اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ۔اَلصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَم ُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیینِ۔اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ وَمَن تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا وقال اللہ
تعالیٰ إِنَّ الَّذِینَ یُبَایِعُونَکَ إِنَّمَا یُبَایِعُونَ اللَّہَ وقال اللہ تعالیٰ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ
وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ و
َالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا صدق اللہ العلی العظیم
بزرگو اور دوستو !
جو باتیں آج میں کرنے والا ہوں ،اس کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کریں یہ ہماری زندگی کے لئے بہت ضروری باتیں ہیں
۔ میں یہ نہیں کہتا کہ صرف میں ہی یہ باتیں کرسکتا ہوں بلکہ ہم میں سے ہر ایک کو ایسی باتیں کرنی بھی چاہیے اور
سمجھنی بھی چاہیے ، لیکن ایسی باتوں کا رواج نہیں ہے ۔ اس لئے جہاں ایسی باتیں ہورہی ہوں ان سے فائدہ اٹھانا
چاہیے ۔ انشاء اللہ ابھی تھوڑی دیر میں آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ باتیں ہمارے لئے انتہائی ضروری ہیں لیکن ہم
ان سے غافل ہیں ۔ اب ایک ضروری چیز سے انسان غافل ہو تو اس کا کتنا قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے ۔ تین باتیں بہت
اہم ہیں ۔ قرآن پاک میں بار بار اس کی تاکید کی گئی ہے ۔ ظاہر ہے اللہ جل شانہ جس بات پر زیادہ زور دیتے ہوں تو
وہی ہمارے لئے زیادہ اہم ہوگی ۔ قرآن پاک کے مضامین کا آپ غور سے مطالعہ فرمائیں اور دیکھیں کہ کس چیز کا کثرت
سے ذکر آیا ہے ۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ اللہ جل شانہ ہمیں قرآن پاک کے ذریعے کونسا خاص پیغام دینا چاہتے
ہیں ۔ باقی عموم کی باتیں تو بہت ہیں لیکن وہ خاص باتیں جن کا قرآن پاک میں کثرت سے تذکرہ کیا گیا ہے آج میں
ان کے بارے میں عرض کرنا چاہوں گا ۔ وہ تین باتیں ہیں ۔ پہلی بات ہے توحید ۔ اللہ ایک ہے ،اپنی صفات میں یکتا ہے
اور اللہ ہی کی ذات ایسی ہے جس کی عبادت کی جائے اور جس سے مدد مانگی جائے ، ایاک نعبدو و ایاک نستعین توحید پر
بار بار زور دیا گیا ہے ۔ توحید کے مضامین مختلف پیرایوں میں بیان کیے گئے ہیں ۔ مختلف پیغمبروں کی زبان سے بیان
کیے گئے ہیں ۔ پھر اس میں جو حالات پیغمبروں پر آئے ہیں وہ بھی بیان کیے گئے ہیں ۔ تو توحید کا مضمون بہت زیادہ
قرآن پاک میں آیا ہے ۔ اس کی ابتداءسورت فاتحہ سے ہوگئی ۔ دوسرا مضمون جو کثرت سے آیا ہے ۔ وہ پیغمبروں کے بارے
میں ہے ۔ رسالت کے بارے میں ہے ۔ رسالت کے بارے میں بھی کثرت سے آیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ اور مخلوق کے
درمیان مطلوبہ اعمال کے لئے ، مقبول اعمال کے لئے ایک ہی واسطہ ہوتا ہے اور وہ پیغمبر کا ہوتا ہے ۔ انسان کو
کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ اللہ مجھ سے کیا چاہتا ہے ۔ کیا اس کو خواب میں اس کا پتہ چلے گا یا کشف سے پتہ چلے گا
۔ کتاب میں کہاں سے آئے گا ۔ تو ظاہر ہے کہ وہ ایک ہی ذریعہ ہے جو اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت کے لئے مقرر فرمایا
ہے اور کتاب بھی اسی پر اتاری جاتی ہے ۔ کتاب کا تعارف بھی پیغمبر ہوتا ہے ۔ قرآن کا تعارف کس نے کیا ؟ آپ ﷺِ
نے ۔ تورات کا تعارف موسیٰ علیہ السلام نے کیا ۔ زبور کا تعارف داؤد علیہ السلام نے کیا ۔ انجیل کا تعارف عیسیٰ
علیہ السلام نے کیا ۔ او ر باقی صحیفوں کا تعارف اپنے اپنے وقت کے پیغمبر نے کیا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آسمانی
صحیفوں اور کتابوں کا تعارف بھی انبیاء کرام کے ذریعے کیا جاتا ہے اور انبیا ئے کرام کے اعمال کو امت کے اعمال
کے لئے نمونہ بنایا جاتا ہے ۔ لہذا پیغمبر کی ذات وہ ذات ہے جس کو سمجھ کر انسان اللہ جل شانہ کا بن سکتا ہے اور
