Bayanat (Lectures) - بیانات

گزشتہ ریکارڈ شدہ بیانات

حضرت شیخ سید شبیر احمد صاحب کاکا خیل دامت برکاتہم

تعمیر شخصیت

(ایبٹ آباد میں ایک روحانی اجتماع میں کیا گیا۔)

اَلحَمدُ ِﷲِ وَ کَفٰی وَسَلاَ م عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِینَ اصطَفٰی اَمَّا بَعدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمِ بِسمِ اﷲِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
إِنَّ فی خَلْقِ السَّموٰتِ وَ الأَرْضِ وَ اخْتِلافِ اللَّیْلِ وَ النَّهارِ لآَیات لاِ ُولِی الأَلْبابِ۔
الَّذینَ یَذْکُرُونَ اللّهَ قِیاماً وَ قُعُوداً وَ عَلى جُنُوبِهِمْ وَ یَتَفَکَّرُونَ فی خَلْقِ السَّموٰتِ وَ الأَرْضِ رَبَّنا ما خَلَقْتَ هذا باطِلاً سُبْحانَکَ فَقِنا عَذابَ النّارِ ۔
و قال اللہُ تَعَالَی اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہُ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَیٰ السَّمْعَ وَ ھُوَ شَھِیْدٌ “۔و قال اللہُ تَعَالَی قَد اَفلَحَ مَن زَکّٰھَا وَ قَد خَابَ مَن دَسّٰھَا۔

صحبت صالحین کی اہمیت

حضرت جناب ڈاکٹر صاحب اور میرے بزرگو اور دوستو ‘ آج کل کے دور میں ایسے محافل کم ملا کرتے ہیں ۔ دنیا مادیت اور بے حیائی کی چکی میں پس رہی ہے ۔ اور ہم اپنی منزل سے روز بروز دور ہوتے جارہے ہیں ۔ مشکلات بہت ہیں ۔ لیکن ہمت ہارنے کا حکم نہیں ہے ۔ انسان کو ہمت نہیں ہارنی چاہیے ۔ مشکل سے مشکل وقت میں بھی اللہ پاک کی مدد پہنچتی ہے اگر کوئی شخص اس مدد کو حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔ اللہ جل شانہ نے سورۃ فاتحہ کے اندر اشارہ دیا ہے کہ ہمیں ان لوگوں کے ساتھ ہونا چاہیے جن پر اللہ پاک نے انعام فرمایا ہے ۔ ان کے راستے پر چلنے والوں پر ۔ وہ ظاہر ہے انبیاء کرام ہیں ،وہ دنیا میں اب تشریف نہیں لائیں گے ۔ صدیقین بہت تھوڑے ہوتے ہیں ۔ شہدا ء کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب وہ فوت ہوچکے ہوتے ہیں ۔ توصالحین کی بات ہوتی ہے کہ صحبت صالحین حاصل کرنا چاہیے اور حضرت تھانویؒ ارشاد فرماتے ہیں میں فتویٰ دیتا ہوں کہ آج کل صحبت صالحین فرض عین ہے ۔ کیونکہ اس کے بغیر ایمان بھی قائم نہیں رہتا اعمال تو بعد کی بات ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے ایمان کو قائم رکھنے کا حکم دیاہے ،فرماتے ہیں

وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ

یعنی نہ مرو مگر اس حالت میں کہ تم مسلمان ہو۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ہر وقت اپنی ایمانوں کی حفاظت کرنا چاہیئے جس کا سب سے بڑا ذریعہ صحبت صالحین ہے۔ اس لحاظ سے جہاں جہاں صحبت صالحین کے مواقع میسر ہوں ، ان کو خود بھی حاصل کرنا چاہیے اور اپنے دوستوں ، ساتھیوں اور جاننے والوں کو بھی اس طرف راغب کرنا چاہیے ۔ آج کل بہت کمی ہے ۔ اور جہاں ہے وہاں سے پورا فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ڈاکٹر فدا محمد صاحب دامت برکاتہم نے پشاور یونیورسٹی میں حضرت مولانا اشرف صاحب ؒ کی خانقاہیت کو قائم رکھا ہے الحمد اللہ۔ ہمارے لئے بھی یہی بات تھی ۔ جب ہم یونیورسٹی میں آگئے تو اللہ پاک نے یہ نعمت عطا فرمائی ۔ حضرت مولانا صاحب ؒ کے ساتھ تعلق ہوگیا ، ملنے جلنے کا تعلق ، بیعت کا تعلق تو بہت بعد میں ہوا ہے ۔ لیکن اس ملنے جلنے نے بھی ہمیں بہت ساری خرابیوں سے بچا لیا الحمد اللہ ۔ یونیورسٹی میں بہت ساری مصیبتیں ہوتی ہیں جن کا پتہ ہمیں رسالوں سے چلتا تھا ۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہمیں اللہ پاک نے ان چیزوں سے حضرت کی برکت سے بچا لیا ۔ پتہ بھی نہیں چلا کہ ایسی بھی چیزیں ہوتی ہیں ۔ عصر کے وقت حضرت کی خدمت میں حاضرہوجاتے ۔ حضرت کی محفل میں اکثر خوش مزاجی کی باتیں ہوتی تھیں ۔ علمی باتیں بھی ہوتی تھیں لیکن وہ خوش مزاجی کے رنگ میں ہوتی تھیں ۔ بچوں کے ساتھ بہت شفقت فرماتے تھے ۔ ان کو اپنے قریب کرتے تھے ۔ لطیفے سنتے تھے اور سناتے تھے اور اسی میں الحمد اللہ لوگ آگے بڑھتے جاتے تھے ۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے ۔ ایسے نعمتوں کو ضائع نہیں کرنا چاہیے ۔ الحمد اللہ حضرت نے جو باغ لگایا ہے وہ باغ قائم ہے اور میں حضرت کے خلفاء سے اکثر عرض کرتا رہتا ہو ں کہ حضرت کے فیض کو جتنا عام کرسکتے ہو کرو یہ امانت ہے ۔ بہت کم ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے ایسی شفقت اور محبت کے ساتھ للہہیت کا درس دیا ہے ۔ آپ ﷺِ کی محبت کا درس دیا ہے ۔

نعت سے اثر لینا

ابھی جو آپ نے نعت سنی صحیح بات عرض کرتا ہوں یہ بھی جذبات کا بہت کم اظہار ہے ۔ آپ ﷺِ ِ کا جو مقام ہے اس کے بارے میں ہم تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ لیکن ایک بات عرض کرتا ہوں ، بہت سارے لوگ نعتیں سنتے ہیں ، سننا بھی چاہیےہ لیکن کچھ لوگ صرف اس کو آواز کے ساتھ سنتے ہیں ۔ اس کا جو مفہوم ہے وہ نہیں سمجھتے ۔ یا اس کی طرف غور نہیں کرتے ۔ ابھی آپ نے سنا کہ

ایسا کوئی محبوب نہ ہوگا نہ کہیں ہے

بیٹھا ہے چٹائی پر مگر عرش نشیں ہے

دیکھ لیں اگر یہ دل کی کانوں سے ہم سن لیں ، مجھے بتائیں کسی اور کی طرف ہمارا رخ ہوسکتا ہے ؟ ایسا محبوب اگر اللہ پاک نے ہمیں دیا ہے ۔ تو پھر ہمیں دوسری طرف اپنا رخ کرنا چاہیے ؟ ظاہر ہے اگر یہ بات دل میں اتر جائے تو یہی ہماری اصلاح کے لئے کافی ہے ۔ آپ ﷺِ ِکے بارے میں تو اللہ پاک نے بہت کھلا اعلان کیا ہے

قُلْ إِن کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللّهُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ

اے میرے حبیب اپنی امت سے کہہ دیجئے اگر تم اللہ کے ساتھ محبت کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کرلو اللہ پاک تمہیں اپنا محبوب بنا لے گا ۔اللہ پاک تم سے محبت کرنے لگے گا تو اللہ پاک جن سے محبت کرتے ہیں اس کے لئے آپ ﷺِ کا اتباع ضروری ہے اور آپ ﷺِ ِ کے اتباع کی آج کل بہت کمی پائی جاتی ہے ۔ آپ ﷺِ ِ کی محبت کی طرف بھی بہت کم توجہ دی جاتی ہے ۔ ابھی اشعار میں یہ بات بھی آگئی کہ اگر آپ کے ساتھ تعلق نہیں ہوگا تو پھر میرا سجدہ بھی حجاب ہے اور میرا قیام بھی حجاب ہے ۔ واقعتا ایسی بات ہے ۔

خشکی سے بچنا

بعض لوگ خشک ہوجاتے ہیں ۔ ان کو محبت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ ان کا اپنا نماز روزہ ان کیلئے حجاب بن جاتا ہے ۔ اس کی میں ایک مثال دیتا ہوں ، آپ ﷺِ کے بالکل قریبی زمانے میں فتنہ گزر ا ہے خوارج کا ۔ خوارج اعمال کے لحاظ سے بہت آگے تھے ۔ نماز روزے کے حوالے سے بہت آگے تھے ۔ یہاں تک کہ آپ ﷺِ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ ایسے لوگ آئیں گے جس کے سامنے تم اعمال کے لحاظ سے اپنے آپ کو ہیچ سمجھنے لگو گے ۔ لیکن وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرکمان سے نکل جاتا ہے ۔ یہ کیا بات تھی ؟ خوارج نے کہا تھا ہمارے لئے قرآن کافی ہے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان کو سمجھانے کے لئے حضرت عباس ؓکو ان کے پاس بھیجا ۔ اور حضرت ؓنے ان کو نصیحت فرمائی کہ دیکھو ان کے ساتھ قرآن پر بات نہ کرنا ۔ ان کے ساتھ حدیث پر بات کرنا ۔ اس میں بڑی حکمت ہے ۔ خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب ان کے پاس تشریف لائے تو قرآن کو ہاتھ میں لے کرفرمایا کہ یا مصحف کلم الناس کلم الناس ۔ اے قرآن لوگوں سے بات کرو ، اے قرآن لوگوں سے بات کر۔ خوارج بڑے حیران ہوگئے انہوں نے کہا کہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں قرآن کیسے کسی کے ساتھ بات کرے گا ؟ حضرت علی ؓنے فرمایا یہی تو تم کہتے ہو ، یہی تو تمہارا دعویٰ ہے۔ قرآن تمہیں براہ راست کیسے بتائے گا ؟ قرآن سمجھنے کے لئے ضرورت ہے سمجھانے والے کی ، اور کسی صاحب قلب کی ۔ ابھی میں قرآن کریم کی ایک آیت کریمہ تلاوت کرچکا ہوں ، اللہ جل شانہ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتے ہیں

اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہُ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَیٰ السَّمْعَ وَ ھُوَ شَھِیْدٌ

