وقت سے فائدہ اٹھاؤ
رمضان شریف کا مہینہ ہے ، میں اور آپ الحمد اللہ روزے سے ہیں ۔ بعض دفعہ انسان بہت زیادہ فائدے والے جگہ پر پہنچ جاتا ہے ۔ لیکن اس کو پتہ نہیں ہوتا کہ کتنے فائدے والے جگہ ہے ۔ اس طرح بعض دفعہ انسان ایک ایسے دور میں داخل ہوجاتاہے جس میں اس کوبہت فائدہ ملنے والا ہوتا ہے، لیکن اس کو پتہ نہیں ہوتا ۔ تو وقت پر ایک بات کا معلوم ہونا اور اس سے فائدہ اٹھانا یہ خوش قسمتی کی بات ہوتی ہے ۔ مثلاً بعض لوگ کسی بڑے اللہ والے کے قریب رہ رہے ہوتے ہیں ، لیکن ان کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کون ہے ۔ لیکن جب وہ اٹھ جاتا ہے اور دوسرے لوگ ان کے بارے میں لکھتے ہیں تو پھر یہ افسوس کرتے ہیں کہ کاش ہمیں پہلے یہ معلوم ہوتا تو ہم بھی ان سے کچھ فائدہ اٹھا لیتے ۔ دور کی بات نہیں ہمارے مولانا یوسف بنوری ؒ جب فوت ہوئے تو ان کے علاقے کے لوگوں نے ایسی ہی بات کی ۔ کیونکہ قریبی لوگوں کو ویسے بھی اندازہ نہیں ہوتا ۔ جو نعمت قریب کی ہوتی ہے اس کا پتہ نہیں چلتا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے انتظار میں رہتے تھے
الحمد اللہ ہم لوگ رمضان شریف کا مہینہ پا چکے ہیں ، اللہ کا شکر ہے بہت ہی شکر کرنا چاہیے ۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کے پانے کی آرزو آپ ﷺ دو دو مہینے پہلے کرتے تھے ۔ رجب کے مہینے میں آپ ﷺ فرماتے
الھم بارک لنا فی الرجب والشعبان و بلغنا رمضان
اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ وہ عظیم نعمت ہے جس کا حد و حساب ہی نہیں ہے ۔ اس جہاں میں عمل ہے ، ثمرات کا انکشاف نہیں ہے ۔لوگ کہتے ہوتے ہیں کہ ہم فارغ نہیں ، لہذا ناقدری ہوتی جاتی ہے ۔ لیکن جب وہاں ثمرات منکشف ہونگے تو پھر عمل کا وقت نہیں ہوگا ۔ وقت گزر چکا ہوگا ۔ یہاں تک فرماتے ہیں کہ جو جنتی ہونگے وہ بھی اس بات پر افسوس کررہے ہونگے کہ جو وقت ہم نے ضائع کیا اور اس میں ہم نے ذکر نہیں کیا تو افسوس کررہے ہونگے کہ کاش اس میں بھی ہم ذکر کرلیتے آج ہمیں اس کا بھی فائدہ ہوتا ۔ کیونکہ انہوں نے ذکر کا اجر دیکھا ہوگا ۔ ذکر کے ثمرات کے بارے میں ان کو معلوم ہوچکا ہوگا ۔ اس طرح تکالیف کے بارے میں بھی جب اجر معلوم ہوگا کہ جن کو کوئی تکلیف ملی ہوگی اور اس پر اس کو اس کا عظیم ملا ہوگا، تو جن لوگوں پر تکلیفیں نہیں گزری ہوں گی اور و ہ کہیں گے کاش ہمارے جلدکینچیوں سے کاٹی گئی ہوتی لیکن آج ہمیں اس کا آج اس کا اجر ملتا ۔ لیکن افسوس یہ جاننے کے بعد پھر عمل کا وقت نہیں ہوگا ۔ اب اگر کوئی خیر خواہ کسی کو عین وقت پر کان میں کہہ دے کہ یہ بڑے فائدے کی چیز ہے اس کو لے لو ۔ اور وہ چیز وہ لے لیتا ہے اوربعد میں اس کو پتہ چل جائے کہ واقعی وہ بڑے فائدے کی چیز تھی تو وہ اس سے بہت خوش ہوگا اور کہے گا کہ دیکھیں اس نے میرے ساتھ بہت اچھا کیا ۔ تو ایسا خیر خواہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے پاس آچکا ہے ۔ بلکہ اس سے پہلے ایسے خیر خواہوں کا ایک سلسلہ جاری تھا ، انبیائے کرام کا سلسلہ ، جو اپنی اپنی امتوں کوایسی خیر خواہی کی باتیں بتاتے تھے ۔ کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو ۔ تو جب رمضان شریف کا مہینہ آرہا تھا تو آپ ﷺِ نے اپنی امت کے ساتھ یہ خیر خواہی فرمائی کہ شعبان کے آخر میں ایک چھوٹا سا خطبہ ارشاد فرمایا ۔ اس میں آپ ﷺِ نے ارشاد فرمایا جس کا مفہو م یہ ہے کہ تمہارے اوپر ایک بہت بابرکت مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے ۔کہ اس میں ایک رات ایسی ہے جو کہ ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے روزے فرض قرار دیئے اور اس رات کا قیام (تراویح) سنت قرار دیا۔ اس مہینے کے اندر جو لوگ کوئی نفلی کام کریں گے وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان کے اندر وہ فرض کام کررہے ہوں ۔ اور اس مہینے میں جو فرض ادا کررہے ہونگے وہ ایسے ہونگے جیسے غیر رمضان میں ستر فرض ادا کررہے ہوں ۔ اور یہ مہینہ صبر کاہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے ۔یہ مہینہ غم خواری کا ہے اور اس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔جس نے اس میں کسی راوزہ دار کو افطار کرایا اس کو گناہوں سے بخشش اور جہنم سے نجات حاصل ہوتی ہے اوراس کو اس روزہ دار کے برابر اجر ملے گا ۔ اور اس روزہ دار کے اجر سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا ۔ صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ہم میں سے بہت سے آدمیوں کی اتنی استطاعت نہیں کہ وہ کسی کو روزہ افطار کرائے ۔ ان کا خیال تھا کہ روزہ دار کوپیٹ بھر کر کھانا کھلانا ہوگا ۔ یہ تو ہر ایک کے بس میں نہیں تھا ۔ کیونکہ صحابہ کرام میں اکثر غریب ہوتے تھے ۔ تو آپ ﷺِ نے فرمایا کہ نہیں اگر ایک گھونٹ دودھ سے بھی کوئی کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائیگا یا ایک کھجور سے یا تھوڑے سے پانی سے تو اس پربھی یہ اجر ملے گا ، اور جو کسی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے گا اس کوحشر کے دن حوض کوثر سے پانی پلایا جائے گا جس کے بعد جنت میں داخلے تک اس کو پیاس نہیں لگے گی ۔اور یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کی ابتداء رحمت ہے ۔ درمیان میں مغفرت ہے ۔ اور آخر میں جہنم سے خلاصی ہے ۔ اور جس نے اس میں اپنی باندی یا غلام کا بوجھ ہلکا کیا اس کو اللہ تعالیٰ بخش دے گا اور دوزخ کی آگ سے آزاد کرے گا۔
روزہ دار اﷲ کا محبوب ہوتا ہے
روزہ دار کے بارے میں حدیث شریف میں آتا ہے ۔ کہ اللہ پاک کے نزدیک روزہ دار کے منہ کی بو مشک کی خوشبو سے زیادہ افضل ہے ۔ تو یہ محبت کا معاملہ ہے ۔ جو عاشق ہوتا ہے وہ محبوب کی اداؤں سے محبت کرتا ہے ۔ کسی کے اگر اپنے بچے ہوں اور اس کے مقابلے میں دوسرے بچے لائے جائیں اور اس کو کہا جائے کہ دیکھو یہ بچے بڑے صاف ستھرے ہیں تو وہ کہے گا نہیں نہیں مجھے یہ اپنے ہی بچے پسند ہیں۔ یعنی مجھے ہر حال اپنے بچے محبوب ہیں ، تو اللہ جل شانہ کے نزدیک روزہ دار کے منہ کی جو بدبو ہے وہ مشک کی خوشبو سے زیادہ افضل ہے ۔اس کی وجہ روزہ دار کی محبوبیت عند اﷲ ہے ۔روزہ کے بارے اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا ، ایک اور روایت کے مطابق میں ہی اس کی جزا ہوں ۔کوئی شخص اگر کوئی کام دنیا کے لئے کرتا ہے تو وہ دنیا کا ہے ۔وہ چیز موت کے ساتھ ہی فنا ہوجائے گی ۔ لیکن اگر وہ اللہ کے لئے کرر ہا ہے تو اللہ تو باقی ہے ۔ لہذا اس کی نیکی باقی رہے گی ۔ اور ہمیشہ کے لئے اس کے لئے فائدہ مند ہوگی ۔ اس طرح روزے کے بارے میں ایک بات طے ہے کہ یہ کسی اور کے لئے نہیں ہوسکتا۔ تنہائی میں آپ بیٹھے ہوئے ہیں آپ کے ساتھ اور کوئی نہیں ہے ٹھنڈا میٹھا شربت ہوجو د ہے ،بہت اچھا کھانا موجود ہے ۔ لیکن نہیں کھا رہے ۔ کیوں نہیں کھا رہے ؟ اس لئے کہ روزہ ہے ۔ اس کا مطلب کیا ہے ، اس کا مطلب ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے ۔ جس کے لئے روزہ ہے وہ دیکھ رہا ہے باقی کوئی نہیں دیکھ رہا ۔ گناہگار سے گناہگار انسان جو روزے سے ہے اس کو بھی یہ چیز حاصل ہے ، وہ بھی اس کیفیت میں نیک لوگوں کے ساتھ شامل ہے ۔ کیونکہ اس نے روزہ اللہ جل شا نہ کے لئے رکھا ہے ۔ کسی اور کیلئے نہیں رکھا ۔ گویا یہ اخلاص روزے کے اندر خود بخود شامل ہے ۔ تو جب یہ چیز موجود ہے تو اللہ پاک نے فرمایا ، روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ باقی اعمال کی جزا تو ہوسکتا ہے فرشتوں کے ذریعے مل جائے ، لیکن روزے کی جزاء اللہ پاک خود دینگے ۔جنت کا ایک خاص دروازہ باب الریان اس کے لئے موجود ہے ۔ جس سے روزہ دار جنت میں جائیں گے ۔ تو روزہ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔
روزہ اصلاح نفس کا بہترین ذریعہ اور مغفرت کی کنجی ہے
اصل میں ہم لوگ اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں ۔گیارہ مہینے مسلسل ایسے اعمال کرتے ہیں جو اللہ جل شانہ کو ناراض کرنے والے ہوتے ہیں ۔ ہماری ایسی ترجیحات ہوتی ہیں جس سے اللہ پاک ناراض ہوتے ہیں،یعنی کسی نہ کسی چیز میں ہم اپنا نقصان کررہے ہوتے ہیں ۔ اللہ جل شانہ ہماری کمزوریوں سے آگاہ ہے ۔ تواس نے ہمیں ایک ایسا مہینہ عطا کردیا کہ اس کے اندر گناہگار سے گناہگار آدمی کے گناہ دھل جائیں اور وہ پھر سے اللہ والا بن جائے ۔ میں نے جو آیات تلاوت کی ہیں تھوڑا سا اندازہ کریں اور اس کے ترجمے کو غور سے پڑھیں ، اور سمجھنے کی کوشش کریں توان میں کتنی بلاغت ہے ۔ اللہ پاک فرماتے ہیں
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآء اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ﴿۲۶﴾ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ﴿۳۶﴾
یعنی آگاہ ہوجاو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان پر نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہونگے ، وہ لوگ کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا ۔
رمضان شریف میں آسانی کے ساتھ ولی اﷲ بن سکتے ہو
پس ولایت دو باتوں سے حاصل ہوسکتی ہے ، ایک ایمان سے اور دوسرا تقویٰ سے ۔ جس کو دو باتیں حاصل ہیں وہ ولی اللہ ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر جو شخص ہوگا وہ اعلیٰ درجے کا ولی ہوگا ، اور جو تقوے کے ادنیٰ درجے پر ہوگا وہ ادنیٰ درجے کا ولی ہوگا ۔ جو کم از کم اس بات سے ڈرتا ہے کہ کہیں میرا روزہ نہ ٹوٹ جائے ، تو وہ اس درجہ کا ولی ہے اور جو مزید باتوں کا خیال رکھتا ہے کہ کوئی کام ایسا نہ ہو جس سے ر وزے کو کوئی نقصان ہو ، یعنی جس سے اللہ پاک ناراض ہو تے ہوں ، جس سے حضورﷺ کی سنت کی ذرہ بھر خلاف ورزی ہو ، وہ اعلیٰ درجے کا ولی ہوگا ۔ ولایت کی تعریف اس کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ، نہ اس کاصاحب کرامت ہو نا ضروری اور نہ صاحب کشف ہونا ضروری ۔، نہ اس کے ہاتھوں سے لوگوں کو صحت حاصل ہونا ضروری وغیرہ ۔ صرف دو چیزیں ہیں ایک چیز ایمان اور دوسری چیز تقویٰ ۔اور یہ میدان سب کے لئے کھلا ہے ۔ اللہ جل شانہ نے اس کو چھپا کر نہیں رکھا ہوا، بلکہ اس کی طرف اللہ جل شانہ بلاتا ہے ۔ دیتا ہے ۔ نوازتا ہے ، عطا فرماتا ہے ، اللہ جل شانہ کے ہاں تو بخل ہے ہی نہیں ۔ کوئی لے گا اور اللہ نہیں دے گا کمال ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔ اللہ پاک تو فرماتے ہیں کہ جو میری طرف ایک بالشت بھر آتا ہے میری رحمت اس کی طرف دو بالشت جاتی ہے ۔ جو میری طرف ایک ہاتھ آتا ہے میری رحمت اس کی طرف دو ہاتھ جاتی ہے اور جو میری طرف چل کر آتا ہے میری رحمت اس کی طرف دوڑ کر جاتی ہے ۔ اللہ پاک تو ایسے کریم ہیں ۔ اللہ پاک تو دیتے ہیں ۔ اگر کوئی ایمان اور تقویٰ حاصل کرنا چاہے تو کیا وہ نہیں دیگا ؟ اب یہ بات سمجھ لی جائے کہ ولایت کی دو کنجیاں ہیں ۔ ایک ایمان اور دوسرا تقویٰ ۔ ایمان کے بغیر تو کچھ بھی ممکن نہیں اور تقویٰ اس کی بنیاد ہے ۔ تو جب یہ بات سمجھ آگئی تو پھر دوسری آیت پڑھیں
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴿۳۸۱﴾
اے ایمان والو تم پر رمضان شریف کے روزے فرض کیے گئے ہیں ، جیسے تم سے پچھلوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جائو ،یعنی تقویٰ حاصل کرلو ۔ اب ذرا غور کریں ،
