے ہوں اور ولیِٔ ابعد (جو قربِ الٰہی کا کم درجہ رکھتا ہے) سے بکثرت ظاہر ہوں۔ وہ خوارق جو اس امت کے بعض اولیائے کرام سے ظاہر ہوئے ہیں اصحاب کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے اس کا عشر عشیر (سوواں) حصہ بھی ظہور میں نہیں آیا، حالانکہ اولیاء میں سے سب سے افضل ولی ایک ادنیٰ صحابی کے درجہ کو نہیں پہنچتا۔ خوارق کے ظہور پر نظر رکھنا کوتاہ نظری ہے اور استعداد تقلیدی کی کمی پر دلالت کرتا ہے۔ نبوت و ولایت کے فیوض قبول کرنے کے لائق وہ لوگ ہیں جن میں تقلیدی استعداد ان کی قوتِ نظری پر غالب ہو۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو استعدادِ تقلیدی کی قوت کی وجہ سے حضور نبی کریم علیہ و علیٰ آلہ الصلوٰۃ و السلام کی تصدیق کرنے میں کسی دلیل کی ضرورت پیش نہیں آئی، اور ابو جہل لعین اسی استعداد کی کمی کی وجہ سے بہت سی روشن آیات اور مغلوب کر دینے والے بکثرت معجزات ظاہر ہونے کے با وجود تصدیقِ نبوت کی دولت حاصل نہ کر سکا (جیسا کہ) حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا ان بے دولتوں (یعنی استعداد تقلیدی سے محروم لوگوں) کے بارے میں ارشاد ہے: ﴿وَ إِنْ یَّرَوا کُلَّ آیَۃٍ لَّا یُؤْمِنُوا بِھَا حَتّٰی إِذَا جَآءُوکَ یُجَادِلُوْنَکَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا إِنْ ھٰذَا إِلَّا أَسَاطِیْرُ الْأَوَّلِیْنَ﴾ (الأنعام: 25) ترجمہ: ”اور اگر وہ ایک ایک کر کے ساری نشانیاں دیکھ لیں تب بھی وہ ان پر ایمان نہیں لائیں گے۔ انتہا یہ ہے کہ جب تمہارے پاس جھگڑا کرنے کے لیے آتے ہیں تو یہ کافر لوگ یوں کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) پچھلے لوگوں کی داستانوں کے سوا کچھ نہیں“۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ اکثر متقدمین میں سے بھی ساری عمر میں پانچ یا چھ سے زیادہ خوارق نقل نہیں کئے گئے۔ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ جو کہ اس گروہ (اولیاء) کے سردار ہیں، معلوم نہیں کہ ان سے دس خوارق بھی ظہور میں آئے ہوں۔ اور حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ اپنے کلیم (حضرت موسیٰ) علٰی نبینا و علیہ الصلوٰۃ و السلام سے متعلق یوں فرماتا ہے: ﴿وَ لَقَدْ آتِیْنَا مُوسی تِسْعَ آیتٍ بَیِّنٰتٍ﴾ (بنی اسرائیل: 101) ترجمہ: ”اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی کھلی نشانیاں دی تھیں“۔
اور موجودہ دور کے مشائخ کے متعلق آپ کو کیسےمعلوم ہوا کہ ان سے اس قسم کے خوارق ظہور میں نہیں آتے بلکہ اولیاء اللہ کو خواہ وہ متقدمین میں سے ہوں یا متاخرین میں سے ہر گھڑی خوارق کا ظہور ہوتا ہے، مدعی خواہ ان کو سمجھ سکے یا نہ سمجھ سکے، مصرع:
خورشید نہ مجرم ار کسے بینا نیست
ترجمہ:
خورشید نہیں مجرم، اندھا ہے اگر کوئی
دوسرا سوال:
