اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ۔اَلصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَم ُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیینِ۔اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔وَالشَّمْسِ وَضُحٰھَا(1) وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰھَا(2) وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰھَا(3) وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰھَا(4)وَالسَّمَآء وَمَا بَنٰھَا(5) وَالْاَرْضِ وَمَا طَحٰھَا(6) وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا(7) فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰھَا(8) قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا(9) وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا(10) کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰھَآ(11) اِذِ انْبَعَثَ اَشْقٰھَا(12) فَقَالَ لَھُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ نَاقَۃَ اللّٰہِ وَسُقْیٰھَا(13) فَکَذَّبُوْہُ فَعَقَرُوْھَا فَدَمْدَمَ عَلَیْہِمْ رَبُّھُمْ بِذَنْبِھِمْ فَسَوّٰھَا(14) وَلَا یَخَافُ عُقْبٰھَا(15)
قسم ہے سورج کی اور اس کے دھوپ چڑھنے کی اورچاند کی جب آئے پیچھے سورج کے اور دن کی جب اس کو روشن کرے اس کو اور رات کی جب اس کو ڈھانک لیوے اور آسمان کی اور جیسا کہ اسکو بنایا اور نفس انسانی کی اور جیسا کہ اس کو ٹھیک بنایا پھر سمجھ دی اس کو ڈھٹائی کی اور بچ کر چلنے کی ۔ تحقیق مراد کو پہنچ گیا جس نے اس کو سنوار لیا اور نامراد ہوگیا جس نے خاک میں ملا چھوڑا ۔جھٹلایا ثمود نے اپنی شرارت سے جب اٹھ کھڑا ہوا ان میں کا بڑا بد بخت ۔پھر کہا ان کو اﷲ کے رسول نے خبردار ہو اﷲ کی اونٹنی سے اور اس کی پانی کی باری سے پھر انہوں نے جھٹلایا اس کو پھر پاؤں کاٹ ڈالے اس (اونٹنی) کے پھر الٹ مارا ان پر ان کی رب نے بسب ان کے گناہوں کے پھر برابر کردیا سب کو اور وہ نہیں ڈرتا پیچھا کرنے سے
معزز خواتین و حضرات! آج کی مجلس اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس مجلس میں بہت سی اہم باتیں بیان کی جائیں گی۔جن کی طرف التفات بہت کم ہے۔ بیانات میں بہت ساری باتیں بیان کی جاتی ہیں جن کا بیان کرنا ضروری ہوتا ہے۔ آج جس چیز کی طرف انشاء اﷲ غور دلایا جائے گا دوسرے بیانات میں اس کے اوپر توجہ کم ہے لیکن معاشرے کے اوپر اور افراد کے اوپر اسکا اثر بہت زیادہ ہوتاہے اس کا تعلق تزکیہ کے ساتھ ہے اللہ جل شانہ نے مختلف آیات کریمہ میں تزکیہ پربہت زور دیا ہے اور حضور ﷺکے ارشادات بھی اس کے بارے میں بہت زیادہ ہیں لیکن انسان نفس کی کمزوری کی وجہ سے اس کی طرف التفات نہیں کرتے اور بہت سارے لوگ اس کے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان بہت ساری نعمتوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔
دوسری طرف کچھ لوگوں نے شیطان کے اثر سے یا اپنے نفس کے اثر سے بہت سی غلط باتیں اس میں شامل کردی ہیں (یعنی تزکیہ میں )جس کی وجہ سے یہ جو مبارک سلسلہ ہے اتنا بدنام ہو چکا ہے کہ کچھ لوگ تو اس کے قریب نہیں جاتے اور کچھ لوگوں کو اس کو مختلف چیزوں کا گو رکھ دھندا بنایا ہوا ہے اور اس میں مختلف غلط چیزیں شامل کی ہوئی ہیں لہذا وہ نام تو ا س (تزکیہ )کا لیتے ہیں لیکن کام بالکل اس کے مخالف کرتے ہیں ۔
تو آج اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے یہ جو آج جو میں نے جو مبارک آیات تلاوت کی ہیں وہ اسی کے بارے میں ہیں اس میں اللہ جل شانہ نے نہایت ہی اہم بات کو ہمیں بتانے کے لیے پہلے سات قسمیں کھائی ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کے لیے قسم کھانے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ تو ہمارے خالق ہیں ہمارے مالک ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں جو حکم فرمادیں وہ ہمارے لیے ماننا ضروری ہیں اللہ تعالیٰ کو ہماری کمزوریوں کا پتہ ہے لہٰذااس لیے اس نے ہمیں اس کی طرف متوجہ کرنے کے لیے سات قسمیں کھائی ہیں اور اس کے بعد ایک بہت بڑی حقیقت بیان فرما ئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے آخری قسم نفس کی کھائی ہے کہ قسم ہے نفس انسانی کی اور جیسا کہ اس کو ٹھیک بنایا تو اللہ تعالیٰ نے نفس کی قسم کھانے کے بعد یہ بھی فرمایا کہ
افَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰھَا
کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف یعنی نفس کی طرف اچھائی بھی الاام کی اور برائی بھی الامم کی۔یعنی جو بری خواہشات ہیں وہ بھی ا لاَم کی ہیں اور اس کے ساتھ تقویٰ بھی الہام فرمایا جو بچنے کے لیے ضروری ہے اب بڑی عجیب بات ہے بعض لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے نفس کو برائیاں الہام فرمادیں تو اگر لوگوں کو یہ بات یادرہے کہ ہمارا اس زندگی میں آنا امتحان کے لیے ہے ہم یہاںپر امتحان کے لیے آئے ہیں اور ہم نے امتحان دینا ہے تو جو اس امتحان میں کامیاب ہوگیا وہ آخرت میں کامیاب ہوگااور جو اس دنیا کے امتحان میں ناکام ہوگیا وہ آخرت میں ناکام ہو گا تو اس امتحان کے لیے بہت ساری چیزیں ہیں جو انسان کو دی گئی ہیں ان سے بچنے کا حکم فرمایا ہے جو چیزیں دی گئی ہیں امتحان کے لیے جو برائیاں ہیں ان کو جاننا بہت ضروری ہے ان کو پہچاننا بہت ضروری ہے اور پھر جو ان سے بچنے کے جو طریقے ہیں ان کو سیکھنا بہت ضروری ہے ۔
یہی ہے وہ تزکیہ کا عمل جس کے بارے میں میں نے کچھ بتانا ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَاوَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا
تحقیق وہ کامیاب ہوگیا جس نے اپنے نفس کو پاک کیا یعنی جس نے اپنا تزکیہ کیا اور ناکام و نامراد ہوگیا جس نے اپنے نفس کو میلا چھوڑدیا یعنی جس نینے اس کو پاک نہیں کیا یعنی دوسرے لفظوں میں اس کا تزکیہ نہیں کیا تو وہ ناکام و نامراد ہوگیا ۔
اب تزکیہ کا مفہوم کیا ہے اس کے اندر کیا کیا چیزیں آتی ہیں اس کے بارے میں انشاء اللہ مختصراً عرض کرتا ہوں باقی تفصیلات انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ کے بیانات میں ہوں گی۔
اصل میں جب انسان کو یہاں بھیجا گیا تو جیسے میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ امتحان کے لیے کچھ چیزیں ہمارے نفس کے اندر داخل کی گئی ہیں تو جو خواہشات ابھرتی ہیں اس کو نفس کہتے ہیں او ریہ ہر شخص کے ساتھ ہوتا ہے اور ہر نفس کی خواہشات ہوتی ہیں اور یہ خواہشات مختلف قسم کی ہوتی ہیں مثلاً ایک خواہش یہ ہوتی ہے کہ میں بہت مال دار ہوجاوںمیرے پاس مال بہت زیادہ ہو اور لوگ مجھے بہت مالدار کہیں اور میں ہر وقت اپنے مال کو دیکھ کر خوش ہوتا رہوں ۔اس کو حب مال کہتے ہیں دوسری جوبلاجو ہمارے ساتھ لگی ہوئی اس کو لذّات کی خواہش کہتے ہیں یعنی لذتوں کا طالب ہونا ۔ اچھا کھانا اچھا پہننا اچھا مکان حاصل کرنا یعنی مختلف قسم کی لذات کو حاصل کرنا ۔یہ جو لذات کی خواہش ہےاس کو کہتے ہیں حب باہ یہ ہمارے لیے ایک مشکل امتحان ہے اگر کوئی اس سے نہیں بچا تو وہ بہت زیادہ مصیبت میں پھنس جاتا ہے تو جو اس سے بچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو نواز دیتے ہیں۔اس طرح ایک اور جو سب سے بڑا پھندا ہے وہ ہے بڑا بننے کا شوق انسان بڑا بننا چاہتا ہے انسان بڑائی چاہتا ہے یعنی لوگ مجھے سلام کریں لوگ میرے لیے اٹھ کھڑے ہوں لوگ میری عزت وتکریم کریں۔لوگ میر ا اچھا نام لیں اس طریقے سے بڑا بننا چاہتا ہے یہ کرسی کی خواہش قتدار کی خواہش۔خان بننے کی خواہش وغیرہ وغیرہ یہ تمام چیزیں اسی سے متعلق ہیں اس کے لیے انسان اپنے مال کو بھی ضائع کرتاہے اپنی لذّات کو بھی ترک کرتاہے ۔ تو ان تین بلائوں سے اپنے نفس کو بچانا تزکیہ ہے یعنی جب مال حب جاہ اور حب باہ ان تینوں سے جو بچ گیا اس کا تزکیہ ہوگیا۔
اب اس سے متعلق جو موٹی بات ہے وہ عرض کروں کہ جو احکامات ہمیں دئیے گئے ہیں وہ دو طرح کے ہیں ایک تو وہ احکامات ہیں جو کہ ہمارے ظاہر سے متعلق ہیں اور ایک وہ احکامات ہیں جن کا تعلق ہمارے باطن سے ہے۔ جو احکامات ظاہر سے متعلق ہیں وہ نماز،روزہ ،حج ،زکواۃ،معاملات،معاشرت وغیرہ میں ہیں وہ ظاہر ہوتی ہیں مثلاً نمازی کو تو آدمی دیکھ سکتا ہے کہ آدمی نماز پڑھ رہا ہے اس طرح سجدہ کرنے والے کو دیکھا جاسکتا ہے کہ سجدہ کررہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔یہ تمام ترکیبیں ظاہری ترکیبیں ہیں اس کے علم کو فقہ کہتے ہیں۔
