اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ۔اَلصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَم ُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیینِ۔اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّےْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُوْلِی الْاَلْبَابِ﴿190﴾ الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُودًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا۔ سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴿191﴾ وَقَالَ تَعَالیٰ اَوَلَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَکُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض وَقَالَ تَعَالیٰ اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدًا﴿6﴾ وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا﴿7﴾ وَّخَلَقْنٰکُمْ اَزْوَاجًا﴿8﴾ وَّجَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتًا﴿9﴾ وَّجَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسًا﴿10﴾ وَّجَعَلْنَا النَّھَارَ مَعَاشًا﴿11﴾ وَبَنَیْنَا فَوْقَکُمْ سَبْعًا شِدَادًا﴿12﴾ وَّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّھَّاجًا﴿13﴾ وَّاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرٰتِ مَآئً ثَجَّاجًا﴿14﴾ لِّنُخْرِجَ بِہٰ حَبًّا وَّنَبَاتًا﴿15﴾ وَّجَنّٰتٍ اَلْفَافًا﴿16﴾ وَقَالَ تَعَالی قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَکْفَرَہ،﴿17﴾ مِنْ اَیِّ شَیْئٍ خَلَقَہ،﴿18﴾ مِنْ نُّطْفَۃٍ۔ خَلَقَہ، فَقَدَّرَہ،﴿19﴾ ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہ،﴿20﴾ ثُمَّ اَمَاتَہ، فَاَقْبَرَہ،﴿21﴾ ثُمَّ اِذَا شَآئَ اَنْشَرَہ،﴿22﴾ کَلَّا لَمَّا یَقْضِ مَآ اَمَرَہ،﴿23﴾ فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰی طَعَامِہٰٓ﴿24﴾ اَنَّا صَبَبْنَا الْمَآئَ صَبًّا﴿25﴾ ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا﴿26﴾ فَاَنْبَتْنَا فِیْھَا حَبًّا﴿27﴾ وَّعِنَبًا وَّ قَضْبًا﴿28﴾ وَّزَیْتُوْنًا وَّنَخْلًا﴿29﴾ وَّحَدَآئِقَ غُلْبًا﴿30﴾ وَّفَاکِھَۃً وَّاَبًّا﴿31﴾ مَّتَاعًا لَّکُمْ وَلِاَنْعَامِکُمْ﴿32﴾وَقَالَ عَلْیْہِ السَّلاَم فِی نُزول اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَیْلٌ لمَنْ قَرَاَھَا و۔لَمْ یَتَفَکَّرْ فِیْھَا وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اّنَّ قَوماً تَفَّکَروْا فِی عَزَّ وَجَلَّ فَقَالَ عَلَیْہِ السَّلاَم تَفَکََّرُوْا فِی خَلْقِ اﷲِ وَلاَ تَتَفَکََّرُوْا فی اﷲِ فَاِنَّکُمْ لَمْ تَقْدِرُوْا قَدْرَہ، وَقَالَ تَعَالی اِنَّ ذٰلِکَ لَمُحْیِ الْمَوْتٰی۔ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ﴿50﴾
بے شک کائنات کی تخلیق میں اور دنوں کے الٹ پھیر میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔﴿یعنی ﴾وہ لوگ جو کھڑے بیٹھے لیٹے﴿ یعنی﴾ ہر حالت میں اﷲ کو یاد کرتے ہیں اور سوچتے ہیں آسمان اور زمین کی پیدائش میں اور بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے ان سب کو بے فائدہ پیدا نہیں کیا تو پاک ہے ہر عیب سے پس ہمیں بھی عذاب جہنم سے بچا دیجئے ۔ اور ارشاد فرمایا حق تعالی ٰ شانہ نے کیا ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایا اور پہاڑوں کو زمین کی میخیں نہی بنایا اور تم کو ہم نے جوڑا جوڑا بنایا ہے تمہاری نیند کو آرام کی چیز بنایا ہے اور رات کو پردا کی چیز بنایا ،دن کو تمہارے لیے روزگار بنایا اور تمہارے اوپر مضبوط سات آسمان بنائے اور ایک چراغ یعنی سورج بنایا اور پانی بھرے بادلوں سے خوب پانی برسایا تاکہ اس کے ذریعے سے اناج اور سبزیا ں اور گنجان باغ پیدا کریں نیز ارشاد فرمایا کہ انسان کو خدا کی مار ہو وہ کیسا ناشکرا ہے خدا نے اس کو کس چیز سے بنایا ہے اس کو ایک بوند سے بنایا ہے اس کو بنایا ہے اور پھر اس کے اعضاء میں اندازہ رکھا پھر اس کے واسطے راستہ آسان کر دیا پھر اس کو موت دی پھر قبر میں رکھوایا پھر جب چاہے گا اس کو قبر سے زندہ کر کے اٹھاوے گا ہرگز شکر گزار نہیں جو اس کو حکم کیا اس کو پورا نہیں کیا پس انسان کو غور کرنا چاہیے اپنے کھانے میں کہ ہم نے پانی برسایا پھر زمین کو پھاڑا پھر اس میں غلہ اگایا اور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گنجان باغ اور میوا اور چارا یہ سب چیزیں پیدا کیں تمہارے نفع کے لیے اور بعض تمہارے مویشی کے واسطے ا
آپﷺ نے اس آیت کے متعلق انافی خلق السموت والارض‘‘ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ہلاکی ہے اس شخص کے واسطے جس نے ان چیزوں میں غور نہیں کیا اور ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک جماعت نے اﷲ تعالیٰ میں غور کیا اس پر رسول کریم ﷺِنے ارشاد فرمایا کہ تم اﷲ کی مخلوق میں غور کرو اور ذات خدا وندی میں غور نہ کرو کیونکہ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے ۔اور ارشاد فرمایا ہے حق تعالی ٰ نے کہ دیکھ تو رحمت خدا وندی کی نشانیوں کی طرف زمین کو مردہ ہونے کے بعد کس طرح زندہ کردیتا ہے بلا شبہ وہ مردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے نیز ارشاد فرمایا خدا عزوجل نیکہ بے شک اس میں غور کرنے والوں کے واسطے نشانیاں ہیں اور ارشاد فرمایا کیا وہ لوگ اپنے اندر غور نہیں کرتے اور ارشاد فرمایا کہ کیا وہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اور نیز ارشاد فرمایا کہ یہ بابرکت کتاب ہے اس کو ہم نے آپ پر نازل کیا تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ سمجھدار لوگ نصیحت حاصل کریں اور ارشاد فرمایا کہ اس عبرت ہے اہل فہم کے لیے اور نیز ارشاد فرمایا کہ ان انبیاء اور سا بقین کے قصہ میں سمجھدار لوگوں کے لیے بڑی عبرت ہے اور نیز ارشاد فرمایا کہ بے شک اس میں نشانی ہے اس قوم کے لیے جو سمجھتی ہو ۔صدق اﷲ العلی العظیم و صدق رسولہ النبیی الکریم
عقل کا استعمال کیا ہو؟
آپ کے سامنے میں نے چند آیت مبارکہ کی تلاوت کی ہے او ر چند احادیث شریفہ کی بھی تلاوت کی ہے اور اس کا ترجمہ بھی عرض کر لیا ہے اور اس سے آپ نے اندازہ لگا لیا ہو گا کہ اس کا موضوع کیا ہوگا ۔اﷲ جل شانہ نے ہمارے اوپر کرم کر کے ہمیں ایک بہت ہی عظیم چیز عطا فرمائی ہے جس کی ہمیں بہت ہی قدر کرنی چاہیے ۔جو ہمیں جانوروں سے ممتاز کر لیتی ہے اور وہ ہے عقل ۔اﷲ جل شانہ نے ہم سب کو عقل عطا فرمائی ہے ۔اب دیکھ لیں کوئی بادشاہ اگر کسی شخص کو گھوڑا عطا فرمائے بہت اصیل گھوڑا، بہت صحیح گھوڑا، طاقتور، چست، تند رست اور توا نا گھوڑا عطا فرمائے تاکہ اس سے اپنے ذات کے لیے فائدہ اٹھا ئے اور بادشاہ کی بھی خدمت بھی کرے ۔اب اگر وہ شخص اس گھوڑے کو بادشاہ کے خلاف استعمال کرے اور اس کے مقابلے میں اس کو لے آئے تو کتنی بد بختی کی بات ہوگی اور وہ بادشاہ اس پر کتنا ناراض ہو گا ۔تو یہی بات ہے یہ عقل جو ہے یہ ہمارے لیے گھوڑا ہے۔ بہت ہی تند اور تیز اور بہت مفید، بہت سارے مسائل اسکے ذریعے حل ہو تے ہیں اور جس طرح ہمیں ارشاد فرمایا ہے کہ کائنات کے اندر غور و فکر کرنے سے مخلوقات کے اندر غورو فکر کرنے سے اپنے اندر غور وفکر کرنے سے اپنے گرد و پیش میں غور وفکر کرنے سے ہم اﷲ کو پہچان سکتے ہیں اور یہ عقل کے بغیر ممکن نہیں ہے تو اﷲ جل شانہ نے ہمیں جو عقل عطا ء فرمائی ہے اس پر ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے اور اس کو اسی مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے جس کے لئے اﷲ نے دی ہے۔
اپنے آپ کو دریافت کرلو
اﷲ جل شانہ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ دیکھو میں نے کیسے تمہیں بنایا ہے ۔یعنی ہماری پیدائش کا جو طریقہ ہے وہ کیا ہے وہ ایک گندے پانی سے ہم وجود میں آئے ہیں ۔پھر اﷲ جل شانہ نے ہمیں بہت خوبصورت شکل عطاء فرمائی ہے اور اگے جا کر ہم جب نافرمانیوں میں پہ اتر آتے ہیں تو پھر ہم جانوروں سے بھی پست زندگی گزارلیتے ہیں ۔ ہمارے لیے اﷲ جل شانہ نے کائنات کو مسخر کیا اور ہمیں اﷲ جل شانہ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ۔کائنات ہمارے لیے ہے اور ہم خدا کے لیے ہیں ۔آپ ذرا تھوڑا سا اندازہ کر لیں اگر کوئی مصیبت کا وقت آجائے تو ہم اس وقت کیا کہتے ہیں ۔مسنون طریقہ کیا ہیں ۔اناﷲ وانا الیہ راجعون ‘‘۔یہ کلمہ صرف مصیبت کے وقت کا نہیں ہے لیکن مصیبت کے وقت بہت مفید ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مصیبت کے وقت میں انسان کو شیطان بغاوت کے اوپرابھارتا ہے ۔اور جب اس کو پتا ہوتا ہے کہ یہ اﷲ کی طرف سے ہے یہ چیز آئی ہے تو نعوذباﷲمن ذالک۔عین ممکن ہے کہ شیطان انسان کو اﷲ تعالیٰ کا دشمن نہ بنا دے ۔اپنا ہم نوا نہ بنا دے ۔اس موقع کے لیے اس آیت کریمہ کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ذرا غور کرلیں ۔ایک تو یہ ہوتا ہے بس اس کا پڑھنا مسنون ہے ۔