یہ ہے کہ طالبانِ صادق کے کشف و شہود میں القائے شیطانی کو دخل ہے یا نہیں؟ اور اگر دخل ہے تو کشفِ شیطانی کو واضح کریں کہ وہ کس طرح پر ہے، اور اگر دخل نہیں ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ بعض الہامی امور میں خلل واقع ہو جاتا ہے؟
جواب:
اس کا جواب یہ ہے وَاللّٰہُ سُبْحَانَہٗ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ (اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ہی کو صحیح بات کا علم ہے) کہ کوئی شخص بھی القائے شیطانی سے محفوظ نہیں ہے، جب کہ یہ دخل اندازی انبیاء علہیم الصلوٰۃ والسلام میں بھی متصور بلکہ متحقق ہو تو اولیائے کرام میں بدرجہ اولیٰ ہو گی۔ پھر طالبِ صادق کس گنتی میں ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ انبیاء علیہم الصلوٰت و التسلیمات کو اس القائے (شیطانی) پر (حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف سے) آگاہ کر دیا جاتا ہے اور باطل کو بھی حق سے جدا کر دیا جاتا ہے (جیسا کہ) آیۂ کریمہ ﴿فَیَنْسَخُ اللہُ مَا یُلْقِي الشَّیْطنُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللہُ آیٰتِہٖ﴾ (الحج: 52) ترجمہ: ”پھر جو رکاوٹ شیطان ڈالتا ہے، اللہ اسے دور کر دیتا ہے، پھر اپنی آیتوں کو زیادہ مضبوط کر دیتا ہے“ اسی مضمون پر دلالت کرتی ہے۔ اور اس معنیٰ میں اولیاء کے لئے یہ لازم نہیں ہے کیونکہ وہ ولی نبی کے تابع ہوتا ہے وہ جو کچھ نبی کے (قول و فعل کے) خلاف پائے گا، اس کو رد کر دے گا اور باطل جانے گا۔
ہاں ایسی صورت میں جس میں نبی کی شریعت خاموش ہو اور (اس مسئلہ میں) اثبات و نفی میں سے کوئی حکم شریعت میں موجود نہ ہو تو حق و باطل کے درمیان امتیاز یقینی طور پر مشکل ہوتا ہے، کیونکہ الہام کا تعلق ظن سے ہے لیکن عدم امتیاز کی صورت میں ولی کی ولایت میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا، اس لئے کہ شریعت (کے احکام) کی بجا آوری اور نبی کی پیروی، دونوں جہان میں فلاح و نجات کی ضامن ہے اور جن امور کے بارے میں شریعت نے سکوت اختیار کیا ہے وہ شریعت پر زائد ہیں اور ہم زائد امور کے مکلف نہیں ہیں۔
جاننا چاہیے کہ غلط کشف کا واقع ہونا محض القائے شیطانی پر ہی منحصر نہیں ہے بلکہ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ قوتِ متخیلہ غیر صادقہ (غلط) احکام کی ایک صورت پیدا کر لیتی ہے جن میں شیطان کا کچھ بھی دخل نہیں ہوتا، اسی قسم سے یہ بھی ہے کہ بعض لوگوں کو خواب میں حضرت پیغمبر علیہ الصلوۃ و السلام کی زیارت نصیب ہوتی ہے اور وہ بعض احکام آپ سے اخذ کر لیتے ہیں جو فی الحقیقت شرعی احکام کے خلاف متحقق ہو چکے ہیں، ایسی صورت میں القائے شیطانی تصور نہیں کی جا سکتی کیونکہ علمائے کرام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ شیطان، حضرت خیر البشر علیہ وعلیٰ آلہ الصلوٰۃ و السلام کی شکل میں2 کسی طرح بھی متشکل نہیں ہو سکتا، پس اس صورت میں سوائے قوتِ متخیلہ کے، کہ وہ غیر واقع کو واقع تصور کر لیتی ہے اور کچھ نہیں ہے۔