اللہ جل شانہ فرماتا ہے اے ایمان والو! اب وہ ایمان والے تو ہیں ہی ۔ یہ اللہ کا شکرہے کہ ہم ایمان والے ہیں ۔ اللہ پاک کا خطاب ہمارے لئے ہیں ۔ ہم وہ خوش قسمت لوگ ہیں دنیا میں جن کی جنت میں جانے کی probability ﴿امکان ﴾ہے ۔ کیونکہ ہمارے پاس ایمان ہے ، الحمد اللہ ۔ جب تک کسی کے پاس ایمان نہیں ہوگا ، اس کا جنت میں جانے کا کوئی امکان نہیں ۔ امکان اس وقت پیدا ہوگا جب وہ ایمان والا ہوگا ۔ تو ایمان اس امکان کا بنیاد ہے ۔
ایمان انمول موتی ہے اس کو بچانا ہے
الحمد اللہ ہم سب کو ایمان حاصل ہے اللہ جل شانہ اس کو باقی رکھے ۔ اور اس ایمان کے ساتھ ہمیں اس دنیا سے لے جائے ۔ ہمیں موت تک اس ایمان کو رکھنا ہے ، یہ مشکل بات ہے آسان نہیں ہے ۔ اس وقت ایمان کو برقرار رکھنا بہت مشکل کام ہے ۔ اس وقت اس ایمان پر ہر طرف سے حملے ہورہے ہیں ۔ شیطان کے جتنے بھی کارندے ہیں وہ سب کے سب ایک بات پر متفق ہیں کہ ایمان والوں سے ایمان چھین لو ، چاہے وہ انٹرنیٹ کے ذریعے کام کررہے ہوں چاہے وہ ٹیلی وژن ہو ، کیبل ہو ، گرین کارڈ ہو ، ان سب کا ایک ہی منشا ءہے کہ ایمان والوں سے ایمان چھین لو ۔ تو ایمان کو بچانا بہت ضروری ہے اور یہ آج کل کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ اس وقت ایمان پر مسلسل حملے ہورہے ہیں، اہل ایمان کی قدر وںکو مٹایا جارہا ہے اہل ایمان کو لوگوں کو سامنے کمزور دکھایا جارہا ہے ۔اہل ایمان کو سب سے زیادہ پست دکھایا جاتا ہے ۔ اہل ایمان کو سب سے زیادہ کرپٹ دکھایا جاتا ہے ، یہ ساری کی ساری باتیں اس پر ہیں کہ ایمان چھوڑ دو ۔ اور ایمان باقی تب رہے گا جب مضبوط ایمان والوں کے ساتھ جوڑ رکھو گے ۔ جو ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پروا نہ کرتے ہوں ، جو اپنے ایمان پر شرمندہ نہ ہوں ، ان کو احسان کمتری نہ ہو ، ان کو اس بات کا خیال نہ ہو کہ فلاں مجھ سے زیادہ اچھا ہے اگرچہ اس کا ایمان نہیں ہے ۔ تو جس کے پاس ایمان نہیں وہ ہم سے اچھا کیسے ہوگیا؟ وہ تب اچھا ہوگا جب ایمان والا ہوجائے گا۔ تو آج کل ایمان کو چھوڑنے پر محنت ہورہی ہے ، اور ہمیں اس سے اپنے آپ کو بچانا ہے ۔ حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا تھا کہ میں فتویٰ دیتاہوں کہ صحبت صالحین آج کل فرض عین ہے
صحبت صالحین آج کل فرض عین ہے
حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا تھا کہ میں فتویٰ دیتاہوں کہ صحبت صالحین آج کل فرض عین ہے اور پھر فرمایا کہ یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے ، ولا تموتن الا وانتم مسلمون ، تمہیں ایسی حالت میں موت آنی چاہیے کہ تم ایماندار ہو ، مسلمان ہو ۔ اور یہ چیز آج کل بغیر صحبت صالحین کے ممکن نہیں ہے ۔ تو اب ایک ایمان والے کیلئے اللہ پاک فرماتے ہیں ، اے ایمان والو ! تم پر رمضان کے روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پچھلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ حاصل کرلو ۔ اب دیکھ لو ایمان والوں سے کہا جارہا ہے کہ تم تقویٰ حاصل کرلو ۔ کہ ایمان تو تمہارے پاس ہے ، تقویٰ بھی حاصل کرلو ۔ یا دوسرے لفظوں میں کہا جارہا ہے کہ اﷲ کے ولی بن جاؤ۔ تقویٰ حاصل کرنے کا ذریعہ کیا ہے؟ روزہ ۔ اور ایمان والے جب اس تقویٰ کو حاصل کرلیں گے تو کیا بن جائیں گے ، اللہ کے ولی بن جائیں گے ۔ گویا ولایت مل رہی ہے روزے سے ۔ جو روزے کا خیال کرے گا اس کو ولایت مل جائے گی ،انشاء اللہ ۔ نبوت نہیں مل سکتی کیونکہ نبوت کا دور ختم ہوگیا ہے ۔ ولایت کا دور جاری ہے ، جس کو بھی اللہ پاک نوازنا چاہے اسے ولایت عطا فرما دیتا ہے ۔ اور یہ چیز رمضان میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ نفس کے تزکیہ کے لئے جو بنیادی چیز ہے ، اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ دو چیزیں ہیں ، ایک نفس کا مجاہدہ ہے اوردوسرا فاعلہ ہے یعنی ذکر اذکارو مراقبات ، یہ اس لئے ہے تاکہ ہمارا نفس نیکی کی طرف آجائے ۔ ہمارے نفس کے اندر اللہ نے بڑی طاقت رکھی ہے ۔