فقہ پر بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں اور اس کی وہاں سے تفصیلات معلوم کی جاسکتی ہیں اور کچھ احکامات باطن سے متعلق ہیں مثال کے طور پر ہمارا دل کیسا ہونا چاہئے ہمارے دل کے جذبات کیسے ہونے چاہئیں ۔ ہمارا دل کس طرف مائل ہونا چاہئے ہمارے دل میں کون سے اوصاف ہونے چاہئے اور کون سے نہیں ہونے چاہئے یہ تمام چیزیں جو دل سے تعلق رکھتی ہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے مثال کے طور پر تکبر جوہے یہ بہت بڑی بلا ہے لیکن اس کے بارے میں بظاہر کوئی نہیں جانتا اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہوتا ہے کہ لوگوں میں کون متکبر ہے اور کو ن متکبر نہیں ہے۔ تکبر او رخودداری میں فرق بہت کم لوگوں کو نظر آتاہے بعض خوددار لوگوں کو لوگ متکبر سمجھتے ہیں اور بعض متکبر اپنے آپ کو خوددار کہتے ہیں یہ فرق کرنا کسی کامل کا کام ہے اور اللہ تعالیٰ ہی اس کا پتا چلا سکتے ہیں تو یہ دل کی بیماریاں ہیں تو دل کے اندر اگر تکبر ایک رائی کے برابر بھی ہوتو وہ شخص جنت میں جاسکتا تو اتنی خطرناک چیز جو کسی بھی وقت دل میں داخل ہو سکتی ہے تو اس کے بارے میں جاننا اور اس کے بارے میں پہچاننا کتنا ضروری ہے ۔پس تکبر کو دل سے نکالنا اور اس کی جگہ عاجزی کودل میں لانا تواضع کو لانا اور ریا کو دل سے نکالنا کہ لوگ اچھے اعمال کو دوسرے لوگوں کے خوشنودی کے لیے کریں اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے نہ کریں یا اﷲ کی خوشنودی کے لئے بھی کریں اور دوسرے لوگوں کے لیے بھی کریں تو پھر اس کو شریک خفی کہتے ہیں لہذ ا یہ بھی بہت بری چیز ہے اور بری بلا ہے اس سے بھی بچنا ہے تو ریا کو نکال کر اخلاص کو پیدا کرنا ہے اس طرح تفویض حاصل کرنا یعنی ہم سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اوپر چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنا حضور صلی اللہ و علیہ وسلم کی محبت کو حاصل کرنا یعنی اسلام کے متعلق جو امور ہیں ان کی محبت حاصل کرنا دل سے ان کے اوپر ایمان لانا تو یہ تمام چیزیں کیا ہیں یہ اعمال قلب ہیں تو جو اعمال قلب ہیں ان کے متعلق جو امور ہیں اس کو سمجھنے کے لیے اور اس کے اوپر عمل کرنے کے لیے اور ان پر عمل کرنے کے طریقے کو سیکھنے کے اس نظام کو تصوف کہتے ہیں یہ بھی اصل میں فقہ ہے لیکن باطنی امور کا لیکن اس کا عام لوگوں کی زبان میں نام تصوف ہے اس تصوف کو لوگوں نے بہت بدنام کیا ہے ۔اس کا تعلق اصل میں دل کے ساتھ ہے اس لیے اس کی بہت سی باتیں ظاہر نہیں ہوتیں ۔
لہذا بہت گمراہ لوگوں نے اس سے ناجائز فائدہ اٹھا کر غلط چیزیں اس کے اندر داخل کردیں اور اس وجہ سے لوگوں نے تصوف کو بدنام کیا ہے حالانکہ قرآن وحدیث یہ تصوف بالکل ثابت ہے ۔یعنی قرآن و حدیث اس سے بھرا ہوا ہے ۔ماشاء اللہ ہمارے جو اکابر ین ہیں جن میں حضرات مولانا اشرف علی تھانوی کا نام بہت مشہور ہے انہوں نے تقریباًایک ہزار سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں ۔انہوں نے اس کے اوپر بہت کام کیا ہے ۔انہوں نے فرمایا ہے کہ تصوف سے قرآن و حدیث بھرے ہوئے ہیں لیکن لوگوں کو نظر نہیں آتا لوگوں کو اقم الصلوٰۃ و آتو الزکوٰۃ تو نظر آتا ہے کہ نماز پڑھو اور زکوٰۃ دو یہ تو لوگوں کو نظر آتاہے لیکن ان اللہ مع الاوبرین ،واللہ یحب الشاکرین یہ لوگوں کو نظر نہیں آتا اس طرح مختال ٌ فخور کو اﷲ پسند نہیں فرماتے یہ لوگوں کو نظر نہیں آتا حالانکہ یہ بھی بہت واضح احکامات ہیں اور یہ احکامات تصوف کے بارے میں ہیں۔تو تصوف کو جاننا ۔اس کے بارے میں علم حاصل کرنا اور غور و فکر کرنا ، اس کو سمجھنا اس کے طور طریقے کو سمجھانا اس کے بارے میں بھی ہمیں جا ننا ہے اور یہ جو ہماری مجالس جو ہیں ۔عمومی طورپر اس مقصد کے لیے ہیں تاکہ ہم ان تمام چیزوں کو سیکھیں تاکہ لوگ ہمیں دھوکہ نہ د ے سکیں اگر ہم نے ان چیزوں کی حقیقت کو نہ پہچان لیا ہوگا تو پھر اگر لوگ غلط تصوف کو ہمارے سامنے لائیں گے تو پھر ہم ان سے دھوکہ نہیں کھائیں گے کہ یہ تصوف نہیں ہے یہ تو شیطانی چال ہے اس جال میں انشاء اللہ ہم نہیں پھنسیں گے اور جو صحیح تصوف ہوگا ان سے ہم تمام صحیح چیزیں حاصل کر سکیں گے۔ تواس کے بارے میں،میں عرض کررہا تھا کہ کچھ اعمال ظاہرہ ہیں کچھ اعمال باطنہ ہیں اسی طریقے سے جو اعمال مقصودہ ہیں ان میں بھی دو قسمیں ہیں یعنی جن اعمال کو کرنا ہے وہ اس میں آتے ہیں اور جن اعمال سے بچنا ہے وہ بھی ہمارے مقاصد میں آتاہے مثلاً ہم ظاہر کولیں تو ظاہر میں کچھ فرائض ہیں جن کو کرنا ضروری ہے جن کے انکار سے انسان کفر میں مبتلا ہوجاتا ہے ان کو کرنا لازمی ہے اگر کوئی نہیں کرے گا تو گناہ گا ر ہوگا تو اس کے مقابلے میں حرام ہے تو حرام سے بچنا بہت ضروری ہے اسی طرح واجبات ہیں اور اس کے مقابلے میں مکروہات ہیں ۔اسی طرح سنت ہے مستحبات ہیں ان کے مقابلے میں مکروہ تنز یہی ہیں اور مستحبات کا تو بہت لمبا چوڑا حساب ہے تو یہ جس طرح ظاہر کے متعلق ہیں تو اسی طرح باطن کے متعلق اعمال بھی ہیں باطنی فقہ میں یعنی تصوف میں بھی کچھ اعمال مقصودہ ہوتے ہیں یعنی کچھ اعمال کرنے کے ہوتے ہیں اور کچھ کو چھوڑنا پڑتاہے۔ مثال کے طور پر جو کرنے کی چیزیں ہیں وہ اخلاص ہے،تواضع ہے، تفویض ہے ،تو کل ہے ،رضا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی محبت ہے۔ یہ تمام چیزیں تو حاصل کرنی ہیں اور جن چیزوں سے بچنا ہے وہ کیا ہیں ۔وہ ریا ہے،تکبر ہے ، غیر پر بھروسہ ہے، اللہ تعالیٰ کی محبت کی بجائے دنیا کی محبت ہے اور اس طریقہ سے دنیاوی لذات کی طلب ہے ۔یہ تمام چیزیں دل سے نکالنی ہیں۔ اسطرح جو کرنے کے اعمال ہیں وہ علیحدہ ہیں اور جن کو نہیں کرنا ہے وہ علیحدہ اعمال ہیں ان دونوں کو جب ہم جمع کریں گے تو ہم کہیں گے کہ یہ مقاصد ہیں تصوف کے یعنی تصوف کا مقصد کیا ہے ان مقاصد کو پورا کرنا یعنی ان اعمال باطنہ کے اوپر عمل پیراہوجانا۔ یہ تصوف کہلائے گا۔ یہ کام تو ہمارے کرنے کا ہے یعنی ہمیںجن اعمال کے کرنے کا حکم ہے مثلاً رضا تفویض توکل ان کو تو ہم حاصل کریں اور جن چیزوں سے بچنے کا حکم ہے ان سے بچنے کے طریقے سوچیں اور اس کے اوپر غور کریں اور ان سے بچنے کی کوشش کریں جیسے ریا ہے تکبر ہے اور اس دنیا کی محبت ہے وغیرہ ۔یہ جو اعمال مقصودہ کرنے کے کچھ اثرات ہوتے ہیں اور وہ اثرات کیا ہیں وہ اثرات دو قسم کے ہیں۔ایک یہ یہ کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے راضی ہوجاتے ہیں اللہ پاک کے ہاں اس کا ایک مقام ہوجاتاہے اللہ پاک کے ہاں اس کو ایک جاہ حاصل ہوجاتی ہے ۔اس کو کہتے ہیں نسبت یعنی اس کو نسبت حاصل ہوجاتی ہے اسکو بعض لوگ وصول بھی کہتے ہیں چونکہ آج کل ایک عجیب وباء چلی ہے ۔ڈائجسٹوں کے اند ر اور رسالوں کے اندر اس قسم کی چیزیں بہت آتی ہیں اور ہمارے جو نوجوان طبقہ ہے چاہے وہ مرد ہیں چاہے وہ عورتیں ہیں ان ڈائجسٹوں میں تصوف کے بارے میں بالکل الٹی سیدھی باتیں آتی ہیں لیکن ان کے لیے جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور یہی الفاظ ہوتے ہیں۔ الفاظ صحیح ہوتے ہیں لیکن ان کے معنی غلط بیان کرتے ہیں ۔لہذا ان اصطلاحات کو بتانا بھی بہت ضروری ہے حالانکہ ہم تصوف کوسادہ الفاظ کے اندر ہم بتانا چاہیں تو بہت آسان ہیں اس کے لیے ان الفاظ کی ضرورت ہی نہیں ہے لیکن ا ن الفاظ کو سمجھانا اس لیے ضروری ہے تاکہ ان الفاظ کے ذریعے ان اصطلاحات کے ذریعے لوگ ہمیں دھوکہ نہ دیں سکیں تو وصول بھی اسی کو کہتے ہیں تو وصول کیا ہے اللہ پاک کے ساتھ ایسا تعلق کہ ہر معاملہ میں انسان اللہ تعالیٰ کی طرف بھاگے ۔اللہ تعالیٰ سے طلب کرے ایاک نعبد و ایاک نستعین ۔کی کیفیت انسان کو حاصل ہوجائے تو ہم اس کو ہم کہتے ہیں وصول تو جب وصول حاصل ہوجاتاہے اللہ پاک کا قرب انسان کو حاصل ہوجاتاہے اللہ پاک کے ہاں اس کو ایک مقام حاصل ہوجاتاہے تو یہ ایک ثمرہ ہے اور دوسرا ثمرہ انسان کی طرف سے ہے اور وہ کامل بندگی ہے انسان اپنے آپ کو مکمل بندہ سمجھنے لگتا ہے ۔غلام کے تو کچھ حقوق ہیں لیکن بندہ کے کوئی حقوق نہیں ہیں بندہ صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوتاہے جس طرح بھی للہ تعالیٰ اس کو رکھنا چاہئے اسی سے وہ راضی رہتا ہے ۔ہاں جس طرح سے اسکو حکم ہے کام کرنے ۔ اسی طرح سے وہ حکم کو پورا کرے گا لیکن جو بھی ادھر سے نتیجہ حاصل ہوگا اس پر دل سے مطمئن ہوگا اس کو اطمیارن قلبی نتہائی درجہ کی حاصل ہوگی وہ اللہ تعالیٰ پر کامل طور پر بھروسہ کررہا ہوگا وہ سمجھ رہا ہوگا کہ میرے لیے اسی میں خیر ہے یہ جو بندگی کی کیفیت ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمادے آمین ۔
یہ تصوف کی معراج ہے اشہدان لاالہ الااللہ واشدان محمد عبدہ ورسولہ اس میں جو عبدہ کا جو لفظ ہے وہ رسول ﷺ سے بھی پہلے آیا ہوا ہے یعنی یہ جو بندگی ہے یہ بہت ہی اعلیٰ مقام ہے جو کہ انسان کو حاصل ہوسکتاہے ہم کو یہ کیفیت حاصل کرنا ہے تاکہ ہم سب اللہ تعالیٰ کے بندے ہوجائیں ۔اس کے لیے ان مقاصد کو پورا کرنا پڑتاہے جن کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے۔
اب ہم ان چیزوں کو حاصل کرنے کے طریقے کیاہو سکتے ہیں ؟ ان کو کہتے ہیں ہم ذرائع۔تو کچھ تو ہوتے ہیں مقاصد جن کو میں نے ذکر کر لیا۔یہ مقاصد تبدیل نہیں ہوسکتے۔ مقاصد دین کے متعلق وہ امور ہوتے ہیں جن کا تعلق وحی سے ہوتاہے اور وحی کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے لہذا مقاصد میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ
اس میں بتایا گیا ہے کہ آج کے دن دین کی تکمیل ہوگئی ۔لہذا یہ بات پکی ہوچکی کہ اس دین میں اب کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی اور مقاصد بالکل وہی کے وہی رہیں گے اور ذرائع جو ہیں ان میں تبدیلی مسلسل ہوسکتی ہے ۔اگر ان میں کوئی تبدیلی سے انکاری ہے تو وہ گویا ان کو مقاصد سمجھتا ہے اور یہ غلطی ہے مثلاً علم کا حاصل کرنا یہ مقصد ہے تو علم کو حاصل کرنے کا طریقہ جو حضورﷺ کے وقت جو تھا وہ صرف صحبت تھا۔ صحبت ہی کے ذریعے علم حاصل ہورہا تھا اس وقت نہ کوئی یونیورسٹی تھی اور نہ کوئی مدرسہ تھا اور نہ کوئی درس نظامی تھا اور نہ کوئی اور ذریعہ تھا بس صرف حضور ﷺِ کی صحبت تھی۔ وہی سب کچھ تھا اور اسی سے صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کو یہ سب مقامات حاصل ہوئے ہیں۔ لہذا اس وقت وہی ذریعہ تھا لیکن جب حضور ﷺِ اس دنیا سے تشریف لے گئے اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم بھی اس دنیا سے چلے گئے تو اس کے بعد وہ بات نہیں رہی یعنی وہ صحبت والی جو بات ہے وہ نہیں رہی ۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا
ا خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم
سب سے بہتر میرا زمانہ اور پھر اس کے بعد اور پھر اس کے بعد توجب یہ تین دور گزر گئے اور جماعت نے جماعت کو فائدہ پہنچانا چھوڑدیا تو افراد افراد سے علم لینے لگے تو پھر اس کے بعد یہ سلسلہ ہوگیا جس کے لیے باقاعدہ نظام بنائے جانے لگے اس کے لیے مدارس بنائے گئے اس کے لئے نصاب بنائے گئے تو اگرچہ یہ چیزیں بعد میں طے ہوئی ہیں لیکن ہم ان کو غلط نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس دور کے لیے ذریعہ علم حاصل کرنے کا یہی بہتر تھا اب اگر آج ہم دیکھیں گے تو پہلے لوگ کتابیں نہیں لکھتے تھے صحابہ کے دور میں کچھ لوگ احادیث شریف لکھتے تھے اور کچھ لوگ نہیں لکھتے تھے اسی طرح تابعین میں کچھ بحثیں ہو چکی ہیں کچھ لوگ لکھتے تھے اور کچھ نہیں لکھتے تھے لیکن بعد میں یہ سب کتاب کے محتاج ہوگئے ہیں ۔سب کتابوں کو لکھنے لگے سب لوگ کتابوں کو پڑھنے لگے ۔اس کے بعد جو دور آیا اس میں کتاب سے بھی آگے بات چلی گئی اس میں ٹیپ ریکارڈر بھی استعمال ہونے لگا اسمیں کمپیوٹر بھی استعمال ہوتا ہے۔انٹر نیٹ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اب یہ سب ذرائع ہیں اگر ہم یہ ذرائع استعمال نہیں کریں گے تو دوسرے لوگ ان چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے لیے بہت مشکلات کھڑی کریں گے ۔تو ذرائع ہر وقت اپنے ہوتے ہیں ذرائع تبدیل ہوتے رہتے ہیں مقاصد میں تبدیلی نہیں ہوتی اسی طرح جو تصوف کے ذرائع تھے یعنی اس چیز کو حاصل کرنا وہ حضورﷺ کے دور میں محض صحبت تھی ۔اورصحبت کے ذریعے ہی تمام چیزیں حاصل ہوجاتیں تھی ۔لیکن جب آپ ﷺِ اس دنیا سے تشریف لے گئے اور صحابہ کرام اور خیرالقران کا دور گزر گیا تواس کے بعدجو صحبت کا سلسلہ ہے وہ باقی تو ہے لیکن اس میں اور ذرائع بھی شامل ہوگئے کیونکہ وہ کیفیت جو بننی تھی اس میں کمزوری آگئی تھی لہذ ا اس میں ذکر کے طریقے بھی آگئے مجاہدات کے طریقے بھی آگئے ۔ شغل کے طریقے بھی آگئے صرف اس کمزوری کو رفع کرنے کے لیے۔ جیسے انسان کی نظر جب کمزور ہوجاتی ہے تو وہ عینک استعمال کر تا ہے اور اس کے لیے مجبور ہوجاتاہے اگر ایک آدمی کہے کہ پہلے تو میں نے کوئی عینک نہیں لگائی تھی اب میں عینک کیوں لگاوں۔ لوگ اس کو کہیں گے تم بے شک عینک نہ لگاؤ لیکن اس کی وجہ سے تم اندھے ہوجا ؤ گے۔ اسی طرح اگر آج ہم یہ ذرائع استعمال نہ کریں وہ کیفیت حاصل نہ کریں تو ہم روحانی طور پر اندھے ہوجائیں گے۔ ہم لوگ ان تک رسائی حاصل نہیں کرسکیں گے جن چیزوں تک رسائی حاصل کرنی ضروری ہے تو ذرائع تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ذرائع میں دو بڑے طریقے ہیں ایک کو کہتے ہیں مجاہدات اور ایک کو کہتے ہیں فاعلات ۔جو مجاہدات ہیں اس میں نفس کے اوپر کچھ بوجھ ڈالتے ہیں جس طرح کسی جانور کو ٹرینڈ کیا جاتاہے اس کی تربیت کی جاتی ہے اس سے کچھ ایسے کام کروائے جاتے ہیں جن کا بظاہر کوئی مقصد نہیں ہوتا لیکن اس سے وہ بڑا مقصد یعنی جانور کی تربیت ہوجاتی ہے وہ ان پابندیوں کا خوگر ہوجاتاہے تو پھر جس کے لیے وہ ضروری پابندی اس پر ڈالی جاتی ہے اس پابندی کے لیے وہ جانور تیار ہوجاتا ہے اسی طرح ہم نفس کے اوپر بوجھ ڈالنا چاہتے ہیں اور اس کے اوپر ہم شریعت کے احکامات لاگو کرنا چاہتے ہیں تو یہ نفس اس کے لیے تیار نہیں ہوتا ۔