بے شک اس قرآن کے اندر نصیحت ہے مگر ہر اس شخص کے لئے جو دل والا ہو ،جس کا دل بنا ہو ۔ یا وہ کان لگا کر اہتمام کے ساتھ بات سننے والا ہو ۔ آپ ذرا غور فرمائیں کہ اس میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ جو دل والا ہو یا وہ غور سے اس کو پڑھنے والا ہو ۔یہ فرمایا کہ جو کان لگا کر اہتمام کے ساتھ بات سننے والا ہو ۔ تو یہاں سننے اورسمجھنے میں جو فرق ہے وہ عرض کرتا ہوں ، وہ یہ کہ انسان کا دل اگر بنا ہوا ہے تو اس کو تو دیکھنے سے فائدہ ہوگا ۔ کیونکہ اس کا دل اس کو قبول کرنے والا ہے ۔ لیکن اگر دل نہیں بنا تو پھر اس کو کسی اور صاحب دل کی ضرورت ہے جو اس کو سمجھائے اور جب وہ اس کو سمجھائے گا تو اس کے قلب کی روشنی سے اس کے قلب پر اثر ہوجائے گا ۔ اور وہ سمجھنے والا بن جائے گا ۔ گویا وہ کمی جو اس کے دل میں تھی وہ کسی اور دل نے پوری کردی ، جب تک کسی صاحب قلب کے پاس انسان نہیں جاتا اس وقت یہ چیزیں سمجھ میں نہیں آتیں ۔ قرآن پاک میں اشارہ موجود ہے تو بہر حال میں عرض کررہا تھا کہ یہ فتنہ گزرا ہے اور اس فتنے کے اندر بہت نقصان ہوا ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو باقاعدہ ان کے خلاف فوج کشی کرنی پڑی اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جس وقت ہم نے ان پرحملہ کیا ، وہ خیموں کے اندر قرآن پاک کی تلاوت کررہے تھے اور ان کی آواز ایسی آرہی تھی جیسے مکھیوں کی بھنبناہٹ ۔ اس وقت بھی ان کے ماتھوں پر سجدوں کے نشان ، ان کے کمزور جسم مجاہدے سے خشک ہوچکے تھے ۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی چیز کی کمی تھی جس کی وجہ سے ان کی ساری محنت اکارت چلی گئی ۔ یہ جو ابھی فرمایاگیانعت میں کہ اگر آپ کے ساتھ ہمارا تعلق نہ ہو تو ہماری سجود بھی حجاب ہیں اور ہمارا قیام بھی حجاب ہے ،تو محبت کو پیدا کرنا بہت ضروری ہوتا ہے ۔ ہم نے مولانا صاحب ؒ کے ہاں اس چیز کو دیکھا تھا کہ حضرت اسی چیز کو پیدا فرماتے تھے ۔ اور الحمد اللہ ، اللہ کا احسان ہے کہ جن جن کا بھی تعلق حضرت کے ساتھ رہا ہے ۔ ان کو الحمد اللہ یہ بات اللہ پاک کی طرف سے سمجھا دی گئی وہ ابھی جہاں پر بھی ہیں اللہ کا شکر ہے محفوظ ہیں ۔ ورنہ صحیح بات یہ ہے کہ آج کل بڑی جرأت کی باتیں کی جاتی ہیں اور بے باکانہ گفتگو کی جاتی ہے ۔ بڑے بڑے لوگوں پر کیچڑ اچھالی جاتی ہے ۔ اس کی پرواہ نہیں کی جاتی کہ میں کیا کررہا ہوں اور کیا بول رہا ہوں ۔ بہر حال اللہ جل شانہ ہماری حفاظت فرمائے ۔ میں نے آپ کے سامنے اس وقت چند آیت مبارکہ تلاوت کی ہیں ۔ ان تینوں آیات کریمہ کا آپس میں ربط ہے ۔ قرآن پاک کی ایک آیت دوسری آیت کی تشریح کرنے والی ہوتی ہے ۔

عقلمند کون؟

پہلی جو آیت کریمہ میں نے تلاوت کی ہے اس کے اندر اللہ پاک نے عجیب انداز سے ایک بات سمجھائی ہے اللہ جل شانہ کرے کہ ہمیں بھی سمجھ آجائے ۔ اللہ پاک فرماتے ہیں

إِنَّ فی خَلْقِ السَّموٰاتِ وَ الأَرْضِ وَ اخْتِلافِ اللَّیْلِ وَ النَّهارِ لآَیات لاِ ُولِی الأَلْبابِ۔

بے شک اس کائنات کی تخلیق میں اور دنوں کے الٹ پھیر میں عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں ۔ اب اللہ پاک خود عقلمندوں کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں
کہ وہ ہیں کون ؟

الَّذینَ یَذْکُرُونَ اللّهَ قِیاماً وَ قُعُوداً وَ عَلى جُنُوبِهِمْ

یعنی جو کھڑے ہونے کی حالت میں ، بیٹھے ہونے کی حالت میں ،لیٹے ہونے کی حالت میں ہر حالت میں اللہ کا ذکر کرنے والے ہیں ۔
آپ بتائیں کیا آج کل ایسے لوگوں کوعقلمند کہا جاتا ہے ؟ دل سے پوچھنا چاہیئے ،زبان سے تو ہم کہتے ہیں کہ ہاں ، لیکن دل سے پوچھنا چاہیے کیا ہم ایسے لوگوں کو عقلمند سمجھتے ہیں ؟
اس کے بعد

وَ یَتَفَکَّرُونَ فی خَلْقِ السَّمواتِ ولارضَ

اور کائنات کی تخلیق میں فکر کرتے ہیں ۔
اس کے بعد

رَبَّنا ما خَلَقْتَ هذا باطِلاً

اور ان کے دل سے نتیجے کے طور پر صدا برآمد ہوتی ہے ۔ اے رب ہمارے تو نے ان تمام چیزوں کو عبث پیدا نہیں کیا ۔
سُبْحانَکَ
پس تو پاک ہے

فَقِنا عَذابَ النّارِ

پس ہمیں بھی عذاب جہنم سے نجات عطا فرما ۔ اب دیکھ لیں اس میں عقلمندوں کی نشانی یہ بتائی گئی ہے

لوگ ذاکرین کو کیا سمجھتے ہیں ؟

اور ہم لوگ ایسے لوگوں کو عقلمند نہیں سمجھتے ۔عموماًسمجھتے ہیں کہ یہ تو وقت ضائع کرنے والے ہیں ۔ بے شک زبان سے نہیں کہتے لیکن کسی کا بیٹا اگر ایسے لائن پر آجائے کیا خیال ہے والدین کو فکر ہوتی ہے یا نہیں ؟ جی ہاں والدین کو فکر ہوجاتی ہے ۔ بلکہ بعض لوگ صراحتاً منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کس لائن پر چلا گیا ۔
کہتے ہیں کہ حضرت گنگوہی ؒ کے پاس ایک شخص آتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو خوش قسمت بنایا تھا کہ اتنے بڑے بزرگ کے ساتھ تعلق ہوگیا تھا ۔ اب حضرت کی مجلس میں جو کچھ اسے مل رہا وہ تو مل رہا تھا ۔ اس شخص کا والد ایک دن بہت سخت ناراض ہوکر آیا اور کہا کہ حضرت آپ نے ہمارے بیٹے کو بگاڑ دیا ۔ حضرت تو کسی کی پروا ہ نہیں کرتے تھے مستغنی بزرگوں میں سے تھے ، فرمایا ہاں بگاڑ دیا ہمارے پاس جو بھی آئے گا ہم اس کو بگاڑیں گے آخر ہمیں بھی تو کسی نے بگاڑا ہے ۔
حضرت مولانا اشرف صاحبؒ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔ ایک ساتھی کا تعلق ہوگیا حضرت کے ساتھ ، ظاہر ہے اس کو فائدہ ہورہا تھا ۔ اب ان کے والد صاحب کو جو پتہ چلا وہ آئے اورحضرت سے کہا کہ حضرت آپ ان کو یہ کہیں اور یہ کہیں ۔ حضرت تو بہت زیادہ رعایت کرنے والے تھے ، شفقت فرمانے والوں میں سے تھے تو حضرت ان کے ساتھ کچھ رعایت کرلیتے ۔ پھر ان کے والد حضرت سے کہتے ، حضرت اب آپ ان کو یہ بتادیں ۔ حضرت اس کی بھی رعایت کرنے لگے ۔ پھر آتے اور کہتے حضرت اب آپ ان کو یہ بتائیں ۔ تو آخر میں جب بالکل نہیں رہا گیا تو حضرت نے فرمایا کہ بھئی میں نے کسی کتاب میں نہیں پڑھا کہ جب کوئی لڑکاکسی شیخ سے بیعت ہوجائے تو اس کے والد سے اس کا شیخ بیعت ہوجائے ۔
اس طرح کا ایک واقعہ میرے ساتھ بھی ہوا ۔ الحمد اللہ حضرت مولانا صاحب ؒ کی برکت سے وہ بات سمجھ میں آگئی تھی ۔ ایک لڑکا تھا وہ ماشاء اللہ ہمارے پاس آیا ، ظاہر ہے بگڑے ہوئے ماحول سے آیا تھا ۔آنے کے بعد الحمد اللہ داڑھی رکھ لی ، نمازیں پڑھنی شروع کیں ، باقی اعمال کی بھی پابندی شروع کی ، اس کے والد صاحب کواس بات سے بڑی خوشی ہوئی ۔اصل میں اس لڑکے کے اپنے والد سے کچھ اختلافات تھے گھر میں ، اورعموماَ ایسا ہوتا ہے ۔ ایک دن ان کے والد صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ آپ اس کو یہ یہ چیزیں بتائیں ۔ اب مجھے مولانا صاحبؒ کا تجربہ تو پہلے سے تھا ۔ لہذا میں نے پہلی ہی ملاقات میں ان سے پوچھا کہ حضرت آپ کے بیٹے کوفائدہ ہوا یا نہیں ؟ کہنے لگا بہت ہوا ہے ۔میں نے کہا اب آپ کو امید نہیں کہ بعد میں بھی فائدہ ہوگا ۔ کہنے لگاا انشاء اللہ ہوگا ۔ میں نے کہا پھر ہم پر چھوڑ دیں ۔ اگر وہ آپ سے لینے والے تھے تو ابھی تک لے چکے ہوتے لیکن ابھی تک آپ سے نہیں لیا ۔ بلکہ مجھے تو خطرہ ہے کہ اگراس نے مجھے آپ کے ساتھ کھڑا دیکھ لیا تو شاید مجھ پر بھی بدگمانی ہوجائے گی اور یہ چیز پھر اس کو نہیں ملے گی جو ابھی اسے مل رہی ہے ۔

تربیت میں تدریج ضروری ہے

انشاء اللہ ہمارے راستے سے امید ہے کہ یہ آپ کا خادم بن جائے گا لیکن اپنے وقت پر ۔
کہتے ہیں کہ مولانا الیاسؒ کے پاس ایک شخص آئے اور ان کے ساتھ اعمال میں شریک ہونے لگے ۔ حضرتؒ کو کچھ عرصے بعد خیال آیا کہ یہ شاید بن گیاہے ۔ تو حضرت نے ان کو داڑھی کے بارے میں نصیحت کی کہ داڑھی رکھ لو ۔ ٹھیک ہے بزرگوں کی خواہش بھی ہوتی ہے اور اتباع سنت ہم سب کے لئے ضروری بھی ہے ۔ حضرت نے جب ان کو داڑھی کے بارے میں فرمایا تو اس نے آنا بندکردیا ۔
جب چند دن گزر گے تو حضرت کو بہت افسوس ہوا ۔ بہت پریشانی میں تھے ،
فرمانے لگے افوہ ٹھنڈے توے پر آٹا ڈال دیا آٹا بھی ضائع ہوگیا ۔
مطلب یہ ہے کہ جب تک اس مقام تک انسان نہیں پہنچتا جب اس کے اندر وہ تبدیلی ممکن ہو تو اس سے پہلے اگرکوئی کوشش کرے تو وہ کوشش خراب ہوتی ہے ۔
میں نے ان سے عرض کیا کہ میں اس سلسلے میں بے بس ہوں اگر آپ کو اطمینان نہیں ہے تو یہ آپ کا بیٹا ہے آپ ان کو لے جائیں ، آپ کو اختیار ہے ۔ لیکن اگر یہ میرے پاس دوبارہ آئے گا تو پھر آپ کی بات نہیں چلے گی ۔ جو اللہ پاک اس کے بارے میں دل میں ڈالیں گے اس کے مطابق عمل کریں گے آپ کی بات اس میں نہیں چلے گی ۔
بہر حال الحمد اللہ ، وہ بہت اچھا ہوگیا اور اس پر اللہ کا بہت فضل ہوا ۔ اس نے حج بھی کرلیا ، اور ابھی والد صاحب کے کام بھی آرہاہے ۔
بہر حال میں عرض کررہا تھا کہ آج کل یہ صورتحال ہے کہ جب کوئی بچہ ذکر و فکر میں لگنا شروع ہوجاتا ہے تو لوگ اس کا مذاق اڑانا شروع کردیتے ہیں اور حدیث شریف میں بھی اس کی مثال موجود ہے۔
آپ ﷺِ نے فرمایا تم ذکر کرو اور اس کثرت کیساتھ کرو کہ لوگ تمہیں پاگل کہیں ، مجنون کہیں اور دوسری میں ہے کہ لوگ تمہیں ریا کار کہیں ۔ اب دیکھ لیں بات وہی ہے کہ جو ذکر کرے گا مثلاََ اگر جہری ذکرکررہا ہوگا تولوگ اس کو پاگل کہیں گے اور آج کل بھی کہا جاتا ہے ۔ آج کل ایسے لوگوں کو پاگل کہتے ہیں ۔