اناﷲ وانا الیہ راجعون کا مطلب؟
لیکن ذرا اس کے اندر غور کرلیں کہ ہم کہتے کیا ہیں اس میں ہم کہتے ہیں انا ﷲ وانا الیہ راجعون ‘‘ بے شک ہم اﷲ کے لیے ہیں اور بے شک اﷲ کی طرف لوٹ کے جانے والے ہیں ۔تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے اوپر جو بھی تکلیف آئی ہے اﷲ جل شانہ نے اس کو ہمارے لیے مقدر فرمایا تھا تو اس میں ہمار ے لئے کوئی حکمت ہو گی کیونکہ اﷲ جل شانہ نے جتنا ہمیں کچھ دے دیا ہے محض اپنے فضل سے دے دیا اس میں ہمارا کوئی استحقاق نہیں تھا ۔دیکھیں آج اگر مجھے کوئی آدمی کوئی اپنا کتاب دے دیتا ہے اور چند دن کے بعد مطالبہ کر لیتا ہے مجھے اپنی کتاب واپس کر لو، کیا خیال ہے میں اس کا دشمن بن جاؤں ۔کیا میں نعوذباﷲ من ذالک ‘‘اس کے بارے میں غلط سوچنا شروع کر دو ں یا اس کو برا بھلا کہنا شروع کردوں یہ شرافت کی با ت تو نہیں ہو گی یہ تو انتہائی پستی کی بات ہو گی تو اﷲ جل شانہ نے ہمیں جو بھی چیزیں دیں ہیں یہ محض اپنے فضل سے دی ہیں اور اﷲ ہی کی ملکیت ہیں ۔یہ جو ہماری جان ہے یہ ہماری نہیں ہے یہ اﷲ کی ملکیت ہے اور جب اﷲ چاہیں تو اس کو واپس لے لیتا ہے اگر یہ ہماری ہوتی تو خود کشی حرام نہ ہوتی ۔خود کشی اس لیے حرام ہے کہ اﷲ جل شانہ نے اس کو ہمارے ملکیت میں نہیں دیا بلکہ صرف استعمال کرنے کے لیے دیا اور اس پر ہمارے لیے پھر فیصلے فرمادیتے ہیں ۔اگر اس کو ہم صحیح استعمال کرتے ہیں تو پھر اﷲ پاک اس پر راضی ہوتے ہیں ۔اور ہمیں بہت زبر دست طویل زندگی کے لیے انتہائی خوبصورت جان عطا فرمادیتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے نصیب فرمادیتے ہیں اور اگر ہم نے انکار کر لیا ،اگر ہم نے نعمتوں کی نا شکری کر لی تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس جان کو تو لیا ہی جائے گا وہ تو ہم سب لوگوں سے لیا جانا ہے آگے جا کر جو جان عطا کی جائے گی وہ جان مصیبتوں کو جھیلنے کے لیے ہوگی وہ پرشانیوں کو سہنے کے لیے ہو گی اور ہمیشہ کے لیے پریشانیاں ۔اس وجہ سے ہمیں اپنے آپ کو پہچاننا چاہیے ۔جو شخص جتنا اپنے آپ کو جلدی پہچان گیا اتنا وہ فائدے میں ہے ۔اصل میں بات یہ ہے کہ ہم لوگ غور کر لیں تو اﷲ جل شانہ نے جو کچھ ہمیں دیا اپنے فضل سے دیا اور اﷲ جل شانہ کا کوئی ذاتی فائدہ نہیں ۔
فائدہ تو اپنا ہی ہے
اگر ہم ایک دن میں ہزار نمازیں پڑھ لیں، ہزار رکعت نمازیں پڑھ لیں کیا اﷲ تعالی ٰ کی خدائی میں کچھ اضافہ ہو جائے گا ۔یہ جو خیرات کرتے ہیں اﷲ پاک فرماتے ہیں کہ میرے راستے میں دے دو اور جو مجھے قرض دیتا ہے میں اس کو پورا پورا لوٹاتا ہوں تو یہ تواﷲ پاک نے اپنے فضل سے فرمایا کیا نعوباﷲ من ذالک ‘ہم اﷲ تعالی ٰ کے کسی کام کو بناتے ہیں ۔یہودیوں نے گستاخی کی تھی انہوں نے کہا تھا کہ کمال ہے مسلمانوں کا جو رب ہے وہ فقیر ہے ۔مسلمانوں کا رب فقیر ہے وہ مسلمانوں سے سے قرض مانگتے ہیں ۔یہ ان کی گستاخی کی بات تھی ۔اور ان کو ان گستاخیوں کی جو سزا مل گئی وہ ہم سب کو معلوم ہے ۔لیکن شیطان پھر بھی ہمیں نہیں چھوڑے گا باوجود ان تمام چیزوں کے جاننے کے شیطان ہمیں مصیبت میں ڈال سکتا ہے ۔پریشانیوں میں ڈال سکتا ہے ۔وہ چونکہ مصیبتوں میں گرفتار کرسکتا ہے تو اﷲ جل شانہ نے اتنی ساری آ یت کریمہ جو یہاں ہمارے لوگوں کے لیے اتاری ہیں صرف سمجھ کے لیے اتاری ہیں ۔صرف تھوڑا سا ہم اندازہ کر لیں کہ اﷲ جل شانہ نے ہمارے جسم کے اندر کتنے نظام ہمارے لیے بنائے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کرنا چاہئیے
دیکھیں اﷲ پاک نے دیکھنے کا ایک نظام بنایا ہوا ہے۔ اس میں اگر ذرہ بھر فرق آجائے تو زندگی اجیرن ہو جاتی ہے ۔ جو بے چارے نابینا ہوتے ہیں وہ کبھی کبھی بسوں میں چڑھ کر جب بھیک مانگتے ہیں تو کیا کہتے ہیں ۔اے آنکھوں والو آنکھیں بڑی نعمت ہیں اور میں آنکھوں سے محروم ہوں ۔یہی کہتے ہیں نا اور یہ بالکل صحیح بات کرتے ہیں ۔آنکھیں بہت بڑی نعمت ہیں ۔تھوڑاسا تصور کر لیں ہم تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں بند کرلیتے ہے ہمیں کچھ نظر نہیں آتا اس وقت ہمیں کیا محسوس ہوتا ہے کتنی دیر کے لیے ہم اپنے اراد ے سے آنکھیں بند کر سکتے ہیں ۔پانچ منٹ۔دس منٹ بیس منٹ نیند تو الگ بات ہے ۔ نیند میں تو انسان کو پتا نہیں چلتا ۔لیکن نیند کے علاوہ اگر کوئی آنکھ بند کرنا چاہے تو کتنی دیر کے لیے بند کرے گا ۔ بہت تنگی ہو جاتی ہے تکلیف ہو جا تی ہے ۔یہ اس صورت میں جب کہ صرف اپنی جگہ پر بیٹھا ہے، لیٹا ہوا ہے، ابھی ہل نہیں رہا ہے اور اگر وہ ہلنا شروع کر لے کوئی کام کرنا شروع کر لے پھر تو بہت ہی زیادہ احساس ہوتا ہے ۔بہت ہی زیادہ احساس ،وہ ٹٹول ٹٹول کر کے جو جا رہا ہوتا ہے یہ کوئی معمولی بات ہوتی ہے ؟ ہر وقت خطرہ۔ پتا نہیں کس چیز کے ساتھ گر جاؤں۔ وہ اپنے ساتھ سوٹی لیے ہوتے ہیں۔اس طریقے سے وہ جگہ کے بارے میں پتا کرکر کے جاتا ہے کہ میں کسی گڑھے میں گر نہ جاؤں ۔اب دیکھ لیں ہمیں تو گڑھا اتنادور سے نظر آرہا ہے ۔لیکن اس بے چارے کو اگر چند فٹ پہلے بھی گڑھا نظر آجائے تو بڑا شکر کرتا ہے ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ گڑھانظر نہ آئے اور وہ اس کے اندر گر پڑے ۔اس طریقے سے مسلسل وہ جا رہا ہوتا ہے کانوں کی نعمت کو دیکھو۔اگر کسی کو کان نہ ملے، کان سننے والے نہ ہوں، کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ اگر پیدائشی نہ ہو پھر تو زبان بھی نہیں چلتی پھر تو انسان گونگا بھی ہوتا ہے اور اگر پیدائشی بہرانہ ہوبعد میں کسی وجہ سے کان جواب دے چکے ہوں تو انسان کیسی مشکل میںہوتا ہے ۔چیخ چیخ کر باتیں کررہا ہوتا ہے ۔وہ سمجھتا ہے کہ شائد سارے بھاری سنتے ہو ں گے ۔ آپ نے دیکھا ہو گا جس کے کان پہلے تھوڑے سے کمزور ہوتے ہیں بہرے ہوتے ہیں پورے بہرے نہیں کچھ سنتے ہیں اور کچھ نہیں سنتے وہ بہت چیخ چیخ کر بول رہے ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو اپنا ذہن یہ بتاتا ہے کہ میری بات لوگ نہیں سن سکیں گے کیونکہ معمولی بات وہ نہیں سنتا خود اس طریقہ سے زبان کی نعمت کو دیکھیں اﷲ جل شانہ نے ہمیں زبان دی ہے سبحان اﷲ کیسی زبر دست پیاری چیز اس پہ اپنا مافی الضمیر ہم اپنا بیان کر سکتے ہیں ۔بہت آسان طریقے سے بیان کر سکتے ہیں دیکھیں ایک چھوٹا بچہ ابھی سال ڈ یڑھ سال کا ہوتا ہے وہ اپنی توتلی زبان سے باتیں کرنا شروع کر لیتا ہے اور اپنی بات اپنے والدین کو سمجھانے کے قابل ہو جاتا ہے ۔آہستہ آہستہ ۔اور اگر تھوڑ سا ذہین ہو جائے ذہن کام شروع لے اور زبان نہ چلے تو بچے کو بڑی تکلیف ہوتی ہے اور بعض دفعہ جنجھلا تا ہے کہ میں ایک بات کرنا چاہتا ہوں اور بات کیوں مجھ سے نہیں ہو رہی ہے۔ وہ جنجھلاپڑتا ہے ۔اچھا اس طرح ہم کھاتے ہیں کھا نا نگلنا ،کیا یہ ہمارے بس میں ہے ؟یہ ہمارے بس میں نہیں ہے ۔ہم لوگ چونکہ کھانے کوآسانی سے ساتھ نگلتے رہے ہیں اﷲ تعالیٰ کے فضل سے۔ ہمیں اس کی قدر ہی نہیں ہے ۔ یہاں تھوڑے سےmovement﴿حرکتیں﴾ وغیرہ ہوتی ہیں نا اس کے ساتھ۔ اگر یہ موومنٹس کام نہ کرنا شروع کر لیں پھر دیکھیں ایک دانہ کوئی کیسے نگل سکتا ہے ۔یہ آسان بات نہیں ہوتی اگر کسی وہ چیز چھین لی جائے تو پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے اور کھانا نگلا ہضم نہ ہوا پھر کیا کریں گے ۔وہ بڑی مصیبت اور ہضم بھی ہوگیا لیکن اس کا جو فضلہ ہے وہ باہر نہیں نکل رہا پھر اس کے ساتھ کیا کرو گے ؟ ہر ہر چیز میں ہم اﷲ کے فضل کے محتاج ہیں ۔ہر ہر چیز میں ہم اﷲ تعالیٰ کے فضل کے محتاج ہیں ۔
پیشاب کے صحیح طور ہر خا رج ہونے میں بھی ہم اﷲ تعا لیٰ کے محتاج ہیں ۔وہ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک ایسے صا حب تھے جس کی آنکھیں بھی نہیں تھیں کان بھی نہیں تھے ہاتھ بھی نہیں تھے پاؤں بھی نہیں تھے ایک عجیب قسم کی مخلوق تھی ظاہر ہے بس ایک لوتھڑا پڑا تھا تو صحابہ کرام سے آپﷺِ نے پوچھا کیا یہ شخص بھی شکر کرے گا ۔تو انہوں نے کہا حضرت حیرت ہوتی ہے یہ کس طرح شکر کرے گا تو فرمایا اس کوبھی شکر کرنا پڑے گا کیوں پیشاب کا نظام تو اس کا ٹھیک ہے نا۔ اﷲ جل شانہ نے اس کو یہ راستے تو صحیح دیے ہیں ہاں۔ یہ والی بات ہے ۔یہ ہمارے بالوں کا نظام اگر گڑبڑ ہو جائے پسینہ آنا بند ہوجائے ۔اس کے ساتھ کیا کریں گے ؟ہر طرف اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں میں گھرے ہوئے ہیں۔