سوال سوم:
یہ تھا کہ جب کرامات کے تصرفات اور استدراج کی تاثیرات دیکھنے میں ایک جیسی معلوم ہوتی ہیں تو مبتدی (راہِ حق کا سالک) کس طرح پہچانے کہ یہ شخص ولی صاحب کرامت ہے اور یہ مدعی صاحبِ استدراج؟
جواب:
اس کا جواب یہ ہے وَ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ کہ مبتدی طالب کو ان دونوں (تصرف و استدراج) میں فرق و امتیاز حاصل کرنے کے لئے واضح دلیل موجود ہے اور وہ دلیل اس کا صحیح وجدان ہے۔ (یعنی) اگر وہ اس شخص (ولی) کی صحبت میں اپنے دل کو حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف متوجہ پائے تو جان لے کہ وہ ولی صاحب کرامت ہے اور اگر اس کے خلاف پائے تو جان لے کہ وہ مدعی صاحبِ استدراج ہے۔ اگر اس حقیقت کے پہچاننے میں پوشیدگی ہے تو یہ صورت عوام کالانعام (نا سمجھ لوگوں) کی ہے نہ کہ طالبوں کی اور عوام پر اس حقیقت کا پوشیدہ رہنا خواص کے نزدیک کچھ اعتبار نہیں رکھتا کیونکہ عوام پر اس پوشیدگی کا سبب اُن کا مرضِ قلبی اور غشاوۂ بصری (آنکھوں کا پردہ) ہے۔ عوام سے تو ایسی بہت سی باتیں پوشیدہ ہوتی ہیں کہ جن کا جاننا اس فرق کے جاننے سے بھی زیادہ ضروری ہے (یعنی کرامت و استدراج کے فرق کو جاننے کی نسبت شرعی احکامات کا جاننا سب سے زیادہ ضروری ہے)
اب ہم اس مکتوب کو بعض ان معارف پر ختم کرتے ہیں جو ان شکوک و شبہات کے ازالے میں آپ کے لیے مفید ہوں۔
واضح ہو کے تَخَلُّقْ بِأَخْلَاقِ اللہِ کے معنیٰ جو ولایت میں ماخوذ و معتبر ہیں، وہ یہ ہیں کہ اولیاء کو ایسی صفات حاصل ہو جائیں جو واجب تعالیٰ کی صفات سے مناسبت رکھتی ہوں لیکن وہ مناسبت صرف اسم میں ہو گی۔ عمومی صفات میں مشارکت ہو سکتی ہے خواص معانی میں مناسبت نہیں ہو سکتی کہ وہ اس میں محال ہے اور اس میں حقائق کا تغیر و تبدل لازم آتا ہے۔
خواجہ محمد پارسا3 قدس سرہٗ تَخَلَّقُوْا بِأَخْلَاقِ اللّٰہِ کے مقام کی تحقیقات کے بیان میں فرماتے ہیں کہ (حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی) ایک صفت مَلِکْ (بادشاہ) ہے اور مَلِکْ کے معنی سب پر تصرف کرنے والے کے ہیں۔ جب راہ حق کا سالک اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے اور اس نفس کو مغلوب کر کے رکھتا ہے تو اس کا تصرف لوگوں کے دلوں پر بھی جاری ہو جاتا ہے، اس وقت وہ اس صفت (مَلِکْ) سے منسوب یعنی مناسبت رکھنے والا کہلاتا ہے۔ ایک صفت سمیع ہے اور سميع کے معنی سننے والے کے ہیں۔ جب راہِ حق کا سالک ہر شخص کی نیک باتیں طبیعت کی گرانی کے بغیر سُن کر قبول کر لیتا ہے اور غیبی اسرار و حقائق کو روح کے کانوں سے سنتا ہے تو وہ اس صفت (سمیع) سے مناسبت رکھنے والا کہلاتا ہے۔ ایک صفت بصیر ہے اور بصیر کے معنی دیکھنے والے کے ہیں۔ جب راہِ حق کے سالک کی بصیرت (دل کی آنکھ) روشن ہو جاتی ہے تو وہ اپنے تمام عیبوں کو نورِ فراست سے دیکھتا ہے اور دوسرے لوگوں کے حال کو کمال درجے کا معلوم کر کے سب کو اپنے سے بہتر دیکھتا ہے اور یہ حق کا دیکھنا اس کو (حق تعالیٰ کا) منظورِ نظر بنا دیتا ہے یہاں تک کہ وہ جو کچھ کرتا ہے حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا پسندیدہ کام ہوتا ہے تو اس وقت وہ اس صفت بصیر سے مناسبت رکھنے والا کہلاتا ہے۔ حق تعالیٰ کی ایک صفت مُحیی ہے، مُحیی کے معنی زندہ کرنے والے کے ہیں۔ جب سالک ترک شدہ سنّت کو زندہ اور قائم کرتا ہے تو وہ اس صفت محیی سے مناسبت رکھنے والا کہا جائے گا۔ حق تعالیٰ کی ایک صفت ممیت ہے، یعنی مارنے والا۔ جب سالک ان بدعات سے جو لوگوں نے سنت کو ترک کر کے اختیار کر لی ہوں، ان کے خلاف آواز بلند کرتا اور منع کرتا ہے تو یہ اس صفتِ ممیت سے مناسبت رکھنے والا ہو جاتا ہے، علیٰ ہذا القیاس۔
عوام نے تخلّق کے معنی دوسرے (غلط) سمجھے ہیں اور خواہ مخواہ گمراہی کے جنگل میں جا پڑے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ولی کے لئے احیائے جسمی (مرُدے کا زندہ کرنا) ضروری ہے اور اس پر اشیائے غیبی کا انکشاف ہونا چاہیے وغیرہ ذلک۔ حالانکہ یہ باتیں فاسد گمانوں کی مانند ہیں اور بعض گمان گناہ ہوتے ہیں جیساکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ﴾ (الحجرات: 12) ترجمہ: ”بعض گمان گناہ ہوتے ہیں“۔ نیز خوارق صرف کسی کو مارنے اور زندہ کرنے میں ہی منحصر نہیں ہیں علوم (شرعیہ) اور معارفِ الہامیہ سب سے بڑی نشانی اور اعلیٰ درجے کے خوارق ہیں، اسی لئے معجزہ قرآنی کو باقی تمام معجزات پر اقویٰ اور باقی رہنے والا تسلیم کیا گیا ہے، ذرا آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ یہ علوم و معارف جو موسلا دھار بارش کی طرح (اس فقیر پر) برس رہے ہیں، یہ کہاں سے آ رہے ہیں۔ پھر یہ سب علوم اس کثرت کے با وجود پورے طور پر علوم شرعیہ کے مطابق و موافق ہیں، جن میں بال برابر بھی مخالفت کی گنجائش نہیں ہے اور یہی خصوصیت ان علوم کے صحیح و درست ہونے کی علامت ہے۔
(آپ نے لکھا ہے کہ) ہمارے خواجہ (حضرت باقی باللہ) قدس سرہٗ نے تحریر فرمایا تھا کہ تمہارے (یعنی حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے) سب علوم درست اور شریعت کے مطابق ہیں لیکن حضرت خواجہ قدس سرہٗ کا یہ جملہ نقل کرنے سے کیا فائدہ کیونکہ حضرت خواجہ صاحب کے اقوال آپ کے لئے حجت نہیں اگرچہ آپ خود کو بھی حضرت خواجہ کے ماننے والوں میں شمار کرتے ہیں۔ زیادہ کیا عرض کروں۔
آپ کے یہ سوالات شروع میں بہت گراں معلوم ہوئے لیکن جب یہی سوالات بہت سے علوم و معارف کے ظہور میں آنے کا باعث بن گئے، جو ان سوالات کے سلسلے میں بیان کئے گئے ہیں تو یہ ایک اچھا اور نیک کام ہو گیا۔ بیت:
ہیچ زشتے نیست کو را خوبئ ہم راہ نیست
زنگی شب رنگ را دنداں چو دُرّ و گوہر است
ترجمہ:
ایسی بُری چیز کوئی نہیں کہ جس میں کوئی نہ کوئی خوبی نہ ہو، جیسا کہ رات کی طرح سیاہ رنگ والے حبشی کے دانت موتیوں کی طرح چمکتے ہیں۔