ہدایت کی دو خارجی روشنیاں

تو میں عرض کررہا تھا کہ ہمارے پاس دو ہی تو روشنیاں ہیں جہاں سے ہم اپنے لئے روشنی لے سکتے ہیں ۔ ایک قرآن ہے اور دوسری سنت ہے ۔ باقی تیسری روشنی کے ہم قائل نہیں ہیں ہدایت کے لحاظ سے ، خارجی روشنی کے ۔ یہی دو روشنیاں ہیں جس کے ذریعے سے ہمیں ہدایت ملتی ہے ۔
آپ ﷺنے بھی یہی فرمایا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں ایک قران ہے اور دوسری میری سنت ۔ جب تک ان کو پکڑے رکھو گے کبھی گمراہ نہیں ہوگے ۔ ہم لوگ ظاہر ہے قرآن و سنت سے ہدایت حاصل کرتے ہیں ۔ تو قرآن ہی میں ہمیں تسلی دی گئی ہے کہ یہ ذکر فکر کرنا عقلمندوں کا کام ہے اب کسی اور کی بات پر ہم لوگ کیوں پیچھے ہوجائیں ۔
آج کل فتنے کا دور ہے۔ بہت سارے ساتھی جب ذکر و فکر میں لگ جاتے ہیں تو کچھ لوگ ان کو روکنے لگتے ہیں ، کچھ لوگ کہتے ہیں یہ آپ کیا کررہے ہیں ؟ یہ بات کہاں سے آگئی ۔ یہ تو کہیں سے بھی ثابت نہیں ہے ۔
آج کل لوگ بہت جلد مفتی یا ڈاکٹر بن جاتے ہیں ۔لہذا ہم لوگوں کو کسی کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے ، ہم لوگوں کو جو طریقہ اللہ نے بتایا ہے اللہ کے رسول نے بتایا ہے بس اس پر چلنا چاہیے اور اللہ اور اس کے رسول کے طریقے کی تشریح کرنے والے جو ہمارے اکابر ہیں ، جن پر الحمد اللہ ہمیں اعتماد ہے ۔ جہاں سے ہمیں دین ملا ہے توان پر اعتماد کرکے جو انہوں نے ہمیں سمجھایا ہم اس پر عمل کرتے ہیں ۔
اصل میں میں آپ کو ایک اور بات بھی بتاؤں جو خوارج والی بات تھی وہ یہاں پر بھی آتی ہے ۔ خوارج نے درمیان کے واسطے کو مٹانے کی کوشش کی تو ان کو مسئلہ ہوگیا ۔ یہ واسطہ بہت اہم ہوتا ہے ۔

دین متواتر ہے اور تواتر سے ثابت ہے

جب تک ہم دین کے تواتر کونہیں لیں گے اس وقت تک بات سمجھ میں نہیں آئے گی ۔
جماعت المسلمین کا آپ نے نام سنا ہوگا ۔ یہ کسی اور کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے ۔ ان میں سے ایک صاحب سے میری ملاقات ہوگئ۔ میں نے ان سے پوچھاکہ آپ کے عقیدے پر جو آپ کا عقیدہ ہے آپ ہمیں مشرک سمجھتے ہیں ہمارے اکابر کو بھی آپ مشرک سمجھتے ہیں ‘ تو مجھے بتائیں کہ جن کو آپ مشرک نہیں کہتے کیا آپ نے قرآن ان سے لیا ہے یا جن کو آپ مشرک کہتے ہیں قرآن ان سے لیا ہے ؟ اگر آپ نے قرآن مشرکوں سے لیاہے تو یہ تو آپ کے لئے قرآن ہی نہیں ہے ۔
اس کی کیا دلیل ہے کہ آپ کے پاس قرآن ہے کیونکہ مشرک سے تو روایت نہیں کی جاسکتی ۔ تو آپ پہلے اپنا قرآن ثابت کریں پھر بعد میں اپنا دین ثابت کریں ۔ میں نے کہا کہ درمیان کے واسطوں کو ختم کرو گے تو نتیجہ یہ ہوگا ۔ تو درمیان کے واسطوں کو ہم ختم نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے لئے واسطوں کے دو ذرائع ہیں ۔ ایک ظاہری شریعت وہ بھی واسطوں کے ساتھ ہے ۔
حدیث شریف کیا ہے ؟
درمیان میں سے ایک کڑی نکال دو تو کیا اس حدیث شریف پر عمل ہوسکے گا ۔ کیونکہ اس کے درمیان تسلسل ہی ثابت نہیں ہوا ‘ تو اس حدیث شریف پر عمل نہیں ہوگا ۔
متن تو موجود ہوگا لیکن آپ اس پر عمل نہیں کرسکیں گے کیونکہ حدیث شریف مسلسل نہیں ہے۔ اسی طرح جو آپ ﷺِ ِ کی صحبت کا طریقہ ہے
یہ بھی تسلسل کے ساتھ ثابت ہے ۔ یہ مسلسل چلا آرہا ہے ۔
یہ جو ہمارے سلاسل ہیں یہ اصل میں اسی تسلسل کا نام ہے ۔ یہی تسلسل چلا آرہا ہے اور اللہ کا شکر ہے
کہ ہم حضرت مولانا محمد اشرف صاحب ؒ کے طریقے پر ہیں ‘
الحمد اللہ ۔ حضرت اپنے بزرگوں کے طریقے پر ہیں ۔ انہوں نے اپنی کتابوں کا نام بھی سلیمانی رکھا ‘ سلوک سلیمانی ۔ یعنی اس حد تک فنا تھے اپنے شیخ پر کہ ہر چیز کی نسبت اپنے شیخ حضرت سید سلیمان ندوی ؒ کی طرف کررہے ہیں ۔ اور سید صاحب کی کتابیں اور اشعار پڑھیں تو وہ سب چیزیں حضرت تھانوی ؒ کی طرف کررہے ہیں ۔ سید صاحب بہت بڑے عالم تھے ۔ یہ کوئی معمولی آدمی نہیں تھے ۔ لیکن الحمد اللہ جب اس لائن پر آگئے تو انہوں نے اپنا سب کچھ ایک شخص کے ساتھ و ابسطہ کرلیا اور وہ حضرت تھانوی ؒ تھے ۔ آپ ان کے اشعار پڑھ سکتے ہیں ۔ اور حضرت تھانوی ؒ نے اپنا سب کچھ حضرت حاجی صاحب سے وابستہ کرلیا ۔
خود حضرت اپنا واقعہ بتاتے ہیں کہ ایک وکیل میرے بہت خلاف تھے ۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے اس پر حق کھول دیا تو میرے بہت زیادہ مداح ہوگئے ۔ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں بیان کررہا تھا تو وہ میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے ۔ فارسی زبان اس وقت عام تھی ۔ ایک دن جب میں بیان کررہا تھا تو وہ جوش میں آکر کہنے لگے ۔

تو مکمل از کمال کیستی

تو منور از جمال کیستی

اس طرح لےَ میں وہ بار بار یہ شعر پڑھ رہا تھا ۔ فرماتے ہیں اس وقت میں بھی جوان تھا مجھے بھی جوش آگیا ، میں نے کہا ،

من مکمل از کمال حاجی یم

من منور از جمال حاجی یم

دیکھ لیں انہوں نے اپنا سب کچھ کس پر لگا دیا ؟ حاجی صاحب ؒ پر ۔ مولانا قاسم نانوتوی ؒ قاسم العلوم والخیرات ، دیوبند کے ان اکابر میں سے تھے جنہوں نے دیوبند کی ابتداء فرمائی ۔ ان سے کسی نے کہا حضرت آپ تو بہت بڑے عالم ہیں ۔ آپ ایک ایسے صاحب کے پاس گئے جو پورے عالم بھی نہیں تھے ۔ مولانا قاسم نانوتوی ؒ عشاق میں سے تھے انہوں نے بڑا عاشقانہ جواب دیا ۔ فرمایا ، ہاں ہم عالم ہیں ، ہمیں معلوم ہے ککڑی کیا ہوتی ہے ، ہمیں معلوم ہے سنگترہ کیا ہوتا ہے ، ہمیں معلوم ہے کیلا کیا ہوتا ہے ، ہمیں معلوم ہے فلاں چیز کیا ہوتی ہے ، معلوم سب کچھ تھا لیکن کھائی کوئی چیز نہیں تھی ۔
حاجی صاحب کے پاس گئے ، حاجی صاحب کو نام معلوم نہیں تھے کھایا سب کچھ تھا ۔ ہر چیز موجود تھی ہمیں کیلے کھلا رہے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ کیلا ہے ۔ ہمیں سنگترہ دے رہے ہیں تو ہمیں پتہ چل رہا ہے کہ یہ سنگترہ ہے ۔ ککڑی دے رہے ہیں تو پتہ چل رہا ہے کہ ککڑی ہے ۔
تو حضرت کو نام معلوم نہیں تھے چیزیں ان کے پاس تھیں ۔ ہمیں صرف نام معلوم تھے چیزیں ہماری پاس نہیں تھیں،ہاں ہم عالم ہیں ہم عالم ہیں ۔ دیکھ لیں حضرت نے کیسے عاشقانہ جواب دیا۔
اب آپ کہیں گے کہ صوفیوں کی باتیں کررہے ہیں ۔تو چلو میں امام احمد بن حنبل ؒ کی بات کرتا ہوں ۔ بہت بڑے امام گزرے ہیں ۔ ان سے کسی نے پوچھا کمال ہے آپ اتنے بڑے امام ہیں اور آپ کس کے پاس جارہے ہیں بشر حافی ؒ کے پاس ۔ حضرت بشر حافی ؒ پڑھے لکھے نہیں تھے امی محض تھے ۔ حافی عربی میں کہتے ہیں ننگے پاؤں چلنے والوں کو ۔ وہ ننگے پاؤں چلا کرتے تھے ۔ اور اللہ پاک کے ہاں ان کا اتنا اکرام تھا کہ جب تک وہ زندہ تھے اس شہر کی گلیوں میں جانور گوبر نہیں کیا کرتے تھے ۔ اور جس وقت جانوروں نے گوبر کرنا شروع کردیا تو کسی نے اس کو دیکھ کر
انا للہ وانا الہ راجعون پڑھا ۔
ساتھیوں نے پوچھا کیا ہوا ،
کہا شاید بشر حافی فوت ہوگئے ہیں ۔ پتہ چلایا تو واقعی حضرت فوت ہوگئے تھے ۔ تو اتنا بڑا مقام تھا حضرت کا ۔ تو جب امام احمد بن حنبلؒ سے کسی نے پوچھا کہ جناب آپ بشر حافیؒ کے پاس جاتے ہیں وہ تو عالم بھی نہیں ہیں اور آپ امام ہیں ۔
حضرت نے جواب دیا ہاں میں عالم با لقران ہوں لیکن وہ عارف باللہ ہیں ،
میں اسی لئے ان کے پاس جاتا ہوں ۔ مطلب یہ ہوا کہ ہم لوگوں کا ہر چیز کا خیال رکھنا ہوگا
جس طرح مفتی محمد شفیع صاحب ؒ نے کیا ۔ انہوں نے اپنے دو صاحبزادوں ، حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب اور حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم ، جن میں سے ایک اس وقت پاکستان کے مفتی اعظم ہیں اور دوسرے شیخ الاسلام ہیں ۔ ان کو کس کے پاس بھیجا ،حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارفی صاحبؒ کے پاس ۔ حضرت عالم نہیں تھے ۔ حضرت مفتی صاحب ؒ نے اپنے بیٹوں سے فرمایا ، میں تم کو ایک ایسے شخص کے پاس لے جارہا ہوں جو عالم تو نہیں ہیں لیکن عالم گر ہیں ۔ ان کی خدمت میں رہنا اور ان سے وہ چیز حاصل کرنا جو ان کے پاس ہے ۔ آج کل ایسی چیزوں کو لوگ عجیب سمجھتے ہیں ۔ تو میں بات کررہا تھا کہ ذکر کرنے والوں کو کوئی عقلمند نہیں سمجھتا ، لیکن عرض کروں گا کہ ذکر سے ہوتا کیا ہے ۔