اس سے وہ بھاگتا رہتا ہے وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوتا مثلاً ایک ڈاکٹر ہوتاہے اور ڈاکٹر خود جانتا ہے کہ سگریٹ بہت بری بات ہے دوسرے لوگوں کو بتاتا رہتاہے لیکن وہ خود سگریٹ پیتا رہتا ہے اس کی وجہ کیا ہے کہ اس کے نفس کی تربیت نہیں ہوتی ہے اس کو خو ب پتا ہے کہ سگریٹ پینا اچھی بات نہیں ہے لیکن وہ سگریٹ سے اپنے آپ کو بچا نہیں سکتا اس طرح یورپ کے لوگ آج کل جن گندے امور میں مبتلا ہے ان کو خوب سمجھتے ہیں اس پر وہ بڑے بڑے مقالے لکھتے ہیں ۔ ان کے اوپر تحقیقا ت ہورہی ہیں کہ وہ کہاں جارہے ہیں ان پر اس کی وجہ سے کیا کیا مصیبتیں آرہی ہیں لیکن وہ مجبور ہیں اس لیے کہ نفس کی تربیت نہیں ہوتی ہے وہ اپنے نفس کے ہاتھوں مجبور ہیں لہٰذا ہیں وہ ان چیزوں میں مزید بڑھ رہے ہیں۔ اس کی کوئی انتہا نہیں ہے لہذا اپنے نفس کو قابو کرنے کے لیے اس کے اوپر کچھ مجاہدات کا بوجھ ڈالا جاتاہے اس کے اوپر کچھ پابندیاں لگائی جاتی ہیں ان پابندیوں کو مجاہدات کہتے ہیں ۔ان پابندیوں میں چن چار پابندیاں بہت مشہور ہیں جیسے (1) کم کھاتا (2) کم سوتا (3) اور کم بولنا (4)اور کم غلط قسم کے لوگوں کے ساتھ ملتا جلتاہے۔
تو اس طریقے سے جب ہم نفس پر پابندیاں لگاتے ہیں تو یہ ان پابندیوں سے اس قابل ہوجاتا ہے تو پھر جو اصل پابندیاں یعنی شریعت کہ جو پابندیاں ہیں لگائی جاتی ہیں۔ ان کی مخالفت نہیں کرتا اور ان پابندیوں کو ماننے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ تو یہ مجاہدات خود سے نہیں کر نے ہوتے جس طرح میں نے عرض کیا ہے کہ یہ ذرائع ہیں اور یہ چونکہ بہت بڑا میدان ہے۔ ہر آدمی اپنے نفس کو نہیں جانتا یعنی اپنے نفس کے اوپر کس طرح سے پابندیاں لگا سکتاہوں وہ نفس کو دھوکا دے دے گا یا خود دھوکا کھالے گا لہذا اس کے لیے کسی رہنما کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس رہنما کے ساتھ تعلق رکھنا ہوتاہے۔ ایسے رہنما کو شیخ کہتے ہیں وہ شیخ ان چیزوں کا چونکہ تربیت یافتہ ہوتاہے۔ اس پر ان چیزوں کے بارے میں اعتماد کیا جاچکا ہے ان طریقوں سے وہ واقف ہوتاہے لہذا انتہائی آسان راستہ جو طالب ہوتے ہیں یا طالبہ ہوتی ہے وہ ان کے لیے انتہائی آسان راستہ منتخب کر لیتا ہے اس کے بعد ان کا اس راستے کے اوپر چلنا آسان ہوجاتا ہے یوں سمجھ لیں کہ جس طرح ایک انسان اپنی کمزوری کو نہیں جانتا اور اس کے لیے اپنا ظاہری علاج ناممکن ہوتاہے تو ایک ڈاکٹر بھی اپنے علاج کے لیے دوسرے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تویہا ں پر بھی اپنی کمزوریوں کو دور کرنا آسان نہیں ہوتا لہذا وہ دوسرے کے پاس جانے کے لیے مجبور ہوتے ہیں تو اس کے لیے بھی اپنے کسی رہنما کو اپنانا ہوتاہے اور اسی کو شیخ کہتے ہیں تو شیخ کے ساتھ ایک معاہدہ ہوتاہے۔ جس کوبیعت کہتے ہیں تو بیعت کا بنیادی مقصد اپنی تربیت کا معاہدہ ہے کہ مرید یہ وعدہ کرتاہے کہ میں اپنے حالات کی اطلاع کروں گا اور جو بتایا جائے گا اس پر عمل کروں گا اور شیخ یہ وعدہ کرتا ہے کہ جس چیز کی ضرورت ہوگی وہ میں بتادیا کروں گا اور جو علاج بتایا جائے گا اس کی نگرانی کروں گا تو اس میں یہ معاہدہ ہوتاہے اور س میں اصل بنیادی چیز تربیت ہوتی ہے اور بنیادی چیز بیعت نہیں ہوتی بیعت تو صرف ایک ذریعہ ہے یہ سنت مستحبہ ہے اور ناجائز بھی نہیں ہے یعنی سنت مستحبہ ہے اسپر اجر بھی ملتاہے لیکن فرض اوروا جب بھی نہیں ہے ۔بعض لوگ تو اس کو فرض وواجب سمجھتے ہیں یہ ان کی غلطی ہے اور بعض لوگوں نے اس کو فضول سمجھا ہوا ہے یہ ان کی غلطی ہے اصل بات یہ ہے کہ یہ سنت مستحبہ ہے حضور نے خواتین سے بیعت لی تھی اور ان کو بعض امور بتائے تھے کہ ان امور میں مبتلا نہیں ہونامثلاً نوحہ نہیں کرنا ہے اور اس طریقے سے دوسرے لوگوں کو غلط کاموں سے بچنے کے لیے آپ نے ارشاد فرمایا تھا اسی طرح مردوں کی بھی بے بیعت سنت سے ثابت ہے تو یہ سنت مستحب ہے اس لئے اگر کسی نے بیعت نہیں کی ہے تو وہ گناہ گا ر نہیں ہے اور اگر کسی نے بیعت کی ہے تو وہ بھی گناہ گار نہیں ہے بلکہ اس کو اچھا فائدہ ملے گا اور اس کو اجر ملے گا اور یہ بہت ہی اچھا طریقہ ہےلیکن اس بنیادی چیز کیا ہے وہ بنیادی چیز اپنی تربیت اور اپنی اصلاح ہے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بیعت کی جاتی ہے بعض لوگ بیعت کر لیتے ہیں اور بالکل فارغ ہوجاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ اب ہم سلسلہ میں داخل ہوگئے ہیں اب ہمیں سلسلہ کی تمام برکات حاصل ہوگئی ہیں اب ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے تو یقیناً برکات تو حاصل ہوجاتی ہیں لیکن محض برکات سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ برکات کسی عمل سے حاصل ہوتی ہیں ۔