اللہ جل شانہ کے پسندیدہ اعمال کرسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں ہے ۔ لہذا پیغمبر کے ساتھ ہر ہر وقت
کے مسلمان کا بہت قریبی تعلق ہونا چاہیے ۔ تیسری بات آخرت کی ہے ۔ آخرت کا عقیدہ بنیادی عقیدہ ہے ۔ کیونکہ
اگر کسی کا آخرت پر یقین نہیں ہے تو بے شک اس کا باقی تمام چیزوں پر یقین ہو ، اس کو وہ چیز حاصل نہیں ہوسکتی
جس کو ایمان کہتے ہیں ۔ ایک دفعہ ایک شخص حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس آئے اور پوچھا آپ آخرت پر یقین رکھتے ہیں
۔ انہوں نے جواب دیا بالکل رکھتا ہوں ۔ اس شخص نے کہا میں تو نہیں رکھتا ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جواب دیا
تمہاری قسمت ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہےِ
کَلِمِ النَّاسَ بِقَدْرِعُقُولِھِمْ
لوگوں کے ساتھ ان کی عقل کے مطابق معاملہ
کرو ۔ ایک دیہاتی آدمی کو آپ فلسفیانہ دلائل سے نہیں سمجھا سکتے بلکہ اس کو دیہاتی زبان میں سمجھانا پڑے گا ۔
سائنسدان کو سائنس کی زبان میں سمجھانا پڑے گا ۔ عالم کو علم کی زبان میں سمجھانا پڑے گا ۔ تو ہر شخص کو اس کی
سمجھ اور عقل کے مطابق سمجھایا جائے گا ۔ تو اس شخص نے جس انداز میں بات کی تھی اسی انداز میں حضرت علی کرم اللہ
وجہہ نے اس سے پوچھا کہ دیکھو دو باتیں ہوسکتی ہیں یا آخرت ہے یا نہیں ہے ۔ اگر آخرت نہیں ہے تو مجھے بتاؤکہ
تمہیں کیا فائدہ ، تمہیں کون انعام دے گا جو تو آخرت پر یقین نہیں رکھتا۔ اور مجھے کونسا نقصان ہے ، مجھ سے
کون پوچھے گا کہ تو نے آخرت پر یقین کیا ہوا تھا تو تو مجرم ہے لہذا تمہیں سزا ملے گی ۔ اس بات میں تو ہم
دونوں برابر ہیں ، مجھے نقصان کوئی نہیں تجھے فائدہ کوئی نہیں ۔ لیکن اگر آخرت ہے تو پھر میں تو وہی کررہا
ہوں جو آخرت میں چاہیے ۔ لیکن تم کیا کرو گے ؟ محفوظ راستہ کیوں اختیار نہیں کرتے ۔ تو اس شخص سے کچھ بن
نہیں پڑا اور ایمان قبول کرنا پڑا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آخرت پر ایمان بنیادی چیز ہے ۔ اب ان تین چیزوں
کو یکجا کریں اور دیکھیں کہ اس میں شیطان کا کیا رول ہے ، اور اللہ پاک کیا چاہتے ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہیے
، یہ تین چیزیں اس میں دیکھ لیں ۔شیطان کا رول یہ ہے کہ ہم سے آخرت کو بھلا دے ، ہمیں آخرت یاد نہ آئے ۔ میں
اس کی ایک مثال دیتا ہوں ۔ جرمنی میں dead body کے لئے مخصوص گاڑیاں ہوتی ہیں ۔ اور اس کے مخصوص روٹس ہوتے ہیں
۔ وہ گاڑی جو dead bodyلیے ہوتی ہے وہ عام سڑک پر نہیں جاتی مخصوص روٹ پر جائے گی ۔ میں نے ایک جرمن نومسلم
بھائی سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ یہ وہ بات ہے جو شیطان نے ان کو سکھائی ہے ۔ کیونکہ اگر
لوگ dead body کو دیکھیں گے تو ان کو آخرت یاد آئے گی ۔ یہ اس پر سوچیں گے ممکن ہے ان کو ہدایت مل جائے ، تو
شیطان نے ان پر یہ راستہ بند کردیا کہ موت ہی یاد نہ آئے ۔ ایک دفعہ ہم لفٹ میں نیچے جارہے تھے ۔ ہم نے بٹن
دبایا تھا گراؤنڈ فلور کا ، لیکن غلطی سے بٹن دب گیا تہہ خانے کا ۔ ہمیں جب خیال آیا تو فوراً اس کو بدل دیا
اور اس بٹن کو گراؤنڈ پر کرلیا ۔ میں نے ازراہ تفنن یہ کہہ دیا کہ اوہ اب تو ہم زمین کے نیچے جاچکے ہوتے ۔
تواس ساتھی نے کہا واقعی ۔ پھر میں نے کہا کہ ہر ایک کو ایک دن زمین کے نیچے جانا ہی ہے ۔ میں نے یہ کہا ہی
تھا کہ لفٹ میں ساتھ کھڑے ایک فرنچ جوڑے کا رنگ فق ہوگیا ۔ میں حیران رہ گیا اور سوچا کہ میری اس بات کا ان
پر کچھ زیادہ ہی اثر ہوگیا ۔ یہ واقعہ جب میں نے ایک جرمن دوست کو بتایا تو اس نے مجھ سے کہا یہ تو آپ نے ان
پر بم پھینک دیا تھا ۔ اسی چیز سے تو وہ بچنا چاہتے ہیں ، یہ چیزتو وہ یاد کرنا نہیں چاہتے آپ نے یہ بات کیسے
ان کے سامنے کرلی ۔ اب ہمارے ہاں دیکھ لیں کہ شیطان کیا گل کھلاتاہے ۔ ہمارے ہاں جو جنازے ہوتے ہیں تو کیا
جنازے میں ہم وہی کچھ کرتے ہیں جو جنازے میں ہونا چاہیے ؟ صحابہ کرام کا طریقہ کیا تھا ؟ ان کا طریقہ یہ