عقلمند کی تعریف

میں اگر آپ سے پوچھوں کہ عقلمند کی کیا تعریف ہے ؟
آپ کے پاس تعریف تو ہوگی کہ عقلمند کس کو کہتے ہیں ۔ عقلمند اس کو کہتے ہیں جو تھوڑے وقت میں تھوڑی کوشش سے زیادہ فائدہ حاصل کرلے ۔ اس بات سے آپ کو اتفاق بھی ہوگا ۔اگر یہ عقلمند کی تعریف ہے تو میں آپ کو ایک حدیث شریف سناتا ہوں ، آپ ﷺِ فرماتے ہیں

کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ اِلٰی الرحمٰن خَفِیْفَتَانِ علٰی اللِّسَان ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم

یہ بخاری شریف کی آخری حدیث شریف ہے ۔ دو کلمے جو اللہ کو محبوب ہیں ، زبان سے ہلکے ہیں اور میزان میں بھار ی ہیں ۔ آپ ﷺ خود فرما رہے ہیں کہ زبان پر ہلکے ہیں اس کا مطلب ہے کہ آسان ہیں ، اور یہ بھی فرمایا کہ میزان میں بھاری ہیں اس کا مطلب ہے کہ اس کا اجر بہت زیادہ ہے ۔ حتیٰ کہ اس کے کرنے سے آدمی اللہ کا محبوب بن جاتا ہے ۔ جو اللہ کے محبوب کلمے ہوتے ہیں اس کو کوئی پڑھے گا تو وہ اللہ کا محبوب بن جائے گا ۔ تو تھوڑی دیر میں بہت کم محنت کے ساتھ اتنا نفع کمانا یہ عقلمندی ہے یا نہیں ۔ اگر کوئی کہے کہ پڑھائی کے وقت میں ذکر نہیں کرسکتا تو اس کو ہم مان لیتے ہیں لیکن جب کوئی کام نہیں کررہے ہوتے مثلاًہم چل پھر رہے ہوتے ہیں ، یا فارغ بیےھن ہوتے ہیں یا سفر کررہے ہوتے ہیں ۔
مثلاً
کوئی شخص لاہور جارہا ہے تو لاہور کا پانچ گھنٹے کا سفر تو ہوگا ۔ اب ایک شخص ہے اور وہ ایک گھنٹے میں محتاط اندازے کے مطابق تین ہزار مرتبہ لا الہ الا اللہ پڑھ سکتا ہے ۔ اب اس سفر میں وہ زیادہ سے زیادہ سو سکتا ہے یا کسی کتاب کامطالعہ کرسکتا ہے یا ادھر ادھر دیکھ سکتا ہے اور تو کچھ نہیں کرسکتا ۔ تو اگر ایک شخص چلتے چلتے ذکر کرنا سیکھ لے ، یہ سیکھ لے پر میں بہت زور دے رہا ہوں ۔یہ ویسے نہیں ملا کرتا ۔ اگر کسی کو ایسے ہی ملا ہو تو بتا دیں ۔ اس کو سیکھنا پڑتا ہے ۔ تو جو شخص چلتے چلتے ذکر کرنا سیکھ لے اور اس کو توفیق ہوجائے کہ جب وہ لاہور پہنچے تو پندرہ بیس ہزار دفعہ وہ لا الہ الا اللہ پڑھ چکا ہو تو اب وہ عقلمند ہے یا وہ جو اس وقت کو ویسے ہی ضائع کرکے وہاں پہنچا ۔ اس کی طرف ہمارا دھیان ہی نہیں جاتا ۔ تو یہ چیزیں ہمارے پاس ہیں ، ہم چلتے پھرتے ذکر کرسکتے ہیں ۔
ایک دفعہ میں دفتر میں چھٹی کے دن کام کررہا تھا تو میں نے چائے منگوائی ۔ میں نے دیکھا کہ ہمارا ایک چوکیدار ذرا دور فاصلے پر کھڑے ہوکر اپنی ڈیوٹی دے رہا ہے ۔ میں نے اس کو بھی بلایا کہ اس کو بھی چائے پلاؤں ۔ اس کو میں نے بلایا، چائے پلائی ۔پھر اس سے پوچھا کہ جب آپ کھڑے ہوتے ہیں تو کیا کرتے ہیں ؟ کہا کچھ بھی نہیں کرتا ادھر ادھر دیکھتا ہوں ۔ میں نے کہا کہ آپ کے کونسے اعضاء کام میں مصروف ہوتے ہیں ۔ کہتا ہے آنکھیں اور کبھی کبھی ہاتھ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔ تو میں نے کہا کہ جو وقت آپ اس طرح فارغ گزارتے ہیں تو اگر ذکر کرلیا کریں تو اچھا نہیں ہوگا ۔ کہنے لگا پھر آپ مجھے بتائیں ۔ میں نے کہا آپ مختصر درود شریف پڑھ لیا کریں ۔ وصلی اللہ علی النبی الامی ، یہ میں نے لکھ کر دے دیا ۔
کچھ عرصہ بعد میری اس سے دوبارہ ملاقات ہوئی میں نے پوچھا کیا حال ہے ؟ کہا الحمد اللہ وہ پڑھ رہاہوں اور اپنی بیوی کو بھی سکھا دیا وہ بھی پڑھ رہی ہے ۔ میں نے کہا سبحان اللہ کیا بات ہے ،اللہ کا شکر ہے۔ تو میں عرض کررہا تھا کہ یہ چیزیں آسان ہیں مشکل نہیں ہیں ۔ توجہ کرنی پڑتی ہے ۔ اگر انسان اس کی طرف توجہ کرے تو کوئی مشکل نہیں ۔انسان اپنے وقت کو قیمتی بنا سکتا ہے تو یہ ذکر کی بات ہوئی ۔

فکر کی تعریف

اب فکر کی بات ہے ۔ فکر کیا چیز ہے ؟
فکر اس کو کہتے ہیں کہ انسان دو نتائج کو جانتا ہو یعنی دو چیزوں کے بارے میں جانتا ہو اور اس سے نتیجے کے طور پر کوئی تیسری چیز معلوم کرے تو یہ فکر ہے ۔
مثلاً مجھے پتہ ہے کہ سردی ہے اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ سردی لگنے سے انسان بیمار بھی ہوسکتا ہے ۔ مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ گرم کپڑوں سے سردی کم ہوجاتی ہے ۔ اب اس کا نتیجہ کیا ہوگیا ؟
مجھے گرم کپڑے پہننے چاہیے یہی نتیجہ ہے ، یہ فکر کی بات ہے ۔ اب جو انسان اپنی فکر نہ کرے تو اس کو نقصان ہوجائے گا ، جب یہی والی بات سمجھ میں آگئی تو اب ہمیں ذرا ا س خبر پر نظر ڈالنی چاہیے ۔ اور وہ قرآن اور حدیث میں ہے کہ وہاں جانا ہے ۔ وہاں ہمارے ساتھ کوئی نہیں ہوگا ۔ اور وہاں پر پوچھ ہوگی وہاں کی سب سے بڑی چیز نیکی ہے ۔ تو نیکی کن چیزوں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
اس کے بارے میں معلوم کیا جاسکتا ہے۔ تو نیتجہ کیا ہوا کہ ان چیزوں کو حاصل کرنا چاہیے ۔ یہ فکر ہے ۔مومن یہ بھی جانتا ہے کہ جہنم ان لوگوں کی جگہ ہے جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو اور گناہ سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں اس لیئے جو گناہ کرتے ہیں وہ اگر توبہ نہ کریں تو وہ جہنم جاسکتے ہیں اور جہنم چونکہ بہت ہی خطرناک جگہ ہے اس لیئے اس سے بچنا بہت ضروری ہے اس لیئے اس فکر کا نتیجہ یہ ہوگا کہ گناہ نہیں کرنا چاہیئے اور اگر ہوگیا ہے تو فوراً توبہ کرنا چاہیئے۔
اس طرح کائنات کے اندر انسان فکر کرسکتا ہے مختلف چیزوں کے بارے میں ۔ سورج کو اللہ پاک نے پیدا کیا ، لوگ اس سے مسلسل فائدہ اٹھا رہے ہیں ختم ہی نہیں ہورہا ۔ اس طرح چاند کو پیدا کیا ، اور اس کے اندر بڑے فائدے ہیں ۔ چاند کے اوپر گڑھے ہیں اگر چاند پر یہ گڑھے نہ ہوتے تو کیا ہوتا ؟ یہ چاند ہمارے لئے بن جاتا آئینہ ، آئینہ کیا کرتا ہے وہ روشنی کو منعکس کرتا ہے ایک جگہ پر جس طرف اس کا رخ ہوتا ہے ۔ لیکن اللہ پاک نے چاند کی سطح پر گڑھے بنا کر سورج کی روشنی کو بے قائدہ طریقے سے منعکس کردیا ۔ کوئی کرن ادھر جارہی ہے اورکوئی ادھر جارہی ہے ، اب وہی سورج کی روشنی جس کی طرف انسان دیکھ نہیں سکتا چاند کی طرف دیکھ بھی سکتا ہے بلکہ مزا آتا ہے اور چاندی کی کتنی خوبصورت روشنی ہوتی ہے ۔ تو اللہ پاک نے اس کے اندر گڑھے بنا کر ہمیں اس کے نقصان سے بچا کر فائدہ دے دیا ۔
تو یہ اللہ کا نظام ہے ۔ اس طرح زمین کی سطح پر ہوا کا غلاف بنا دیا ، اس ہوا کے غلاف کے بارے میں ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہ ہمیں سانس لینے میں مدد دیتی ہے ۔ اور ہمیں آکسیجن مل رہی ہے ۔ اور جس پرسنٹیج میں ہمیں چاہیے اسی پر ہمیں مل رہی ہے ۔ اگر اس سے تھوڑا سا بھی آگے پیچھے ہوجائے تو اس سے انسان بیمار ہوگا ۔ تو اللہ پاک نے اس کو بیلنس کرنے کے لئے اس کے ساتھ نائٹروجن ملا دیا ۔ اس کے اپنے فوائد ہیں ۔ کائنات کے اندر غور کریں گے فکر کریں گے تو فکر سے نتیجہ پیدا ہوگا ۔اور نتیجہ کیا ہوگا