خیر کی طرف چلا جائے تو بہت آگے چلا جاتا ہے ۔ شر کی طرف چلا جائے تو بہت آگے چلا جاتا ہے ۔ اب اس کو شر سے خیر کی طرف لانا ہے تو شر سے خیر کی طرف کیسے لاؤ گے ۔ ایک منہ زور گھوڑا جس پر سفر کرنا آپ کی مجبوری ہے ،تم اس کے بغیر نہیں جاسکتے ۔ اس وقت کیا کرو گے ؟ کیا اس کو آزاد چھوڑ دو گے کہ جہاں مرضی جائے ۔ یہ توخطرناک بات ہے اس کے اوپر بیٹھو گے تو وہ تو پٹخ دے گا ۔ اس کو کنٹرول کرنا ہوگا اس کے منہ میں لگام دینا ہوگا ۔ اس کو ٹرینڈ کرنا ہوگا ، تاکہ وہ آپ کی سواری کے قابل ہوجائے ۔آپ نے دیکھا ہوگا گھوڑے کی آنکھوں کے سائڈگ پر کور ﴿cover﴾لگے ہوتے ہیں تاکہ وہ ادھر ادھر نہ دیکھے ۔ گھوڑا تو آپ کا محسن ہے لیکن آپ مجبور ہیں اگر ایسا نہیں کریں گے تو گھوڑا آپ کو خطرے میں ڈال دے گا ۔ اسی طرح یہ نفس آپ کا خادم ہے ۔ لیکن اگر اس نفس کو آپ بے مہار چھوڑیں گے تو یہ تمہیں پٹخ دے گا ۔ تو نفس کو کنٹرول کرنا ضروری ہے اور یہ بہت اہم ہے ۔ تو نفس کو کنٹرول کرنے کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ایک مجاہدہ ہے، یعنی نفس کی مخالفت کرو ، یہ کہے یہ چیز کھاؤ ،تونہ کھاؤ۔ یہ کہے یہ چیز پیو ، تونہ پیو ۔ یہ ترتیب اس کو سکھانے کیلئے ہوتی ہے ۔ اس کے اندر اللہ نے یہ چیز رکھی ہے کہ اگر اس پر سختی کرو گے تو یہ سختی برداشت کرتا رہے گا اور اگر اس کو ڈھیلا چھوڑو گے تو یہ مزید ڈھیل مانگے گا ۔ یہ کبھی ڈھیل سے مطمئن نہیں ہوگا ، اور مزید سرکشی پر آمادہ ہوگا۔ پھر یہ رکے گانہیں ۔ ایک شخص جو کہ کبھی بھی نماز نہیں پڑھتا ، اس کے لئے نماز بہت مشکل ہے ، اس کی منت سماجت کرکے ، آگے پیچھے کرکے اس کو نماز پڑھنے کیلئے تیار کرلیں تو اگر وہ ایک نماز پڑھ لے گا تو دوسری نماز اس کے لئے کتنی مشکل ہوگی ؟ وہ کم مشکل ہوگی ۔ پھر جب دوسری نماز پڑھے گا تو تیسری نماز اس کے لئے اورآسان ہوجائے گی ۔ تیسری نماز پڑھے گا تو چوتھی نماز اور زیادہ آسان ہوجائے گی ۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کے نفس نے برداشت کرنا سیکھ لیا ۔ اس کے نفس نے ماننا سیکھ لیا ۔ تو نفس کو ماننا سکھانا ہے
نفس کو ماننا سکھانا ہے
اسی روزے میں نفس کو ماننا سکھایا جاتا ہے ۔ نفس کو کھانے پینے کی خواہش ہے ،لیکن وہ کھا پی نہیں سکتا ۔سحری کا وقت ہے تو کھا پی لے لیکن ابھی افطار کا وقت نہیں ہے تو نہیں کھا پی سکتا ، مباشرت بھی نہیں کرسکتا ۔ تو یہ پابندی کس لئے ہے ؟ اس لئے ہے تاکہ نفس ماننا سیکھ لے ۔ ہمارے بھوکے پیاسے رہنے سے اللہ پاک کو کیا غرض ہے ۔ وہ تو صرف نفس کو سکھانے کے لئے ہمیں حکم دے رہا ہے کہ ہمارانفس ماننا سیکھ لے ۔ تو اس چیز کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے ۔ دوسری طرف کچھ روشنی ہمارے اندر پیدا ہونی چاہیئے تاکہ ہم حق اور باطل کے اندر تمیز کرسکیں ۔یوں سمجھ لیں کہ دل کی زمین بنانی ہے۔زمین نرم کئے بغیر کوئی کاشت کرے گا تو بیج بھی ضائع ہوگا۔ روشنی کس چیز سے پیدا ہوتی ہے اور دل کی زمین کس چیز سے نرم ہوتی ہے ۔ اللہ کی یاد سے، ذکر اللہ سے ۔ اب اس ذکر اللہ کا بھی رمضان شریف کے مہینے میں انتظام کیا گیا ہے تراویح کے نماز کی صورت میں ۔ تراویح میں ہم کیا سنتے ہیں ، قرآن سنتے ہیں ۔ قرآن تو بہت بڑا نور ہے ۔ اس قرآن کے ساتھ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو صرف رمضان ہی میں متعارف ہوتے ہیں ، بلکہ بعض حافظ ہی ایسے ہوتے ہیں جو صرف رمضان ہی میں قرآن پڑھتے ہیں ، یہ افسوس کی بات ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے ، بہر حال ایسے ہوتے ہیں جو صرف رمضان میں قرآن پڑھتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ رمضان شریف کے مہینے میں قرآن کے ساتھ تعلق کو ضروری قرار دیا گیا۔ جبرائیل علیہ السلام آپ کے ساتھ قرآن کا ایک دور کرتے تھے ۔ اور جب عمرمبارک کا آخری سال تھا تو دو دور کرائے ۔ تو قرآن روشنی ہے جو اللہ جل شانہ ہمیں دینا چاہتے ہیں ۔ تو بیس رکعت نماز میں جب ہم قران پاک کو سنیں گے تو انشاء اللہ اتنا نور ہمارے سینوں میں آئے گا جو پورے سال کے لئے روشنی فراہم کرے گا ۔