تھا کہ خاموشی کے ساتھ فکر میں جنازے کے ساتھ جارہے ہوتے تھے کہ یہ دن مجھ پر بھی آنے والا ہے ۔ ایک دفعہ
ایک بزرگ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک جنازہ آیا ۔ کسی نے پوچھا کس کا جنازہ ہے ۔ تو اس بزرگ نے اس کی اطلاع کے
لئے کہہ دیا کہ تیرا جنازہ ہے ۔ اور اگر برا مانتے ہو تو میرا جنازہ ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جنازے سے سبق لینا
چاہیے کہ ایک دن مجھے بھی اس راستے پر جانا ہے ۔ اس لئے آپ ﷺِ نے ارشاد فرمایا کہ قبروں کی زیارت کرلیا کرو
تاکہ موت یاد آئے، موت کو کثرت سے یاد کرو یہ دنیا کی لذتوں کا توڑ ہے ۔ یعنی دنیا کی لذتیں انسان کو اپنے
اندر جذب کرلیتی ہیں اور آخرت کو بھلا دیتی ہے ۔ موت کو یاد کرنے سے یہ چیز ٹوٹ جاتی ہے اور انسان کو یاد
آجاتا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے ۔ میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں ۔ ایک شخص کو پھانسی دی جارہی ہے ۔ رات کو اس
کے پاس کچھ چیزیں آجاتی ہیں ۔ قرآن پاک بھی دے دیتے ہیں ، جائے نماز ، تسبیح وغیرہ بھی دے دیتے ہیں اور اس سے
پوچھ بھی لیتے ہیں کہ آپ کو کیا چاہیے ۔ مجھے بتائیں اس آدمی کی پوری رات کیسے گزرے گی جس کو کل پھانسی لگنے
والی ہے ۔ کیا وہ اس رات کو سوئے گایا سوسکتا ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو پتہ ہے کہ اس کے پاس بس اب چند
لمحے باقی ہیں اور اس میں وہ جو کچھ کرسکتا ہے وہ کرلے ۔ ا سی طرح یہاں ہمیں ایک سیکنڈ کا بھی پتہ نہیں ہے ۔
ممکن ہے کہ اس بات کے ختم ہونے سے پہلے میری بات ختم ہوجائے ۔ تو سب کے لئے ایسا ہے کسی کو بھی ایک سیکنڈ کا
پتہ نہیں ، لیکن ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ سیکنڈ ابھی نہیں آنے والا ۔ اور جس شخص کو پھانسی لگنی ہے اس کو
پتہ ہوتا ہے کہ کل مجھے پھانسی پر لٹکائیں گے ۔ تو رات کو وہ روتا بھی ہے استغفار بھی کرتا ہے ، ذکر بھی کرتا
ہے ، نماز بھی پڑتا ہے ، معافیاں بھی مانگتا ہے ۔ وصیت بھی کرتا ہے ۔ وہ تمام چیزیں جو ایک مسلمان کو کرنا
چاہیے وہ اس رات کے اندر کرتا ہے ۔ تو یہی بات ہے کہ جو موت کی یاد سے وابستہ ہے اگر موت کو یاد نہ کرے تو
دنیا کی بھول بھلیوں میں ایسے غرق ہوجاتا ہے کہ اس کو آخرت کے حساب کتاب کا ہوش ہی نہیں رہتا ۔ وہ اس کا
منکر نہیں ہوتا لیکن اس کو یاد نہیں ہوتا ۔ نتیجتاً وہ عمل سے عاری ہوتا ہے ، عش و عشرت میں مست ہوتا ہے ۔
اور پھر اچانک وہ ساری چیزیں ختم ہوجاتی ہیں پھر پتہ چلتا ہے کہ میں تو دوسرے سفر پر نکل پڑا ہوں ۔ تو یہ
ہے آخرت کا تعلق ۔ اب آخرت کا یقین ہمیں ہوگیا اور آخرت ہمیں یاد ہے اب کیا کرنا ہوگا ؟ ظاہر ہے جس کے پاس
جانا ہے اس کو راضی کرنا ہوگا ۔ ایک آدمی پر اپنے ملک میں کچھ کیسز ہوں اور وہاں سے بھاگ کر دوسرے ملک چلا
جائے ، کسی وجہ سے وہ مجبور ہوجائے مثلاً وہ دوسرا ملک اس کو deportکرکے واپس اس کے ملک بھیجنا چاہے تو وہ شخص
کیا کرے گا ؟ وہ اپنے تمام وسائل استعمال کرکے جو اس کا اپنا ملک ہے اس کو راضی کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ کسی
طریقے سے اس کو معافی مل جائے اور جو کچھ غلطی وہ کرچکا ہے وہ مجھے معاف ہوجائے ۔ اس کامطلب یہ ہے کہ ایک
انسان جب اپنے اصلی وطن جائے گا ، جو کہ آخرت ہے ، جیسا کہ آپ ﷺِ نے فرمایا کہ مجھے دنیا سے کیا لینا دینا ہے
۔ دنیا تو میرے سامنے ایسی ہے جیسا کہ ایک سایہ دار درخت کے نیچے ایک سوار تھوڑی دیر کے لئے سستا لے اور پھر
وہاں سے چل دے ۔ تو ہمارا اصلی وطن آخرت ہے ۔ ایک آدمی ریلوے سٹیشن پر صوفہ سیٹ رکھ دے ، ٹیلی فون بھی رکھ دے
اور کھانے پینے کا سامان بھی کافی سارا لے جائے ، اور بھی دوسرا سامان لے جائے ۔ لوگ اس سے پوچھیں تو بتائے جی
مجھے یہاں پر تین منٹ گزارنے ہیں، میں یہاں پر خوش رہناچاہتا ہوں ۔ تو لوگ کیا کہیں گے ؟ کہیں گے یہ بیوقوف
آدمی تین منٹ گزارنے کے لئے اتنا سامان لایا ہے ۔ حالانکہ وہ آدمی اپنے آپ کو بہت ہوشیار سمجھتا ہوگا لیکن لوگ