ارَبَّنا ما خَلَقْتَ هذا باطِلاً

یعنی اے ہمارے رب ان سب کو تو نے بے فائدہ نہیں پیدا کیا ہر چیز کی پیدائش میں ایک مقصد ہےپھر اس کے بعد
سُبْحانَکَ
یعنی اے اللہ تو پاک ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ میں گندا ہوں ،اور جب میں گندا ہوں گا تو عذاب جہنم سے مجھ کو خطرہ ہے ۔
فَقِنا عَذابَ النّارِ
، پس مجھے عذاب جہنم سے نجات عطا فرما ۔ تو اللہ پاک نے اولوالباب ان لوگوں کو فرمایا جو ذکر کرتے اور فکر کرتے ہیں ۔ ذکر اور فکر سے فہم بنتی ہے ۔

فہم رسا کی ضرورت

اگر انسان کی فہم رسا نہ ہو تو انسان غلط فیصلے کرنے لگتا ہے ۔اگر ایسا نہ ہو تو کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے تو سنیئے جتنا مجھے ظاہر کائنات کا پتہ ہے مجھ سے زیادہ ناسا (NASA) والوں کو پتہ ہےان کی نیٹ پر جاکر دیکھیئے کائنات کے بارے وہ ہوشربا تحقیقات موجود ہیں کہ ان کو پڑھ کر بے ساختہ زبان سے نکلتا ہے
اللہ اکبر۔
کیا ان کے ساتھ ایسا ہوتا ہے نہیں ۔اس کی وجہ کیا ہے شیطان نے ان کا رخ اللہ سے پھیر کر اپنی ذات کے طرف کردیا ہے اب وہ جتنے جتنے ان تحقیقات میں آگے جاتے ہیں وہ مزید چوڑے ہوتے جاتے ہیں کہ ہم کتنے بڑے سائنسدان ہیں حالانکہ ان سے کہنا چاہیئے کہ بے وقوفوکیا ان چیزوں کو دریافت کرنا اصل کام ہے یا ان کو بنانا ۔اگر اللہ ان کو نہ بناتا تو تم کیا دریافت کرتے اس لیئے اگر تمہارا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ ہم نے بڑا کام کیا کہ ان کو دریافت کیا تو کیا آپ لوگوں کو یہ سوچ نہیں آنی چاہیئے کہ یہ بڑی بڑی اور حیرت انگیز چیزیں اتنی کمال کہ ہیں کہ تم ان کی دریافت پر ناذاں ہو تو ان چیزوں کے پیدا کرنے والے کے بارے میں کیا خیال ہے؟وہاں یہ چپ ہوجاتے ہیں اور بعض ان میں یہ کہہ کر اپنی جان چھڑاتے ہیں کہ ہمارے یعنی سائنسدانوں کے ذمے اس کا جواب نہیں ہوتا کہ یہ کس نے بنائی ہے ہم تو صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی چیزکیسے بنی ہے ۔اس کو کہتے ہیں جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ۔
شیطان نے ان کو ایسی بتی کے پیچھے لگایا ہے کہ کبھی ان کا رخ اللہ کی طرف نہ ہو۔میں جرمنی میں جب تھا تو ہمارے ایک جرمن نومسلم بھائی کہتے تھے کہ شیطان نے ان کو اپنے انجام سے یہاں تک غافل رکھنے کا بندوبست کیا ہے کہ یہ میت کی گاڑی بھی نہ دیکھ سکے اس لئے اس کے الگ روٹ بنے ہوئے ہیں ۔میت کی گاڑی عام رستے پر سفر نہیں کرسکتی۔

فہم رسا حاصل کرنے کا طریقہ

تو میں فکر کی بات کررہا تھا جس کا تعلق ذہن سے ہے اورذکر کا تعلق دل سے ہے ۔ جب انسان ذکر کرتا ہے اس سے اس کا دل بنتا ہے ۔ جب دل بنتا ہے تو اس کا دماغ صحیح استعمال ہوتا ہے اس سے کیا نتیجہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان صحیح فیصلے کرتا ہے تو ایک چیز لازم ہوگئی کہ صحیح فہم کو حاصل کرنے کے لئے فکر اور ذکر کی ضرورت ہے ۔

دل دل ہے

دوسری بات جو میں نے آیت کریمہ تلاوت کی وہ میں نے براہ راست اللہ تعالیٰ کی ایک خبر بیان کردی ۔

اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہُ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَیٰ السَّمْعَ وَ ھُوَ شَھِیْدٌ

ا اللہ پاک نے دل کو بنیاد بنایا ہے ۔ اگر کہیں بھی خیر حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کے لئے دل کا بننا ضروری ہے ۔ بغیر دل بنائے آپ خیر حاصل نہیں کرسکتے ۔ میں اگر صرف ذہن کو استعمال کرتا ہوں اور میں نے قرآن پڑھ لیا تو میرا ذہن اس کے لئے کافی ہے ۔ ذہن سارا قران پڑھ لے گا لیکن قران کے اندر جو میسج ہے وہ نہیں لے سکے گا جیسا کہ بعض سائنسدان کائنات کو دیکھ کر خالق کائنات کو نہیں دیکھ پاتے۔ اس دریافت کے لئے دل ہے۔ حضرت مولانا رومی ؒ نے ا س کو ایک عجیب انداز میں بیان کیاہے ۔ فرمایا ،

قال را بگذارمرد حال شو

پیش مرد کامل پامال شو

مولانا رومی معمولی آدمی نہیں تھے یہ مفتی تھے اوربہت بڑے مفتی تھے ۔ آخر وقت میں بھی فتویٰ دے کر فوت ہوئے ہیں ۔ اللہ جل شانہ نے ان کو ایک خاص کام کے لئے چن لیا تھا ۔ اور شمس تبریز ؒ کو ان کے پیچھے لگا دیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ چیز عطا فرمادی جو اگر شمس تبریز ؒ کہتے تو لوگ شاید نہ مانتے ۔ تو سینہ تو استعمال ہوا شمس تبریز ؒ کا اور زبان استعمال ہوئی مولانا روم ؒ کی ۔ کہتے ہیں کہ شمس تبریز ؒ ایک دن اپنے شیخ کے سامنے رو پڑے ، شیخ شیخ ہوتا ہے ۔ وہ اللہ تعالی کی طرف سے معرفت کی کھڑکی ہوتی ہے ، جس کو اللہ پاک نے یہ کھڑکی دی ہوتی ہے اس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے ۔ اللہ پاک اس کے ذریعے سے دیتے رہتے ہیں ۔ بہر حال شمس تبریز ؒ اپنے شیخ کے سامنے رو پڑے ، عرض کیا حضرت لوگ تو اپنے اپنے حالات بہت اچھی طرح بیان کرلیتے ہیں ، مجھے تو بیان کرنے کا طریقہ بھی نہیں آتا ، میں کیسے بیان کروں ؟
ان کے شیخ نے فرمایا کوئی بات نہیں اللہ پاک آپ کو ایسی زبان عطا فرمادیں گے جو آپ کی بات کو پوری دنیا میں پھیلا دیں گے ۔ پھر ایسے ہی ہوا ۔ مولانا روم ؒ حضرت کی زبان بن گئے ،اور انہوں نے حضرت کا آفاقی پیغام سب جگہوں پر پہنچا دیا ۔ بہر حال جب تک دل نہیں بنا ہوگا آپ کا ذہن صحیح کام نہیں کرسکتا ۔ آپ کا ذہن الجھ جائے گا ۔ عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے ۔ عقل انسان کو confuse کردیتی ہے ۔انسان پریشان ہوجاتا ہے ، کیوں ؟۔ اس لئے کہ جس وقت تک انسان کا دل نہیں بنا ہوتا اس وقت عقل آزاد ہوتی ہے ۔ جب عقل آزاد ہو تو اس کے فیصلے پھر اس آفاقی نظام کے مطابق نہیں ہوتے نفس کی خواہش کے مطابق ہوتے ہیں
جیسے یورپ کے لادینوں کے ہوتے ہیں ۔ لہذا اس سے نقصان ہوتا ہے ۔ تو دل کا بنانا ضروری ہے ۔ دل جہاں بنتا ہو ظاہر ہے وہاں جانا پڑے گا ۔ یا پھر صاحب دل کے ساتھ اگر تعلق ہو تو اس کے ذریعے سے انسان کو فائدہ ہوسکتا ہے ۔

نفس کی اصلاح

اللہ پاک نے سورۃ شمس میں بڑی بڑی قسمیں کھا کر ، سور ج کی ، زمین ، چاند ، آسمان ، دن رات ، اور آخر میں نفس کی قسم کھا کر عجیب بات فرمائی کہ اس نفس کو میں نے بنایا ہے دو چیزوں کا مجموعہ ، اس کے اندر فجور بھی ہے اور اس کے اندر تقویٰ بھی ہے ۔
اگر انسان تقویٰ والی سائڈ نہ لے تو فجور والی سائڈ اس کو شیطان بنا سکتی ہے ۔
شیطان بھی نفس کی وجہ سے بنا تھا تو کوئی بھی آدمی شیطان بن سکتا ہے اگر وہ فجور والی سائڈ پر چلا گیا ۔ اور اگر وہ فجور والی سائڈ نہ لے اور تقویٰ والی سائڈ لے تو فرشتے بھی اس پر رشک کرنے لگیں گے ۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں جن کے لئے فرشتے دعاکرتے ہیں ، جن کے لئے بلوں کے اندر چیونٹیاں دعائیں کرتی ہیں ۔ جن کے لئے دریاؤں میں مچھلیاں دعا کرتی ہیں ۔ تو ایسے لوگ ہیں ۔ اگر ایک انسان تقویٰ والا رخ اختیار کرے تو پھر اس کی ایسی حالت بن سکتی ہے ۔ پھر اس کے بعد اللہ پاک نے ایک خبر عظیم سنا دی ۔

قَد اَفلَحَ مَن زَکّٰھَا وَ قَد خَابَ مَن دَسّٰھَا

یعنی یقینا کامیاب ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو پاک کرلیا ، رذائل سے پاک کردیا ۔ اور یقینا تباہ و برباد ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو خواہشات نفسانی کے اندر مبتلا چھوڑ دیا ۔ اب یہاں پر یہ نہیں فرمایا گیا جس نے اپنے نفس کو خراب کردیا ، کیونکہ نفس کے اندر خرابی کی صفت خود پائی جاتی ہے ۔ پانی ہمیشہ نیچے کی طرف بہتا ہے لیکن اگر اس کو اوپر لے جانا ہو تو پھر اس کو پمپ کرنا پڑے گا ۔ اس پر کچھ طاقت لگے گی محنت لگے گی ۔ خود اوپر نہیں جائے گا ۔ لیکن نیچے کی طرف خود بخود جائے گا یہ اس کی فطرت ہے ۔ تو نفس کا خرابی کی طرف جانا یہ اس کی فطرت ہے ۔

وَ ما اُبَرِّی نَفسی اِنَّ النَّفسَ لاَمّارَةٌ بِالسُّوءِ اِلاّ ما رَحِمَ

یہ جو نفس امارہ ہے اس کا میلان برائی کی طرف ہے ۔ ہاں اگر اللہ پاک کسی پر رحم فرما دے تو وہ بچ سکتا ہے ۔ تو نفس امارہ کو اگر ویسے ہی چھوڑ دیا گیا تو وہ تباہی کے لئے کافی ہے اس لئے فرمایا گیا کہ