رمضان شریف کے خصوصی اعمال
رمضان شریف کے بارے میں فرماتے ہیں کہ چند اعمال ایسے ہیں جن کی اس میں کثرت کرنی چاہیے ۔ چار چیزیں بتاتے ہیں ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا ۔ استغفار کا ۔ جنت زیادہ مانگنے اور دوزخ سے پناہ مانگنا ۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ تو اساس کائنات ہے ۔ کائنات اس پر قائم ہے ۔ اس کے بعد استغفار سب سے بڑی عقلمندی ہے، اس کی کثرت ہونی چاہیے اس طرح رمضان شریف میں قبولیت کی گھڑیا ں ہوتی ہیں ، اس قبولیت کی گھڑی میں سب سے اہم چیز مانگو ، اور وہ چیز ہے اللہ کی رضا اور اللہ کی رضا کی جگہ جنت الفردوس ہے ۔ یہ مانگو اللہ سے ، اللہ خود ہی فرماتا ہے ۔ اور قبولیت کی گھڑی میں مانگو پناہ اس چیز سے جس کو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے ان لوگوں کے لئے جو اللہ جل شانہ کو ناپسند ہیں ، یعنی جہنم سے پناہ مانگو ۔ تو یہ دو چیزیں تو ہماری مجبوریاں ہیں اوران قبولیت کی گھڑیوں کا فائدہ اٹھانا ہے ۔ جو پہلی دو چیزیں ہیں وہ ہمارے لئے اساس ہیں ۔ ایک ہمیں دینے کیلئے ، لا الہ الا اللہ یہ دینے کیلئے ہے اور ایک استعفار ، جو ہم نے اپنا نقصان کیا ہے یہ اس کی تلافی کے لئے ۔ تو ان چار چیزوں کی کثرت بتائی گئی ہے ۔ رمضان شریف میں قرآن کا تو آپ نے پڑھ لیا ، فرماتے ہیں ،
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ
رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قران پاک اتارا گیا تو: رمضان شریف کا قرآن کے ساتھ خاص تعلق ہے۔
اس لئے رمضان شریف میں قران پاک کی تلاوت کی کثرت کرنی چاہیے ۔ ہمارے اکابر میں بعض خوش نصیب ایسے ہوتے تھے جو کہ روزانہ ایک قران پاک ختم کرتے تھے اور بعض لوگ ایسے تھے کہ ایک ختم قرآن دن میں اور ایک رات میں کرتے تھے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں جولوگ زیادہ نمایاں ہیں جن کو مصروف ترین لوگ کہا جاسکتا ہے ۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ ، حضرت امام شافعیؒ ، یہ ساٹھ سے اوپر ختم کیاکرتے تھے رمضان شریف میں، یعنی ایک دن میں ایک رات میں ۔ اب بتائیں ان سے زیادہ مصروف لوگ کون ہونگے ؟ کمال کی بات ہے میں ان لوگوں کی ظرف کو دیکھ کر حیران ہوتا ہوں کہ کیسے عجیب بندے تھے ، اتنا زیادہ کام بھی کرلیا اور اس کے ساتھ اتنی زیادہ عبادت بھی کرتے تھے ۔
علمائے کرام کے لئے لمحۂ فکریہ
امام ابو حنیفہ ؒ اور امام شافعی ؒ کارات میں ایک قرآن ختم کرنا اور دن میں قرآن ختم کرنا ،یہ معمولی بات نہیں ہے ۔بصد ادب عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں تھوڑی سی بات حاصل ہوجائے علم کی یا بزرگی کے ایک دو الفاظ ہمارے ساتھ لگ جائیں تو ہم کہہ دیں گے کہ اجی اب تو ہم تمام چیزوں سے فارغ ۔ اب تو ہم بزرگ ہوگئے ۔ اب تو یہ کسی اور کے کام ہیں ، میں کسی اورکو بتاؤں گا ، وہ نماز پڑھے گا، وہ روزے رکھے گا ۔ وہ قرآن پڑھے گا ، میں تو بڑا آدمی ہوگیا ہوں ۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ جو جس چیز کا زیادہ عالم ہو وہ اس کو زیادہ حاصل کرنے کا حرص کرے جیسے ہمارے اکابر نے کیا لیکن اب تو یہ حدیث شریف یاد ہے کہ عالم کی نیند عابد کی عبادت سے بہتر ہے باقی سارا بھول بھال گئے ۔