اس کو کیا سمجھتے ہونگے ۔ لوگ اس کو بے وقوف ہی سمجھیں گے کہ تین منٹ گزارنے کیلئے اتنا سامان ۔ موت کے بعد
جو پہلا دن حشر کا آئے گا پچاس ہزار سال کا ہوگا ۔ اس کے مقابلے میں اگر ہماری سو سال کی زندگی بھی ہو تو یہ
لگ بھگ تین منٹ بن جاتی ہے ۔ اب اندازہ کرلیں یہاں پر ہم جو کچھ جمع کررہے ہیں یہ تین منٹ کے لئے سامان ہے ۔
اور وہ جو باقی زندگی ہم نے وہاں پر گزارنی ہے اس کو ہم خالی چھوڑ رہے ہیں ۔ ہمارے لوگ باہر جا کر دو دو اور
تین تین کام کرتے ہیں ۔ اور وہ کام کرتے ہیں جو یہاں پر نہیں کرنا چاہتے ۔ مثلاً یہاں آپ کے سامنے کوئی برتن
نہیں دھوئے گا ۔ چوکیدارہ نہیں کرے گا ، اس طرح اوردوسرے کام جس کو ہمارے معاشرے میں کم دیکھا جاتا ہے وہ کام
یہاں نہیں کرتا ۔ لیکن باہر جا کر یہ سارے کام کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ جو کام یہاں پر سویپر کرتاہے وہ کام بھی
کرلیتے ہیں ۔ کیوں ؟ کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ یہاں سے میں ڈالر یا پونڈ کما لوں گا پھر اپنے ملک جاؤں گا اس کے
بہت سارے روپے بن جائیں گے اس پر میں وہاں عیش کروں گا ۔ تو یہ اس کا تصور ہوتا ہے ۔ اور یہ تصور اتنا پکا
ہوتا ہے کہ ہم نے وہاں پر بعض لوگوں کو اچار کے ساتھ روٹی کھاتے دیکھا ہے ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ایسا کیوں
کررہے ہو تو جواب ملا کہ اگر ہم یہاں پر عیش کریں گے تو اپنے ملک کیا لے کر جائیں گے ۔ یہاں پر ہم کمانے کیلئے
آئے ہیں ۔ بات تو ان کی غلط نہیں ہے ۔ لیکن یہ سوچ صرف یہاں کے لئے کیوں ہے ؟ اس دنیا کے اندر ہم تھوڑی چیزوں
پر کیوں گزارا نہیں کرتے ، ہم سارا عیش یہاں پر کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ حضرت اویس قرنی ؒ کو ایک دفعہ ان کی
ماں نے کہا کہ اے بیٹا اپنے نفس پر رحم کرو ۔ اس نے جواب دیا اماں جی اپنے نفس ہی کے لئے تو کررہا ہوں ۔
اگر میں نے یہاں پر کچھ نہیں کمایا تو یہی نفس جہنم میں جلے گا ۔ تو اپنے نفس ہی کے لئے تو کررہا ہوں ۔
ہوشیار لوگوں کی سوچ یہی ہوتی ہے کہ یہاں پر کچھ کرلیں اور وہا ںاس کو لے جائیں ۔ بہر حال میں بات کررہا
تھا کہ جس کو آخرت یاد ہے وہ اب جس کے پاس جارہا ہے اس کو راضی کرے گا ۔ وہ ذات ایسی ہے جس کو نہ کوئی چیز
بھولتی ہے اور نہ کوئی چیز اس سے محفی ہے اور نہ ہی کوئی اس کو دھوکہ دے سکتا ہے ۔ ہمارے دل کے اندر جو بات
ابھی پیدا نہیں ہوئی ، وہ اس کو بھی جانتا ہے ۔ سو اندھیروں کے اندر وہ چیز کو دیکھ لیتا ہے ۔ جراثیم کی
آواز کو سن لیتا ہے تو اس ذات کو کون دھوکہ دے سکتا ہے ۔ لہذا اس ذات کے پاس جانا ہے ۔ ان اللہ سریع الحساب بے
شک اللہ پاک بہت تیزی کے ساتھ حساب کرنے والا ہے ۔ اس ذات کے سامنے جانا ہے جس سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔ تو اب
آدمی کیا کرے گا وہ سوچے گا کہ میں اس اللہ کے پاس جارہا ہوں جس سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔ اب اس کو راضی کرنا
ہے ۔ افلاطون نے وقت کے پیغمبر سے ایک سوال کیا تھا ، پوچھا اگر زمین اور آسمان کمان بن جائیں اور مصیبتیں تیر
بن جائیں اور انسان کا دل نشانہ ہو اور پھینکنے والا اللہ ہو تو اس سے کیسے بچا جائے گا ؟ تو وقت کے پیغمبر نے
جواب دیا ، کہ پھینکے والے کے پاس کھڑا ہوجائے اور اس سے معافی مانگے یہی طریقہ ہے ۔ تو افلاطون نے کہا یہ
واقعی پیغمبر کا جواب ہے ۔ اور بات بالکل صحیح ہے ۔ انسان اور کیا کرسکتا ہے
رَبَّنا ظَلَمْنا أَنْفُسَنا وَ إِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنا وَ تَرْحَمْنا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخاسِرِينَ۔
یہ کس کی آواز ہے ؟ یہ آدم علیہ السلام کی آواز ہے ۔ شیطان نے بڑی کوشش کی لیکن وہ چونکہ پیغمبر تھے تو غلطی
پر فوراً ربنا ظلمنا پڑھا۔اس کے ترجمے پر ذرا غور کریں ، اے اللہ ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا ،اگر تو ہمیں معاف
