اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ۔اَلصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَم ُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیینِ۔اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ قُلْ انْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللّہَ ۔ وَقَالَ اللّہُ تَعَالیٰ اِنَّ اللّہَ وَمَلآئِکَۃُ ،یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِ یَا یُّھَاالذِّیْنَ آمَنُوا صَلُّو عَلَیْہِ وَسَلِّمُو تَسْلِیْماً۔اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلیٰ آلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنکَ حَمِیْد ٌ مَجیْد ۔اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلیٰ آلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنّکَ حَمِیْد ٌ مَجیْد ۔
معزز خواتین و حضرات ! میں نے آپ کے سامنے دو آیات مبارکہ تلاوت کی ہیں ، ان آیات مبارکہ میں اللہ جل شانہ اپنے حبیب پاک ﷺِ کے مقام اورطریقوں کو اپنانے اور آپﷺِ پر درود شریف پڑھنے کے بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں ۔اللہ جل شانہ کی طرف سے جو انبیائے کرام دنیا میں تشریف لائے ان میں آپ ﷺِ سب سے آخری نبی ہیں اور آپ ﷺِ پر ایمان لانا اب ہر ایک کیلئے ضروری ہے ۔ اگر کوئی آپ ﷺِ پر ایمان نہیں لاتا اور باقی تمام انبیائے کرام پر ایمان لاتا ہے تو اس کا ایمان کامل نہیں ہے ،اس کو ایمان حاصل ہی نہیں ہے ۔ اور اس کی کوئی چیزقبول نہیں ۔ لہذا یہودی اور عیسائی جو پہلے مسلمان کہلاتے تھے کیونکہ وہ اپنے وقت کے نبی کے طریقے پر تھے ، اب اگر وہ آپ ﷺ کے نبوت کو تسلیم نہیں کرتے تو اب وہ مسلمان نہیں کہلائیں گے اور ان کو ہمیشہ کیلئے جہنم میں رہنا پڑے گا ۔ جتنے بھی انبیائے کرام تشریف لائے انہوں نے اپنی اپنی امتوں کو آپﷺِ کے بارے میں بتا دیا تھا، بالخصوص بعد میں آنے والے انبیائے کرام ، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ۔ اس لحاظ سے اللہ جل شانہ نے ہمیں بہت خوش قسمت بنایا کہ ہمیں اس نبی کی امت میں بھیجا جس کے امتی ہونے کے لئے انبیائے کرام نے بھی دعائیں کی تھیں ۔ ا سی لئے آپ ﷺِ سے محبت انتہائی ضروری ہے ۔ آپ ﷺنے خود ارشاد فرمایا کہ کسی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک وہ مجھ سے تمام چیزوں سے زیادہ محبت نہ کرے ۔تو ہمیں اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے کہ آیا ہمیں آپ ﷺِ سے اتنی محبت ہے یا نہیں ۔ اگر نہیں ہے تو اس کوپیدا کرناپڑے گا۔ جیسا کہ حضرت عمرؓ کے ساتھ ہوا ۔ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ عرض کیا یا رسول اللہ ﷺِ مجھے آپ سے محبت ہے تمام چیزوں سے زیادہ بجز اپنے آپ کے ۔ یعنی اپنے آپ کے ساتھ محبت زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا اے عمر اس وقت تک تمہارا ایمان کامل نہیں ہوسکتا جب تک مجھ سے اپنے آپ سے بھی زیادہ محبت نہ کرنے لگو ۔ اس کے بعدحضرت عمرؓ نے فرمایا،یا رسول اللہ ﷺِ اب تو مجھے آپ کے ساتھ اپنے آپ سے بھی زیادہ محبت معلوم ہوتی ہے ۔ اس کے بعد آپ ﷺِ نے فرمایا الآن یا عمر، اب ہوگئی بات ۔ تو اس لحاظ سے ہمیں اپنے تعلقات کو دیکھنا پڑے گا ، اپنی پسند اور ناپسند کو دیکھنا پڑے گا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہمیں آپ ﷺِسے زیادہ اپنے آپ سے یا دوسری چیزوں سے محبت ہو ، اس کے بارے میں غور کرنا پڑے گا ۔ آپ ﷺِ کے ساتھ جو محبت ہے اس میں تو دوسری بات ہو ہی نہیں سکتی ۔آپ ﷺِ کی جتنی نسبتیں ہیں ان نسبتوں سے ہمیں تب محبت ہوگی کہ آپ ﷺِ سے محبت ہو ۔اور ان نسبتوں سے ہم آپ ﷺِکی محبتوں کو حاصل کریں گے ۔ مثلاً کل چاند دیکھا جائے گا ۔ اگر چاند نظر آیا تو پرسوں ربیع الاوّل کی پہلی تاریخ ہوگی ۔ چونکہ ربیع الاوّل میں آپ ﷺِ کی ولادت پاک ہوئی ہے اس لئے آپ ﷺِکا یاد آنا اور محبت کا بیدار ہونا فطری بات ہے ۔ اب آپ ﷺِ کے ساتھ محبت تو لازمی ہے لیکن آپ ﷺِ کے ساتھ محبت ہے کیا ؟ بعض دفعہ محبت کی صورت تو حاصل ہوتی ہے لیکن محبت کی حقیقت حاصل نہیں ہوتی ۔ صورت یہ ہے کہ میں منہ سے کہہ دوں کہ مجھے آپ ﷺ سے محبت ہے ،مجھے آپ ﷺِ سے محبت ہے ۔ ٹھیک ہے کہنے میں کوئی حرج نہیں ۔ لیکن جب اس کہنے کا امتحان آئے گا تو پھر پتہ چلے گا کہ آیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں یا نہیں ۔ دیکھا جائے گا کہ ہمارے دعوے کے مطابق آپ ﷺِ جو ہمارے محبوب ہیں وہ ہم سے کیا چاہتے ہیں ۔ جو چیزیں آپ ﷺ ہم سے چاہتے ہیں ، اور جو چیز اللہ جل شانہ ہم سے آپ ﷺِ کے بارے میں چاہتے ہیں ، ان کے بارے میں ہم کتنے صادق القول و العھد ہیں ، مثلاً اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں ، لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ ، البتہ بالتحقیق تمہارے لئے آپ ﷺِ کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے ۔ یہ آپ سب کے لئے اور ان لوگوں کے لئے جو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملنے کی اور آخرت میں اچھا مقام حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو کثرت کے ساتھ یاد کرتے ہیں ۔ اب ظاہر ہے ہم لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ جل شانہ ہمیں اپنا محبوب بندہ بنا لے ۔ اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ آخرت میں ہم لوگ فائدے میں رہیں ۔ تو جب یہ والی بات ہے تو اس سے لازمی بات یہ نکل آئی ، کہ آپ ﷺِکی زندگی میں ہمارے لئے بہترین نمونہ موجود ہے ۔ اب نمونہ کسے کہتے ہیں ۔ کوئی بھی شخص کوئی کام کرنا چاہتا ہے ، تو اس کیلئے اس کو ایک ڈیزائن یا نمونہ دیا جاتا ہے کہ اس طریقے سے یہ کام کردو ۔ مثلاً ہم کپڑے سلوانا چاہتے ہیں تو درزی کو کیسے بتائیں گے کہ ہمارے کپڑے کیسے سیئے ۔ اس کے دو طریقے ہیں ، ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم خود اس کے سامنے کھڑے ہوجائیں اور کہیں کہ ہماری پیمائش لے لو ۔ اب وہ پیمائش لے گا اور ہمارے کپڑے سی لے گا ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جو پہلے سے ہمارے بنے ہوئے کپڑے ہیں وہ ہم اس کو دے دیں کہ اس طرح بنا لو ۔ تو یہ ہم نے اس کو نمونہ دے دیا ۔ اب اگر وہ ہمارے کپڑوں میں کچھ کمی بیشی کرے گا تو ہم کتنے ناراض ہونگے ۔ حتیٰ کے اس سے اپنے کپڑے کا مطالبہ کریں گے کہ تو نے میرے کپڑے کو ضائع کردیا ۔ اب ہمارا کپڑا یا اس کی قیمت واپس کرو ۔ چہ جائیکہ ہم کہیں کہ مرد کے کپڑے بناؤ اور وہ ہمارے لئے عورتوں کے کپڑے بنا دے ۔ اس پر تو ہم اتنے زچ ہوجائیں گے کہ میرا خیال ہے اگر ہمارا بس چلے تو شاید ہم اس کا سر پھاڑ دیں ۔ کہ میں نے کیا کہا تھا اور تو نے کیا کردیا ۔ تو یہاں بھی اسی قسم کی بات ہے کہ اللہ جل شانہ نے ہمیں بتادیا ہے کہ حضور ﷺِآپ کے لئے نمونہ ہے ۔ ان کی زندگی آپ کے لئے نمونہ ہے اور اب ہم چن چن کر وہ چیزیں اختیار کرلیں جو آپ ﷺِ کے نمونے کی ضد ہیں ۔ ایسی صورت میں اللہ جل شانہ اگر ناراض ہوجائیں تو کیا بعید ہے ۔اسی طرح اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ایک دن ہم سے پوچھ ہوگی ۔ ایک دن پتہ چل جائے گا کہ آیا ہم نے جو کچھ کیا ہے وہ ٹھیک ہے یا غلط ۔ روز آخرت اس کے بارے میں پتہ چل جائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ فرمایا گیا ہے کہ آخرت میں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھی حالت میں ملنا چاہتا ہے ۔جو ر وز آخرت پر یقین رکھتا ہے اور جو اللہ جل شانہ کو کثرت سے یاد کرتا ہے ،یعنی پہلی بات اگر کسی کی نیت ہی نہ ہو کہ اللہ جل شانہ کے ساتھ مجھے اچھی حالت میں ملنا ہے تو اس کو نمونے کی کیا پرواہ ہوگی ۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک ایرانی دہریہ سے ایک عیسائی پادری کا مناظرہ ہورہا تھا ۔مناظرے میں دہریہ بہت زچ ہورہا تھا ۔ آخر میں اس نے پادری سے کہا کہ میں کیا کروں تو پادری نے کہا کہ تم یہ مان لو کہ عیسیٰ علیہ السلام خدا کا بیٹا ہے ۔نعوذباللہ اس نے جواب دیا کہ جو اس کے باپ پر یقین نہیں رکھتا تو تم اس کے بیٹے کو اس سے کیوں منوانا چاہتے ہو ۔ تو ایک آدمی اگر کسی چیز کو مان ہی نہیں رہا تو اس سے کسی اور چیز کا مطالبہ کرنا فضول ہے ۔