کیا یہ حدیث شریف ہمارے ان اکابر کو یاد نہ تھی ؟دنیا میں تو جن کو زیادہ دنیاملی ہے وہ مزید دنیا کا زیادہ حرص کررہا ہے لیکن آخرت کے معاملے میں اتنی استغنا ؟یہ تو خطرے کی بات ہے ۔صحابہ کرام ؓ تو کام کرتے کرتے ڈرتے تھے اور ہم دلیر ہورہے ہیں ۔اﷲ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے ۔حضرت امام ابو حنیفہ ؒکے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان کے پڑوس میں ایک چھوٹی سی بچی تھی تو اس نے اپنے والد سے کہا کہ ابو یہ ہمارے پڑوس کے گھر میں ایک ستون ہوا کرتا تھا وہ اب نظر نہیں آرہا کیا وہ ہٹا دیا گیا ہے ۔ تو اس کے والد رو پڑے اور فرمایا بیٹی وہ امام ابو حنیفہ ؒ تھے ۔ وہ فوت ہوگئے یعنی وہ اس کثرت سے نماز پڑھتے تھے کہ دوسرے لوگوں کو ستون نظر آتے تھے ۔ آپ کو ان کے بارے میں پتہ ہوگا کہ عشاء کی نماز کے وضو سے فجر کی نماز پڑھنا ان کا معمول تھا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے باون حج بھی کیے ۔ تویہ کیسے عجیب بات ہے ۔ ان لوگوں کو پتہ تھا کہ رمضان شریف کیا ہے ۔ عمر بن عبدالعزیز ؒ نے ایک گورنر سے کہا کہ مجھ سے ملو ۔ وہ گورنر صاحب ان سے ملنے آئے تو رمضان شروع ہوچکا تھا ۔ تو انہوں نے اس کو ڈانٹا کہ تمہیں رمضان کے علاوہ اور کوئی وقت نہیں ملا ملنے کے لئے ۔ تم نے رمضان میں سفر کیوں کیا ؟ رمضان میں بلا وجہ سفر نہیں کرنا چا ہیے ۔ بہت اشد ضرورت ہو تو سفر کریں ۔ کیونکہ یہ اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والی بات ہے ۔ رمضان کے معمولات میں حرج ہوجائے گا ۔ رمضان کے معمولات آپ کو غیر رمضان میں نہیں ملیں گے ۔ چھوٹ مل گئی کہ ٹھیک ہے آپ روزہ نہ رکھیں بعد میں رکھ لینا ۔ چھوٹ تو مل گئی لیکن کیا اس سے وہ ثواب و برکات بھی مل گئے ؟ اس لئے کہتے ہیں کہ رمضان میں بلاوجہ سفر نہیں کرنا چاہیے ، ہاں مجبوری ہو تو ٹھیک ہے ۔ اللہ پاک نے آسانی دے دی، اگر آپ مجبور ہیں ، سفر پر ہیں تو آپ کے لئے چھوٹ ہے آپ بعد میں روزہ رکھ لیں تورمضان شریف کے مہینے میں یکسو رہنا چاہیے ۔
رمضان شریف کے مہینے میں یکسو رہنا چاہیے
بہت سارے لوگ رمضان کا مہینہ فضول کاموں میں ضائع کردیتے ہیںمثلاً شاپنگ میں خصوصاً رمضان شریف کے آخری عشرہ کی راتوں کو اس میں ضائع کردیا جاتا ہے ۔ عید کارڈ بیچنے کیلئے ڈیک بجائے جاتے ہیں اس طرح کی فضول چیزوں کے لئے رمضان شریف کے اوقات کو ضائع کیا جاتا ہے ، اس سے بچنا چاہیٔے ۔ دیکھیں اگر عید کارڈ بک بھی گئے اورساتھ میں ڈیک بجا کر گناہ بھی کیا ، تو آپ کو جو پیسے ملے ان پیسوں کی رمضان شریف کی برکات کے مقابلے میں کیا حیثیت ہے وہ تو ایسے ہے جیسے ہزار روپے کے نوٹوں کی گڈی پر کوئی چائے پکا لے ۔ چائے تو پک جائے گی لیکن آپ کو ایک لاکھ روپے کا نقصان ہوگیا ۔ تو ان اوقات کو ضائع نہیں کرنا چاہیے ۔یہاں تو یہ صورتحال ہے کہ رحمتوں اور مغفرتوں کی بارش ہے ۔رمضان شریف میں ہر روز افطار کے وقت ستر ہزار گناہگاروں کوجہنم سے خلاصی دی جاتی ہے ۔ تو کیا ہمیں ان میں نہیں ہونا چاہیے ۔ کیا ہمیں طلب نہیں ہے کہ ہم بھی ان میں ہوں ۔ پھر جب رمضان شریف کی آخری رات ہوتی ہے تو اس میں جتنے رمضان شریف میں آدمی جہنم سے چھڑائے گئے ہیں ان سب کے برابر اس ایک رات میں جہنم سے چھڑائے جاتے ہیں ۔ اور لیلتہ الجائزہ میں انعام دیا جاتاہے ، تو کیا ہمارا دل نہیں چاہے گا کہ یہ انعام ہم بھی حاصل کرلیں ۔رمضان شریف کی آخری رات یعنی چاند رات میں اکثر لوگ ادھر ادھر چلے جاتے ہیں ، گپ شپ میں گزار دیتے ہیں ،حالانکہ وہ کمانے کی رات ہے اور اللہ سے لینے کی رات ہے ۔ اور تین روز تک لوگ اگر تھوڑا سا صبر کرلیں ، اپنے نفس کو کنٹرول کرلیں ، جو شرعی خوشی ہے اس کو کرے اور غیر شرعی چیزوں سے اپنے آپ کو بچائے تو پورا سال یہ رمضان ڈھال کا کام دے گا ۔ رمضان میں جو تقویٰ کا نور حاصل کیا وہ پورے سال کے لئے کافی ہوگا ۔ شیطان تو ابھی بند ہے لیکن عید کی رات وہ آزاد ہوجاتا ہے پھر وہ پورا بدلہ لیناچاہتا ہے ، ان تین دنوں کے اندر وہ ساری چیزیں ختم کروانا چاہتا ہے ۔ جیسے آدمی حج پر جاتا ہے طواف کرتا ہے طواف پر ملتا ہے ۔ عرفات جاتا ہے عرفات میں ملتا ہے ۔ منیٰ جاتا ہے منیٰ میں ملتا ہے ۔ اور بازار میں چھوڑتا جاتا ہے ۔ کوئی وہاں ائرپورٹ پر چھوڑ دیتا ہے کوئی یہاں چھوڑ دیتا ہے ۔ کوئی ہار ڈالتا ہے تو وہاں چھوڑ دیتا ہے ۔ بہت کم لوگ اپنے ساتھ حج لاتے ہیں ۔ حاجی تو ہوجاتا ہے ، اس کے نام کے ساتھ حاجی لگ جاتا ہے ، لیکن کیا وہ حج اس کے اکاؤنٹ میں جع بھی ہوگیا یا نہیں ؟ اسی طریقے سے ہم رمضان کا مہینہ کما سکتے ہیں لیکن ضائع کردیتے ہیں ۔ اس کو ضائع کرنے سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے ۔
رمضان شریف کی ایک اور نعمت اعتکاف
اور پھر آخری طاق راتو ںمیں ایک رات ہے لیلۃالقدر ۔ جس کے بارے میں اللہ جل شانہ نے فرمایا ،
اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ﴿۱﴾ وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ﴿۲﴾ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ﴿۳﴾
بے شک ہم نے نازل کیا اس قران کو لیلۃالقدر میں ، اور تمہیں کیا پتہ کہ لیلتہ القدر کیا چیز ہے ۔ لیلتہ القدر تو وہ رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ یعنی اگر کوئی اس رات میں جاگا اللہ کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے اعمال کیے گویا اس نے ہزار مہینے ہر رات کے اندر وہ سارے کے سارے اعمال کرلیے ۔ بہرحال یہ بہت بڑی سعادت ہے اور اس سعادت کو حاصل کرنے میں بھی غلط فہمی بعض حضرات کو ہوجاتی ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی لمحہ ہے ۔ یہ لمحہ نہیں ہے یہ پوری رات ہے ۔ غروب آفتاب سے لیکر صبح صادق تک پوری رات ہے۔ اس رات کو کمانا چاہیے ۔ اور اس کمانے کا آسان طریقہ اعتکاف ہے ۔ کیونکہ اعتکاف میں جو سورہا ہوتا ہے وہ بھی کمانے والا ہے ۔
اعتکاف میں سونا بھی عبادت ہے
لہذا اعتکاف میں رہ کر آدمی مسلسل کما سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ عورتوں کا اعتکاف اور بھی زیادہ آسان ہے ، اس کے متعلق اپنے گھر والوں کو بتادیا جائے ، بہر حال مردوں کو اعتکاف مسجد میں کرنا چاہییے ۔ آج کل حضرت شیخ الحدیث حضرت مولانا ذکریا صاحب ؒکی برکت سے اجتماعی اعتکاف بھی شروع ہوچکے ہیں ۔ کیونکہ یہ فتنے کا دور ہے انسان اپنے اوقات کی حفا ظت نہیں کرسکتا ، لہذا وہاں اجتماعی انتظام ہوتا ہے جس میں اوقات کی حفاظت کا بھی انتظام ہوتا ہے ۔اور سیکھنے سکھانے کا بھی انتظام ہوتا ہے ۔ اور صحیح طریقے سے ڈھنگ سے اعتکاف کرنا بھی ہو۔ تو ایسا انتظام اگر کسی کے پاس ہو تو یہ بہت بڑی بات ہے ۔ الحمد اللہ بہت ساری جگہوں پر ایسا اعتکاف ہوتا ہے ۔ ہمارے ہاں بھی ہوتا ہے ۔ اس میں ہماری ایک ترتیب ہے کہ ہم پہلی پانچ راتوں میں ایک قرآن پاک ختم کرتے ہیں ۔ پھر دو راتوں میں ایک ختم کرتے ہیں ، پھر دو راتوں میں ایک ختم کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ اصلاحی معمولات ذکر ، تعلیم اور مراقبات بھی ہوتے ہیں۔کوشش کرنا چاہیئے کہ جہاں مناسبت ہو وہاں ان ایام میں پہنچ کر اعتکاف کی برکات کو سمیٹا جائے ۔ اس دفعہ مرحبا مسجد کری روڈ میں اس قسم کا اجتماعی اعتکاف ہوگا۔اس کے بارے میں مزید معلومات کیلئے موبائل نمبر03215289274پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔دعا کریں کہ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو علم نافع ، عمل صالح اور اخلاص نصیب فرماکر قبولیت نصیب فرمائے آمین ثم آمین۔