عجب معاملہ ہے کہ سابقہ مکتوب میں آپ نے بڑے اخلاص کا اظہار کیا تھا اور اس کا سبب اپنے دو مسلسل واقعات کے ظہور کو قرار دے کر لکھا تھا کہ اس کا اثر بیداری میں بھی محسوس ہوتا ہے، حتی کہ آپ کی اپنی پہلی حالت پر بڑی ندامت و شرمندگی متحقق ہوتی تھی اور توبہ و انابت کی طرف رجوع کر کے ایمان کی تجدید سے مشرف ہوئے تھے۔ ابھی ایک ماہ بھی نہ گزرا تھا کہ آپ کی اس حالت میں تبدیلی واقع ہو گئی اور اُلٹے پاؤں واپس ہو کر سابقہ وضع پر منتقل ہو گئے حتیٰ کہ اس بات کے درپے ہو گئے کہ ان دو واقعات کے لئے کوئی ایسی وجہ نکالیں کہ ان کو القائے شیطانی سے ملا دے، لہذا ان کو غلط کشف کہنا شروع کر دیا۔ کہاں وہ حالت تھی اور کہاں یہ؟ بیت
بگفتا فلانے چہ بد می کند
نہ با من کہ با نفس خود می کند
ترجمہ:
فلاں نے کہا وہ برُا کر رہا ہے
وہ مجھ سے نہیں، خود سے کیا کر رہا ہے
وَ السَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی وَ الْتَزَمَ مُتَابَعَةَ الْمُصْطَفٰی عَلَیْہِ وَ عَلٰی آلِہِ الصَّلَوَاتُ وَ التَّسْلِیْمَاتُ (جو شخص ہدایت کی پیروی کرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کی متابعت کو لازم جانے، ان سب پر سلام ہو)
1 ظہورِ خوارق کی دلیل کتاب و سنت سے اور صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد تابعین و تبع تابعین کے اقوال سے بھی تواتر کے ساتھ ثابت ہے ہے اور ان کے درمیان قدرے مشترک ہے اور کسی کو اس کے انکار کی مجال نہیں جیسا کہ بعض اکابر اور ان کے متبعین سے ظاہر ہوا ہے۔ (از شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ)
2 بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "مَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي؛ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَّلُ بِيْ"۔ (صحيح مسلم، حدیث نمبر: 2266) ترجمہ: ”جس نے خواب میں مجھے دیکھا تو اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا“۔
3 آپ کا نام محمد بن محمد بن محمود حافظ بخاری ہے، حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبند قدس سرہٗ کے بڑے خلفاء میں سے تھے، پہلی مرتبہ جب آپ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درِ دولت پر دستک دی، اتفاقًا اسی وقت ایک خادمہ باہر سے اندر آئی تو حضرت خواجہ نے اس سے دریافت کیا کہ باہر کون ہے؟ خادمہ نے عرض کیا ایک شخص متقی و پارسا صورت کھڑا ہے۔ آپ نے فرمایا حقیقت میں وہ "پارسا" ہے۔ اس کے بعد آپ کا نام ہی پارسا ہو گیا۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے آپ سے دریافت فرمایا کہ وہ حق اور امانت جو خواجگان سے اس فقیر کو پہنچی ہے اور جو کچھ میں نے اس راہ میں کسب سے حاصل کیا ہے وہ تمہارے سپرد کرتا ہوں اس کو قبول کر کے مخلوق خدا تک پہنچائیں۔ آپ نے تواضع و انکساری کے ساتھ قبول کر لیا۔ بروز بدھ 23 ذی الحجہ سنہ 822ھ مدینہ منورہ میں وفات پائی۔