نہیں کرے گا تو ہم تو تباہ و برباد ہوجائیں گے ۔ خسارے والوں میں ہوجائیں گے ۔ یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے تو وہاںپر اللہ جل شانہ کوپکار رہے ہیں
لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنتَ سُبحَانَکَ اِنِّی کُنتُ مِنَ الظَّالِمِینَ
تو اللہ پاک تو بہت مہربان ہیں ۔ آدم علیہ السلام کے ساتھ بھی مہربانی کی اور،
یونس علیہ السلام کے ساتھ بھی مہربانی کی۔ اور یہ وہ مہربانی ہے جو اللہ پاک نے فرمایا کہ میں کیسے ان کو عذاب دوں حالانکہ
آپ ان میں ہیں اور یہ استغفار کرنے والے ہیں ۔ تو یہ چیز چلتی رہے گی قیامت تک ایسے ہی ہوگا ، لہذا اللہ پاک سے معافی
مانگنے میں ہی خیر ہے ، کوئی اور راستہ ہمارے پاس نہیں ہے ۔ اب اللہ کو راضی کرنا ہے ، اللہ کیسے راضی ہوگا ؟ تو یہ بہت
آسان بات ہے دو منٹ میں سمجھ میں آنے والی ۔ ایک بات ہوتی ہے تفصیلی ، تفصیل اس کو کہتے ہیں کہ آپ کو ایک دفتر بتا
دیا جائے ، یہ کرو ،وہ کرو ، یہ نہ کرو وہ نہ کرو اورآپ کو چند باتیں یاد رہ جائیں اور باقی باتیں آپ بھول جائیں ۔
دوسری طرف آپ کو ایک کلیہ بتا دیا جائے کہ میں ایک شخص بھیج رہا ہوں جیسے یہ کرے اسی طرح تم بھی کرو ۔ یہ ایک کلیہ ہے
اس کے اندر اور کوئی بات نہیں ہے ۔
قل ان کنتم تحبون اللہ .یحبب کم اللہ
اے میرے حبیب اپنی امت سے کہہ دیجئے ، اگر تم اللہ کے
ساتھ محبت کرنا چاہتے ہو تو میرا اتباع کرلو اللہ تم سے محبت کرنے والے ہوجائیں گے ۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہtriangular
پورا ہوگیا ۔ سب کچھ کرنا ہے اللہ کے لئے ، کس کے طریقے پر کرنا ہے رسول اللہ ﷺِ کے طریقے پر ، کام کہاں آئے گا ، آخرت میں ۔
تو یہ تین چیزیں بہت اہم ہیں اگر ان تین چیزوں کو ہم نے سمجھ لیا تو ہماری زندگی بڑی قیمتی ہوجائے گی ۔ اب یہ پتہ تو
چل گیا کہ حضور ﷺِ کے طریقے پر کرنا ہے لیکن کیسے کرنا ہے ۔ نعوذ باللہ میں ایک مثال دیتا ہوں کہ آپ حضور ﷺِ کو محض ایک
پیغام پہنچانے وا لا سمجھیں ، پیغام پہنچا دیا اس کے بعد حضور ﷺِ درمیان سے نکل گئے ۔ دوسرا یہ کہ آپ کو حضور ﷺِ کے ساتھ
عشق ہوجائے ، محبت ہوجائے ۔ مجھے بتائیں سنت پر عمل کرنے میں کونساطریقہ آسان ہوگا ۔ آپ اس کو صرف پیغام پہنچانے والا
سمجھیں یا اس کے ساتھ محبت کرنے والے بن جائیں ۔ اگر حضور ﷺِ کے ساتھ محبت ہوگئی تو سب کچھ آپ کا ہوگیا ، کیوں ؟ حضور
ﷺِ کے ساتھ محبت ہونے کے بعد کیا ہوگیا کہ تمہیں کوئی نہیں بتائے گا کہ حضور ﷺِ نے ایسا کیا تھا ، بلکہ تم خود پوچھو گے
گے کہ حضور ﷺِ نے کیسے کیا تھا ۔ فلاں کام حضور ﷺِ نے کیسے کیا تھا ، فلاں کام حضور ﷺِ نے کیسے کیا تھا ۔ صحابہ کرام میں یہی
تو بات تھی ۔ صحابہ کرام سوچتے تھے یہ کام حضور ﷺِ نے کیسے کیا ہوگا۔ حضرت اویس قرنی ؒ کو پتہ چلا کہ ایک غزوے میں آپ ﷺِ کے
دندان مبارک شہید ہوئے ہیں ، پتہ نہیں تھا کہ کونسے دندان مبارک شہید ہوئے ہیں ، اس وقت ٹیلی فون یا اس طرح کا کوئی
نظام تو تھا نہیں ، تو اپنے سارے دانت توڑ دیے ، پتہ نہیں آپ ﷺِ کے کونسے داندان مبارک شہید ہوئے ہیں ۔ آپ ﷺِ کے دانت
نہیں ہونگے اور میرے ہونگے یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔ تو یہ عشق کی بات تھی ۔ پھر اس عشق کا ثمرہ کیا ملا ، حضرت عمر ؓ سے
کہا گیا کہ اویس ؒ کے ساتھ ملو ، اس کو میرا یہ جوڑا دے دو اور اس کے لئے میری امت سے دعا کروالینا ۔ حضرت عمر ؓ
اپنے دور حکومت میں ان کی تلاش میں نکل گئے ، ان کے علاقے میں چلے گئے ، وہاں جب پہنچے تو پوچھتے پوچھتے لوگوں نے
انہیں بتایا کہ اس طرف گئے ہیں ۔اس طرف گئے تو چرواہے کے حلیے میں ایک شخص سے ملاقات ہوگئی ، جاکر اس سے پوچھا کہ
آپ کا نام کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا عبداللہ ۔ یہ حضرت اویس قرنی ؒ تھے اور اپنے آپ کو چھپا رہے تھے ۔ لیکن بات کن سے
کررہے تھے ؟ حضرت عمر ؓ سے جن سے کوئی چھپ نہیں سکتا تھا ۔ جن کے بارے میں ابوسفیان ؓ نے فرمایا تھا کہ لا یخدہ و لا