ہم ناقدرے ہیں
ہر ہر نعمت وہ قابل قدر ہے لیکن ہم لوگ بہت ہی ناقدرے ہیں۔ اﷲ پاک خود ہی فرماتے ہیں یہ انسان بہت ہی ناشکرا ہے ۔بہت ناشکرا ہے
وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا﴿۱﴾ فَالْمُوْرِیٰتِ قَدْحًا﴿۲﴾ فَالْمُغِیْرٰتِ صُبْحًا﴿۳﴾ فَاَثَرْنَ بِہٰ نَقْعًا﴿۴﴾ فَوَسَطْنَ بِہٰ جَمْعًا﴿۵﴾ اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّہٰ لَکَنُوْدٌ﴿۶﴾ وَاِنَّہ، عَلٰی ذٰلِکَ لَشَھِیْدٌ﴿۷﴾
ہاں اﷲ جل شانہ گھوڑ ے کی مثال دے رہے ہیں ۔ دیکھو گھوڑے کو صرف چنا ملتا ہے۔ چارا ملتا ہے۔ مالک اس کو چارا دیتا ہے۔ اب دیکھ لیں وہ گھوڑا انسان کے لیے کیا کرتا ہے وہ گھوڑا انسان کے لیے دوڑتا ہے، بھاگتا ہے، جھبٹتا ہے، اور لشکر کے اندر گھس جاتا ہے، ٹاپیں مارتا ہے اپنے زخم کی پروا نہیں کرتا ،، یہ کیا ہے؟ دیکھیں یہ کیا چیز ہے، اس گھوڑے میں زیادہ وفاداری ہے انسان کے مقابلے میں ۔اب ذرا تھوڑا سا دیکھیں تو سہی اس گھوڑے کو ملتا کیا ہے ؟لیکن اس کے جواب میں وہ کیا دیتا ہے؟ اپنی جان تک دے جاتا ہے ۔یہ کتے کا حال ہے کتے کا یہی حال ہے کتا بھی وفاداری میں جان تک دے دیتا ہے ۔اصل میں بات یہ ہے کہ ساری چیزیں جو ہیں وہ سرنڈر کر جاتی ہیں لیکن یہ انسان جو ہے نا جس کو اختیار ملا ہے اور جس کو ہر ہر چیز سے اجر مل رہا ہے اس کو شیطان ایسا ظالم شیطان ایسا ظالم ہے کہ ایسا گمراہ کردیتا ہے کہ اپنے خالق سے لڑا دیتا ہے بہت ہی خطر ناک بات ہے تو بہر حال یہاں ہر اﷲ پاک نے فرمایا کہ
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُوْلِی الْاَلْبَابِ﴿۰۹۱﴾
یہ اﷲ جل شانہ نے کائنات کے بارے میں فرمایا ہے ۔بے شک کائنات کی تخلیق میں اور دنوں کے الٹ پھیر میں عقل مندوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں ۔
اصل عقلمند کون؟
اب دیکھ لیں کچھ لوگ تو عقل مند سائنس دانوں کو کہیں گے ۔کچھ لوگ عقل مندان کو کہیں گے جو مجلس میں بیٹھ کر بڑی پکی پکی باتیں کرتے ہیں ۔کچھ لوگ عقل مند بہت زیادہ مالداروں کو کہیں گے کچھ جو بڑے چوہدری یا بڑے خان ہیں ان کو عقل مند کہیں گے۔ صحیح بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ضروری نہیں ہے کہ عقل مند بھی ہو جب تک وہ دو شرطیں پوری نہ کرے جو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک عقل مندی کا ثبوت ہیں۔ وہ کیا ہے؟ اﷲ جل شانہ نے ان میں سے کسی کا نام لیا ہے یا نہیں لیا ’اﷲ پاک کیا فرماتے ہیں
الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُودًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا۔ سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴿۱۹۱﴾
اﷲ جل شانہ عقل مندی کا عجیب تعریف فرما رہے ہیں فرما رہے ہیں عقل مند وہ ہے جو کھڑے بیٹھے اور لیٹے اﷲ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں ۔اﷲ اکبر ۔کیا عجیب بات فرمائی اگر اس کو آیت بنا کرنہ بتایا جائے ۔قرآن کی آیت بنا کر نہ بتایا جائے۔تھوڑا سا آپ ذرا غور تو کر لیں لوگ اس کو آسانی کے ساتھ مان لیں گے ؟آج کل تو نعوذباﷲ من ذالک جو ذکر کرنے والے بیٹھے ہوتے ہیں، ان کو سب سے زیادہ بے وقوف سمجھا جاتا ہے ، نکما سمجھا جاتا ہے اور اﷲ تعالی ٰ اس کو عقل مند بتا رہے ہیں ۔ایک عالم کے ساتھ میں سفر میں تھا ہماری باتیں دینی باتیں تھیں بے دینی کی باتیں نہیں تھیں الحمدﷲ دین کی باتیں میں ان سے سیکھ رہا تھا اور حضرت بتاتے جاتے تھے لیکن تھوڑی دیر کے بعد حضرت نے جیب سے تسبیح نکالی۔ فرمایا اچھا باتیں تو بہت ہو گئیں چلو تھوڑا سا کام کر لیتے ہیں ۔میں بڑا حیران ہو گیا میں نے دل میں کہا کہ کیسے عجیب انداز سے سمجھایا ۔باتیں تو بہت ہو گئیں چلو تھوڑا سا کام کرلیتے ہیں ۔صحیح بات یہ ہے کہ ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے ذکر کو اپنا کام سمجھا ہو۔ یہ کوئی آسان بات نہیں ہے سمجھنا۔ یہ چیز بھی اﷲ والوں کی برکت سے ملتی ہے ۔ورنہ پوری زندگی کزر جائے گی اور پتا نہیں چلے گا کہ یہ کوئی کام کی بات ہے ۔اور پتااس وقت چلے گا جب سر پر خاک پڑ چکی ہو گی ۔اس وقت پتا چل چکا ہوگا او ہو یہ تو ہم نے پوری زندگی ضائع کردی، بات تو یہ تھی ۔دیکھیں اس پہ کچھ وقت ہمارا نہیں لگتا ۔کچھ انرجی ہماری نہیں لگتی اور ظاہر ہے کوئی زورنہیں لگانا پڑتا۔ پابندیاں کم سے کم۔ ذکر پر کتنی پابندیاں ہیں ؟ نماز پر تو پابندی ہے، وضو کرنا چاہیے، وقت داخل ہونا چاہیے ۔جو شرائط ہیں وہ تمام پوری ہونی چاہئیں ۔حج پربھی پابندیاں ہیں ۔روزے پر بھی پابندیں ہیں زکوٰۃ پر بھی ہیں ۔ سب چیزوں پر ہیں لیکن پابندی نہیں ہے تو اﷲ کی یاد پر نہیں ہے ۔کوئی پابندی نہیں ہے ۔صرف اتنا ہے کہ ٹائلٹ میں نہ کرو ۔اور اگر قلبی ذکر ہو تو وہ توٹائلٹ میں بھی کیا جا سکتا ہے ۔تواب دیکھ لیں پابندی کوئی نہیں اور اجر اتنا زیادہ ہے، اتنا زیادہ ہے کہ جو حدیث شریف بیان ہو رہے ہیں اس کے بارے میں انسان حیران ہو جاتا ہے یا اﷲ تو کتنا کریم ہے ۔تو کتنا کریم ہے، کتنا کریم ہے کہ ہمیں کتنی اسانی سے دے رہا ہے ۔بعض لوگ احادیث شریف کےا ندر جب بات آجاتی ہے تو وہ کہتے ہیں یہ ضعیف احادیث ہیں اول تو یہ بات ہے کہ وہ ساری احادیث ضعیف نہیں ہیں ان میں صحیح بھی ہیں لیکن چلو شیطان تو ورغلاتا ہے شیطان کا کام ہی کیا ہے وہ کسی بھی مفید چیز سے انسان کو روک سکتا ہے ۔تو میں بتاتا ہیں قرآن بتاتا ہوں قرآن تو ضعیف حدیث نہیں ہے نا ۔ قرآن کیا بتا رہا ہے
فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْالِیْ وَ لَا تَکْفُرُوْنِ ﴿۲۵۱﴾
پس مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا ۔میری نعمتوں کا شکر ادا کرو اور میری نعمتوں کا انکار نہ کروجس کو اﷲ جل شانہ گارنٹی دیں یہ عمل کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا تو اس کیا مقام ہوگا؟آج اگر کوئی ڈپٹی کمشنر ۔ایس ’ایچ ’او۔ڈی ’ایس ’پی اور ہسپتال میں ڈاکٹر کسی کو کہہ دے کوئی فکر نہ کرو بس آجاؤ میں تمہیں یاد رکھوں گا تومجھے یاد رہے گا۔ کتنا خوش ہوتا ہے آدمی اس سے ۔ کام ہو گیا جی۔اس میں ہمارا آدمی ہے اس میں ہمارا آدمی ہے جی بالکل وہ ہے ۔وہ آدمی کتنا کار آمدہوگا جو یہ کہتا ہے کہ تو مجھے یاد ہے وہ کتنا دے سکتا ہے تمہیں ۔خود محتاج ہے ۔اگر اﷲ نہ چاہے تو کچھ نہیں دے سکتا تمہیں ۔لیکن وہ احکم الحکمین ذات تمہیں کہہ کرہا ہے ۔تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یادرکھوں گا ۔پھر بتا دو ذکر کے وزن کا پتا چل گیا ۔ذکر کتنی بڑی چیز ہے ۔اﷲ جل شانہ یہ فرمارہے ہیں میں تمہیں یاد رکھوں گا ۔اﷲ اکبر ۔اﷲ پاک فرماتے ہیں
اَلَا بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ﴿۸۲﴾
تمہاری دنیا کی سب سے قیمتی چیز میں نے ذکر کے اندر رکھی ہے ۔اور وہ دل کا اطمینان ہے ۔ اگر دل کا اطمینان کسی کا لٹ جائے تو کیا کروڑوں سے مل سکتا ہے ۔اربوں سے مل سکتاہے ۔نہیں مل سکتا یہ نعمت اﷲ ہی دیتا ہے اﷲ کے پاس ہے۔ اﷲ کی طرف سے آتا ہے اور اﷲ نے اس کو ذکر میں رکھا ہے ۔پس ارشاد فرماتے ہیں آگاہ ہو جاؤدلوں کو اﷲ کی یاد سے اطمنان ہو جاتا ہے ۔یہ اﷲ جل شانہ نے فرمایا ہے ۔او ریہاں پر کیا فرمایا ہیے یہ بھی تو قرآن ہی ہے نا ۔یہ بھی قرآن ہی ہے ۔تو قرآن میں فرمارہے ہیں کہ عقل مند وہ ہے جو کھڑے بیٹھے لیٹے اﷲ کو یاد کرتے ہیں ۔
ذکر کے ساتھ فکر بھی
اور پھر آگے ایک اور بات بھی فرماتے ہیں
وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ
اور کائنات کی تخلیق میں غور کر تے ہیں ۔تھوڑی سی ایک بات عرض کرنی ہے کہ فکر کیا چیز ہے ۔علماءکرم فرماتے ہیں کہ فکر یہ چیز ہے کہ دو معلومات ہوں اس کے ذریعے تیسری کوئی چیز معلوم کرسکتا ہو ۔مثلاًمجھے پتا ہے کہ سردی ہے اور سردی سے نقصان ہوتا ہے ۔دو باتیں مجھے معلوم ہو گئیں اب تیسری بات خودبخود، اگر مجھ میں عقل ہے، تو یہ آنی چاہیے میرے ذہن میں کہ سردی سے بچنا چاہیے ۔سردی سے بچنا چاہیے ۔یہ چیز خود بخود آنی چاہیئے ۔یہ ہے فکر ۔غور کروگے پتا چل جائے گا کہ سردی سے بچنا چاہیے ۔اب سردی سے کیسے بچا جائے پھر اس کے لیے غور کرو ۔ پتا چل گیا کہ آگ کے پاس آدمی بیٹھ جائے تو سردی نہیں لگتی یا لحاف میں گھس جائے تو سردی نہیں لگتی۔ معلومات ہو گئیں۔ اب اس کے بعد لحاف کی فکر ہو گئی۔آگ ملنا چاہیئے یا لحاف ملنا چاہیے۔ گرم کپڑوں کو تلاش کرنا چاہیے ۔یہ سارے کہ سارے فکر کے ذریعے پھر حاصل ہوتی ہیں ۔ہماری انجینرنگ کیا ہے فکر ہے ۔ ہما ری میڈیکل کیا ہے فکر ہے ۔ہمارا کاروبار کیا ہے فکر ہے ۔کیوں سب یہ عقل اور ذہن کی برکت سے یہ چیزیں حاصل ہوتی ہیں لیکن اگر تھوڑا سا غور کریں ۔یہ ہمارا ذہن اور جوعقل ہے اگر دل کے اندر دنیا ہو گی تو یہ کس کے لیے استعمال ہو گا۔ اگر ہمارے دل کے اندر دنیا ہے تودنیا کے لیے استعمال ہوگا۔مجھے پتا ہے کہ میں نے بننا ہےگا ؤں کا چوہدری اور گا ؤں کا چوہدری میں تب بنوں گا کہ جو دوسرے لوگ چوہدراہٹ کے امید وار ہیں ان کومیں اپنے راستے سے ہٹا وں ۔یہ سب فکر کی بات ہے ۔میں ان چوہدریوں کو راستے سے ہٹا وں ۔اب عقل جو اﷲ نے مجھے دی ہے میں نے اس کے پیچھے لگا دیا ان کو راستے سے کیسے ہٹانا ہوگا ۔اس کے لیے پتا چل گیا کچھ نہ کچھ اسلحے کا بندو بست کرنا پڑے گا ۔کچھ نہ کچھ جھوٹ کا بندو بست کرنا پڑے گا ۔کچھ نہ کچھ دھوکہ کرنا ہوگا کچھ فراڈ کرنا ہوگا یہ ساری فکر کی باتیں ہیں ۔یہ ساری فکر کی باتیں ہیں ۔اور یہ فکر ہمارا چل رہا ہو گا ۔حتیٰ کہ یہی فکر ہمیں جہنم پہنچا دے گا ۔ بات سمجھ آرہی ہے نا ۔کیوں جہنم میں پہنچایا کیونکہ ہمارے دل کے اندر دنیا بسی ہوئی ہے تو آپﷺ ارشاد فرماتے ہیں حب الدنیا رٲس کل خطیئۃ۔دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے ۔اگر دنیا کی محبت ہمارے دل میں ہوگی ۔ہمارے ہاتھ بھی دنیا کے لیے استعمال ہوں گے ۔ ہمارے پاؤں بھی دنیا کے لیے استعمال ہوں گے ۔ ہمارا ذہن بھی دنیا کے لیے استعمال ہماری آنکھیں بھی دنیا کے لیے استعمال ہمارے کان بھی دنیا کے لیے استعمال ۔ہاں دل کے اندر دنیا کی محبت ہے ۔ایسی عجیب چیز ہے لیکن اس دنیا کی محبت کو کسی ذریعے سے نکال باہر کیا تو بچت ہوجائے گی لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا میں نے کہا ہے۔ ایسا آسان نہیں ہوتا ۔بہر حال میں فرض کر لیتا ہوں ہم نے دنیا کی محبت کو دل سے نکال دیا ۔تو دل خالی تو رہے گا نہیں۔کیا دل خالی رہ جائے گا ۔دل خالی نہیں رہے گا اس کے اندر اس کے ضد والی محبت آئے گی اور وہ ضد والی محبت کیا ہے اﷲ تعالیٰ کی محبت ہو گی ۔جب دل میں اﷲ کی محبت آئے گی تو اب عقل بھی اﷲ کے لیے استعمال ہو رہا ہے ۔اﷲ تعالی ٰ کو خوش کرنے کے لیے استعمال ہورہا ہے ۔ذہن بھی ﷲ تعالی ٰ کو خوش کرنے کے لیے استعمال ہورہاہے۔میرے ہاتھ بھی اﷲ تعالیٰ کوخوش کرنے کے لیے استعمال ہورہے ہیں ۔میرے پا ؤں بھی اﷲ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے استعمال ہورہے ہیں ۔میری آنکھیں بھی میرے کان بھی میری زبان بھی سب چیزیں اﷲ تعالیٰ کو خوش کرنے میں لگ گئیں ۔اب بتا دو یہ ساری چیزیں کیسے ہو گئیں ۔یہاں کیا آپ نے اپنے کان کو تبدیل کیا ناک کو تبدیل کیا زبان کو تبدیل کیا آنکھ کو تبدیل کیا ۔کوئی بھی چیز تبدیل نہیں ہوئی ۔بس ڈرائیور کو تبدیل کر لیا ۔ ان تمام چیزوں کا ڈرائیور کون ہے ؟
دل بدلنے سے سب کچھ بدلتا ہے
ان تمام چیزوں کو ڈرائیور دل ہے ۔دل کو تبدیل کر لیا ۔اب دل کے اندر دنیا نہیں، دین ہے۔ دل کے اندردنیا کی محبت نہیں آخرت کی محبت ہے، اﷲ تعالیٰ کی محبت ہے۔ اب دل نے حکم دیا ذہن کو کہ کوئی ایسا راستہ نکا لو جو مجھے اﷲ کا مقرب بنادے ۔اور دل نے حکم دے دیا ہے ۔اب ذہن تو ضرور اس طرح کرے گا نا ۔ذہن نے کام کرنا شروع کرلیا کہ اس کا کیسے پتا چلے گا۔ ذہن نے غور کیا فکر کیا تو پتہ چلا کہ ایک صادق آدمی ایک صادق شخضیت آئے تھے ۔اس کانام تھا محمد ﷺِ ،یہ سب معلومات ہیں ، محمدﷺ تشریف لائے ۔محمدﷺِ نے فرمایا تھا دو چیزیں تم میں چھوڑے دیتا ہوں ،ایک قرآن اور دوسری میری سنت۔ اگر ان کو پکڑے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے ۔چلو پتا چل گیا اب ذہن نے کام کرنا شروع کر لیا ۔قرآن بھی پڑھنا شروع کر لیا حدیث بھی پڑھنا شروع کر لیا حدیث اور قرآن سے پتا چل گیااگر حضور ﷺِ کی سیرت پر چلو گے، حضورﷺِ کا اتباع کرو گے تو اﷲ پاک تمہیں اپنا محبوب بنا لے گا ۔ یہ سب ذہن کی باتیں ہیں ۔معلوم کس طرح ہوئیں؟ ذہن کی برکت سے ۔عقل کے استعمال سے۔ پتا چل گیا کہ اﷲ جل شانہ کس چیز سے خوش ہوتے ہیں ۔جب معلوم ہو گیا تواب اس پر کام کرنا شروع کردیا ۔اب ہاتھ بھی سنت میں استعمال ہورہے ہیں ۔پاؤں بھی سنت کے لئے ستعمال ہورہے ہیں ۔آنکھیں بھی سنت کیلئے استعمال ہورہی ہیں ۔پورا کارخانہ بدل گیا ۔اور یہ سب اس حدیث شریف کی برکت ہے جس آپ ﷺِ فرماتے ہیں جسم کے اندر ایک گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ ٹھیک ہو جائے پورا جسم ٹھیک ہوجائے گا اگر اس میں فساد آئے گا تو پورے جسم میں فساد آجائے گا ۔بات صحیح ہے کہ نہیں ۔پورے جسم میں فساد آجائے گا ۔اور فرمایا کہ آگاہ رہو کہ وہ دل ہے ۔آگا ہ رہو کہ وہ دل ہے ۔ اﷲ جل شانہ حکم دیتے ہیں اﷲ جل شانہ اطلاع دیتے ہیں ذہن میں یہ بات آرہی ہے کہ اﷲ پاک فرمارہے ہیں
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآء اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ
﴿آگاہ ہوجاؤ جواﷲ کے دوست ہیں نہ ان کو خوف ہوگا نہ غمگین ہوں گے ۔نشانی بتا رہے ہیں اﷲ پاک کہ وہ ایمان والے ہوں گے اور متقین ہوں گے ۔اﷲ اکبر۔ذہن نے کام شروع کرلیا ۔تقویٰ کیا چیز ہے ۔اﷲ پاک تو فرما رہے ہیں، ایمان والے ہوں گے اور تقویٰ والے ہوں گے ۔اچھا یہ تقویٰ کیا چیزہے ؟ اس کے بارے میں آپ ﷺِ نے ارشاد فرماتے ہیں
تقویٰ ھٰھنا۔تقویٰ ھٰھنا ۔ واشارالی القلب
تقویٰ یہاں پر ہے ۔ تقویٰ یہاں پر ہے ۔تقو یٰ یہاں پر ہے او ر دل کی طرف اشارہ فرمایا ۔اﷲ اکبر ۔کیا پتا چلا حضورﷺِ سے جو اﷲ کے سچے رسول ہیں۔ انہوں نے سچی ااطلاع کر دی ۔اگر کامیاب ہونا چاہتے ہو تو اپنے دل کو بنا لو ۔اگر کامیاب ہونا چاہتے ہو تو اپنے دل کو بنا لو ۔ پتا تو چل گیا ذہن کو لیکن کام کرنا پڑے گا دل پر ۔ جب د ل پر کام کرو گے دل بن جاے گا ۔سبحانﷲ !اس کے بعدپھر کیا ہوگا ؟ ہر چیز اﷲ کے لیے ہوجائے گی۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون کی عملی تفسیر سمجھ میں آجائے گی ۔ہر چیز اﷲ کے لیے ہو جائے گی ۔ ہرچیز اﷲ کے لیے ہو جائے گی ۔ پھر ہر چیز میں اﷲ یاد آئے گا ۔ بازار جاتا ہوں بازار میں بھی اﷲ یاد ۔مسجد میں تو خیر اﷲ ہی یاد ہوگا ۔ قبرستان جاتا ہوں اﷲ یاد ۔دفترجاتا ہوں تو اﷲ یاد ۔ کسی سے بات کرتا ہوں تو اﷲ یاد ۔یہی تو یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُودًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ
ہے۔صل ذکر تو یہی چیز ہے ۔یہ جو ہم تسبیح کے ساتھ ذکر کرتے ہیں یہ ذکر کی صورت ہے یہ جو تسبیح کے ساتھ کرتے ہیں ۔ یہ ذکر کی صور ت ہے ۔
ذکر کی حقیقت
ذکر کی حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ہر وقت اﷲ یاد رہے ۔دیکھیں کیا مجھے یہ پتا نہیں ہے کہ میں اس وقت پنڈی میں ہوں ۔مجھے ہر وقت یاد ہے نا یہ یا کسی کو بتاناچاہیئے مجھے ہر پانچ منٹ کے بعد کہ تم پنڈی میں ہو ۔دس منٹ کے بعد مجھے کوئی بتائے تم پنڈ ی میں ہو آپ کہیں گے کہ کیا احمق آدمی ہو مجھے یاد ہے نا میں پنڈی میں ہوں۔ میں کہیں اور تو نہیں ہوں ۔ہاں اس طرح ہمیں اﷲ یاد رہے۔ ہر وقت اﷲ یاد رہے ۔ جیسے کوئی ڈرئیور ڈرائیونگ کرتا ہو ۔تو گاڑی چلا رہا ہو بے شک مری کے موڑ ہوں اور آپس میں بات چیت بھی ہورہی ہو ۔سب کچھ ہو رہا ہوگا لیکن اس کی آنکھوں کا اور ذہن کا ایک خاص حصہ سڑک کی طرف متوجہ ہوگا ۔اگر وہ خاص حصہ آنکھوں کا اور ذہن کا وہ حصّہ سڑک کی طرف متوجہ نہیں رہا تو نتیجہ کیا ہوگا ۔ایک زبر دست خبر کل اخبار میں آجائے گی ایک بے بس کار والا گہرے کھڈ کے اندر گر گیا اور اس جہاں سے چلا گیا ۔یہی ہو گا نا پھر ۔تھوڑی دیر کے لیے غفلت انسان کو کہا ں سے کہاں پہنچا دیتی ہے ۔یہی چیز ہوتی ہے ہمارے سا تھ ہوتی ہے ہر وقت ۔اگر ہمیں ہر وقت اﷲ تعالیٰ یاد ہے تو ہر وقت اﷲ تعالیٰ کو راضی کریں گے اور اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچیں گے ۔کسی وقت غفلت ہو گئی بس وہاں پر مسئلہ ہو گیا کیونکہ شیطان تو تاک میں ہے ۔ایک طرف اﷲ جل شانہ کا سگنل آرہا ہے دل کے اندریہ کرو یہ کرو یہ کرو ، وصول ہورہا ہے دل رسیور ہے وہ وصول کر رہا ہے ۔سگنل وصول کر رہا ہے ۔اگر تم ذکر کر رہے ہو تو اس سگنل کو مسلسل رسیو کر رہے ہو گے ۔اور اﷲ جل شانہ تمہیں گائڈ کرتا رہا ہو گا ۔آج کل کے ایسے گائڈڈ سسٹم ۔سٹلائٹ گائڈڈ سسٹم ۔ہاں ٹھیک ہے سٹلائٹ گائڈڈ سسٹم ہے ۔لیکن ہمارے لیے تو ہر وقت سٹلائٹ گائڈڈ سسٹم کے اوپر گائڈڈ سسٹم موجود ہے ۔ہاں ہر وقت گائڈنگ سسٹم موجود ہے لیکن یہ گائڈڈ سسٹم جو ہے یہ تب ہوگا جب ہم ذاکرین میں سے ہوں گے ۔جب ہمارا دل اﷲ تعالیٰ کے ساتھ ہو گا ۔اس وقت مسلسل اﷲ تعالیٰ کے طرف سے سگنل آرہے ہوں گے یہ کرو اب ،یہ کرو اب، یہ کرو اب ،یہ کرو اب ،اور وہ کام کرتے رہیں گے ۔اﷲ والوں کے ساتھ یہی ہوتا ہے ۔اور اگر ایسی بات نہیں ہے ۔تھوڑی سی درمیا ن میں غفلت ہوگئی یک دم شیطان نے انٹرپشن کر د ی اور وسوسوں کے انجکشن دل کے اندر لگا دی ۔وہ موقعے کے تاک میں بیٹھا ہوتا ہے۔ سگنل دل وصول کرتا ہے رحمٰن کا بھی اور شیطان کا بھی اور ہمارے پاس اس کے لیے یہ کنٹرول سسٹم ہے کہ ہم ہر وقت ذکر کرتے رہیں ۔جب تک اﷲ تعالیٰ ہمیں یاد رہے گا اﷲ جل شانہ کا سگنل وصول ہو تا رہے گا اور شیطان بے بس ہو جائے گا اور اگرایسا نہیں ہے تو پھر شیطا ن کا وار چل پڑے گا اور ہم بے بس ہوجائیں گے۔ شیطان اپنا کام کر جائے گا تو ہر وقت کا ذکر کرنا ہماری مجبوری ہے اور ہمارے لیے بہت ضروری ہے بغیر اس کے چارہ نہیں ہے ۔اور یہ اﷲ جل شانہ کا شکر ہے اس پر اجر بھی رکھا ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمارا ہی بھلا چاہتا ہے