قَد اَفلَحَ مَن زَکّٰھَا وَ قَد خَابَ مَن دَسّٰھا

البتہ جب انسان کوشش کرتا ہے اپنی دل پر محنت کرتا ہے نفس پر محنت کرتا ہے ۔ تو پھر ماشاء اللہ درمیان میں نفس لوامہ بن جاتا ہے جس میں انسان کو روشنی نظر آچکی ہوتی ہے ۔ اور اس روشنی کی وجہ سے وہ خیر چاہتا ہے اور نفس کے تقاضے کی وجہ سے شر کی طرف جاسکتا ہے ۔ نتیجتاَ وہ کبھی شر میں مبتلا ہوکر پھراسی خیر کو دیکھ کر رونا شروع کردیتا ہے ، توبہ کرلیتا ہے ، استغفار کرلیتا ہے ۔ پھر اللہ پاک اس کو اس مقام پر لے آتا ہے ۔ پھر اس سے گڑ بڑ ہوجاتی ہے پھر رونے دھونے کی وجہ سے اللہ پاک اس کو اس مقام پر لے آتا ہے ۔ تو یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔ اس نفس لوامہ کی قسم بھی اللہ پاک نے کھائی ہے ۔ یہ بھی بہت بڑا نفس ہے ۔ آگے جاکر جہاں پر ہمیں پہنچنا ہے وہ ہے نفس مطمئنہ ۔ جس کے بارے میں اللہ پاک نے قران پاک میں فرمایا ہے ۔

یا اَیَّتُهاالنَّفسُ المُطمَئنَّة ارْجِعی اِلَی رَبِّکِ راضِیةً مَرضِیةً فَادخُلی فی عِبادی و ادخلی

جنتی اب ذرا غور فرمائیں یہ اللہ پاک کا بلیغ کلام ہے جس کی مثال نہیں دی جاسکتی ۔ اللہ پاک طریقہ بھی بتا رہے ہیں اور نتیجہ بھی بتا رہے ہیں ، یعنی یہ نفس راضی تھا ۔ اپنے وقت میں اللہ پاک سے راضی تھا ۔ جو اللہ پاک نے احکامات دیے تھے اس پر یہ راضی تھا ۔ تو بس یہی چاہیے ہوتا ہے کہ انسان اللہ پاک کے حکموں کے سامنے سر تسلیم خم کرلے۔ جو اس نفس نے کیا تو اب اللہ اس سے راضی ہے پھر کیا ہے فادخلی فی عبادی پس میرے بندوں میں داخل ہوجا ، اب یہ بندوں کے اندر اس وقت داخل ہوگیا تھا ، اپنے وقت میں زندگی میں داخل ہوگیا تھا اب ایسا وقت آئے گا
جو سورۃ یسٰین شریف میں آتا ہے

سَلَامٌ قَوْلاً مِن رَّبٍّ رَّحِيمٍ وَامْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ

یعنی مومنین پر تو اللہ کی طرف سے سلام آئے گا اور ساتھ ہی فرمایا کہ اے مجرموں آج علیحدہ ہوجاو ۔ اس کا مطلب ہے کہ عباداللہ کا الگ مقام ہوگا ، اور جو مجرمین ہونگے ان کا الگ مقام ہوگا ۔ تو وہ جو مجرم تھے وہ ادھر تو مجرم نہیں بنے وہ تو پہلے سے مجرم بنے ہوئے تھے ۔ ادھر صرف ان کی جگہ بنا دی گئی ۔
اسی طریقے سے جو عباد اللہ تھے وہ بھی پہلے بن گئے تھے لیکن بعد میں ان کے لئے جو جگہ مقرر تھی اس جگہ پر ان کو جمع کردیا گیا ۔ مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے نفسوں پر کنٹرول کرنا سیکھنا پڑے گا ۔ اور اس کے لئے دل کو بنانا پڑے گا اور دل بنتا ہے ذکر اللہ سے ۔ آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ہر چیز کے لئے کوئی صفائی کا آلہ ہوتاہے اور دلوں کی صفائی کا آلہ ذکر اللہ ہے ۔

پھر صحبت صالحین

دوسرا صحبت صالحین ، اللہ جل شانہ فرماتے ہیں

کونوا مع الصادقین ،

سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
یعنی انسان کا دل بنتا ہے صحبت صالحین کے ساتھ اور ذکر اللہ کی کثرت سے ۔ ذکر اللہ میدان بناتا ہے ، زمین کو نرم کرتا ہے ۔ اگر آپ زمین میں ہل نہ چلائیں اور اس کو پانی بھی نہ دیں اور ویسے ہی اس میں بیج بو دیں تو کیا خیال ہے اس سے فصل پیدا ہوجائے گی ؟ نہیں بلکہ وہ جو بیج ہے وہ بھی ضائع ہوجائے گی ۔
اب اگر آپ نے زمین بنا دی ہے اس کو پانی بھی دے دیاہے تو ماشاء اللہ اس سے اللہ پاک بہت اچھی فصل پیدا فرمائے گا ، بعینہ اسی طریقے سے جو ذکر اللہ نہیں کرتے وہ صحبت صالحین سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے ۔ وہ پیچھے رہ جاتے ہیں ٹھیک ہے تھوڑی بہت روشنی تو آتی ہیں لیکن جس کو ہم کہتے ہیں کہ پورا فیض حاصل کرنا ، وہ تب حاصل ہوگا کہ ذکر اللہ بھی چلتا رہے اور ساتھ ساتھ صحبت صالحین بھی چلتا رہے ، یعنی اپنے شیخ سے رابطہ ۔
صحبت صالحین کا جوfocal point ہے
یعنی جس نکتے پر یہ چیز مرکوز ہوجاتی ہے وہ شیخ ہے ۔ یعنی صحبت صالحین کو اگر آپ ایک لفظ میں بتاسکتے ہیں تووہ شیخ کی صحبت ہے ۔ باقی بھی صحبت صالحین ہوگی لیکن سب سے زیادہ فائدہ اپنے شیخ کی صحبت میں ہوگا تو جس کو شیخ کی صحبت حاصل ہے شیخ کے ساتھ رابطہ حاصل ہے ۔ اور ساتھ ساتھ ذکر اللہ بھی کرتا ہے تو اس نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کا دل پاک ہوتا جائے گا ، صاف ہوتا جائے گا ، منور ہوتا جائے گا بلکہ میں آپ سے عرض کروں کہ صحبت صالحین اور صحبت شیخ اصل ہے ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بزرگوں نے لکھا ہے کہ اگر شیخ کی مجلس میں بیٹھے ہو تو اس وقت ذکر لسانی نہ کرو بلکہ اس وقت شیخ کی قلب کی طرف توجہ کرو کہ اس کے دل پر اللہ پاک اس وقت جو فیض اتار رہا ہے اس میں سے آپ کو بھی حصہ ملے ۔ بس یہ تصور کرلو ، یہ اعلیٰ درجے کا ذکر ہے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ اگر کسی کو تجربہ ہوا ہے تو وہ تجربے سے کہہ سکتا ہے ۔
الحمد اللہ، اللہ پاک نے اس کا تجربہ بھی مجھے کرایاہے ۔
ہمارے فزکس کے ایک پروفیسر تھے اب فوت ہوچکے ہیں ، وہ ہمیں نیوکلیئر فزکس پڑھا رہے تھے ، اس کے اندر بہت ساری چیزیں ایسی آجاتی ہیں جو انسان کی imagination اتنی آسانی سے گرفت نہیں کرتیں ۔ تو جب کبھی ہمیں پریشانی ہوتی تو ڈاکٹر صاحب فرماتے ، مان جائیے مان جائیے ۔
اس وقت مان جائیے بعد میں سمجھ آجائے گا ۔ یہ میں آپ کو دنیا کے سائنس دان کی بات بتا رہا ہوں ، وہ یہ بات کررہا ہے کہ اس وقت مان جائیے بعد میں سمجھ آجائے گا ۔ بہرحال میں اس وقت عرض کررہا ہوں کہ اس وقت آپ اس کو مان لیں ۔ انشاء اللہ بعد میں جان بھی لیں گے کہ شیخ کے قلب سے جو فیض آتا ہے وہ ایسا نور ہے جس کا کوئی بدل آپ کے لئے نہیں ہے ۔ حضرت مولانا گنگوہی ؒ کی کتاب امداد السلوک کی تعلیم ہم نے خانقاہ میں کرائی ہے اس نیت سے کیونکہ جو دوسرے حضرات ہیں ان کی باتیں تو لوگ کم سنتے ہیں اور اس پر لوگ اعتراضات کی جرأت کرنے لگتے ہیں ۔
حضرت گنگوہی ؒ کو عالم کے طور پر سمجھا جاتا ہے کہ وہ عالم تھے بلکہ بعض لوگ خشک عالم سمجھتے ہیں اور اگر کوئی ان کو ایسا سمجھتا ہے تو میرے خیال میں ان کو امداد السلوک کا مطالعہ کرنا چاہیے ان کو پتہ چل جائے گا کہ حضرت ؒ کیسے تھے ۔ تو حضرت اپنی کتاب امداد السلوک میں وحدت مطلب کے عنوان سے فرماتے ہیں کہ سالک کو چاہیے کہ اپنے شیخ کے علاوہ کسی اور شیخ کی طرف نظر نہ کرے ، ورنہ شیطان کسی اور پیر کی صورت میں آکر اس کو گمراہ کردے گا اور یہ کہیں کا بھی نہیں رہے گا حتیٰ کہ اللہ کو بھی پروا ہ نہیں ہوگی کہ کس گھاٹی میں ہلاک ہوجائے ، اور اس کی جو وجہ بتائی گئی ہے کیونکہ آپ ﷺِ کی صورت میں شیطان نہیں آسکتا ، یہ راستہ اللہ پاک نے ا س پر بند کیا ہوا ہے اور آپ ﷺِ ہی کے اتباع کی برکت سے جو مشائخ ہوتے ہیں جس کا جو شیخ ہوتا ہے اس کی صورت میں بھی شیطان نہیں آسکتا ، باقیوں کی صورت میں آسکتا ہے۔

چہ پہ یو قدم تر عرشہ پورے رسی

ما لیدلے دے رفتار د درویشانو

وہ تو پھر معاملہ ہی بالکل الگ ہے ۔ شطاریہ کا معاملہ عشق کے ساتھ ہے ، جو اپنے شیخ میں ایسے فنا ہوجاتے ہیں کہ ان کو کوئی اور نظر ہی نہ آئے ۔ پھر اللہ پاک ان کو بہت جلد فنا فی الرسول کے مقام پر پہنچا کر پھر فنا فی اللہ ہوجاتے ہیں اور بعد میں ان کے انگ انگ سے للہیت ٹپکتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات

تو جھکا جو غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من

مطلب یہ ہے کہ قلندر تو کسی اور کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا سوائے اللہ کے ۔ اس کا تو ہر کام اللہ کے لئے ہوتا ہے ۔ اللہ پاک کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے ، اس کی اپنی مرضی فنا ہوجاتی ہے ،اس کی سوچ ہی یہی ہوتی ہے کہ جو کرتا ہے وہ اللہ ہی کرتا ہے ۔ بہر حال ذکر اللہ سے اور صحبت صالحین سے ہی انسان کی ترقی ہوتی ہے اور دل کی حالت اچھی ہوتی جاتی ہے ۔