یخدہ وہ نہ دھوکہ دیتا ہے اور نہ دھوکہ کھاتا ہے ۔ تو حضرت عمر ؓ کو کیسے دھوکہ دیا جاسکتا تھا ۔ انہوں نے فوراً
فرمایا ، آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر جتنے لوگ ہیں سارے عبداللہ ہیں مجھے وہ نام بتاؤ جو تیری ماں نے رکھا ہے ۔
اب اویس قرنی ؒ کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا ، انہوں نے فرمایا میرا نام اویس ہے ۔حضرت عمرؓ نے فرمایا ٹھیک ہے ، پھر
ان کو آپ ﷺِ کا سلام پہنچایا ، خلعت مبارک عطا فرمائی اور آپﷺِ کا پیغام بھی دیا کہ میری امت کے لئے دعا کرلیں ۔
حضرت عمر ؓ بیٹھے رہے ، حضرت اویس قرنی ؒ نے وہ خلعت مبارک پہن کر اس میں نماز پڑھی اور آپ ﷺِ کی امت کے لئے حکم
کے مطابق دعا فرمائی ، تھوڑی دیر حضرت عمر ؓ سے بات چیت کی ، پھر حضرت عمر ؓ سے کہا ، اب بہت وقت ہوگیابات چیت
ہوگئی ، انشاء اللہ جنت میں گپ شپ لگائیں گے اب کچھ اور کرنا چاہیے ۔ تومیں عرض کررہا تھا کہ عشق کی بات تھی ۔
اس طرح ابوبکر صدیق ؓ کے عشق کو دیکھیں ، غار ثور میں تشریف لے جارہے ہیں ، اور اس حالت میں جارہے ہیں کہ آپﷺِ
کو کندھوں پر اٹھایا ہوا ہے اور پنجوں کے بل جارہے ہیں تاکہ ریت پر کم سے کم نشان پڑیں ۔ اندر گئے تو پتہ چلا
کہ بہت سارے سوراخ ہیں ، اور یہ سوراخ خطرے سے خالی نہیں تھے ۔ تو وہاںجو پتھر وغیرہ تھے ان سے سوراخ بند
کرنے کی کوشش کی لیکن پھر بھی کچھ سوراخ بند ہونے سے رہ گئے تو اپنے کپڑے پھاڑ کر اس میں رکھنے شروع کیے
۔ ستر کے علاوہ جتنے کپڑے تھے وہ ختم ہوگئے ۔ اب کچھ بھی باقی نہیں رہا لیکن پھر بھی ایک سوراخ باقی رہا
۔ تو اس سوراخ میں اپنے پیر کے انگوٹھے کو رکھ دیا ، مطلب یہ تھا کہ کہیں کسی سوراخ میں کوئی سانپ وغیرہ
نہ ہو ، سانپ میرے پیر کو کاٹ لے لیکن آپﷺِ کو کوئی تکلیف نہ ہو ۔ تو یہ جواب ہے اس سوال کا جو اہل تشیع
کرتے ہیں ،
لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللہ مَعَنَا
وہ کہتے ہیں کہ وہ ڈر گئے ۔ وہ کس لئے ڈر گئے اپنے لئے ؟ اگر اپنے لیے
ڈرے ہوتے تو اپنا پیر سوراخ میں کیوں رکھتے سانپ کے سامنے ۔ اور ایسا ہو بھی گیا سانپ نے ڈس بھی لیا ۔
ڈسنے کی تکلیف سے آنکھ سے آنسونکل آئے اور آپﷺِ کا سر مبارک گود میں ہے ، بے اختیار آنسو نکل آئے تو آپ ﷺِ
کے رخسار مبارک پر گر گئے ۔ اس سے آپ ﷺِ کی آنکھ کھل گئی پوچھا کیا ہوا ، وجہ بتا دی تو آپﷺِ نے دم فرما کر
اپنا لعا ب دہن اس جگہ مل دیا تو تکلیف جاتی رہی ۔ الحمد اللہ ٹھیک ہوگئے ۔ لیکن پھر اس عشق کا کیا صلا ملا ،
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے ایک دفعہ پوچھا یا رسول اللہ ﷺِ کسی کی اتنی نیکیاں بھی ہونگی جتنے اس آسمان میں ستارے
ہیں ، فرمایا ہا ںعمر ؓ کی ہیں ۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی بیٹی تھی گھبرا گئی پوچھا یا رسول اللہﷺِ
میرے باپ کا کیامقام ہے ۔ آپ ﷺِ نے فرمایا تیرے باپ کے تین دن جو غار ثور میں میرے ساتھ گزرے ، عمر ؓ کی پوری زندگی
کی نیکیاں اس کے برابر نہیں ہوسکتیں ۔ تو یہ مظاہر عشق تھا ۔ تو آپ ﷺِ سے دل سے محبت کرنے والے کو پھر یہ ملتا ہے ۔
دل سے محبت کرو عمل بھی آسان ہوجائے گا اور نتیجہ بھی آسان ہوجائے گا ۔ تم خدا کے محبوب کو محبوب بنا لو ، اللہ تمہیں
اپنا محبوب بنا لے گا ۔ تو خدا کے محبوب سے دل سے محبت کرو ، پھر آپ کے لئے سنتوں پر چلنا کوئی مشکل نہیں رہے گا ۔
سنتوں پر چلنا واقعی مشکل کا م ہے آسان کام نہیں ہے ۔ آپ ﷺِ نے فرمایا آخر وقت میں میری سنت پر عمل کرنا ایسا ہوگا
جیسا کوئی انگارہ ہاتھ میں لے کر چل رہا ہو ۔ اور واقعی آپ آج کل دیکھتے ہیں ، شادیوں میں ہم کسی سنت پر عمل کرسکتے
ہیں ؟ غم میں کوئی سنت جاری رکھ سکتے ہیں ، حتیٰ کہ ٹخنوں سے اونچا پاجامہ آج کل یہ بھی مشکل سنت بن گیا ہے ۔ لوگ
اس کا بھی مذاق اڑاتے ہیں اور اپنے ایمانوں کو تباہ و برباد کردیتے ہیں ۔ کسی سنت کا مذاق اڑانے سے ایمان ختم