اگر مجھے کوئی شخص کہہ دے میں آپ کے بارہ ہزار روپے تنخواہ دیتا ہوں آپ اپنے بچوں کی خدمت کریں میں کہوں گا تو تو بہت اچھا آدمی ہے ۔کمال ہے میں اپنے بچوں کی خدمت کر رہا ہوں اس پر مجھے بارہ ہزار روپے تنخواہ دے رہا ہے ۔اس وقت میں اس کا بڑا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ کبھی ہم نے اﷲ کا شکردا کیا ہے اس پر ۔ اﷲ جل شانہ جو کچھ بھی حکم دے رہے ہیں کس کے لیے دے رہے ہیں ۔تم اپنا خیال رکھو میں تمہیں یہ اجر دے دو ں گا تم اپنی جنت بنا لو میں تمہیں یہ اجر دے دوں گا ۔تم اپنے دل کا اطمنان حاصل کرلو میں تمہیں یہ اجر دے دوں گا ۔ کبھی دل سے آواز نکلی ہے اے اﷲ تو کتنا کریم ہے ۔ نکلنی چاہیے آگے جا کر آرہا ہے نا ۔کیا آرہا ہے ۔
وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا۔ سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴿۱۹۱﴾
اے رب ہمارے تو نے ان تمام چیزوں کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا ۔
اللہ تعالیٰ تمام عیوب سے پاک ہے
سُبْحٰنَک۔اور تو تمام عیوب سے پاک ہے اور واقعتا ًپاک ہے ۔جس کو کہتے ہیں عیب وہ اﷲ کے ساتھ نہیں ہے ۔جس کو کہتے ہیں عیب وہ اﷲ کے ساتھ نہیں ۔اس کے لیے تصور لانا محال ۔سبحانک ۔سبحان کا مطلب کیا ہے تمام عیوب سے پاک اور وہ صرف اﷲ کی ذات ہے کوئی اور ایسا نہیں ہے
جہنم سے بچنا بہت ضروری ہے
پس ہمیں عذاب جہنم سے نجات عطا فرما ۔یہ اب ہم نے دراخواست پیش کر لی ۔درخواست کس چیز کی پیش کر لی ۔مجھے بتا دو ایس ایچ او سے لوگ کیا چا ہتے ہیں ایس ایچ اوسے لوگ یہ چاہتے ہیں بس مجھے کسی مصیبت میں نہ ڈال حالانکہ ایس ایچ او کا تکلیف دینا ناجائز ہوتا ہے ۔اگر وہ جائز طو ر پر کر رہا ہے تو پھر ہمارا اس سے بچنا ناجائز ہوگا بات سمجھ میں آ رہی ہے یا نہیں ۔ اگر وہ جائز طور پر ہمیں پکڑ رہا ہے تو پھر اس سے بچنا نا جائز ہو گا ۔یہ صورت حال اﷲ تعالیٰ پر صادق نہیں آتی ۔لیکن یہ ہمیں معلوم ہے کہ آگ کا نظام اﷲ کے پاس ہے وہ اتنا خطر ناک عذاب ہے کہ جس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ۔تھوڑا سا ہسپتال والوں سے پوچھو وہ جو ان کے پاس برننگ یونٹ ہوتا ہے اس کے اندر کیا کیا ہوتاہے ۔اس کے ندر پھر مریضوں کے حالات کیا ہوتے ہیں ۔یہ معمولی چیز نہیں ہوتی ہے یہ تو ہم صرف تھیوریٹیکلی دیکھتے ہیں نا کہ وہ ایسا ہوسکتا ہے ایسا ہو سکتا ہے نہیں ایسی بات نہیں ہے ۔ وہ کہتے ہیں ایک بادشاہ کی بیٹی یعنی شہزادی جا رہی تھی شکار پر سہلیوں کے ساتھ۔ بچھڑ گئی راستے میں اور تلاش کرتے کرتے شام ہوگئی ۔شام تک جب لوگ نہیں پہنچے تو ایک ویران مسجد تھی جنگل کے اندر اس کے اندر اس نے پناہ لے لی ۔ وہاں جا کر پتا چلا کہ او ہو یہاں پر تو ایک لڑکا بھی رہ رہا ہے ۔اس کو بہت زیادہ خطرہ ہوگیا۔ یہ کیا ہوگیا ایک جوان لڑکا اور میں لڑکی اور رات کا وقت۔ اندھیرا ، جنگل، کوئی ہے بھی نہیں، کیا ہوگا میرے ساتھ ۔عصمت والی عورت کو بہت زیادہ خطرات ہوتے ہیں عصمت والی عورت تھی ،بہت پریشان ہوگئی اور دبک کر ایک کونے کے اندر بیٹھ گئی اپنے آپ کوبچانے کی نیت سے ۔اور چھپکے چھپکے دیکھ رہی تھی کہ کیا مصیبت پیش آسکتی ہے ۔تو اس نے دیکھا کہ وہ جو طالب علم تھا وہ شمع جلائے ہوا تھا پڑھنے کے لیے تو تھوڑی دیر کے لیے اپنی انگلی شمع کے اپر رکھ لیتا اور پھر پیچھے ہٹا لیتا ۔پھر تھوڑی دیر کے بعد انگلی شمع کے اوپر رکھ لیتااور پھر پیچھے ہٹا لیتا ۔اور یہ طریقہ صبح تک ہورہا تھا ۔نہ یہ سوئی نہ وہ سویا ۔اس کو خطرہ تھا اور وہ اپنے آپ کو خطرے سے بچانا چاہتا تھا ۔ بہرحال مطلب یہ ہے کہ وہ پوری رات گزر گئی ۔ صبح کو بادشا ہ کے لشکر کو موقع ملا راستہ طے کرنے کا تو تلاش ہوگئی کہ وہاں پر ہے ۔باد شاہ کو یہ بھی بھی پتا چلا کہ اس مسجد میں ایک لڑکا بھی تھا تو ودہ بہت گھبرا گیا تو اس نے اپنی بیٹی سے پوچھا کہ بیٹی ٹھیک تو ہو حالت تو ٹھیک یہ نا ۔اس نے کہا الحمدﷲ ابو میں بالکل ٹھیک ہوں لیکن بات یہ ہے کہ ایک عجیب واقعہ یہ پیش آرہا ہے کہ یہ لڑکا طالب علم یہ بار بار پڑھتا تھا اور یہ جو شمع ہے نا اس کے اوپر بار بار ہاتھ رکھ کر پیچھے کرلیتا تھا ۔ پوری رات میں یہ نظارہ دیکھتی رہی ہوں ۔یہ کیا ہے ؟مجھے یہ سمجھ نہیں آئی ۔بادشاہ نے اس نوجوان کو بلایااس سے پوچھا،اس کے ہاتھ کو دیکھا تو وہ واقعی وہ جلا ہوا تھا ۔ اس نے اس سے پوچھا کہ تو نے ایسے کیوں کیا ۔اس نے کہا کہ بادشاہ سلامت جھوٹ نہیں بول سکتا۔میرے دل میں بار بار برے خیالات آجاتے تھے اس وقت میں جیسے ہی عمل کرنے کا ارادہ کرتا تھا ۔تو میں کہتا تھا دیکھواگر تو اس آگ کو اگر برداشت کر سکتا ہے تواس آگ کے بارے میں سوچ لینا تو میں جب دیکھتا کہ یہ آگ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہی تھوڑی د یر کے لیے تو جہنم کی آگ کو میں کیسے برداشت کروں گا ۔ بس یہی چیز مجھے بچا ئے رکھی ہے ۔ بادشاہ اس پر اتنا خوش ہوا کہ اس نے اسی شہزادی کی شادی اسی طالب علم سے کر دی ۔ مطلب میرا یہ ہے کہ یہ جو آگ جو بہت خطرناک چیز ہے ۔تو ہمیں اس سے بچنا چاہیئے ۔دیکھیں اﷲ تعالیٰ ہمیں دے کیا رہے ہیں ۔ ذرا تھوڑ ا سا اندازہ کریں ۔ رمضان شریف میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے پیغام کیا ہے ؟ حضو رﷺکے ذریعے سے ۔ ایک تو دو چیزوں کی کثرت کرو ۔ لا الہ الااﷲ کی کثرت کرو اور دوسرا استغفار کی۔ یہ دونوں کیا چیزیں ہیں یہ ذکر ہیں ۔لاالہ الااﷲ ذکر ہے اور استغفا ر یہ بھی ذکر ہے اور دو چیزیں اور کیا بتائیں جنت کو زیادہ مانگو اور جہنم سے زیادہ پناہ تلاش کرو ۔ یہ دونوں کیا چیزیں ہیں یہ دعائیں ہیں تو اﷲ پاک نے رمضان کے اندر جو ہمیں بہت عظیم تحفہ دینا چاہا ایک تو جہنم سے پنا ہ مانگو اور ایک جنت کو مانگو اور دوسری بات یہ ہے کہ لاالہ الااﷲکی کثرت کرو ۔ اس کے ذریعہ سے جنت مل جائے گی اور جہنم سے پناہ مل جائے گی اور استغفار کی کثرت کرو اس ذریعے جنت مل جائے گی اور جہنم سے پنا ہ مل جائے گی ایک ذریعہ سے دو ذریعے دے دیئے اور دو مقصد دے دئیے ۔بات سمجھ میں آرہی ہے نا ۔ ہاں تو یہ بات ہے ۔تو اﷲ جل شانہ ہمیں جہنم سے خلاصی دینا چا ہتا ہے ۔تو یہاں پر بھی وہ شخص جو اﷲ کا ولی ہے اورعقل مند ہے وہ کیا کہہ رہا ہے رَبَّنَا ۔ اے رب ہمارے مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا تونے اس کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا سُبْحٰنَکَ تو تمام عیوب سے پاک ہے فَقِنَا عَذَابَ النَّار پس عذاب جہنم سے ہمیں نجات عطا فرما دے ۔اﷲ اکبر ۔
ہم کیا ہیں؟
کس خوبصورت انداز سے اﷲ پاک ہمیں یہ تمام چیزیں سکھا رہے ہیں ۔اس کے بعدپھر دعاؤں کی لسٹ ہے قرآن پاک کی اس کے بعد وہ دعائیں آرہی ہیں ۔میں صرف ایک دعا کے بارے میں بتاتا چلوں ۔اﷲ جل شانہ ہمیں ہمارا چہرہ دیکھا رہا ہے کہ تم ہو کیا اور کر کیا سکتے ہو اور اگر تو نے خیال نہ کیا تو پھر کیا تیرے ساتھ ہو سکتا ہے ؟ حضرت علی کرم اﷲ وجہ سے کسی نے کہا کہ تمہیں پتانہیں کہ میں کون ہوں ؟س نے کہا کہ مجھے پتاہے کہ پہلے تو گندگی کا قطرہ تھا اب تم گندگی کے ڈھول ہو اور پھر گندگی کے ڈھیر ہوگے ۔کیا یہ بات صحیح نہیں ہے ۔دیکھئیے اس وقت صورت حال کیا ہے ۔ہم گندگی کے ڈھول ہیںیا نہیں ہیں ۔ جسم کے جس حصہ کوپنکچر کریں اس سے جو چیز آئے گی اس کو غلاظت کہیں گے یا نہیں ۔ اس کے علاوہ اس کی کوئی تعریف ۔ فیصل صا حب کوئی اور تعریف کر سکتے ہیں آپ ۔ جسم سے کوئی بھی چیز باہر نکلے گی وہ چیز غلاظت ہوگی ۔ اس میں جو سب سے کم درجہ کی جو غلاظت ہے وہ تھوک ہے ۔کیا کوئی اپنے تھوک کو چاٹ سکتا ہے کسی اور کے تھوک کو کیا چاٹے گا ۔جب یہ صورتحال ہے تو ہم گندگی کے ڈھول ہیں کہ نہیں ہیں ۔ اﷲ جل شانہ نے پردہ رکھا ہوا ہے کہ بہت خوبصورت جسم عطا فرمایا ہے لیکن اس کے اندر کیا ہے ؟ وہ تو سامنے بھی پتا ہے اور جو کچھ بھی ہے وہ ہے او ر پھر ہونگے کیا ؟ پھر ہونگے گندگی کے ڈھیر کیونکہ تھوڑی دیر میں انسان کی حالت بدلنے لگتی ہے جب مر جاتا ہے تو وہی لوگ جو انکو بہت پسند کرتے ہیں کبھی بھی اپنے آپ سے اس کو جدا نہیں کرنا نہیں چاہتے وہ بھی مجبور ہوجاتے ہیں ان کو دفن کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کیونکہ گندگی کے ڈھیر بن جاتے ہیں یہی ہوتا ہے نا ۔تو جب یہ بات ہے ہمارے ماضی حال اور مستقبل سب گندگی کے ساتھ ہیں ۔