دوسری بات جو آخرت پر یقین نہیں رکھتا اس سے بھی یہ مطالبہ مناسب نہیں ۔ کیونکہ آپ کے ارشاد کے مطابق دنیا آخرت کی کھیتی ہے ۔لہذا اگر دنیا آخرت کی کھیتی ہے تو دنیا کے ایک ایک چیز کا حساب ہم سے وہاں پر لیا جائے گا ۔ اگر ہم نے اچھا کیا ہے تو اس حساب سے ہمیں اچھا انعام ملے گا اور اگر ہم نے برا کیا ہے تو اس حساب سے ہمیں سزا ملے گی ۔ تو آخرت پر یقین تمام باتوں میں ایک بنیادی بات ہے ۔ تیسری بات عملی ہے ۔وہ ہے ذکر اللہ، ذکر اللہ کی کثرت انسان کے دل کو نرم کردیتی ہے ۔ اور اللہ جل شانہ کے محبت کو پیدا کرنے والی ہے ۔ تو یہ دو باتیں عمل کے لحاظ سے بہت ضروری ہیں ۔ جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت ہوگی اور ہمارے دل نرم ہوچکے ہونگے تب ہم پر بات کا اثر ہوگا ۔جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرے گا وہ حضورﷺِ کے ساتھ محبت کرے گا ۔ کیونکہ اللہ جل شانہ ہی نے حضور ﷺِ کو ہمارا محبوب بنایا ہوا ہے ۔ اللہ جل شانہ ہی کا حکم ہے لہذا اگر کسی کو اللہ جل شانہ سے محبت نہیں ہوگی تو حضورﷺِ کے ساتھ بھی نہیں ہوگی ۔
اللہ جل شانہ کے ساتھ اچھی حالت میں ملنے کی امید ہم سب کو ہے ۔ اس میں دوسری بات نہیں ہوسکتی ۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ اللہ جل شانہ ہمیں معاف کردے اور ہم اس کے ساتھ اچھی حالت میں ملیں ۔ جو آخرت پر یقین ہے وہ بھی شکر الحمد اللہ ہم سب کو حاصل ہے ۔ تب ہی تو ہم یہاں جمع ہوئے ہیں ۔ ورنہ ہمارا یہاں جمع ہونا ہی رائیگاں چلا جائے گا ۔ ہاں البتہ ہم سے تھوڑی سی گڑ بڑ یا سستی ہوجاتی ہے اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک آدمی کا حج پر جانے کا پکا ارادہ ہے ، لیکن ہے وہ سادہ سا آدمی ، اب حج پر جانے کے جتنے لوازمات ہیں ، مثلاً پاسپورٹ بنانا ، شناختی کارڈ بنانا ، فارم بھرنا ۔ ان میں سے کوئی بھی چیز اگر رہ گئی تو وہ حج پر نہیں جا سکے گا ۔اب وہ سادہ آدمی اس کے بارے میں کچھ جانتا بھی نہیں تواب اس کو بتایا جائے گا کہ تمہیںیہ یہ کرنا ہوگا ۔ اس کو سمجھایا جائے گا ۔ تو ایک تو یہ بات کہ اس کو علم حاصل ہوناچاہیے کہ اس نے کرنا کیا ہے ۔ دوسری بات اس کو عمل پرآمادہ کرنا چاہیے کہ اگر واقعی اس نے جانا ہے تو پھر اس کے لئے تو یہ سب کچھ کرنا پڑے گا ۔ ہمارا سارے کا سارا جواز اسی نصیحت میں ہے کہ ہم لوگ پہلے تو کوشش کریں کہ ہمیں اس بات کا علم حاصل ہو کہ اللہ جل شانہ ہم سے چاہتے کیا ہیں ۔ حضور کا طریقہ کونسا ہے ۔ اب نماز جب ہم پڑھتے ہیں تو کیسے پڑھتے ہیں ۔ آپﷺِ نے فرمایا صلّوا کما رایتمونی اصلّی نمازایسے پڑھو جیسا کہ مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ۔ اب یہ چونکہ آپ ﷺ کا حکم ہے تو اب ہم آپ ﷺِ کی نماز کا طریقہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ آپ ﷺِنے نماز کیسے پڑھی ۔ اس کو جب ہم جان جائیں گے پھر اس پر عمل بھی کریں گے ۔ ایک چیز ہے جاننا اور دوسرا ہے اس کو ماننا ، اس پر عمل کرنا ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں مزید تفصیلات سامنے آتی ہیں مثلاً مرد کی نماز الگ ہے ،عورت کی نماز الگ ہے ۔ مسافر کی نماز الگ ہے غیر مسافر کی نماز الگ ہے۔ ان تفصیلات کو بتانے کا نام فقہ ہے ۔ فقہ کوئی اور چیز نہیں بلکہ قران و سنت کی تشریح کا نام ہے ۔ کیونکہ قران و سنت تو احکامات ہیں اس سے پھر اس درجے میں احکامات کو مرتب کرنا کہ اس پر لوگ عمل کرسکیں ، یہ فقہ ہے ۔ مثلاً آئین کو لے لیں وہ بنیادی document ہے لیکن اس سے پھر قانون اخذ کرنا ، کہ وہ قوانین بنائے جائیں جس پر سب کے لئے عملآسان ہو ، اور اگر لڑائی جھگڑا ہو تو اس کا فیصلہ کیا جاسکے ۔ تو اس طرح قانون بنتا ہے ۔ اسی طرح شریعت کا بھی قانون ہے ۔ وہ جب سمجھ میں آجائے تو اس کے مطابق پھر عمل بھی کرنا شروع ہوجائے گا ۔ تو شریعت کا جاننا اور اس پر چلنا ضروری ہے ۔ اور اس پر چلنا ہی سنت پر چلنا ہے ۔
ہم لوگ جب حضورﷺِ کے ساتھ محبت کریں گے تو اس میں بھی حضور ﷺِ کی شریعت موجود ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ،میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ۔ اس میں جس کے پیچھے بھی چلو گے ہدایت پا لو گے ۔ اب یہ آپ ﷺِ کا حکم ہے ،لہذا حضور ﷺِ کا طریقہ ہم کس سے سیکھیں گے ، صحابہ کرام سے سیکھیں گے ۔ صحابہ کرام سے مراد صرف مرد صحابہ نہیں بلکہ مردوں کے لئے صحابہ کرام ہیں اور عورتوں کے لئے صحابیات ہیں ۔ کیونکہ قران میں حکم جب دونوں کے لئے ہوتا ہے تو اس میں مردوں کا ذکر ہوتا ہے لیکن جب صرف خواتین کے لئے ہوتا ہے تو پھر اس میں خواتین کا ذکر ہوتا ہے ۔ جب ہم کہتے ہیں کہ صحابہ کرام کے پیچھے چلنا چاہیے تو اس کا مطلب ہے کہ عورتوں کو صحابیات کے پیچھے جانا ہے اور مردوں کو صحابہ کرام کے پیچھے جانا چاہیے ۔ اب ہمیں دیکھنا ہے کہ صحابہ کرام نے کیا کیا ؟
صحابہ کرام میں سے کسی نے بھی کوئی خاص دن نہیں منایا ۔ کسی بھی صحابی سے ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے ربیع الاول میں کسی خاص دن کا کہا ہو کہ آئو ہم آج حضور ﷺِ کو یاد کریں ۔ حالانکہ صحابہ کرام آپ ﷺِ کی وفات کے کافی عرصہ بعد تک رہے ہیں ۔ آپ ﷺِکی وفات گیارہ ہجری میں ہوئی جبکہ آپ ﷺِ کے صحابہ کرام تقریباً سو ہجری تک باقی رہے ۔ یعنی نوے سال تک صحابہ کرام زندہ رہے ، تو وہ کیا یہ دن نہیں منا سکتے تھے ؟ نہیں کوئی دن نہیں منایا ۔ اس سے پتہ چلا کہ یہ جو دن کا منانا ہے یہ صرف ہمارا اپنا شوق ہے ۔