مثلاًمیری آواز ہے یہ لاوڈ سپیکر سےآتی ہے اب لاوڈ سپیکر اس آواز کو بڑھا دیتا ہے لیکن میں بولوں نہیں تو سپیکر سے میری آواز بڑھے گی ہی نہیں تو اسی طرح جو سلسلہ کی برکات ہیں اس سے ہمارے اعمال کا وزن تو بڑھ ہی جاتاہے اگر میں اعمال ہی نہ کروں تو وزن کیسے بڑھے گا ۔
لہذا بیعت کر نے میں جو بنیادی چیز ہے وہ خودعمل کرنا ہے مرشد صرف طریقہ بتاتاہے لیکن سلسلے کی برکت سے اس کا وزن بڑھ جاتاہے فائدہ بڑھ جاتا ہے لہذا بیعت کرنے سے فائدہ ضرور ہوتا ہے لیکن محض بیعت کچھ بھی نہیں ہے ۔
لہذا اعمال بھی کرنے پڑتے ہیں اور اعمال کو نبھانا بھی پڑتا ہے۔شیخ کے ساتھ تعلق بھی رکھنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے اطلاع بھی ہوتی ہے اطلاع کا مقصد یہ ہے کہ ایک انسان اپنے حالات کی اطلاع اپنے مرشد کو دیتاہے اور مرشد اس کے اندر جو چیز دیکھتاہے اس کی بنیاد پر اس کا علاج تجویز کرتاہے گویا کہ ا س کے لیے نسخہ لکھ دیتاہے اس نسخہ پر پھر مرید عمل کرتاہے اور مرید جب عمل کرتا ہے تو ادھر سے جو حالات پیدا ہوتے ہیں پھر اس کی اطلاع دیتاہے اس طریقے سے مرشد پھر اس میں تبدیلی کرتاہے اور پھر مرید کے لئے نسخہ لکھتاہے اسی طرح سے جو لکھنا لکھنا ہے ماشاء اللہ بڑھتے بڑھتے جب عمل مسلسل ہورہا ہو تو الحمداللہ اس کے نتائج پیدا ہوجاتے ہیں پھر کیفیت مقصودہ پیدا ہوجاتے ہیں۔کیفیت مقصودہ کا پیدا ہونا ضروری ہے اس کا ذکر حدیث احسان میں بھی ہے کہ عمل اس طریقہ سے کرو عبادت اس طریقہ سے کرو جیسے تم اللہ کو دیکھ رہے ہو ورنہ اللہ تعالیٰ تمیں تو دیکھ ہی رہا ہے لہذا اس کیفیت مقصودہ پیدا کرنے کے لیے ان تمام چیزوں کو کرنا پڑتاہے اور شدہ شدہ اصلاح ہوجاتی ہے اور لوگوں کا کا م بن جاتاہے تو لہذا عمل کرنا ضروری ہے اطلاع دینی پڑتی ہے اس کے اوپر جو نسخہ لکھا جاتاہے اس کو نبھانا پڑتا ہے اس کی اتباع کرنا پڑتی ہے اس طریقے سے اطلاع ہوتی ہے اور پھر اتباع ہوتی ہے اس طریقے سے اپنے مرشد سے یہ اعتقاد رکھتاہے یہ مرشد میرے لیے پوری دنیا میں میرے لیے سب سے زیادہ مفید ہے۔ سب سے افلا نہیں کہہ سکتے کیونکہ افضل ہونے کے بارے میں کوئی کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ یہ بات تو صرف اللہ کو پتا ہے کہ کون افضل ہے اور کو ن افضل نہیں ہے لیکن جس مرشد کے ہاتھ اس کا تعلق ہے وہ واقعتا سب لوگوں سے زیادہ اس کے لیے مفید وہی ہے اور اسی کے ساتھ تعلق رکھنے کو انقیاد کہتے ہیں تو گویا کہ چار چیزیں ہوگئیں ۔
(1) اطلاع (2) اتبع (3) اعتقاد (4) انقیاد۔
تو ایک شاعر نے بہت اچھے انداز میں اس کو باندھا ہے ۔
چار حق مرشد کے ہیں رکھ ان کو یاد
اطلاع و ا تباع و اعتقا د و انقیاد
ان تمام چیزوں کو سیکھنا پڑتاہے پھر اس کے بعد اس کے ذرائع آتے ہیں ان میں سب سے پہلے ذکر آتاہے تو وہ ذکر بتادیتے ہیں اور ذکر کرنے کا طریقہ بتادیتے ہیں۔ ذکر کیا چیز ہے اس سے دل نرم ہوجاتاہے دل کے اندر رقت آجاتی ہے اور دل کے اندر صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے نیک اعمال کو حاصل کرنے کے لیے تو ذکر کی جو کثرت ہے وہ بار بار قرآن پاک میں کہا گیا ہے اس وجہ یہی کہ ذکر سے دل کے اندر صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے اور رقت پیدا ہوجاتی ہے قلب کے اندر اصلاح کا مادہ پیدا ہوجاتاہے پھر جب صحبت صالحین اس کو حاصل ہوجاتی ہے تو پھر صحت صالحین سے وہ چیزیں خود بخود اس کے اندر آجاتی ہیں کیونکہ ذکر نے زمین کو ہموار کر لیا ہے تو ذکر سے یہ کیفیت پیدا کرتے ہیں کیونکہ شیخ طریقہ جانتا ہے لہٰذا ذکر کے طریقے کے بارے میں شیخ اس کو وقتا فوقتا بتاتاہے اس سے جب انسان ترقی کرتاہے اس کے بعد مراقبات کی باری بھی آتی ہے جس کے بارے میں پھر کبھی انشاء اللہ تعالیٰ عرض کروں گا اور اگر مراقبہ میں بھی کسی کے ناکامی ہو کوئی مسئلہ تو اس کو دور کرنے کے لیے شغل ہوتاہے اس کے بارے میں بھی کبھی عرض کروں گا لہذا بات یہ ہے کہ ذرائع اختیار کرنے پڑتے ہیں اور خود نہیں بلکہ کسی شیخ کی نگرانی میں ذرائع اختیار کرنے پڑتے ہیں پھر اس سے کچھ کیفیت طاری ہوجاتی ہے کچھ احوال پیدا ہوجاتے ہیں تو کچھ احوال میں ضرر ہوسکتا ہے اور کچھ احوال میں ضرر نہیں ہوتا تو جن احوال میں ضرر نہیں ہوتا مثال کے طور پر فراست بہت سی اچھی اچھی چیزوں کا خودبخود پتا چلنے لگتاہے اور اچھی اچھی چیزیں سمجھ میں آنے لگتی ہیں۔ تو یہ جو مقام رضا ہے مقام بقا ہے یہ تمام چیزیں کیا ہیں ان کے اندر ضرر نہیں ہے لیکن کچھ چیزوں کے ساتھ ضرر بھی ہے مثال کے طور پر بعض لوگوں کو وحدۃ الوجود کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جو اس کے ساتھ کچھ ضرر بھی ہے اس ضرر سے بچنے کا طریقہ بھی شیخ کو آتاہے لہذا وہ شیخ ان سے انکو بچانے کی کوشش کرتاہے لیکن جیسے انسان راولپنڈی سے لاہور جاتاہے تو راستے کے مختلف سٹیشن شہروں کے آتے ہیں تو جس طرح انسان ان سٹیشنوں سے گزرتاہے بے شک انسان چاہتے ہوں یا نہ چاہتے ہوں آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں اسی طرح یہ چیزیں بھی انسان چاہتے نہ چاہتے آجاتی ہیں لیکن یہ چیزیں مقصود نہیں ہے بے شک آپ کو نظر آئے یا نہ آئے کیونکہ منزل مقصود پر پہنچنا ضروری ہے جس طرح لاہور سے راولپنڈی جاتے ہوئے راول پنڈی پہنچنا ضروری ہے اگر راستے میں کسی نے منڈی بہاوالدین کسی نے دیکھا ہے ٹھیک ہے اگر نہیں دیکھا ہے تو کوئی نقصان نہیں ہے اگر راستے میں گجرات دیکھ لیا تو ٹھیک ہے اگر نہیں دیکھا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے اصل مقصد راول پنڈی پہنچنا ہے اسی طرح جو احوال درمیان میں طاری ہوتے ہیں اس کے بارے میں تسحتو رہنمائی فرماتے رہتے ہیں کہ اس سے بچنا ہے اور اس چیز کی طرف غور نہیں کرنا ۔
میں نے بھی اپنے شیخ سے کچھ اس قسم کی باتیں ایک دفعہ عرض کی تھی جو حضرات نے فرمایا کہ بھا ئی ان سے بچو کہ یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں تو اس طرح کے راستے کے کھیل تماشے راستے میں آتے رہتے ہیں بعض لوگوں کو کشف ہونے لگتاہے حالانکہ کشف جو پہلے وہ مقصود نہیں ہے یہ بھی راستے کے کھیل تماشے ہیں تو اس میں بھی حضرات پھنس جاتے ہیں تو مقصود یہ ہے کہ بعض لوگوں کو اچھے اچھے خواب آتے ہیں وہ بھی مقصود کیفیت نہیں ہے تو بعض لوگ اس میں پھنس جاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم کو کشف ہوگیا بس ہم بزرگ ہوگئے تو اس کا مطلب ہواکہ وہ بالکل تھک گئے اب ان کی ترقی کا راستہ بالکل بند ہوگیااگر شیخ کا مل کے ساتھ ان کا رابطہ ہوگا تو وہ ان کوبتادے گا کہ بھائی کیفیت کوئی لازمی چیز نہیں ہے نہ کوئی مقصود ہے آپ اس سے بچو۔ ان چیزوں میں نہ پڑو وہ راستہ کرے گا وہ آگے بڑھے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان سب چیزوں سے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے ساتھ جو ثمرات ہیں ان کو حاصل کرنے کا طریقہ بتادیں یہ باتںک انتہائی جلدی میں مختصرا عرض کی ہیں اگر کسی کو اس سے کوئی مسئلہ ہو تو اس کے بارے میں میں تفصیل سے بعد میں عرض کروں گا لیکن یہ جو کیسٹ میں نے آج تیار کروائی ہے اس کا مقصد یہی ہے انشاء اللہ اگر کسی کو اس میں اگر کسی کو مسئلہ ہو تو اس کیسٹ کو بار بار سنا جائے اس میں وہ باتیں ہیں ان پر غور کیا جائے اس کے بارے میں اگر پوچھنا چاہے تو وہ شریعت کے طریقے کے مطابق بھی پوچھ سکتا ہے ۔
مختصرا ًمیں یہ عرض کروں کہ ان مقاصد کو حاصل کرنے سے جو ثمرات حاصل ہوتے ہیں ان ثمرات کے حاصل ہو نے تک ان چیزوں کو آگے بڑھانا اور اس پر عمل پیدا ہونا اعتقاد تعلق رکھانا اور انقیاد کا تعلق رکھنا یہ لازمی ہے ۔یہ آگے بڑھتا رہتاہے اور اس کے برکت سے اللہ تعالیٰ دل کو نورانی بنادیتے ہیں ۔اورجب دل نورانی بن جاتاہے تو اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان جو تعلق ہوتاہے اس کے بارے میں جو حالات ہیں اورجو حقیقت ہے وہ انسان کے اوپر شکار ہونے لگتی ہے اس کو کہتے ہیں حقیقت تو جو پہلے جس چیزکے بارے میں نے یہ بات کی اس کو کہتے ہیں تصوف یا طریقت اور اس طریقت کا نتیجہ ہوتاہے حقیقت اور جب حقیقت انسان کو حاصل ہونے لگتی ہے تو اس کے بعد اللہ جل شانہ جو معرفت ہے بھی اللہ تعالیٰ کی منشاء بندے کے بارے میں کیا ہے ۔اس کی پہچان ہوجاتی ہے اس کو کہتے ہیں معرفت تو ایسا شخص جس کو ایسی کیفیت حاصل ہوجاتی ہے تو اس کو کہتے ہیں عارف باللہ تو اللہ پاک ہم سب کو اپنی معرفت نصیب فرمائے آمین اور تمام جو ضروری حقیقتیں ہیں ان کو حاصل کرنے کا طریقہ ہمیں عطا فرمائے اور اپنے بزرگوں کے نقشے قدم پر صحیح طریقے سے چلائے اور جو ان کے مقاصد ہیں ان کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ا س کا جو لازمی ثمرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے وہ ثمرہ ہمیں نصیب فرمائے ۔
و آخر دعوانا ان الحمدللہ رب العلمین ۔