ہوجاتا ہے ۔ آج کل اس کا بھی مذاق اڑایا جاتا ہے ۔ یاد رکھیں یہ اپنی تباہی کو دعوت دینے والی بات ہے ۔ تو آج
کل واقعی سنت پر چلنا مشکل کام ہے ۔ لیکن اس وقت آسان ہے جب آپﷺِ کا عشق دل میں واقعتا موجود ہو ۔ عشق کے ہوتے
ہوئے کسی ملامت کی پروا نہیں ہوتی ۔ ملامت کی پروا ہ تو ان کو ہوتی ہے جن کو محبت حاصل نہ ہو ۔ جن کی محبت بناوٹی
ہو وہ واقعی مسئلہ ہوتا ہے ، اوہ فلاں کیا کہے گا ، فلاں کیا کہے گا ، لیکن اگر کسی کو اللہ جل شانہ نے محبت سے نوازا
ہے وہ کہتا ہے ٹھیک ہے ، ایسے ہی ٹھیک ہے ۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ تم پاگل ہو ، کہتا ہے ہاں میں پاگل ہوں ۔ آپ ﷺِ نے
فرمایا ذکر کرو ، ذکر و اور اتنا ذکر کرو کہ لوگ تمہیں پاگل کہیں ، اور ذکر اتنا کرو کہ لوگ تمہیں ریاکار کہیں ،
اب بتائیں آپﷺِ کی خواہش کیا ہے ؟ آپ ﷺِ کی خواہش ہے کہ پاگل پن کی پرواہ نہ کرو لوگوں کے پاگل کہنے سے نہ ڈرو ، لوگوں
کے ریاکار کہنے سے نہ ڈرو ۔ ڈرو صرف اس اللہ کی ذات سے جو دلوں کے بھید کو جانتا ہے ۔ اپنے دلوں کو ہر قسم کے کھوٹ سے
خالی کردو تمہاری جیت ہی جیت ہے ۔ لیکن دل کے اندر کھوٹ ہے اور لوگ تمہیں بزرگ ، ولی ، غوث اور پتہ نہیں کیا کیا
کہیں اس میں تمہارا کوئی فائدہ نہیں ۔ کیونکہ اللہ جل شا نہ تو دلوں کے بھید کو جانتا ہے ۔ لہذا اپنے دل کا معاملہ اللہ
کے ساتھ درست کرلو ۔ دل خدا اور اس کے رسول کو دے دو ۔ بعض لوگوں سمجھتے ہیں کہ خدا کے رسول کو دل دینے کا مطلب یہ
ہے کہ تھوڑی گڑ بڑ ہے ۔ یعنی ان لوگوں کے ماتھے پر بل پڑ جاتے ہیں ۔ لیکن یاد رکھیں یہ ایسی بات نہیں ہے۔ اللہ پاک نے
فرمایا ہے
النَّبِیُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنفُسِهِمْ
نبی مومنین کے لئے اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں تو یہ اللہ پاک کا کلام
ہے اور آپ ﷺِ کا کلام بھی سن لو ، فرمایا تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک میں تمہیں اپنے والد سے اور
اپنی اولاد سے اور سب لوگوں سے زیادہ محبو ب نہ ہو جاؤ ، یہ بخاری شریف اور مسلم شریف کی روایت ہے ۔ اور حضرت عمر ؓ
سے یہ فرمایا کہ اے عمر ؓ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ۔ تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک
میں تجھے اپنے آپ سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤ ں ۔اس طرح آپ ﷺِ ایک دعا فرماتے ہیں
اللّٰهُمَّ إنِّی أَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَنْ یُحِبُّکَ وَالعَمَلِ الَّٰذی یُبلِّغُنِی حُبَّکَ ، اللّٰهُمَّ ا اجْعَلْ حُبَّکَ
أحَبَّ إلیَّ مِنْ نَفْسِی وَأهْلِی وَمِنَ المَاءِ البَارِدْ
اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور ہر اس شخص کی محبت مانگتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہے ۔ اور عمل کو
مانگتا ہوں جو کہ تیری محبت تک مجھے پہنچائے ۔اے اللہ اپنی محبت میرے لیئے اپنی جان سے آل سے اور ٹھنڈے پانی سے زیادہ
محبوب بنا دے تو آپﷺِ تو اللہ کے ساتھ محبت کرنے والے ہیں ، بلکہ اللہ بھی آپ ﷺِ سے محبت کرنے والے ہیں ، تو اس میں تو سارے
آگئے کہ جو اللہ سے محبت کرنے والے ہیں سب کے ساتھ محبت کی جاسکتی ہے ۔ تو جتنے بھی اولیائے کرام ہیں سب سے محبت کی
جاسکتی ہے ۔ اور وہ عمل جو انسان کو اللہ کی محبت تک لے جاتا ہے وہ عمل سنت کہلاتا ہے ۔ تو اللہ کے حبیب کے ساتھ پیار کرو
اور اللہ کے حبیب کی سنتوں کے ساتھ پیار کرلو ، یہ طریقہ مسنون ہے ۔ آپ ﷺِ نے یہی مانگا ہے ۔ تویہ ہے طریق عشق ۔ حضرت
امام غزالی ؒ کا طریقہ سلوک والا طریقہ تھا ۔ وہ فرماتے تھے پہلے یہ نکالو ، پھر یہ نکالو ، پھر یہ نکالو ۔یعنی تمام
گندگیاں دل سے نکل جائیں ۔ یہ طریقہ تفصیلی ہے لیکن محفوظ ہے ۔ حضرت مولانا رومی ؒ کا طریقہ، طریقہ عشق ہے ۔ وہ کہتا ہے
دل کے اندر اللہ اور اس کے رسول کے عشق کو پیدا کرلو ساری چیزیں خود بخود حاصل ہوجائیں گی ۔ یہ طریقہ مختصر ہے لیکن پر