اس میں البتہ اتنی گنجائش نکالی جاسکتی ہے کہ وہ تو ہر وقت یاد کرتے تھے چلیں اس دن کے بہانے ہم ان کو یاد تو کرلیتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں بالکل صحیح ۔ یاد نہ ہونے سے بہتر ہے کہ یاد کریں ۔ لیکن تھوڑا سا اپنے قول و فعل پر نظر دوڑائیں کہ آپ ﷺِ نے کیا کیا تھا اور ہم لوگ کیا کررہے ہیں ۔ اس بات کو ہم اتنا سمجھیں کہ چلو ٹھیک ہے ہم یاد تو کررہے ہیں ، لیکن اس کو لازم نہ سمجھیں کہ بس اسی میں یاد کریں گے اور باقی میں نہیں ۔ ایسی بات نہیں ہے ۔ بلکہ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ ہم بہ امر مجبوری کررہے ہیں ۔ اور آج کل کے دور میںآپ ﷺِ کو یاد رکھنے کا ایک طریقہ ہے۔ یعنی اس کو لازم نہ سمجھیں ۔ لازم سمجھنے سے کیا ہوگا ۔ کہ اب اگر کوئی اس کو نہیں کرتا تو ہم اس سے ناراض ہوجائیں، تو یہ ناراض ہوناحق نہیں ہے ۔اب شریعت کیا کہتی ہے ۔ شریعت میں چار چیزیں ہیں ۔ فرض ، واجب ، سنت اور مستحب ۔ فرض کا مقام سب سے اونچا ہے اس کا انکار کفر ہے ۔ واجب کا نمبر دوسرا ہے اس کا انکار کفر نہیں لیکن چھوڑنا بہت خطرناک ہے ۔ اور سنت جو ہے وہ ظاہر ہے آپ ﷺِ اور اللہ جل شانہ کو محبوب ہے ۔ اور اگر کوئی نہیں کرے گا تو اس کو ملامت کیا جائے گا ۔ وہ بہت بڑے مقام سے محروم ہورہا ہے ۔ تو یہ بہت بڑی بات ہے ۔ چھوٹی بات مستحب کی ہے ۔ مستحب کے بارے میں یہ ہے کہ اگر کوئی اس کو کرے تو اس کو اجر ملے گا اور اگر نہیں کرے گا تو ا س کو گناہ کوئی نہیں ۔ لیکن مستحب کے بارے میں فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اگر کوئی مستحب کو واجب سمجھے گا تو اس کو ملامت کیا جائے گا ۔ اور اس کو وہ عمل چھوڑنا پڑے گا ۔ تاکہ پتہ چل جائے کہ وہ اس کو لازم نہیں سمجھتا ۔ اس لحاظ سے اگر یہ مستحب بھی ہو ، تب بھی اس کو واجب نہیں سمجھنا چاہیے ۔ تو ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جو لوگ نہیں کررہے ان سے ناراض ہوا جائے کہ تم لوگ کیوں نہیں کررہے ہو ۔ کم از کم اتنی بات ہمیں سمجھ میں آنی چاہیے ۔ پھر اس کے ساتھ جو اور نام شامل ہوگئے ہیں ، مثلاً عید میلاد النبی ، اس کا تو کہیں ذکر نہیں ہے ۔ عیدیں تو دو ہیں ، اس کے علاوہ ہر جمعہ عید ہے ۔ اس کے علاوہ کسی اور چیز کی تحصیص ہمیں عید کے طور پر صحابہ کرام کی زندگی میں کہیں نہیں ملتی ۔ توہمیں چاہیے کہ اس کو عید میلاد النبی نہ کہیں ، البتہ آپ ﷺِ کی یوم ولادت یا آپ ﷺِ کا یوم وصال کہہ دیں ۔ بارہ ربیع الاول کی تخصیص بھی بعض لوگوں نے کی ہے ۔ کیونکہ تاریخ میں آپ کی پیدائش کے مختلف قول درج ہیں بارہ ربیع الاول کا قول بھی ہے ، نو ربیع الاول کا بھی ہے، آٹھ کا بھی ہے ، دو کا بھی ہے یہ سارے اقوال تاریخ کی مختلف کتابوں میں محفوظ ہیں اور وہ بڑی مستند ہیں ۔ تو اس سے اول تو یہ ثابت ہوا کہ آپ ﷺِ کے صحابہ نے اس دن کو بالکل نہیں منایا ۔ اگر یہ منانے کا دستور ہوتا تو اس تاریخ کا اس طرح مختلف فی ہونا ممکن ہی نہیں تھا ۔ جب تاریخ والوں کا اس پر اختلاف ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کو کبھی نہیں منایا گیا ۔ دوسری بات یہ کہ خواہ مخواہ بارہ ربیع الاول کی تخصیص کرنا یہ بھی لوگوں نے اپنی طرف سے کیا ہے ۔ آپ ﷺِکی یوم وفات اور یوم ولادت کا تو پکا پتہ ہے کہ وہ پیر کا دن تھا ۔ اور دوسری بات یہ کہ ربیع الاول کا مہینہ تھا ۔ اس کے علاوہ تاریخ کونسی تھی اس میں اختلاف ہے ۔ تو ان باتوں کو سمجھنا چاہیے ۔ چونکہ ربیع الاول کے مہینے میں اختلاف نہیں ہے تو ہمیں چاہیے کہ جب یہ مہینہ شروع ہوجائے تو کم از کم ہمیں یہ تو یاد آجائے تو کہ آیا ہم حضور ﷺِکے طریقے پر چل رہے ہیں یا نہیں چل رہے ہیں ۔ اپنے اعمال کا محاسبہ کریں ۔ اس میں کیا ملے گا ۔ اللہ جل شانہ فرماتے ہیں ۔ قل ان کنتم تحبون اللّہ فتبعونی یحببکم اللّہ اے میرے حبیب اپنی امت سے کہہ دیجئے اگر تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنا چاہتے ہو ، تو میری اتباع کرلو اللہ جل شانہ تمہیں اپنا محبوب بنا دے گا ۔ اب دیکھیں اللہ جل شانہ ہمیں کتنی بڑی سعادت دینا چاہتے ہیں ۔ بعض دفعہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایک چیونٹی کسی جگہ پہنچنا چاہتی ہے لیکن بہت قریب پہنچ کر وہ واپس ہوجاتی ہے ۔چکر کاٹ کر پھر قریب پہنچ جاتی ہے پھر واپس چلی جاتی ہے ۔ اس کو صحیح جگہ کا اندازہ نہیں ہوتا ، تو اگر ہم اس کے ساتھ ہمدردی کرلیں اور وہ چیز تھوڑی سی اس کے قریب کردیں تو ظاہر ہے چیونٹی کا کام ہوجائے گا ۔ بالکل اسی طرح ہمارے ساتھ بھی ہے ۔ چونکہ ہم اندھے ہیں ۔ ہمیں حقیقت حال کا پتہ نہیں ہے ۔ ہم ایک چیز کو حاصل کرنا چاہتے ہیں ، اللہ پاک ہمیں دیکھ رہے ہیں ۔ اب اللہ پاک نے ہم پر شفقت فرمائی ، مہربانی فرمائی اپنے حبیب سے کہہ دیا کہ تم ان کو ایک طریقہ بتائو کہ یہ چیز کیسے حاصل کی جاسکتی ہے ۔ تو یہ ارشاد فرمایا کہ تم اپنی امت سے کہہ دو ، یعنی خود کہہ دو ۔ یہ اتنی زیادہ شفقت ہے کہ آپ ﷺِ سے فرمایا کہ تم اپنی امت سے کہہ دو ۔ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میرا اتباع کرلو ۔پھر فرمایا کہ جب یہ تیرا اتباع کریں گے تو میں ان کو اپنا محبوب بنا لوں گا ۔ بات آسان ہوگئی ۔بس حضور ﷺِ کو دیکھ دیکھ کر اپنا کام کریں اور اللہ تعالیٰ کے محبوب بنتے جائیں ۔ اگر کوئی شخص اتباع سنت میں بہت قریب ہے تو وہ اللہ جل شانہ کے بھی بہت قریب ہے ۔ اور اگر کوئی درمیان میں ہے تو وہاں بھی درمیان میں ہے ۔ اگر کوئی دور ہے تو وہاں بھی دور ہے ۔ کسی کا بالکل نہیں تو وہاں بھی بالکل نہیں ۔ یعنی ہم لوگوں کو کامیابی کا نسخہ مل گیا ۔ اب ہمارا کام یہ ہونا چاہیے کہ ہم حضورﷺِ کی سیرت پاک کامطالعہ کریں اور سب سے بڑی بات یہ کہ آپ ﷺِ نے اپنے صحابہ کرام کو کیسے رکھنا چاہا اور صحابیات کو کیسے رکھنا چاہا ۔ کن کن باتوں پر ٹوکا ۔ کن کن باتو ںپر شاباش دی ۔ کن باتوں کی تربیت فرمائی ۔ یہ سب ہمارے سامنے ہے ۔دوسری طرف آپ ﷺِ کی زندگی کو اللہ پاک نے ایسے محفوظ فرمایا کہ آج بھی آپ ﷺِکی پوری زندگی کو دیکھا جاسکتا ہے ۔ عام لوگوں کی زندگی کے وہ گوشے جو عام طور پر سامنے نہیں آتے ، آپ ﷺِکے سب کے سامنے ہیں ۔ اس کے لئے بھی اللہ پاک نے انتظام فرما دیا ۔ اس کے لئے ہمارے پاس تین واسطے ہیں ۔ ایک امہات المومنین دوسرا عام صحابہ اور تیسرا اہل بیت کا ۔ ان لوگوں نے آپ ﷺِ کے طریقے کو کس طرح اپنایا ہم بھی اسی طرح اپنا لیں ۔ بیٹھنے ، کھڑے ہونے ،لیٹنے ، بولنے ، سونے ، جاگنے ، گھر میں رہنے کو ، بازار میں چلنے کو ، مسجد میں ہونے کو ، ہر ہر حالت میں ہمیں آپ کو دیکھنا چاہیے ۔ اور پھر صحابیات کو گھر میں کیسے رہنے کو کہا ۔ مثلاً کپڑوں کے بارے میں ارشاد فرمایا، بعض عورتیں کپڑے ایسے پہن لیتی ہیں کہ کپڑے تو پہنے ہوتی ہیں لیکن ننگی ہوتی ہیں ۔ تو ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔ اس طرح پردے کے بارے میں ارشاد فرمایا ۔ پھر عورت کی نماز کے بارے میں فرمایا کہ عورت کی جو نماز گھر میں ہے وہ میری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے ۔ اب اگر کوئی نہیں مان رہا تو یہ اس کی بات ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم آپ ﷺِ کے طریقے کو سمجھ لیں ، اوراس طریقے کو اپنانے کی کوشش کریں ، بس اس سے زیادہ اور کوئی بات نہیں ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو حسن توفیق نصیب فرمائے ، حسن عمل نصیب فرمائے ۔ حسن یقین عطافرمائے ۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ضدسے بچائے ۔ ضد کا مادہ شیطان سے ہے ۔ شیطان نے ضد کیا بہت نقصان اٹھایا ۔ خدانخواستہ اگر ہم شیطان کے طریقے پر چل پڑیں اور ضد شروع کردیں تو بہت زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے ۔ حق کو حق کہنا بڑی دولت ہے ۔ بے شک کوئی بات کسی پر خود ہی کیوں نہ آرہی ہو ۔ لیکن حق کو حق کہنے سے وہ بچ جاتا ہے ۔ اس کے لئے اللہ جل شانہ راستہ بنا دیتے ہیں وہ بچ جاتا ہے ۔ لیکن اگر کوئی حق کو حق نہیں کہتا تو یہ خطرناک بات ہے ۔ ضد کی وجہ سے بڑے بڑے لوگ مارے گئے ہیں ۔ لہذا ضد میں نہیں آنا چاہیے ۔ ہر چیز کا اچھی طرح جائزہ لیا جائے کہ حق کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ وما علینا الالبلاغ ۔