کائنات اللہ والوں کے لئے ہے
یہ ہماری اپنی بات ہے اپنے طور پر تو ہم یہ ہیں لیکن اﷲ اکبر اگر اﷲکے ہوجاؤ او ر اﷲکے ساتھ تیری نسبت ہوجائے تو پھر سبحان اﷲ سبحان اﷲ فرشتے بھی سلام کریں گے فرشتے بھی مصافے کریں گے فرشتے بھی آپ کے لیے دعائیں کریں گے۔ یہ انسان اگر اپنی اصلیت کو نہیں سمجھا اس حد تک گر سکتا ہے نیچے اور اگر اپنی اصلیت کو پہچان گیا تو سبحان اﷲ کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ سب کچھ اﷲ تعالیٰ نے اس کے لیے پیدا کیا ہے ۔ ہم کہتے ہیں کائنات اﷲ تعالیٰ نے انسان کے لیے پیدا کی ہے لیکن فی الحقیقت دیکھو تو وہ کون سا انسان ہے جس کے لیے پیدا کی ہے ۔کیابش کے لیے پیدا کیا ہے ؟کس کے لیے سکندر اعظم کیلیے پیدا کی ہے ؟ نہیں ۔ پیدا کی ہے مسلمان کے لیے اھل ایمان کے لیے ۔ایک اﷲ اﷲ کرنے والا جب تک زندہ رہے گا تو کائنات قائم رہے گی ۔جب کوئی بھی اﷲ اﷲ کرنے والا نہیں رہے گا کائنات کو ختم کر دیا جائے گا ۔تو اب اصل پتا چل گیا نا کہ یہ اس کے لیے پیدا ہوا ہے ۔اگر یہ لوگ کھا رہے ہیں تو بھی ہماری برکت سے کھا رہے ہیں الحمدﷲ ۔اگر کافر کھا رہے ہیں تو ہماری برکت سے کھا رہے ہیں ۔کائنات پیدا کیا اﷲ پاک نے ہمارے لیے ۔
اسباب مسبب الاسباب کے بنائے ہوئے ہیں
ہاں یہ الگ بات ہے کہ اس کے جو دنیاوی چیزیں ہیں اسباب اﷲ پاک نے بنائے ہوئے ہیں ان اسباب کے لحاظ سے جو لوگ اس میں زیادہ کوشش کرتے ہیں ان کو اتنا مل جاتا ہے ۔ لیکن اگرسارے کے سا رے کافر ہوجائیں نعوذباﷲ من ذالک ۔ کائنات ہی تباہ کر دی جائے گی کوئی بھی نہیں بچے گا ۔ہاں یہ والی بات ہے ۔ایک دفعہ ہمارے ڈاکٹر محمو د غازی ٰصاحب ہیں یہ پہلے وزیر بھی تھے وزیر مذہبی امور اور اب وہ اسلامی یونیورسٹی کے presedentصدرہیں تو میں ان کے دفتر میں گیا تھا کسی کام سے۔ تو اٹھ کھڑے ہو گئے۔کہتے ہیں شبیر صاحب ہم آپ کو دیکھ کربڑے خوش ہوتے ہیں میں نے کہا کہ کیوں ؟کیا وجہ ہے ؟کہتے ہیں آپ کی وجہ سے قیامت رکی ہوئی ہے میں نہ کہا وہ کیسے ؟کہتے ہیں آپ میراث پر کام کر رہے ہیں نااور میراث کے بارے میں ہے کہ یہ علم سب سے پہلے اٹھادیا جائے گا۔ تم جیسے لوگ موجود رہیں گے تو انشاءاﷲ ابھی قیا مت نہیں آئے گی کیونکہ ابھی اﷲ تعالیٰ کا اس علم کو اٹھا نے کو ارادا نہیں ہوا۔ورنہ تم جیسے لوگ پیدا نہ ہوتے یہ تو انہوں نے مزاح کے طور پر بات کی لیکن صحیح بات ہے کہ مسلمان کی برکت سے دنیا قائم ہے ۔مسلمان نہیں رہے گا تو کائنات نہیں رہے گی ۔اور مسلمان میں بھی یہ صلاحیت ذکر کی برکت سے ہے ۔ذکر تمام چیزوں کی جان ہے ۔تھوڑا سا دیکھ لیں نا اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ وَاَقِمِ الصَّلٰوٰۃَ لِذِکْرِی نماز قائم کردو میری یاد کے لیے ْْ ۔دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ۔ وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ
بے شک نماز جو ہے یہ بری باتوں سے روکتی ہے اور اﷲ کی یاد تو بڑی چیز ہے ۔
باطن اصل ہے
تو اصل میں بات اگر دیکھو تو اندرون ہے۔ ظا ہر تواس کو قابو رکھنے کے لیے ہے ۔باقی رکھنے کے لیے ہے ۔ظاہر جو ہے وہ ڈھانچہ ہے، ظرف ہے اور جو باطن ہے وہ اس کے اندر مظروف ہے ۔
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴿۳۸۱﴾
تمہارے اوپر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے کہ پہلوں کے اوپر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ دار بن جاؤ ۔اب مجھے بتاؤ کہ تقویٰ ظاہر کا عمل ہے یا باطن کا ؟ ہاں روزہ بھی باطن کی حفاظت کے لیے اور نماز بھی باطن کی درستگی کے لیے اس لیے میں آپ سے عرض کرتا رہتا ہوں کہ اگر کسی نے کامیاب ہوناہے اگر کسی نے اﷲ والا بننا ہے اگر کسی نے دونوں جہانوں کی خوشیاں حاصل کرنی ہیں تو اسی راستے کو اختیار کرے جو اولیاء اﷲ نے اختیار کیا ہے ۔ ۔اولیاء اﷲ کے بارے میں قرآن نے خود ہی فرمایا ہے کہ وہ ایمان والے او رمتقین ہیں لہذا ہمیں تقویٰ حاصل کرنا پڑے گا ۔ تقویٰ کیسے حاصل کر سکتے ہیں ہم ۔ تقویٰ حا صل کرنے کے لیے ہم کو کیا کرنا ہوگا ؟ہمیں ہر وقت اﷲ تعالیٰ کی یاد دل میں رکھنی ہو گی بغیر اس کے تقویٰ حاصل نہیں ہو سکتا ۔جب تک اﷲ ہمیں ہر وقت یاد نہیں رہے گا اس ووقت تک ہم متقین نہیں بن سکتے ۔آپ ﷺ سے تین سوال پوچھے گئے ۔تھوڑا سا ذرا غور کریں صحیح حدیث شریف ہے اس کو حدیث جبرا ئیل کہتے ہیں ۔
تین سوال اور تین جواب
تین سوال آپﷺ سے پوچھے جارہے ہیں کون پوچھ رہا ہے ۔حضرت جبرائیل علیہ سلام کس لیے پوچھ رہے ہیں ۔بقول آپ ﷺ کے سوال سکھا نے کے لیے کس طرح دین سیکھنا چاہیے ۔اب سوال کیا پوچھ رہے ہیں ۔یا رسول اﷲ ایمان کیا ہے ۔ایمان کیا ہے ایمان کی تعریف آپ ﷺِ نے بیان فرمائی اور ظاہر ہے آپ سب کو ایمان مفصل اور ایمان مجمل معلوم ہیں۔پھر پوچھا یا رسول اﷲ اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ نے اسلام کے بنیادی ارکان جو ہیں وہ بیان فرما دیے۔ پھر آخیر میں پوچھتے ہیں یا رسول اﷲ احسان کیا ہے احسان کیا ہے۔تھوڑا سا غور کریں ا لفاظ پر پہلے غور کرو پھر اس کی حقیقت پر غور کرنا ۔الفاظ ہے احسان یہ باب اِفعال سے ہے۔ باب افعال سے مطلب یہ ہے کوشش کر کے اس چیز کو پیدا کرنا ہاں کوشش کر کے ایک مطلوبہ چیز کو پیدا کرنا جیسے اکرام ۔اکرام کیا ہے کوشش سے آپ کسی کو عزت دیں تو اسی طریقے سے یہ جان لو کہ
احسان کیا ہے ؟
کہ احسان کیا ہے ؟احسان حسن سے ہے یعنی کسی چیز کو کوشش اور محنت سے اچھا کرنا یہ اس کا لغوی مفہوم ہوگیا ۔ آگے جا کر اس کا صحیح مفہوم آپ ﷺِ سے سن لینا ۔آپ ﷺِ فرما رہے ہیں احسان یہ ہے کہ تم عبادت ایسے کرو جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے اور اگر یہ کیفیت حاصل نہیں ہے اتنی ضرور ہونی چا ہیے کہ خدا تجھے دیکھ رہا ہے ۔یہ احسان ہے اس کو کیفیت احسان کہتے ہیں ۔تھوڑا سا اندازا کرلو آپ ﷺِ نے فرمایا تم عبادت ایسے کرو۔ پھر آپ سوچیں تو سہی عبادت ہے کیا چیز ؟عبادت وہ چیز ہے جس کے لیے ہمیں پیدا کیا گیا
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴿۶۵﴾
ہمارا اصل کا م تو عبادت ہے باقی تمام کام اس عبادت کو برقرار رکھنے کے لیے ہیں ۔کھا نا پینا سو نا جاگنا سب کچھ اس کو باقی رکھنے کیلیے۔ورنہ ہماراکام کیا ہے عبادت ہے۔تو عبادت ایسے کرو جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے ۔اب بظاہر تو علمی لحاظ سے یہ بات بہت آسان ہے ۔ بس میں اﷲ کو دیکھ رہا ہوں بس اﷲ ہے ۔لیکن۔۔ لیکن ۔۔لیکن اس کے اندر بڑی محنت ہے یہ تصور ایسا طاری ہو جائے کہ کسی طرح ہٹے نہیں۔ کوئی چیزاس کوہٹا نہ سکے۔ اس کو ہم کیفیت احسان کہیں گے۔ہاں ہمارے اوپر ایسا مستولی ہوجائے یہ کیفیت کہ یہ کسی طریقے سے ہٹ نہ جائے۔ تو اس کا کیا طریقہ ہو گا ؟یہ ایک ایسی چیز ہے جو مجرد ہوتی ہے جس تک رسائی آپ کی نہیں ہے۔ تو پھر ایسی چیز کو حاصل کرنے کے لیے کیا کرتے ہیں ۔
اوپر چڑھنے کا طریقہ