پھر نفس کی بات مجاہدہ کے ساتھ

اب آگے آتا ہے نفس ۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے ۔ نفس کی اصلاح ہوتی ہے مجاہدے سے ، اس کے بغیر نفس کی اصلاح نہیں ہوتی ۔ ایک دفعہ میرے پاس ایک صاحب آئے ، اعتکاف کی بات ہے ۔ مجھے سے خلوت میں وقت مانگا ۔ میرے سامنے بیٹھے تو رونے لگ گئے ۔
فرمایا ، شاہ صاحب میں نے ندشبن ی سلوک سارا تمام کردیا ، لیکن حالت میری یہ ہے کہ رمضان شریف میں میں نے اپنے لئے کیبل لگوا دیا ، میں کیا کروں ۔ صحیح بات ہے کہ اس وقت میرا دل ایسے ہوگیا کہ اب اس کو کیا جواب دوں ۔ اللہ پاک کی طرف متوجہ ہوا ، میں نے کہا یا اللہ اس کے لئے کوئی جواب آپ بھیج دیں کیونکہ میرے پاس تو کوئی جواب نہیں ہے ۔ اس کے بعد اللہ پاک نے میری زبان سے جو کہلوا دیا وہ میں آپ کو بتا تا ہوں ۔ میں نے کہا جی ہاں آپ نے سارا سلوک طے کیا ، لیکن دل والا طے کیاہے ، ابھی آپ نے نفس والا طے نہیں کیا ۔ آپ کو نفس کا سلوک طے کرنا پڑے گا پھر آپ اس چیز سے بچیں گے اور آج کل سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے نفس کا سلوک طے نہیں ہوتا ۔ نتیجے کے طور پر بڑے بڑے لوگ بھی نفس کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ بہر حال میں نے ان کو یہ بتا دیا اور ان سے کہا کہ اگر آپ نفس کا سلوک طے کرنے کے لئے تیار ہیں تو بتا دیں ورنہ اس کے بغیر پھر یہ کام نہیں ہوسکتا ۔ ہمارے ایک ساتھی ہیں ڈاکٹر ارشد صاحب ۔ انہوں نے مجھ سے فون پر کوئی بات کی تو میں نے ان کو یہ بات بھی بتا دی۔
انہو ں نے کہا شبیر صاحب آپ نے تو ہمارا مسئلہ حل کردیا ۔ پرسوں ہم بہت زیادہ اس پر ڈسکس کررہے تھے کہ آج کل کیوں یہ مسئلہ ہے کہ لوگ سلوک پر چل بھی رہے ہوتے ہیں اور اس قسم کے مسائل آرہے ہیں ۔ یہ وجہ کیاہے ۔ تو اس کا تو ہمیں جواب مل گیا۔ پھر بحث وتمحیص کے بعد ہم اس بات پر پہنچے کہ آج کل مجاہدہ جو متروک ہوچکا ہے دوبارہ شروع کرنا چاہیے ۔ البتہ اس کا رنگ مختلف ہوناچاہیے ۔ آج کل کے دور کے مطابق ہونا چاہیے ۔ بغیر مجاہدے کے اصلاح نہیں ہوتی ۔ قلیل طعام کا مجاہدہ متروک کردیا گیا تھا اور قلیل منام کا مجاہدہ کم کردیا گیا تھا یا چھوڑ دیا گیا تھا ۔ ٹھیک ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ برداشت نہیں کرپا رہے تھے اور نتیجے کے طور پر بیمار ہوجاتے ۔ تو اب مجاہدے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان ایک دن روزہ ر کھے اور دوسرے دن افطار کرے ، یعنی ایک دن خوب کھائے دوسرے دن بالکل نہ کھائے ۔ تو یہ مجاہدہ ہے اور انسان جب مسلسل مجاہدہ کرتا ہے تو اس کا عادی ہوجاتا ہے ۔ نتیجے کے طور پر وہ پھر اس کے لئے مجاہدہ نہیں رہتا اگر اس طریقے سے مجاہدہ کیا جائے تو اس سے بہت فائدہ ہوگا ۔ میں آپ کو مجاہدے کی ایک مثال دیتا ہوں ۔ ایک شخص ہے جو نماز نہیں پڑھتا جب اس سے کہا جاتا ہے کہ نماز پڑھو وہ کہتا ہے کہ جی مجھ سے نماز نہیں پڑھی جاتی ۔
آپ کسی وقت ان کو مجبور کرکے ایک نماز پڑھا ہی دیتے ہیں تو کیا خیال ہے دوسری نماز اس کے لئے اتنی ہی مشکل ہوگی جیسے پہلے والی تھی ؟ کچھ فرق تو آئے گا ۔ اب پہلی نماز اس کے لئے بہت مشکل تھی دوسری نماز اس کے لئے اتنی مشکل نہیں ہوگی اور اگر دو پڑھے گا تو تیسری اس سے بھی آسان ہوگی ۔ تین پڑھے گا تو چوتھی اور زیادہ آسان ہوجائے گی حتیٰ کہ جب چالیس دن یہ نمازیں پڑھ لے گا تو پھر اس کے لئے نماز چھوڑنا مشکل ہوجائے گا ۔
اب وہ شخص جو بالکل نماز ہی نہیں پڑھ سکتا تھا اب وہ نماز چھوڑ نہیں سکتا ۔ درمیان میں صرف چالیس دن ہیں ، تو کیا تبدیلی آئی ؟ نماز میں تو تبدیلی نہیں آئی ،اس آدمی میں بھی تبدیلی نہیں آئی ، وہ بھی وہی ہے نماز بھی وہی ہے فرق صرف یہ ہے کہ نفس نے ماننا سیکھ لیا ۔ نفس کے لئے مجاہدہ یہ ہے یہ نفس کی بات نہ مانو ، نفس اگر کہتا ہے کہ اٹھو تو آپ بیٹھیں رہیں ۔ نفس اگر کہے کہ بیٹھو تو اپ لیٹ جائیں ۔ مقصد نفس کی بات نہ ماننا یہ مجاہدہ ہے ۔ اس وقت چونکہ نفس اس پر غالب تھا اس نے نفس کا نہ ماننا شروع کردیا نتیجے کے طور پر اس کے نفس نے ماننا شروع کردیا اور وہ نمازی ہوگیا ۔ بعینہ یہی ہم باقی چیزوں کے ساتھ بھی کرسکتے ہیں ۔مجاہدہ فی الاصل کیاہے ؟ فی الاصل جتنے بھی ہمارے اعمال ہیں اس میں مجاہدہ خود موجود ہے ۔ ہماری نماز میں بھی مجاہدہ موجود ہے ۔ روزے میں ، زکواۃ ، حج سب میں مجاہدہ موجود ہے اور یہ شرعی مجاہدات ہیں ۔ یہ تو ہمارے اوپر لازم ہیں ۔ یہ ہم سب نے کرنے ہوتے ہیں ۔ اگر کسی کے یہ مجاہدات ٹھیک ہیں اس کو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان مجاہدات میں ہم لوگوں نے گڑ بڑ کی ، مثلاََ نماز صحیح طریقے سے نہیں پڑھتے ۔ یہ نہیں کہ رکوع سجود ہمارا ٹھیک نہیں ہے ۔ رکوع و سجود ٹھیک ہوجائے گا لیکن دل کی حالت ٹھیک نہیں ہوگی ۔ ہم لوگ توجہ نہیں کریں گے ۔ حتیٰ کہ لوگوں کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ کونسی سورت پڑھی گئی ۔اسی طرح روزے میں انسان حلال چیزوں سے اپنے آپ کو روک لیتا ہے اور حرام چیزوں میں مبتلا ہوتا ہے ۔ غیبت بھی کرتا ہے ۔ جھو ٹ بھی بولتا ہے ۔ حتیٰ کہ بدنظری بھی کرتے ہیں ۔
بعض لوگ فلموں سے اپنے روزوں کو مشغول کرتے ہیں ۔ تو اگر ان چیزوں میں جان نہ ہو تو اس کمی کو پورا کرنے لئے مصنوعی مجاہدات کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہاں قریبی کاکول واقع ہے اس میں لوگ کیا کرتے ہیں دو سال کے لئے ، دو سال میں ان کو فٹ بال بنا دیتے ہیں ، تو کیا وہ ان لوگوں کے دشمن ہیں ؟ بعد میں تو ان کو پھول لگاتے ہیں ۔ تو دشمن نہیں ہیں ان کو بنانے کے لئے ان کو دو سال ٹف ٹائم دیتے ہیں ۔ اس مجاہدے میں ان کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال دیاجاتا ہے ۔ تو یہ مصنوعی مجاہدہ وقتی ہوتا ہے ، عارضی ہوتا ہے اور ایک خاص مقصد کے لئے ہوتا ہے ۔ یہ دائمی نہیں ہوتا ، جبکہ شرعی مجاہدہ دائمی ہے اور اس کا نور بھی دائمی ہے ۔ آج کل کے دور میں اگر کوئی شخص قبول ہوجائے سلسلوں میں ، تو ان کے ساتھ پھر یہ معاملہ ہوتا ہے کہ اگر اختیاری مجاہدہ نہیں کرسکتا تو پھر ان سے غیر اختیاری مجاہدات لیے جاتے ہیں ، کبھی مشکل پڑ گئی ، کسی نے بے عزتی کردی ، اور بہت سارے مسائل پیش آسکتے ہیں جس کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ غیر اختیاری مجاہدات ہوتے ہیں ، ان غیر اختیاری مجاہدات کو کم کرنے کا طریقہ بھی یہ ہے کہ اختیاری مجاہدات شروع کرلیں پھر غیر اختیاری مجاہدات نہیں ہونگے ۔ حضرت مولانا یوسف بنوری صاحب ؒ ہمارے ایک بزرگ مولانا عبدالحق نافع صاحب ؒ کی عیادت کے لئے آیا کرتے تھے ، ان کو آخری عمر میں کینسر ہوگیا تھا ، بہر حال حضرت جب آتے تھے تو فرماتے کہ ہم میاں صاحب سے کہتے تھے کہ یہ کرو اور یہ کرو ، اس میں مجاہدہ نہیں ہوگا ، لیکن حضرت کو اس بارے میں خیال نہیں آیا ، اب دیکھ لیں اللہ پاک نے جس کا مرتبہ جو لکھا ہوتا ہے وہاں تک تو پہنچانا ہوتا ہے ، تو اگر وہ اس عبادت کے ذریعے سے نہ پہنچ سکے تو پھر اللہ پاک کسی مصیبت میں مبتلا کرکے اس کو وہاں تک پہنچا دیتے ہیں ۔ تو اب یہ ایسے ہی ہورہا ہے اور یہ بہت مشکل ہے ۔ یہ بات انہوں نے ان کے بیٹے سے کہی ۔ تو یہ اللہ پاک کی سنت عادیہ ہے کہ جو شخص قبول ہوجائے پھر اس کو دھتکارا نہیں جاتا ۔ پھر اگر وہ لائن پر نہیں آتا تو پھر اس کو لائن پر لانے کے لئے ایسا کیا جاتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ جب قبول فرمائے تو