خطر ہے ۔ پرخطر اس لئے ہے کہ خدانخواستہ اگر سمجھ نہیں آئی تو گاڑی کو ٹکرا دو گے ۔ اس کے ساتھ سمجھ بہت ضروری ہے اور
وہ سمجھ اپنی نہیں ہوتی ، وہ سمجھ کسی اللہ والے کی ہوتی ہے ۔ اس کی سمجھ کے ساتھ ساتھ چلو ، خود مولانا روم ؒ فرماتے ہیں
، اس راستے میں تنہا نہ چلو ۔ کسی راہبر کا ہاتھ پکڑ لو ۔ کوئی بھی آدمی بغیر رہبر کا ہاتھ پکڑے نہیں پہنچا ۔ اور جس
کو تم سمجھتے ہو کہ پہنچا ہوا لگتا ہے تو وہ بھی کسی کی نظر سے پہنچا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ طریقہ پرخطر یقینا
ہے لیکن اس وقت خطرہ دور ہوجاتا ہے جب آپ ایک مشاق ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں ۔ جو گاڑی کو تو تیز چلاتا ہو لیکن
ہو مشاق ڈرائیور ۔ آگے پیچھے سے بچا سکتا ہو اور آپ کو جلدی اپنی منزل تک پہنچا سکتا ہو ، تو اس وجہ سے آج کل کے دور
میں وہ لمبا طریقہ آدمی نہیں کرسکتا ۔ کیونکہ ایک رذیلے کو نکالے گا دوسرا آئے گا ۔ دوسرے کو نکالے گا تیسرا آئے گا
۔ اگر تیز ہوا چل رہی ہو اور تنکے وغیرہ آرہے ہوں ، آپ کچھ تنکوں کو باہر پھینک دیں تو ہوا کے ساتھ اور آجائیں گے ۔
تواپنے دل کو ان رذائل سے صاف کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اپنے دل کو عشق سے بھر دو ، اورعشق ، عشق حقیقی ہو ۔ اللہ
اور اس کے رسول کی محبت ہو ۔ اور یہ چیز قرآن سے ثابت ہے یہ بزرگوں نے اپنے آپ سے نہیں کہا ۔ قرآن میں ہے ۔
وَالّذینَ آمَنُو أشَدُّ حُباً لِله
جو ایمان والے ہیں ان کو اللہ جل شانہ سے شدید محبت ہوتی ہے اور یہ بھی فرمایا ، کہ
النَّبِیُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنفُسِهِمْ
اور نبی مومنین کے لئے جانوں سے زیادہ عزیز ہوتا ہے ۔ تو یہ دونوں باتیں قرآن سے میں نے آپ کو بتائی ہیں ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ طریقہ سب سے آسان اور سب سے پراثر اور تیز طریقہ ہے ۔ اگر خدانخواستہ کوئی شیخ نہ ملے
تو پھر تو سلوک والا طریقہ بہتر ہے ۔ ایک ایک کرکے نکالنے والا ، چاہے کچھ بھی ہو ، لیکن خطرہ تو نہیں ہوتا ۔
لیکن اگر کوئی اللہ والا مل گیا تو بس جیسے وہ بتائے اس طریقے سے عمل کرو انشاء اللہ العزیز بہت جلد منزل پر پہنچ جاؤ گے
۔حضرت تھانوی ؒ اصلاحی طریقوں کو تین قسموں میں بتاتے ہیں ۔ایک ہے اخیار کا طریقہ جس میں انسان خود سوچ سوچ کر اپنے
لئے رذایل کو دور کرنے کے تدابیر اختیار کرتا ہے چاہے کتابوں میں پڑھ کر یا اللہ والوں سے سن کر اور دلجمعی اور استقامت
کے ساتھ اس کام میں موت تک لگا رہتا ہے۔جہاں شیخ میسر نہ ہو یا ہوں لیکن کسی کے ساتھ مناسبت نہ بنے ان کے لئے پھر صرف
یہی طریقہ مناسب ہے۔دوسرا طریقہ ابرار کا ہے ۔اس میں کسی شیخ کامل سے بذریعہ عقل مفید سمجھ کر پوچھ پوچھ کر اپنی
اصلاح کرتا ہے۔تیسرا طریقہ شطاریہ کا ہے کہ اس میں بندہ شیخ پر ایسا فدا ہوجاتا ہے کہ اس کو اس کی بات کے علاوہ کوئی
اور بات سمجھ ہی نہ آئے ۔اگر شیخ صحیح ہو تو یہ طریقہ سب سے زیادہ تیز رفتار ہے۔اس میں پہلے سالک شیخ میں فنا ہوتا ہے
پھر رسول ﷺ میں اور پھر اللہ تعالیٰ میں اور یہی اس کی معراج ہے۔یہ مضمون ختم تو نہیں ہوسکتا ، اللہ اور اس کے رسول کی بات
کیسے ختم ہوسکتی ہے ۔ ایک دفعہ مفتی شفیع صاحب ؒ بیمار ہوگئے ۔ قرآن پاک کی تفسیر شروع ہوئی تھی تو فرمایا کہ قرآن
کو کون ختم کرسکتا ہے ۔ قرآن میں اپنی زندگی کو ختم کیا جاسکتا ہے ۔ چلو میں اس بیماری میں کام شروع کرلیتا ہوں
اگر اسی کام کے کرتے کرتے مر جاؤں تو اچھی بات ہے ۔ تو اس نیت سے انہوں نے کام شروع کیا اور الحمد اللہ بہت مقبول تفسیر
امت کے ہاتھ میں آگئی ، معارف القرآن کو آپ حضرات جانتے ہونگے تو اس وقت بھی اللہ اور اس کے رسول کی بات ختم نہیں ہوسکتی
، لیکن مجھے چونکہ رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس میں جانا ہے تو میں اجازت چاہوںگا ۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو یہ نسبت نصیب فرمادے
جس کے بارے میں آج بات ہوئی ہے ۔ وماعلینا الا البلاغ ۔