پھر رسیاں پھینکتے ہیں۔ وہ نہیں ہوتے وہ جو اوپر جانے کیلیے سیڑھیاں نہ ہوں تو پھر کیا کرتے ہیں رسیاں پھینکتے ہیں نا۔ وہ کنڈے کے ساتھ اڑجاتا ہے تو اس کے اوپر پھر چڑھتے ہیں۔ یہی طریقہ ہوتا ہے نا ۔تو اس طریقہ سے کوئی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا تو اب میں رسیاں آپ کو د کھاتا ہوں آپ کو کہ رسیاں کیا ہیں وہ ۔سب سے پہلے لسانی ذکر ہے۔ سب سے آسان لسانی ذکر ہے اس کیلیے کسی چیز کو سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ہونٹ آپ پہلے ہلا تے ہیں ۔زبان بھی آپ ہلا سکتے ہیں بس ارادہ کرنے کی ضرورت ہے آپ کہنا شروع کر لیں سبحان اﷲ ۔سبحان اﷲ ، اس میں پھر بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ پڑھو باقی تو میرے خیال میں کسی چیز کے سیکھنے کے ضرورت نہیں ہے نا لسانی ذکر کاطریقہ عقلا ء کا یہ ہے کہ جس چیزکو حاصل کرنا ہو تو آسان سے ابتداء کرو۔ تو ذکر لسانی جو سب لوگ کر سکتے ہیں وہ ان کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے اس کے بعد ذکر قلبی ہے۔قلب ہمارے جسم کے اندر ہے ہمارے بہت قریب ہے لیکن ہم لوگ اب اس کے اوپر برا ہ راست کچھ نہیں کر سکتے ۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جہاں ہمارا ہاتھ پہنچ جائے اور ہم بٹن کی طرح اس کو سٹاٹ کر لیں اور وہ جو ہے نا دل وہ کرنا شروع کر لے ذکر۔ اس کے لیے اﷲ پاک نے ہمیں رسیاں دیں ہے اﷲ اکبر ۔اور وہ رسی تصور کی ہے۔ یہ رسی پھینکو ، کنڈے میں پھنس گیا توپھر چڑھنا شروع کر لو جب تک کنڈے میں نہیں پھنسی تو پھینکتے رہو ۔پھینکتے رہو ۔ اس کامطلب ہے کہ تھکیں نہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ مراقبہ کرو تو اب مراقبہ کیا ہوتا ہے ۔تصور کرو کہ میرا دل ذکر کر رہا ہے ۔مجھے بعض لوگ کہتے ہیں کہ جی ہما را دل تو ذکر نہیں کر رہا ہے ہم تو کوشش کر رہے ہیں نہیں کررہا ۔ان سے کہو کوشش جاری رکھو،کوشش کرو اسی طر ح ہی ہوگا ۔اگر نہیں کرسکتے تو اچھا پھر طریقہ اور بتا تے ہیں آپ یوں کریں زبان سے ذکرشرو ع کرلو ،اﷲ ،اﷲ ،اﷲ ،اﷲایک سانس میں جب ایک سانس میں آپ کی سانس ٹوٹنے لگے اس وقت دل سے ارادہ کر لو کہ میر ادل یہی کر رہا ہے یایوںسمجھ لیجئے کہ یہ ایسا ہے کہ جیسے رسی آپ اگر کھڑے ہو کر نہیں پھینک سکتے انسان تھوڑا سا پیچھے ہٹ کہ دوڑ کے آتا ہے اوردوڑ کر وہ رسی پھینک دیتا ہے اور وہ اوپر تک چلی جاتی ہے تو یہ وہ دوڑنے والی بات ہے ۔ساتھ تھوڑ ا سا دوڑو اور پھر اندر اس کو وہ کر لو ٹھیک ہے نا ۔اگر اس طرح چل پڑے تو ماشااﷲ بڑی اچھی بات ہے ورنہ کچھ اور طریقے بھی ہیں ۔جو وقتاً فوقتاً بتائے جاتے ہیں ۔تو بہرحال آپ کا ذکرقلبی شروع ہوجا ئے گا۔ دل آپ کا ذکر شروع کر لے گا اور کر لیتا ہے اور الحمدﷲ کر لیتا ہے ۔اور جو لوگ اس سے واقف ہیں وہ میری بات کو سمجھ رہے ہیں اور جو نہیں سمجھ رہے ہیں وہ انشااﷲ کوشش کریں تو سمجھ جائیں گے اور اگر کوشش نہیں کریں گے توپھر ظاہر ہے اس کی اپنی مرضی ۔پھر اس کے ساتھ آدمی کیا کر سکتا ہے ۔تو یہ میں عرض کرتا ہوں کہ یہ ذکرقلبی کی بات ہے ۔پھر جب ذکرقلبی ہوجائے تو پھر جسم کے اندر کچھ اور Sensing pointsمحسوس کرنے کی جگہیں ہیں۔ ان کوactuate ﴿متحرک ﴾کردیا جاتا ہے تا کہ آپ کے لیے مجرد تصور کرنا آسان ہوجائے ۔تو ذکر کے جو جتنے مختلف جگہ جس کو لطائف کہتے ہیں وہ چلانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔اس میں پھراپنی اپنی رسیاں ہیں وہ پھینکی جاتی ہیں جب نظام چالو ہوجاتا ہے پھر اس کو بتا دیا جاتا ہے ۔ کہ اب تصور کرو لو کہ میرے دل میں اﷲ ہے ۔یہ واقعی پہلے مشکل ہے ۔ اس کے بغیر نہیں ہو سکتا ۔ جس وقت آپ نے ذکر قلبی تمام لطائف کو ان چیزوں کو حاصل کرلیا اب وہاں تک رسائی ہونی شروع ہوگئی ۔سمجھ میں آنی شروع ہوگئی تھوڑی سی مزید کوشش کی ضرورت ہے تو وہ نظام چل پڑے گا ۔جب چل پڑے گا تو پھر کہتے ہیں اب کرتے رہو۔مجھ سے بعض لوگوں نے کہا کہ جب ہم کرتے ہیں تو نہیں ہوتا ۔اور جب نہیں کرتے تو ہوتا ہے ۔بہت سارے لوگوں نے مجھ سے یہ کہا ہے ۔اس مرحلہ پہ جب ہم کرتے ہیں تو نہیں ہوتا جب نہیں کرتے تو پھر ہوتا ہے ۔میں کہا خدا کے بندو! یہ جو خود سے ہوتا ہے یہ بھی اس کی برکت سے ہوتا ہے ۔جو آپ کو نظر آتا ہے کہ نہیں ہوتا وہ اصل میں ہورہا ہوتا ہے تمہیں محسوس نہیں ہورہا ہوتا ۔ ورنہ پہلے کیوں نہیں ہوتا تھا ۔یہ جب آپ نے کورس شروع کر لیا اس کے ساتھ ہی تو شروع ہوا ہے ۔ میں نے کہا کہ وہ جو آپ پندرہ منٹ یا آدھا گھنٹہ یا گھنٹہ میں نے بتا یا ہے اس گھنٹہ کو نہ چھوڑنا ورنہ وہ خود سے ہونا ختم ہو جائے گا خود سے ہونا ختم ہوجائے گا ۔جیسے کوئی شخص ادھر سے انگلی اس طرح کرلے اب ادھر سایہ اب سائے کو کوئی پکڑ نا چاہے ۔اب سائے کو کون پکڑ سکتا ہے ۔ یہ اس کوہٹا دو تو ختم ہوجائے گا ٹھیک ہے نا ۔اس طریقے سے وہ والی بات ہے یہ اس کا اثر ہے اور یہ اثر ہونا چاہیے۔جب یہ اثر چلتا رہے گا چلتا رہے گا چلتا رہے گا تو پھر کیا ہوگا ۔اﷲ اکبر ہر وقت آپ اﷲ کے ساتھ ہوں گے ۔ہر وقت آپ اﷲ کے ساتھ ہوں گے ۔پھر اس کو کہتے ہیں خلوت در انجمن۔لوگوں کے درمیان بھی ہیں اور اﷲ کے ساتھ بھی ۔ کیا مزا ہوگا ۔آ پ لوگوں کے ساتھ بات کررہے ہیں لیکن بات کس کے لیے کر رہے ہیں اﷲ کے لیے کر رہے ہیں ۔ اصل میں تو آپ اﷲ کے ساتھ ہیں ۔تو یہ والی کیفیت شروع ہوجاتی ہے تو اس کو کیفیت احسان کہتے ہیں یہی کیفیت احسان ہے انسان کو جتنا اوپر لے جائے۔ پھر اس کا کرم ہے جتنا بھی آگے لے جائے اس وقت پھر انسان کی نماز پھر نماز ہوجاتی ہے۔
صاحب حال کی بات ہی اور ہوتی ہے
اس وقت
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِوَالْمُنْکَرِ۔ وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَر
بالکل سمجھ میں آنے لگتا ہے ۔اس کیفیت کے ساتھ نماز پڑھو پھر مجھے بتا دو کہ آپ گناہ کرسکو گے؟ اس کیفیت کے ساتھ نماز پڑھ کے تو دیکھو ۔اس کیفیت کے ساتھ حج کر کے دیکھو پھردیکھو کہ کیا ہوتا ہے ہاں یہ کیفیت حاصل کر نا ہوتا ہے ۔یہ multiplierہے ۔اوربہت زبردست multiplierہے یعنی نماز کے اجر کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے ۔فرماتے ہیں کہ عارف کی جو دو رکعت نمازہوتی ہے وہ غیر عارف کی لاکھوں رکعتوں سے افضل ہوتی ہے۔تو یہ مطلب ہے کہ پھر آپ کا نماز بھی بڑا ہوگیا آپ کا حج بھی بڑا ہوگیا آپ کے روزے بھی بڑے ہو گئے آپ کا دینا بھی کسی کو وہ بھی بڑ اہو گیا ۔بلکہ آپ کے ہر ہر چیز کے اندر جان پڑ گئی ۔جان پڑ گئی اس وقت آپ کو پتا چلے گا کہ آپ ﷺِ نے کیا فرمایا تھا جو ذکر کرنے والا ہے اور نہیں کرنے والا ہے ۔اس میں ایسا فرق ہے جیسے زندہ اور مردہ ہے ۔پھر پتا چلے گا زندہ اور مردہ کسے کہتے ہیں ۔ پیمائش کرتے ہیں ذکر کی صورت پر تو کہتے ہیں کمال ہے کوئی فرق نہیں ۔بھئی ذرا تھوڑا تو سوچوخواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ ؒ ہند ستان تشریف لائے اور تقریباً نوے لاکھ لوگ ان کے ہاتھ مسلمان ہوگئے مجھے بتا ؤکیا چیز تھی وہ ؟
کیا وہ تقریروں سے مسلمان ہوئے تھے ۔وہ تقریروں سے مسلمان نہیں ہوئے تھے وہ حضرت کی اس کیفیت سے مسلمان ہوئے تھے ۔وہ کیفیت جو حضرت کو حاصل تھی دمادم ہر وقت اﷲ کے سا تھ ہونے کی وہ کیفیت جس رستے پر جا رہے ہیں تو لوگ مسلمان ہورہے ہیں ۔مسلمانی کے لیے بہانہ چاہیئے تھا ۔ٹھیک ہے نا ۔
تو میں یہ عرض کرتا ہوں شیخ عبدلقادرجیلانی ؒ جب وعظ فرماتے تو کئی جنازے درمیان میں اٹھ جاتے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟یہی نا کہ ان کابول اﷲ کے لیے ہوتا تھا ۔براہ راست اﷲ کی طرف سے ہوتا تھا ۔تو اس وجہ سے میں عرض کرتا ہوں کہ جس وقت انسان کے اندر یہ نعمت آجائے جس کو کیفیت احسان کہتے ہے۔
اس کیفیت کے ساتھ کوئی مدرسے میں بیٹھ گیا تو ماشااﷲ مدرسہ اﷲ کے ساتھ تعلق کا ذریعہ بن گیا ۔اس کے اپنے ذات کے لیے بھی اور دوسروں کیلیے ۔اس مدرسے کے اندر داخل ہوتے ہی آدمی اپنے آپ کو مختلف محسوس کرے گا ۔اور اگر وہ جہادمیں ہے تو ماشااﷲ جہاد کے ذریعے خیر پھیلاتا رہے گا ۔اگر وہ دعوت و تبلیغ میں ہے ۔دعوت و تبلیغ کے ذریعے خیر پھیلاتا رہے گا ۔اگر وہ کسی دسیاست میں ہے تو ماشااﷲ سیاست کے ذریعے خیر پھیلاتا رہے گا ۔کیوں وجہ کیا ہے ۔اس کاتعلق اﷲ کے ساتھ ہے ۔
گفتئہ او گفتئہ اﷲ بود
گر چہ از خلقوم عبد اﷲ بود