میں آپ کو اس کی مثال دیتا ہوں اور یہ بہت عمدہ مثال ہے ، ہمارے ایک دفتر کے ساتھی تھے چین سموکر تھے اور بہت زیادہ آزاد اور بے باک قسم کے تھے ۔ ایسے لوگوں کو براہ راست کچھ کہنے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور وہی بات کہ ٹھنڈے توے پر روٹی ڈالنا ، تو میں ان کو براہ راست نہیں کہنا چاہتا تھا ، اور دعا کرتا تھا کہ اللہ پاک خود ہی اس کو بنا دے ۔
ایک دن سید سلیمان ندوی ؒ کی ایک تحریر جو انہوں نے مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کی وفات پر لکھی تھی ، مولانا اشرف صاحب ؒ کی کتاب سلوک سلیمانی میں شامل تھی ۔ مجھے وہ حضرت نے ٹائپ کرنے کے لئے دی تھی ۔ میں اس کو ٹائپ کرکے اس کی پروف ریڈنگ کررہا تھا تو وہ ساتھی میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور میری اس میں مدد کررہے تھے ۔ اب سید صاحب ؒ کی تحریر ہو اور حضرت تھانوی ؒ کی وفات کا سانحہ ہو تو اس پر حضرت کے دل سے کیا کیا باتیں نکلی ہونگی ، بڑا پرزور کلام تھا ۔ اس کو پڑھ پڑھ کر ہم دونوں شدت جذبات سے اچھل رہے ہوتے تھے ۔
جیسے ہی ہم نے وہ پروف ریڈنگ ختم کی تو ان کے ہاتھ خود بخود اٹھ گئے کہ اے اللہ مجھے ہدایت دے دے ۔ میرے دل نے اسی وقت گواہی دی کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دے دی یہ قبول ہوگیا ، اب میں انتظار میں رہنے لگا کہ یہ اب کب آئے گا ۔ایک دن گزر گیا دو دن گزر گئے تین دن گزر گئے ، مہینہ ، دو گزر گئے پھر بھی اس لائن پر نہیں آیا تو میں نے دل میں کہا یا اللہ یہ کیا ماجرا ہے یہ قبول تو ہوگئے ہیں لیکن یہ آئیں گے کب ۔ میں نے ان کے ایک ساتھی سے کہا کہ اس کو سمجھا دو یہ آرام سے آجائے یہ قبول ہوگیا ہے اگر آرام سے نہیں آئے گا تو ممکن ہے اس کو سٹریچر پر لایا جائے ۔ بس یہ بات اللہ پاک نے زبان سے نکال دی ، بہر حال غالباََ اس بات کو ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ اس کا بہت سخت قسم کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور چھ مہینے کے لئے چارپائی پر بُک ہوگیا ، اسی چھ مہینے میں اس نے داڑھی بھی رکھ لی ، اس نے ماشاء اللہ نماز بھی شروع کردی حتیٰ کہ ذکر بھی شروع کردیا ۔ درود شریف بھی پڑھنا شروع کیا ، میں ان کو حضرت تھانوی ؒ کی کتابیں بھی دیا کرتا تھا وہ بھی اس نے پڑھنی شروع کیں ، اب ایک چیز رہ گئی تھی اس کی وہ تھی سموکنگ ۔ میرا دل چاہتا تھا کہ اب یہ سموکنگ کی عادت بھی اس کی ختم ہوجائے لیکن میں اس کو کہتا نہیں تھا ۔ ایک دن اچانک اس نے سموکنگ بھی چھوڑ دی ۔ میں نے پوچھا کیا بات ہے آپ نے سموکنگ چھوڑ دی ، کہنے لگا ہاں۔ میں نے پوچھا کیوں چھوڑ دی کہنے لگا مجھے درود شریف یاد آگیا اور سوچا جس منہ سے میں درود شریف پڑھتا ہوں اس کے ساتھ سموکنگ کیسے کروں؟ ۔

لب لباب

ان سب باتوں کا لب لباب یہ ہے کہ ہم ناقص اگر کامل بننا چاہیں تو اس کے لیے ہمیں کیا کرنا پڑے گا۔اس کا متصرگ جواب یہ ہے کہ کامل وہ ہوتا ہے جس کی فکر صحیح ہو ، دل بنا ہو اور نفس مطیع ہو۔ایک حدیث شریف سے اس کی طرف اشارہ ہوتا ہے ۔
وہ یوں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ عقلمند وہ ہے جس نے نفس کو قابو کیا اور آخرت کے لیئے عمل کیا اور بے وقوف وہ ہے کہ جس نے نفس کو خواہشات پر عمل کرنے کے لیےن آذاد چھوڑ دیا اور پھر بھی بغیر توبہ کے مغفرت کی امید کرتا رہا ۔اس سے پتہ چلا کہ کامل کا نفس مطیع ہوگا اور آخرت کے لیےا عمل کرنے کے لیےم اس کو راستہ معلوم ہو اور اس پر چلنے کی فکر ہو تو راستہ تو معلوم ہوتا ہے دل کی درستگی کے ساتھ کیونکہ قرآن ہدایت کی کتاب ہے لیکن اس کے لیےل جس کا دل بنا ہو جیسا کہ پہلے گزرگیا اور فکر اس کی صحیح ہوگی تب جب وہ ذکر والا ہوگا جیسا کہ پہلے گزرگیا ۔نفس ٹھیک ہوتا ہے مجاہدہ کے ساتھ اور دل ٹھیک ہوتا ہے ذکر اللہ کے ساتھ یہ دونوں کرنے ہیں معالج یعنی شیخ کی نگرانی میں تو معلوم ہوا کہ کامل بننے کے لیےٹ پہلے کامل شیخ کو ڈھونڈنا ہوگا ۔اس کی نشانیاں بتا دیتا ہوں کیونکہ اگر نشانیوں کا پتہ نہیں ہوگا تو کسی ڈاکو کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔

اہل اللہ کی نشانیاں

منظم طریقہ یہ ہے کہ جس کے ساتھ مناسبت ہو ، ان کے ساتھ تعلق بنا لو ۔ اور پھر ان کی تربیت میں کام شروع کردو ۔
اور یہ یاد رکھو کہ اس شخص کے بارے میں پہلے تحقیق کرلو کہ کیا وہ اس قابل ہے اس کے لئے میں آٹھ نشانیاں بتاتا ہوں ۔ پہلے بھی میں نے یہ نشانیاں بتائی تھیں۔
پہلی نشانی عقیدہ اہل سنت والجماعت کا ہو ،
دوسری نشانی اسے فرض عین علم حاصل ہو ۔
تیسری نشانی اس علم پر اسے عمل ہو ۔
چوتھی نشانی وہ صاحب صحبت ہو اور اس کے صحبت کا سلسلہ حضور ﷺِ تک پہنچتا ہو ۔
پانچویں نشانی اس کو اجازت حاصل ہو ،
چھٹی نشانی اس کے اردگرد جو لوگ بیٹھنے والے ہوں ان کو آپ دیکھ رہے ہوں کہ روزانہ ان کے اندر تبدیلی آرہی ہے ، مثبت تبدیلی آرہی ہے ۔ جیسے ہم اچھے ڈاکٹر کا پتہ کیسے لگاتے ہیں ، جس کے ہاتھ پر لوگ زیادہ شفایاب ہورہے ہوں ہم کہتے ہیں کہ یہ ڈاکٹر صحیح ہے ۔ تو اس کے اندر فیض ہونا چاہیے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ خود بن چکا ہو لیکن وہ فیض رساں نہ ہو ۔ اللہ پاک نے اس کے ہاتھ پر فیض نہ رکھا ہو ۔ یہ ممکن ہے ۔ انسان خود ٹھیک ہوجاتاہے لیکن دوسرے کو فائدہ نہیں دے سکتا ۔آپ نے بہت سارے سائنسدانوں کو دیکھا ہوگا ، بڑے اچھے سائنسدان ہوتے ہیں لیکن پڑھا نہیں سکتے ۔ دوسروں کو نہیں سمجھا سکتے ۔ اس طرح بعض لوگ بڑے اچھے ہوتے ہیں لیکن دوسروں کو اس سے فیض نہیں ہوتا ۔ لہذا یہ دیکھو کہ اس کے پاس بیٹھنے والے لوگوں کو فیض حاصل ہورہا ہے یا نہیں ۔
ساتویں نشانی یہ کہ وہ اصلاح کرتا ہو مروت نہ کرتا ہو ۔ مروت بہت خطرناک چیز ہے ۔ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی عالم ہے اس کو مسئلہ معلوم ہو اور اس سے پوچھا جائے ، تو اگر وہ صحیح جواب نہیں دے گا تو اس کے منہ میں قیامت کے دن آگ کی لگام دی جائے گی ۔ کیونکہ اس نے صحیح جواب نہیں دیا ۔ تو مروت نہ کرتا ہو اصلاح کرتا ہو ۔
آٹھویں اور آخری بات کہ اس کی مجلس میں بیٹھ کر خدا یاد آتا ہو اور دنیا کی محبت سرد ہوتی ہو ۔
اگر کسی کے اندر یہ آٹھوں نشانیاں موجود ہوں تو پھر یہ نہ دیکھو کہ اس میں کرامت یاکشف ہے یا نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ چیزیں ثانوی ہیں ۔ بہت سارے صحابہ کرام کے پاس کشف و کرامات نہیں تھے ۔ تو کیا جن کے پاس کشف و کرامات تھے یہ ان سے کم ہوگئے ؟ تو ان چیزوں کو دیکھنا نہیں چاہیے ، ان آٹھ نشانیوں کو دیکھنا چاہیے کہ یہ ہیں یا نہیں ہیں ۔ جب نشانیاں پوری ہوں تو بس یہ دیکھنا چاہیے کہ میری ا س سے مناسبت ہے یا نہیں ہے ۔ یعنی یہ میرے لئے ہے یا نہیں ہے ۔ ٹھیک ہے دوسرے لوگوں کے لئے ہوگا ۔ لیکن ضروری نہیں ہے کہ میرے لئے ہو ۔ تو اس کا بھی تجربہ کرلو اور اس کے ساتھ تعلق قائم کرکے دیکھ لو کہ آیا مجھے اس سے فائدہ ہورہا ہے یا نہیں ۔ تو اگر مناسبت ہے تورابطہ جاری رکھو ۔ ایک باقاعدہ طریقے سے جب ہم آجائیں گے تو انشاء اللہ العزیز آپ دیکھیں گے کہ جن چیزوں سے پہلے آپ انکار کرتے تھے اس کا آپ ایسے اقرار کریں گے کہ دوسروں کو بھی سمجھائیں گے ۔
ایک صاحب جو اس وقت تقریباً چھیاسی سال کے ہونگے اس وقت ان کی عمر اٹھتر سال تھی ، وہ پرنسپل ریٹائرڈ ہوئے تھے ۔ وہ کسی طریقے سے ہمارے پاس آئے، ذکر کی لائن میں آگئے ۔ پہلے وہ ان چیزوں کو نہیں مانتے تھے ۔ تو جس وقت وہ آئے میں نے ان کو ذکر قلبی دے دیا ۔ تین مہینے کے بعد جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے تین باتیں بتائیں ۔ اور وہ تین باتیں ایسی تھیں کہ میں کہتا ہوں کہ بس اللہ پاک ہم سب کو نصیب فرمائے ۔
پہلی بات اس نے یہ بتائی ، شاہ صاحب میں دوسر وں کو تو نہیں سمجھا سکتا لیکن خود سمجھ گیا ہوں کہ ذکر میں کتنی طاقت ہے ۔ دوسری بات اس نے یہ بتائی کہ شاہ صاحب میرا مطالعہ نہیں چھوٹتا تھا ، اب کہتا ہوں کہ تنہائی ہو اور یاد الہٰی ہو ۔ تیسری بات اس نے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ شاہ صاحب پہلے میں یہاں تھا اس کے بعد اس نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا اب یہاں آگیا ہوں ۔ تویہ پکی بات ہے ۔ انسان جو چیزیں پہلے نہیں مانتا اور پھر اس پر گزرتی ہے تو پھر اس کو ماننا پڑتا ہے ۔

لگی ہو نہ جب تک کسی دل میں آگ

پرائی لگی دل لگی سوجھتی ہے

انسان کو دوسرے کے حال کا پتہ نہیں چل سکتا کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے ۔ لیکن جب خود پر گزرتی ہے تو پھر ِسب چیزوں کو مانتا ہے ۔ تو خلاصہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہوجائیں انشاء اللہ العزیز اللہ پاک نے جو کچھ آپ کی قسمت میں لکھا ہے آپ کو مل جائے گا ۔ لگے رہو لگے رہو، لگ جائے گی ۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو نصیب فرمائے ۔۔۔ آمین