اس کا جو گفت ہے وہ اﷲ کا گفت ہوتا ہے اگر چہ عبداﷲ یعنی اﷲ کے بندے کی زبان سے باہر آرہا ہوتاہے ۔وہ اﷲ کی طرف سے ہو رہا ہوتا ہے۔ لہذا جیسے اﷲ جل شانہ ، کچھ بھی کرسکتا ہے اس وجہ سے اس گفت کے ذریعے بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔اس کے لیے ایک حدیث شریف سنا دیتا ہوں پھر بات ختم کرلیتا ہوں ۔حدیث شریف میں ہے ۔سب سے اونچا قرب ، قرب بالفرائض ہے اور پھر فرمایا کہ نوافل کے ذریعے انسان کو قرب ہوتا رہتا ہے ،اور اس میں بڑتا رہتا ہے حتیٰ کہ ایسی حالت تک پہنچ جاتا ہے کہ پھر اﷲ پاک فرماتے ہیں میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے ۔میں اس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ہاں پھراﷲپاک اس کا ہوجاتا ہے ۔یہ کیا بات ہے اب مجھے بتا دیں اس شخص کی بات اور عام آدمی کی بات میں کیا فرق ہو گا ۔فرق ہوگا نا ۔یہی فرق ہے ۔ان چیزوں کو حاصل کرنے کیلیے اپنے اوپر محنت لازمی ہے ۔ہمارے ایک جماعت ﴿تبلیغ ﴾کے ساتھی سے بات ہورہی تھی ددوست تھے ہمارے۔ میں نے اسے کہا کہ آپ کو ایک چیز بتاتا ہوں اس نے کہا کہ کیا؟ میں نے کہا کہ یہ مجھے بتا دو میرے تجربے میں تو آیا ہے واﷲ اعلم کہ فارن میں جو کام ہوتا ہے تبلیغ کا وہ اپنی ملک میں کام سے زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اپنے ملک میں کام اس سے زیادہ مشکل ہوتا ہے ۔اس نے کہا کہ یہ بات تو آپ نے ٹھیک کہی ۔میں نے کہا کہ پھر باقی ملک کے حصے کے مقابلے میں اپنے علاقے میں کام کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے ۔کہتا ہے یہ آپ نے صحیح بات کی ہے ۔ میں نے کہا پھر باقی علاقے کے مقابلے میں اپنے محلے میں کام کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے ۔تو کہتا ہے بالکل ٹھیک ۔پھر میں نے کہا کہ گھر میں کام محلے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے کہا سو فی صد آپ نے سچی بات کی ہے ۔تو میں نے کہا کہ اس سے آگے کا بھی ذرا سنو ۔کہ اپنے گھر والوں کو تبلیغ کرنے کے مقابلے میں اپنے آپ کو تبلیغ کرنا سب سے زیادہ مشکل ہے ۔کہتا اس میں کیا شک ہے میں نے کہا اسی کو تصوف کہتے ہیں ۔اسی کو تصوف کہتے ہیں ۔ہے یا نہیں ہے اپنے آپ کو تبلیغ تصوف ہے یا نہیں ہے ۔اپنے آپ کو درست کرنا اپنے آپ کو درست کرنا یہ تصوف ہے اور سب سے مشکل کام ہے ۔تو مجھے آپ بتادیں کہ جس نے مشکل کام کرلیا اس کے لیے آسان کام کیا مشکل ہوگا ؟جس نے مشکل کام کر لیا تو آسان کام اس کے لیے آسان ہوجائے گا کہ نہیں ۔یہی بات ہوتی ہے ۔
ترتیب نبوی
تر تیب نبوی یہی ہے ۔دیکھیں آپ ﷺ نبوت ملنے سے کچھ عرصہ پہلے آپ ﷺِ پر یہ حالت طاری ہوگی کہ غار حرا تشریف لے جارہے ہیں با ر بار اور مہینہ مہینہ اس میں قیام فرمارہے ہیں ابھی وحی نہیں آئی ہے ۔اﷲ جل شانہ نے دل پر یہ بات طاری کی ہے ۔ستو لے کے جاکے کچھ پانی لے کر وہاں پر بس مراقب ہیں ، غور و فکر کررہے ہیں ۔اور پھر جو ہے نا واپس گھر آکر سامان لیا اور پھر خلوت ۔یہی ہوتا رہا کہ ایک دفعہ اسی خلوت میں جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور کہا
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ﴿۱﴾
یہ وحی آگئی ۔پھر اس کے بعد کیا حکم آتا ہے ۔
یٰآَیُّھَا الْمُدَثِّرُ﴿۱﴾ قُمْ فَاَنْذِرْ﴿۲﴾ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ﴿۳﴾
اے لحاف میں لپٹنے والے ۔کھڑے ہوجاؤ اور ڈراور پھر ڈراو کس کو؟ پنے قریبی لوگوں کو ڈراؤ۔ہے نا بات۔ اپنے قریبی کوگو ں کو ڈراؤ۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ انسان اپنے آپ سے شروع کر تا ہے اور قریب کے پاس جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ آگے کوجاتا ہے ۔یہ بالکل natural﴿قدرتی ﴾ترتیب ہے ۔پھر یہ شعائیں خود بخود پھوٹنے لگتی ہیں ۔اور ایسا ہوتا ہے کہ آپ ادھر کام کر رہے ہوںگے اور اس کی اثرات پتا نہیں کہاں کہاں پڑ رہے ہوں گے ۔مکہ مکرمہ میں کام ہورہا تھا ۔مدینہ منورہ میں ھدایت ملنی شروع ہوگئی ۔ بات سمجھ میں آرہی ہے یا نہیں آرہی ۔مکہ مکرمہ میں کام ہورہا ہے مدینہ منورہ میں ھدایت ملنی شروع ہو گئی ۔اور مدینہ منورہ میں ظاہر ہے ماشااﷲ کام ہورہا ہے تو پوری دنیا کے اندر بات پھیل گئی ۔بات سمجھ میں آ رہی ہے نا ہاں یہ والی بات ہے ۔ابتداءاپنے آپ سے کرلو ۔اگر اپنے آپ سے ابتداء نہیں کرتے اور اس کو مؤخر کرتے ہو تو پھر میں آپ کو بتاؤں کہ بات بڑی مشکل ہوجائے گی ۔پھر یہ بات میں آپ سے عرض کروں کہ اگر دل کے ندر دنیا ہوگی چاہے دنیا کسی بھی رنگ میں ہو دنیا کسی بھی رنگ میں ہوتی ہے دنیا کسی بھی رنگ میں ہو تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا ۔ آلودہ ہوجائے گا وہ چیز ۔اچھی چیز بھی خراب ہوجاتی ہے ۔
آپ ہزار من دودھ کے اندر ایک چمچ سنکھیا ڈالیں۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا ۔ہزار من کے اندر ایک چمچ سنکھیا ڈالیں اس کا نتیجہ کیا ہوگا ۔یہی فکر تھی حضرت مولانا الیاس ؒ کو۔مولانا الیاس ؒ نے جب ابتداء میں کام شروع کیا حضرت نے باقا عدہ خطوط بھیجے کہ جو جماعت میں چل رہے ہیں ۔چار مہینے میں جو چل رہے ہیں ان سے معلوم کر لو کہ کیا انہوں نے ذکر شروع کیا ہے یا نہیں؟ اور اگر شروع کیا تو کسی سے لے کر شروع کیا ہے یا خود سے شروع کیاہے؟ اور اگر کسی سے لے کر شروع کیا ہے تو پابندی کر رہے ہیں یا نہیں کر رہے؟ ۔مجھے بتا دو اطلاع کر دو ۔امیروں کوانہوں نے خطوط بھیجے باقاعدہ ۔ہمارے جومولانا انعام الحسن صاحب دامت برکاتہم جو تیسرے امیر تھے ہمارے پشاور کے ایک ساتھی گئے تھے بستی نظام الدین ۔وہاں حضرت نے خود ذکر تلقین فرما ئی اور اس نے کہا کہ حضرت مجھ سے نہیں ہوتا ۔فرمایا خدا کے بندے تم ارادہ تو کرو اﷲ مدد کرنے والا ہے ۔اس انداز میں فرمایا تم ارادہ تو کرو اﷲ مدد کرنے والا ہے یہ کیوں کہتے ہو کہ نہیں ہوتا مجھ سے ۔یہ والی بات ہے ۔تو یہ میں عرض کرتا ہوں اگر انسان ذرا سا غور کر لے تو ہمارے اکابر نے تمام چیزوں کو بیان فرمایا ہے ۔او رہمارے فائدے کے لیے بیان فرمایا ہے ۔
بیعت کا حکم اور حقیقت
مجھ سے چند دن پہلے کسی نے پوچھا کہ کیا یہ بیعت کرنا ضروری ہے ؟میں نے کہا کہ نہیں ۔بیعت کرنا ضروری نہیں ہے ۔بیعت کرنا صرف اور صرف سنت مستحبہ ہے لیکن اپنی اصلاح فرض عین ہے ۔اپنی اصلاح کرنی پڑے گی چا ہے بیعت کے ساتھ ہو یا بیعت کے بغیر ہو ۔یہ تو ہو گیا قانونی جواب ۔ قانونی جواب اتنا ہی ہے اس سے زیادہ نہیں ہے ۔آگے تحقیقی جواب کیا ہے ۔تحقیقی جوا ب یہ ہے کہ بیعت کی برکت سے اپنی اصلاح آسان ہوجاتی ہے لہٰذا گر آپ تھوڑا سا data﴿معلومات ﴾ جمع کر لیں تبع تابعین کے بعد۔ جن لوگوں سے اﷲ نے کام لیا ہے ان میں سے بیعت شدہ کتنے لوگ تھے اور جو بیعت نہیں تھے وہ کتنے لوگ تھے ۔تھوڑا سا اندازہ کر لیں۔ معلومات جمع کرلیں۔ خود ہی جمع کرلیں۔ مجھ سے نہ پوچھیں ۔خود ذرا پیچھے کی طرف جاؤاور دیکھو جن سے اﷲ نے کام لیا ہے جن کے اوپرہم فخر کرتے ہیں جن کو ہم اﷲ والے سمجھتے ہیں۔ جن کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ وہ ہمارے بڑے ہیں۔ جنہوں نے ہمیں دین پہنچایا ہے ذرا تھوڑا سا اس کے اوپر غور کر لو کہ ان میں سے بیعت شدہ کتنے ہیں اورغیر بیعت شدہ کتنے ہیں ۔قانونی جواب صرف اتنا تھا جتنا میں نے دیا تحقیقی جوا ب یہ ہے کہ ہاں فائدہ ہوتا ہے اثر توہوتا ہے ۔آخر حضورﷺِ کو جو حکم دیا کہ عورتوں سے بیعت لے لیا کرو آخر اس کی کیا وجہ تھی ۔
عورتوں سے بیعت لی ہے آپ ﷺِ نے ۔مردوں سے بیعت حدیث سے ثابت ہے اور عورتوں کی بیعت قرآ ن سے ثابت ہے ۔تو یہ میں عرض کرتا ہوں کہ اگر انسان اپنی اصلاح کے لیے بیعت کرنا چاہے تو مفید تو بہت ہے لیکن اگر کوئی نہ کرنا چاہے اور بغیر اس کے اپنی اصلاح کرنا چاہے تو ٹھیک ہے اس طرح بھی ممکن ہے ۔ہوجاتا ہے بہت سارے لوگوں کو فائدہ ہوجاتا ہے لیکن ان کی تعدادبیعت کرنے والے لوگوں کے مقابلے میں بہت کم ہے ۔پھر مجھ سے کسی نے پوچھا کہ جماعت میں اگر کوئی آدمی چلتا ہے ۔تو اگر اس کا ظاہر ٹھیک ہو جائے تو پھر کیا ضرورت ہے بیعت کرنے کی ۔میں نے کہا کہ آپ نے جماعت کوکیا سمجھا ہوا ہے ؟ کیاجماعت میں لوگوں نے بیعت نہیں کی ہوئی ہے ؟میں نے کہا خدا کے بندے مولانا انعام الحسن صا حب سے تو بلا شبہ لاکھوں لوگوں نے بیعت کی ہوگی۔اور شیخ الحدیث ؒ سے بھی لاکھوں لوگوں نے بیعت کی ہوگی ۔میں نے کہا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جو بیعت کریں گے وہ ڈھنڈورا پیٹیں گے کہ میں نے بیعت کرلیا ۔بھئی بیعت تو انفرادی تعلق ہوتا ہے۔ وہ کوئی اجتماعی تعلق ٹھو ڑا ہی ہوتا ہے کہ لوگ اس کے بارے میں بیان کریں گے ۔میں نے کہا آپ ذرا تھوڑا سا سروے تو کریں ۔آپ تو ادھر پنڈی میں جو جماعت والے ہیں کتنے آپ کو مل جائیں گے کہ وہ بیعت شدہ ہیں اور کسی سے بیعت ہیں ۔اصل میں وجہ یہ ہوتا ہے کہ شیطان ہر اس چیز سے بدکا تا ہے جس میں انسان کو فائدہ ہوتا ہے ۔اور دوسری بات میں بتاتا ہوں کہ انسان پابندی سے بھی گھبراتا ہے ۔بیعت میں ایک پابندی ہے ۔انسان پابند ہوجاتا ہے کہ میں نے رپورٹ دینی ہے اور اطلاع دینی ہے اور شیخ کے ساتھ رابطہ رکھنا ہے ، تعلق رکھنا ہے ۔ یہ پابندی بڑی مشکل ہوجاتی ہے ۔تو واقعتا ًپابندی مشکل ہے اس میں کوئی شک نہیں ۔لیکن ایٹمی تونائی کو آزاد چھوڑ دیا تو تباہی ہے اور اس کو پابند کر لیا تواٹامک انرجی ہے ۔ اس لئے پابندی ہی میں ہمارا فائدہ ہے ۔باقی اپنی اپنی سمجھ ہے اور اپنی اپنی قسمت ہے ۔ہدایت تو اﷲ کے ہاتھ میں ہے ۔اﷲ تعالیٰ ٰ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے اور توفیق عمل کی عطا فرمائے۔آمین۔ثمَّ آمین۔